سود کی مذمت پر5 فرامینِ مصطفٰے از بنتِ غلام حیدر، فیضان ام عطار گلبہار سیالکوٹ
سود کی مذمت: آج کل لوگ چند پیسوں کی خاطر سود جیسے حرام فعل کو فخر سے اپناتے ہیں،جبکہ
سود جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ اللہ نے بہت سی چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، انہی میں ایک سود ہے۔ الله پاک نے
ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا
مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت
کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔
سود کی تعریف: عقد ِمعاوضہ میں
جب دونوں طرف مال ہو اورایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو
سود ہے ۔ (بہارِ شریعت، 2 / 768، حصہ 11)
سود کا حکم:ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر
ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق، مردود الشہادہ ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں سود کی مذمت :احادیثِ مبارکہ میں بھی سود کی مذمت بیان کی گئی ہے۔جن میں سے چند احادیثِ
مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں:
1- ابنِ ماجہ و دارمی امیر المومنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سےمروی ہےکہ فرمایا :سود کو چھوڑ
دو اور جس میں سود کا شبہ ہو ، اُسے بھی چھوڑ دو۔
2-مسلم شریف میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول الله ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سودکا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور
فرمایا کہ وہ سب (گناہ میں)برابر ہیں۔
3- امام احمد وابنِ ماجہ وبیہقی عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی کہ رسول الله ﷺ نے
فرمایا:(سود سے بظاہر)اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔
4-ابنِ ماجہ و بیہقی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی: رسول الله ﷺ نے فرمایا:
سود کا گناہ سترحصہ ہے ،ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے
بدکاری کرے۔
5-صحیحین میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ، نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اُدھار میں سود ہے۔ایک روایت میں
ہے:دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو ۔(بہارِ شریعت، جلد2،حصہ: 11)