سود حرامِ قطعی ہے۔اس کی حرمت کا منکر کافر ہے۔ جو شخص اس کو حرام سمجھتے ہوئے اس حرام کام کا ارتکاب کرے تو وہ فاسق ہے۔ سود کا لین دین حرام ہے ۔انسان چند پیسوں کی خاطر اپنی دنیا و آخرت تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔قرآنِ مجید اور احادیثِ مبارکہ میں اس کی مذمت کا بیان ہے ۔

سود کی تعریف: عقدِ معاوضہ(یعنی لین دین کے کسی مُعَامَلے) میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہارِ شریعت، 2/769، حصہ: 11)

سود کی مذمت پر فرامینِ مصطفٰے:

1- حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار بدکاری کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، 4/395 ،حدیث: 5523)

2- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اللہ پاک سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے،نہ حج،نہ جہاد،نہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک ۔ (تفسیرِ قرطبی)

3-حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود کا گناہ 73 درجے ہے۔ ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (مستدرک، حدیث: 2304)

4-رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو،مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہو گا۔(مسند،2/50،حدیث: 3754)

5- مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے سود دینے والے،لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا :وہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔ (مسلم ،حدیث: 1598)

سود کے چند معاشرتی نقصان:

آج کل سود کی اتنی کثرت ہے کہ قرضِ حسن جو بغیر سودی ہوتا ہے بہت کم پایا جاتا ہے۔ لوگ اپنی وسعت سے زیادہ خرچ کرنا چاہتے اور سود کی آفت میں خود کو مبتلا کرتے ہیں۔ مال کا لالچ اور فضول خرچی جیسی آفات معاشرے میں سود کی بدولت ہی ہیں۔

سود سے بچنے کی ترغیب: شریعتِ مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا ،سود دینا بھی حرام فرمایا اور فرمایا کہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔ ہر مسلمان کو اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ پر ایمان رکھتے ہوئے حرام کاموں سے بچنا چاہیے۔ سود کے عذابات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب ہے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنے رسول ﷺ کے صدقے ان حرام کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین