پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! ہمارا  معاشرہ جہاں بے شمار و لاتعداد برائیوں اور گناہوں کا مرکز و محور بنا ہوا ہے۔ وہیں پر ایک خطر ناک بیماری سود بھی ہے۔ جس نے ہمارے معاشرتی و معاشی ماحول کو آلودہ کر رکھا ہے۔ یاد رکھیے جس معاشرہ میں سود کو فروغ دیا جائے۔ وہ معاشرہ آئے روز ذلت و رسوائی بدامنی اور بدمزاجی و بدخلقی اور جرائم کے عمیق ترین گڑھوں میں گرتا چلا جاتا ہے۔ ہمارے یہاں اس کا عملی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ سود کسی بھی معاشرے کے بگاڑ کے بنیادی اسباب میں سے ہے۔ اور ایسا کیوں کر نا ہو کہ سودی شخص اللہ پاک اور اس کے حبیب علیہ السّلام کا باغی نافرمان اور دشمن ہے۔

(1) اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کے یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔ (2) یوں ہی معجم الاوسط کی حدیث مبارکہ ہے کہ بے شک سود کے ستر دروازے ہیں اور ان میں سے کم ترین ایسے ہے جیسے کوئی اپنی ماں سے زنا کرے۔ میرے آقا سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فتاویٰ رضویہ ج17، ص307 پر اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا ۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ہو سکتا۔

(3) حضرت سیدنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110) یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی پہچان ہو گی۔

اللہ پاک سود خور کو آخرت میں ہلاک فرمائے گا۔ اس کی تمام تر نیکیاں برباد و مردود کر دی جائیں گی۔ کیونکہ خراب بیج کا پھل بھی خراب ہی ہوتا ہے اور سود خور کو اس کا مال نہ موت کے وقت کام آئے گا ۔نہ اس کے بعد کام آئے گا۔ چنانچہ (4) سرکارِ عالی وقار علیہ الصلوة والسلام کا ارشاد مبارکہ ہے کہ (ظاہری طور پر )سود اگرچہ زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔

میرے پیارے اسلامی بھائیو! سود خور کے لیے دنیا اور آخرت میں عذاب رب قہار و جبار سے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ ہاں اگر شرعی تقاضوں کے مطابق توبہ کرے تو بچت کی صورت ہو سکتی ہے ۔ سود حرامِ قطعی ہے اور مالِ حرام میں کوئی بھلائی نہیں۔ بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے۔ مالِ حرام سے کیا گیا صدقہ نہ قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے عذاب جہنم کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ۔(5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اُس میں برکت نہیں اور چھوڑ کر مرے گا تو جہنم میں جانے کا سامان ہے، الله پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔( المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن مسعود،2/34، حدیث: 3672)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! یہ تو احادیثِ طیبات کی روشنی میں سود کی مذمت اور اس

کے اخروی نقصانات بیان ہوئے۔ مگر یاد رکھیے سود کے نہ صرف اخروی نقصانات ہیں بلکہ سود کے دنیاوی اعتبار سے بھی بڑی نقصانات ہیں۔ مثلاً سود خور دنیا میں حاسد بن جاتا ہے جس کے سبب وہ دنیا میں بھی بے چین و بے قرار سا رہتا ہے۔ یوں ہی سود خور بے رحم ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب وہ اپنے ہی حلقائے احباب میں ظالم و جابر ہونے کے سبب ذلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لوگ اس کے منہ پر اس کے شر سے بچنے کے لیے اس کے فیور میں کوئی بات کر بھی دیں مگر اس کے ساتھ مخلص نہیں ہوتے۔ سود خور گھر کے گھر تباہ کرتا ہے۔ سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت میں پاگلوں کی طرح مارا مارا گھومتا رہتا ہے۔ یہ بد نصیب دولت کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے اور اپنے اہل و عیال پر بھی خرچ نہیں کرتا۔ یہ چند ایک دنیاوی اعتبار سے سود کے نقصانات عرض کیے۔ بہرحال سود کا دنیاوی لحاظ سے اگر چہ کوئی نقصان نہ بھی ہو۔ پھر بھی بندۂ مؤمن کو چاہیے کے کبھی بھی سود کے قریب تک نہ جائے۔ کیونکہ سود کھانا رب ذولجلال کے عذاب کو دعوت دینے اور خود کو جہنمی بنانے کہ مترادف ہے۔ آپ کو ہو سکتا ہے بہت سے ڈیڑھ ہوشیار بھی مل جائیں گے۔ اس میں کیا حکمت، تو اس میں کیا راز ہے۔ ایسوں کے لیے یہی جواب ہونا چاہیے کے بھائی ہم عقل کے نہیں خدا کے بندے ہیں۔ ہماری فلاح و کامرانی سودی لین دین سے بچنے اور رب ذولجلال احکم الحاکمین کےفیصلوں کے سامنے سر ِخم کرنے میں ہی ہے۔ اللہ پاک ہمیں ہمیشہ سود جیسی لعنت سے بچائے رکھے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین