آج کے دور میں حصولِ مال کیلئے ایک ایسی دور شروع ہے کہ جس کے اندر اکثر لوگ جو یہ فکر کیے بغیر دوڑتے نظر آتے ہیں کہ آیا حصولِ مال کا یہ طریقہ حلال ہے یا حرام اور ان حرام طریقوں میں سے ایک انتہائی برا مذموم اور منحوس طریقہ سود بھی ہے۔ جس کو شریعتِ مطہرہ نے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے ۔ گویا کہ یہ ایک ایسا ناسور ہے جس نے کئی انسانوں اور کئی ریاستوں اور کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے کر معیشت کو تباہ و برباد کر کے قرضوں کے بوجھ تلے دبا رکھا ہے ۔ آئیے اس گھناؤنی بیماری کی مذمت میں شریعتِ مطہرہ ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے ؟ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔

سود کی تعریف : عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/ 769) ر با یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور اس کو حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہو فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی)ارشا دباری: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275) اس کے علاوہ سورۃ ُالبقرہ آیت نمبر 276 اور 278 اور سورۂ آل عمران کی آیت نمبر 130 میں بھی سود کی ممانعت آئی ہے ۔

سود کی مذمت میں بکثرت احادیث وارد ہیں، آئیے ان میں سے پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں ۔(1)خون کا دریا : حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا، یہ کون شخص ہے؟ کہا، یہ شخص جو نہر میں ہے، سود خور ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)

(2) ستر گناہوں کا مجموعہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے ، ان میں سے سب سے کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زِنا کرے ۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(3)وہ سب برابر ہیں : عن جابر لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔(صحیح مسلم ،ص862،حدیث:106)

(4) 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا : حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 6/ 395،حدیث: 5523)(5)ایک زمانہ ایسا آئے گا : حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی،ہے کہ حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔(سنن ابی داؤد، کتاب البیوع ،2/331،حدیث: 3331)

مدنی التجا: سود کے بارے میں مزید معلومات کیلئے مکتبۃ المدینہ کا شائع کردہ رسالہ سود اور اس کا علاج مطالعہ فرمائیں۔ الله پاک ہمیں سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے معاشرے کو بھی سود کی آفت سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم