سود ایک بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے قراٰن و حدیث میں اس کی سخت مذمت آئی ہے ۔حدیث پاک(1) عن جابر قال لَعَنَ رَسُوْلُ اﷲ اٰکِلَ الرِّبَا وَمُوْکِلَہُ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وَقَالَ: ھُمْ سَوَاءٌ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ تمام لوگ برابر ہیں۔( مسلم ،ص663،حدیث:4093)حدیث پاک (2 ) امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الرِّبَا سَبْعُونَ جُزْئً أَیْسَرُہَا أَنْ یَنْکِحَ الرَّجُلُ أُمَّہُ ترجمہ : حضرت ابو ہریره رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ سود کی برائی کے ستر 70 (Seventy) درجے ہیں اور سب سے کم درجہ کی برائی ایسی ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے ۔ حضرت علامہ امام حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذینی شافعی (رحمۃُ اللہ علیہ) گناہِ کبیرہ کی ایک بہت بڑی ( Long Last) ایک طویل فہرست پیش کی ہے جس میں وہ سود کے متعلق چند احادیث بیان فرمائے ہیں، جن کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔

حدیث پاک (3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچ کر رہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!وہ کون سے گناہ ہیں؟ ارشاد فرمایا : (1)شرک کرنا(2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللہ پاک نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6) جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیر کر بھاگ جانا (7)اور پاکدامن ، شادی شدہ ، مؤمنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔(کتاب الکبائر)

سود حرام کیوں؟: سود کو حرام فرمانے میں بہت سی حکمتیں ہیں اِن میں سے بعض یہ ہیں : ( 1) سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ مالی معاوضے والی چیزوں میں بغیر کسی عوض کے مال لیا جاتا ہے اور یہ صریح ناانصافی ہے ۔ ( 2) سود کا رَواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خور کو بے محنت مال کا حاصل ہونا ، تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے ۔ ( 3) سود کے رواج سے باہمی محبت کے سُلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہوا تو وہ کسی کو قرضِ حَسَن سے اِمداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا ۔ ( 4) سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی سود میں بڑے بڑے نقصان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے سود کو حرام قرار دیا ۔ اور سود خور قیامت میں ایسے مَخبوطُ الحَواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے ، جیسے دنیا میں وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لئے بھوت بنا ہوا تھا۔ آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہوتا ہے۔ اچھے اچھے ناموں سے اور خوش کُن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی، ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہوجاتا ہے جو گالیاں دے رہا ہوتا ہے، غنڈے بھیج رہا ہوتا ہے، گھر کے باہر کھڑے ہو کر ذلیل و رسوا کررہا ہوتا ہے، دکان، مکان، فیکٹری سب پر قبضہ کرکے فقیر و کنگال اور محتاج و قَلّاش کرکے بے گھر اور بے زر کر رہا ہوتا ہے۔ (تفسیرِ صراط الجنان، 1/413)

حدیث پاک (4) حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ، نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276) یعنی اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ پاک سود کو مٹاتا ہے جبکہ صدقہ اور خیرات کو بڑھاتا ہے، زیادہ کرتا ہے۔ دنیا میں بھی اس میں برکت پیدا فرماتا ہے اور آخرت میں بھی اس کا بہت اجرو ثواب عطار فرماتا ہے۔حدیث پاک(5) نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،3/72،حدیث: 2273)

پس اِن چند احادیث کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ سود حرام ہے اور یہ کہ قطعی طور پر حرام ہے اس کی حرمت کا منکر کا فر ہے۔ اور جو اس کو حرام سمجھ کر مرتکب ہو وہ فاسق مردود الشہادۃ ہے۔ (بہار شریعت) اللہ پاک ہم سب کو سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمودات پر صحیح عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم