سود بہت ہی بری صفت ہے اور اس کی مذمت بہت سخت انداز میں بیان کی گئی ہے اور اس پُر فتن دور بعض لوگ سود (Interest) کے بارے میں بہت کلام کرتے ہیں اور طرح طرح سے سودی معاملات میں راہیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں کہ سود کی اتنی سخت روایات اور وعیدوں کی کیا حکمت ہے، کبھی کہتے ہیں اگر سودی کاروبار بند کر دیں گے تو بین الاقوامی منڈی ( International Market ) کیسے کر سکیں گے ؟ کبھی کہتے ہیں دوسری قوموں سے پیچھے رہ جائیں گے اور کبھی انتہائی کم شرح سود کی آڑ لے کر لوگوں کو اکساتے ہیں۔ طرح طرح کی بدترین راہیں کھولنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کہ قرآن و حدیث کے بالکل خلاف ہیں۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت، پروانۂ شمعِ رسالت، مولانا الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں اسی قسم کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: کافروں نے اعتراض کیا تھا : (اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-) بےشک بیع بھی تو سود کی مثل ہے۔ تم جو خریدو فروخت کو حلال اور سود کو حرام کرتے ہو ان میں کیا فرق ہے؟ بیع میں بھی تو نفع لینا ہوتا ہے۔ یہ اعتراض نقل کرنے کے بعد اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے الله پاک کا یہ فرمان نقل کیا: (وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ) یعنی الله نے حلال کی بیع اور حرام کیا سود۔ اور پھر ارشاد فرمایا: تم ہوتے ہو کون؟ بندے ہو، سرِ بندگی خم کرو۔ حکم سب کو دیئے جاتے ہیں، حکمتیں بتانے کے لئے سب نہیں ہوتے، آج دنیا بھر کے ممالک میں کسی کی مجال ہے کہ قانون ملکی کی کسی دفعہ پر حرف گیری کرے کہ یہ بےجا ہے، یہ کیوں ہے؟ یوں نہ ہونا چاہئے، یوں ہونا چاہئے۔ جب جھوٹی فانی مجازی سلطنتوں کے سامنے چون وچرا کی مجال نہیں ہوتی تو اس ملک الملوک، بادشاہِ حقیقی، اَزَلی، اَبدی کے حضور کیوں اور کس لئے، کا دم بھرنا کیسی سخت نادانی ہے۔(فتاوی رضویہ، 17/ 359) اور جو ان احکامات کو قید و بند سے تعبیر کرتا ہے کہ یہ کیسی قیود ہم پر لازم کر دی گئیں؟ اسے اعلیٰ حضرت ،مجددِ دین و ملت رحمۃُ اللہ علیہ سمجھا رہے ہیں: جو آج بے قیدی چاہے کل نہایت سخت قید میں شدید قید میں گرفتار ہو گا۔ اور جو آج احکام کا مُقیَّد رہے کل بڑے چَین کی آزادی پائے گا۔ اس کے بعد ارشاد فرماتے ہیں کہ دنیا مسلمان کے لئے قید خانہ ہے، کافر کے لئے جنت، مسلمانوں سے کس نے کہا کہ کافروں کی اموال کی وسعت اور طریقِ تحصیلِ آزادی اور کثرت کی طرف نگاہ پھاڑ کر دیکھے۔ اے مسکین !تجھے تو کل کا دن سنوارنا ہے: یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ(۸۸) اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍؕ(۸۹) ترجمۂ کنزالایمان: جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لے کر ۔( پ19، الشعراء : 89،88)

اے مسکین! تیرے رب نے پہلے ہی تجھے فرما دیا ہے: وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ﳔ لِنَفْتِنَهُمْ فِیْهِؕ-وَ رِزْقُ رَبِّكَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰى(۱۳۱) اپنی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ اس دنیاوی زندگی کی طرف جو ہم نے کافروں کے کچھ مردوں و عورتوں کے برتنے کو دی تا کہ وہ اس کے فتنہ میں پڑ ے رہیں اور ہماری یاد سے غافل ہوں اور تیرے رب کا رزق بہتر ہے اور باقی رہنے والا۔ (فتاوی رضویہ، 17/ 360)(ماخوذ سود اور اس کا علاج ص 18 تا 20 )

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے اس مکمل کلام سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سود کو ترک (چھوڑنا ) اور بہتر مال کو استعمال کرنا مسلمانوں پر لازم ہے اور اللہ پاک کے فرا مین بھی اس بات پر دلالت کرتے ہیں اور اب کچھ احادیث کی روشنی میں سود کی مذمت ملاحظہ کیجئے۔

(1) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(2) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں سودہ پھیلتا ہے۔ اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص70)

(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے، سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں ۔(صحیح مسلم،ص862، حدیث: 1598)(4)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(المعجم الاوسط، 5/227،حديث: 7151)

مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ الله پاک کے معاملہ میں چون و چرا کرے اور کفار کے مال کی فراوانی دیکھ کر اپنے آپ کو حرام روزی میں مبتلا کرے، مگر ہائے افسوس! صد کروڑ افسوس! آج مسلمان بے باکی کے ساتھ گناہوں کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اور دنیا کی زیب و زینت میں اس قدر منہمک ہوتا جا رہا ہے کہ اسے اس بات کی بھی پرواہ نہیں رہی کہ جو قرض (Loan) لے رہا ہے وہ سود (Interest) پر مل رہا ہے یا بغیر سود(Interest)۔ مثلاً : ”بیٹی کی شادی کرنا ہے؟ کیوں پریشان ہو؟“ پریشان اس لئے ہو رہا ہوں کہ سادگی سے شادی تو کر لوں گا لیکن یہ رسومات (Customs, Traditions)، یہ ڈھولک، یہ مہندی، یہ ناچ گانا، یہ باجے، یہ کئی کئی ڈِشوں کا کھانا اور پھر بہت سے لوگوں کو جمع کر کے اپنی شہرت چاہنے کی ہوس۔ اس کیلئے تو بہت بڑی رقم چاہئے۔ تو کوئی مشورہ دیتا ہے:”کیوں پریشان ہوتے ہو؟ تم بھی اپنی بیٹی کی شادی کر لو گے، پریشان مت ہو، قرض دینے والے ادارے بہت ہیں، قرض لے لو، سود دے دینا۔

ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟ ارے مال و دنیا اور بیوی بچوں کی بے جامحبت نے اتنا اندھا کر دیا کہ سودی کاروبار اور سودی لین دین میں پڑ گئے۔ اگر الله پاک ناراض ہو گیا اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم روٹھ گئے اور سود کی وجہ سے عذاب نے آلیا تو کیا کریں گے؟

الله پاک ہمیں تمام گنا ہوں محفوظ فرمائے بالخصوص سود سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم