محمد زبیر (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبداللہ
شاہ غازی کلفٹن کراچی پاکستان)
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ سود کو ہر مذہب کی تعلیمات
میں حرام قرار دیا گیا ہے۔ اور اسی طرح کوئی بھی مہذب معاشرہ سود کے جواز کی بات نہیں
کرتا ۔ خصوصاً اسلام نے تو سودی نظام کو ناسور اور تباہ کن قرار دیا ہے۔ اللہ کریم
نے ارشاد فرمایا: یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا یعنی اللہ سود کو مٹا دیتا ہے اور برباد کر دیتا ہے۔ جو شخص سود سے دولت جمع
کرتا ہے انکی دولت سے خیر کو مٹا دیتا ہے۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جس نظامِ
معیشت میں سود داخل ہو جائے اس معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ اور سودی نظام چلانے
والوں سے اللہ کریم نے جنگ کا اعلان فرمایا ہوا ہے اور کون ہے جو اللہ سے جنگ کر
سکتا ہے۔ وہ ایک لمحے سے پہلے اگر چاہے تو زمین کو اُٹھا کے آسمانوں تک پہنچا کے
پلٹ دے اور نیست و نابود کر دے۔ لیکن یہ انسان احساس ہی نہیں کرتا کہ اُس نے سود
کھا کے کتنی بڑی جرات کرلی ، کتنا بڑا وہ جرم کر رہا ہے ۔ حدیثِ پاک میں کئی جگہ
سود کی مذمت بیان کی گئی ہے ۔ حدیث پاک میں ہے :۔(1)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے
اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر
ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)
(2) احمد نے ایک طویل حدیث میں ، ابن ماجہ نے مختصراً اور
اصبہانی نے اس حدیث کو بیان کیا ہے کہ حضورصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے فرمایا
کہ جب مجھے معراج میں سیر کرائی گئی اور ہم ساتویں آسمان پر پہنچے تو میں نے اوپر
دیکھا تو مجھے بجلی کی کڑک اور گرج چمک نظر آئی، پھر میں نے ایسی قوم کو دیکھا جن
کے پیٹ مکانوں کی طرح تھے اور باہر سے ان کے پیٹوں میں چلتے پھرتے سانپ نظر آرہے
تھے، میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ سود خور ہیں ۔ (مسند
احمد ، مسند ابی ھریرۃ ، 3/269، حدیث :8648)(3)روایت
سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: سود کے ستر حصے ہیں جن سے کمترین حصہ یہ ہے کہ انسان اپنی
ماں سے زنا کرے۔( ابن ماجہ، حدیث:2274)
(4) احمد نے بسندِ صحیح
اور طبرانی نے یہ حدیث نقل کی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
انسان کا جان بوجھ کر ایک درہم سود کھانا تینتیس 33 مرتبہ زنا کرنے سے بدتر ہے۔( مسند احمد، مسند
الانصار، حدیث عبداللہ بن حنظلۃ۔۔۔الخ ،8/223، حدیث :22016)(5) حضرت
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :سود خور کو قیامت کے دن جنون کی حالت میں
اٹھایا جائے گا کہ اس کے سود کھانے کے بارے میں سب اہلِ محشر جان لیں گے۔ (کتاب
الکبائرللذہبی،الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ،باب الریاء،ص68)
ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو سودی کاروبار
کی نحوست سے محفوظ رکھے اور ہمیں اسلامی اقتصادیات کی برکات سے مالا مال فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مدثر رضوی عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو ! فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار
برائیوں میں مبتلا ہے۔ وہیں ایک مذموم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے
ساتھ پروان چڑھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود کے فرض ملنا ہو
گیا ہے لہذا آئیے اس بھیانک بیماری کے بارے میں جانتے ہیں۔ جو ایک وبا کی طرح
ہمارے معاشرے میں پھیلتی چلی جارہی ہے۔ حالانکہ قرض دینے کے بے شمار فضائل احادیث
میں وارد ہیں۔
اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہیں: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ
اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان :
اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں
کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
حدیث (1) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ۔ حضور سیدُ
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے
والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں
برابر ہیں۔ (مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)حدیث نمبر (2) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے
، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)
حدیث نمبر (3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس
کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان،
4 / 395، حدیث: 5523)حدیث نمبر (4) حضرت سیدنا
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ،
نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276)حدیث نمبر (5) حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: سُود ستر گناہوں کا مجموعہ ہے، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں
سے زِنا کرے ۔ (سنن ابن ماجہ ،3/72، حدیث:2274)
عطاء المصطفى صديق (درجہ دورة الحدیث مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد پاکستان)
آج سود لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے۔ حالانکہ شریعتِ
مطہرہ میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے اور اس میں دنیاوی و اخروی نقصانات ہیں۔ جسے
اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
سود حرامِ قطعی ہے اور اسے حلال جانے والا کافر ہے۔ اور سودخور
قیامت میں ایسے مخبوط الحواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے جیسے دنیا میں
وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو۔ کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کیلئے بھوت بنا ہوا
تھا۔آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہوتا ہے، اچھے اچھے
ناموں سے پکارا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد قرض دینے والوں کو خوش اخلاقی، ملنساری
اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے۔ جو
گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔
آئیے سود کی مذمت پر پانچ احادیث ملاحظہ کیجیے :۔(1) حضرت جابر بن عبد اللہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت
فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)(2) حضرت عبد اللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے
زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)
(3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا
ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب
الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)(4) حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے
تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان
لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے
تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3/ 71، حدیث: 2273)
(5) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ سرکارِ دو
عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک سود 70 گنا ہوں کا مجموعہ
ہے، ان میں سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔ (ابن ماجہ،3/72،حدیث:
2274) اور سود کا معاشرے پر بھی بہت برا اثر ہوتا ہے۔ سود دینے والا بے رحم ہو
جاتا ہے۔ وہ مفت میں کسی کو رقم دینے کا تصور نہیں کرتا۔ انسانی ہمدردی اس سے رخصت
ہو جاتی ہے۔ قرض لینے والا ڈوبے ، مرے ، تباہ ہو ،یہ بہر صورت اسے نچوڑنے پر تلا
رہتا ہے اسے کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔
قراٰنِ کریم اور احادیث طیبہ میں اللہ اور اس کے رسول نے سود
کی سخت مذمت بیان فرمائی ہے۔ اگر ہم ان وعیدات سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ
قراٰن و حدیث پر عمل پیرا ہوں۔
سو دو رشوت میں نحوست ہے بڑی نیز دوزخ میں سزا ہو گی کڑی
جمیل الرحمٰن عطّاری(درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
سود حرامِ قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قرآن و
حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آیت 275،276،278 میں
بھی سود کی حرمت کا بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔ پہلے قراٰنِ پاک سے ملاحظہ
فرمائیں۔ الله پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ ۔ (پ4،اٰل عمران : 130) اس آیت میں سود کھانے سے منع کیا گیا اور اسے حرام قرار دیا
گیا۔ زمانۂ جاہلیت میں سود کی ایک صورت یہ بھی رائج تھی کہ جب سود کی ادائیگی کی
مدت آتی، اگر اس وقت مقروض ادا نہ کرپاتا تو قرض خواہ سود کی مقدار میں اضافہ کر دیتا
اور یہ عمل مسلسل کیا جاتا رہتا۔ اسے دُگنا دَر دُگنا کہا جارہا ہے۔
احادیث مبارکہ میں سود کی بہت مذمت بیان ہوئی ہے۔ چند
ملاحظہ ہو:۔(1) حضرت
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے
پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)
(2) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان
میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)(3) حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ
بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ
گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن
ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/ 72، حدیث: 2273)
سود کی مذمت پر اور بھی آیات اور احادیثِ مبارکہ مذکور ہیں ۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں سود جیسی بری چیز سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عبدالرحمن عطّاری (درجہ اولیٰ جامعۃُ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور پاکستان)
الله پاک نے قراٰنِ پاک میں پارہ تین سورۃُ البقرہ آیت نمبر
275 میں ارشاد فرمایا: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- ترجمۂ کنزالعرفان: جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ قیامت کے
دن نہ کھڑے ہوں گے مگر اس شخص کے کھڑے ہونے کی طرح جسے آسیب نے چھو کرپاگل بنا دیا
ہو۔(پ3،البقرۃ:275)
(1)مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود دینے والے اور لینے والے ، اس کے کاغذات تیار کرنے
والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔
(مسلم، ص 862،حدیث: 106)(2)حضرت
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے۔ سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا
کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 6/ 395،حدیث: 5523)
(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر
ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے
تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو
انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب
التغلیظ فی الربا، 3/ 71، حدیث: 2273) (4)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور
اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان
میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)
غلام مرتضی (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد
اللہ شاہ غازی کلفٹن کراچی پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو! آج کے زمانے میں سود بہت ہی عام ہو
چکا ہے، تجارت، لین دین، بینک اکاؤنٹس، یہاں تک کہ کئی لوگوں کا ذریعۂ معاش ہو
چکا ہے۔ دینِ اسلام میں سودی نظام کو تباہ کن اور ہلاکت میں ڈال دینے والا قرار
دیا گیا۔ اللہ پاک نے سود پر بہت زبردست لعنت اور وعیدات ارشاد فرمائی۔ اس کی مذمت
میں قراٰن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا
سُود۔ (پ3،البقرة : 275)اور احادیث مبارکہ میں بھی جگہ جگہ اس کی وعیدات بیان
فرمائی گئی۔ چند احادیثِ کریمہ پیش کی جاتی ہیں۔(1) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود
لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ
میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)
(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر
ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے
تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو
انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب
التغلیظ فی الربا، 3/ 71، حدیث: 2273)(3) حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے
چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا
عرض الرجل المسلم، 2/338، حدیث: 2306)
(4) حضرت سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :سود خور کو قیامت
کے دن جنون کی حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے سود کھانے کے بارے میں سب اہلِ
محشر جان لیں گے۔( کتاب الکبائر للذھبی ، الكبيرة الثانية عشرة باب الریاء، ص 68)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہم سب کو سودی کاروبار کی
نحوست اور اس کبیرہ گناہ سے محفوظ رکھے اور ہمیں شریعت کے مطابق حلال مال کما کر
زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
تنوير احمد عطّاری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروقِ اعظم سادھوکی، لاہور پاکستان)
(1)سود لینا شد
ید حرام ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
سُود70گناہوں کا مجموعہ ہے، ان میں سب سے ہلکا یہ ہے کہ آدمی
اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ،3/72، حدیث:2274)(2) رشوت کے بارے میں حضرت سیَّدنا ثَوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
رشوت دینے والے ،رشوت لینے والے اور ان دونوں کے درمیان مُعامَلہ کروانے والے پر لعنت
فرمائی ہے۔(مسند امام احمد، 8/327،حدیث:22462)(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس
کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں
میں نے پوچھا: اے جبریل یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن
ماجہ)
(4) حضرت اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہما سے مروی، نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ اُدھار میں سود ہے اور ایک روایت میں
ہے، کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔( صحیحین) (5) حضرت عبد اللہ ابن عباس
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: (سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (المسند
للامام احمد بن حنبل، ابن ماجہ)
محمد عمر فاروق (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ عالمی مدنی مرکز ،کراچی پاکستان)
الله پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
ر با یعنی سود( interest) حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور اس کو حرام سمجھ کر جو
اس کا مرتکب ہو فاسق ہے اس کی تعریف بہار شریعت میں کچھ یوں ہے:"عقدِ معاوضہ
میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ
نہ ہو۔(بہار شریعت،2/769)کثیر احادیث سود کی مذمت میں وارد ہوئیں۔ ان میں کچھ یہ ہیں۔(1) حضرت سمرہ بن جندب رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: ميں نے شبِ معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے
گئے، پھر ہم آگے چل دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا
ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے،
دریا میں موجود شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک
پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ
(دریا والا)شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر
اسے واپس لوٹا ديتا، میں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے
والا ہے۔ (صحیح بخاری ،2/14،حدیث: 2085)
(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس
کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں
میں نے پوچھا: اے جبریل یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن
ماجہ) (3)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ
لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اوریہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں۔( صحیح مسلم ،ص862،حدیث: 106)
(4) حضرت عبداللہ بن حنظلہ رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان
کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔( المسند للامام احمد بن حنبل ،8/223،حدیث:
22016) (5) حضرتِ ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: سود کے ستّر حصّے ہیں جن میں سے کمترین حصّہ یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے
زِنا کرے۔(مرآۃالمناجیح ،جلد:4 حدیث :2826)
(6) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ ہاشمی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو
اس کو بھی چھوڑ دو۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/73 ، حدیث: 2276) اللہ پاک ہمیں سود اور جس چیز میں سود کا شبہ بھی ہو اس سے بھی بچنے
کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
سود کبیرہ گناہوں میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔ اس کی تعریف یہ
ہے کہ عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو اور اس کے مقابل
دوسری طرف زیادتی نہ ہو تو وہ سود ہے۔ سود اس قدر سخت گناہ ہے کہ اس کے کرنے والے
سے اللہ نے جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)فَاِنْ لَّمْ
تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ- ترجمۂ کنزالعرفان:
اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے
اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی
طرف سے لڑائی کا یقین کرلو ۔(پ3،البقرۃ: 278،279)
سود جس معاشرے میں عام ہوتا ہے وہ معاشرہ پر امن نہیں رہتا۔
امیر امیر تر ہوتا رہتا ہے اور غریب غریب تر ہوتا ہے۔ چوری ڈکیتی لوٹ مار کا دور
دورہ ہوتا ہے۔ انسانی رشتوں کو کمزور کرتا ہے۔ دلوں میں کینے اور دشمنی کا بیج
بوتا ہے۔ معاشرے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اور عذابِ الٰہی نازل ہوتے رہتے
ہیں۔ سود کی مذمت پر چند احادیث درج ذیل ہیں:۔(1) عذابِ الہی کے مستحق: حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب کسی جگہ میں بدکاری اور سود عام ہو جائے تو ان
لوگوں نے اپنی جانوں کو الله کے عذاب کا مستحق کر دیا ۔ (مستدرک ،کتاب البیو ع ان
اربی الرباالرجل المسلم، 2/338 ،حدیث :2306) (2) سود کھانے، کھلانے والے اور گواہوں پر لعنت: حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے
والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: یہ سب
برابر ہیں(مرآۃ المناجیح،حدیث: 2807)
(3) زنا سے سخت تر : عبداللہ ابن حنظلہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر سود کا ایک درہم
کھائے وہ چھتیس بار زنا سے سخت تر ہے۔مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک سود کے
چھتیس زنا سے بدتر ہونے کی چند وجوہات ہیں:۔(1) کیونکہ زنا حق اللہ ہے اور سود حق
العباد جو توبہ سے معاف نہیں ہوتا،(2) کیونکہ سود خور کو اللہ رسول سے جنگ کا
اعلان ہے زانی کو یہ اعلان نہیں، سود خور کو خرابی خاتمہ کا اندیشہ ہے زانی کے
متعلق یہ اندیشہ نہیں ، (3) سود خور مقروض اور اس کے بال بچوں کو تباہ کرتا ہے اسی
لیے سود خور پر زیادہ سختی ہے۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 ،حدیث:2825)
(4)ماں سے زنا سے بڑھ کر گناہ: حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کے ستّر حصّے ہیں جن میں سے کمترین حصّہ
یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے زِنا کرے۔(مرآۃالمناجیح ،جلد:4 حدیث :2826) (5) سور خوروں کا برا حال : حضرتِ
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا: ہم شبِ معراج اس قوم پر پہنچے جن کے پیٹ کوٹھڑیوں کی طرح تھے جن میں
سانپ تھے جو پیٹوں کے باہر دیکھے جارہے تھے ہم نے کہا اے جبریل یہ کون ہیں انہوں
نے عرض کیا یہ سود خور ہیں۔(احمد،ابن ماجہ)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اس سے معلوم ہوا
کہ اگرچہ سود دینا بھی حرام ہے جرم ہے مگر سود لینا زیادہ سخت جرم ہے کہ حضور انور
نے سود خور کا یہ حال ملاحظہ فرمایا کہ سود خور گنہگار بھی ظالم بھی،سود دینے والا
گنہگار ہے مگر ظالم نہیں بلکہ مظلوم۔
الله ہمیں کے سود کے دنیوی اور اخروی نقصانات کو سمجھنے اور
اس سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
محمد عبدالرحیم عطّاری(جامعۃُ المدینہ فیضان غوث
الاعظم سائٹ ایریا کراچی پاکستان)
سودایک نہایت مہلک گناہ اور حرام قطعی ہے، نیز اسے حلال
جاننے والا کافر ہے۔ قراٰن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔ چنانچہ
اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتاہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)
اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث سے بھی سود کے مذموم ہونے کا پتہ چلتا ہے، لہذا اسی ضمن
میں پانچ فرامینِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:(1) حضرت ابوہریرہ فرماتے
ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سات ہلاکت کی چیزوں
سے بچو۔ لوگوں نے پوچھا حضور وہ کیا ہیں ؟ فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک، جادو، اور
ناحق اس جان کو ہلاک کرنا جو اللہ نے حرام کی، اور سود خوری، یتیم کا مال کھانا، جہاد
کے دن پیٹھ دکھادینا، پاکدامن مؤمنہ بے خبر بیبیوں کو بہتان لگانا۔(بخاری،مسلم)(2) حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
:معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور
ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے
ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود
کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)
(3) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب کہ سود کھائے بغیر کوئی
نہ رہے گا اگر سود نہ بھی کھائے گا تو اسے سود کا اثر ضرور پہنچے گا یہ بھی روایت
ہے کہ اس کا غبار پہنچے گا۔ (4)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا
یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، کتاب البیوع، انّ اربی الربا عرض
الرجل المسلم، 2/338، حدیث: 2306)(5)
حضرت علی سے روایت ہے کہ انہوں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے سنا کہ آپ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے لکھنے والے زکوٰۃ نہ دینے
والے پر لعنت فرمائی اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نوحہ سے منع فرماتے
تھے۔ یعنی مُردے کے غلط اوصاف بیان کر کے بلند آواز سے رونا۔ (نسائی)
محمد الیاس مدنی عطّاری(مفتش مجلس آئی ٹی (عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی پاکستان)
حاجت مند کو قرض دینا کارِ ثواب اور اجرِ عظیم ہے، قرض دینے
والے کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا،
جو نعمت چاہے گا پائے گا، بروزِ قیامت قرض دینے والے کو اجر و ثواب کا پیمانہ بھر
بھر کر دیا جائے گا۔ مگر افسوس! فی زمانہ ہمارے معاشرہ میں حاجت مند کو قرض تو دیا
جاتا ہے لیکن اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود (Interest)کے قرض (Loan)ملنا مشکل ہو
گیا ہے۔ جب تک قرض پر قرض دینے والے کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو وہ حاجت مند کی حاجت
کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ہے جیب کے قریب ہاتھ کو
لانا گوارا نہیں کرتا ۔ ہاں یہ ضرور دیکھا گیا ہے جہاں قرض دینے والے کو قرض لینے
والے سے فائدہ حاصل ہو رہا ہے ہوتا ہے وہاں قرض دینے والا کا دل کرتا ہے کہ میں
منہ کا لقمہ بھی قرض میں دے دوں۔
یاد رکھئے! رسولِ بے مثال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: ہر قرض صدقہ ہے۔(المعجم الاوسط،2/345، حدیث: 3498)اور قرض پر کسی
بھی قسم کا نفع حاصل کرنا سود ہے۔ فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت،
مولانا امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں:
قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔ حدیث
میں ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: قرض سے جو فائدہ
حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 17/713) سود قطعی حرام اور جہنم میں لے
جانے والا کام ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں
مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) الله
پاک نے قراٰن پاک میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)سورۂ بقرہ کی آیت 278،276،275 میں بھی سود کی حرمت کا
بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔
(1) حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود
کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت
فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599) (2) حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔
(مستدرک، 2 /338، حدیث:2306) (3)
سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک
درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، 4
/ 395، حدیث:5523)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی
قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر
آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت
فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب
التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)(5) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو
گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60،
حدیث:110)
بروزِ قیامت سود خور پر ایسا وبال آئے گا کہ سود خور کا
چلنا پھرنا مشکل ہو جائے، یہی اس کی پہچان ہو گی، آخرت میں ہلاکت اس کا مقدر بنے
گی، اس کے تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے ، سود کا نہ صدقہ کام آئے گا، نہ
مسجد کو تعمیر کرنا اور اس کی آباد کرنا کوئی فائدہ دے ، حج، زکوٰۃ، روزہ، نماز
باجماعت ، رشتوں داروں سے حسنِ سلوک، یتیم و مسکین و فقیر وغریب غربا کے ساتھ مدد
کرناالغرض سود خور کی سودی مال سے کی گئی تمام نیکیاں برباد ہو جائیں گی۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود
خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ، نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر
قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276)
اللہ پاک ہم سب کو عافیت اور امان عطا فرما کر سود کی آفتوں
سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ابو یونس یوسف رضا (درجہ خامسہ مکی جامعۃُ المدینہ قبا
مسجد فیصل آباد پاکستان)
مالِ رِبا یعنی سود حرامِ قطعی ہے۔ اس کی حرمت (Unlawfulness)کا منکر کافر
ہے اور حرام جانتے ہوئے اس کا مرتکِب فاسق اور مردود الشھادۃ ہے۔
تعریف: عقد معاوضہ (Compensation
Agreement)جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف
زیادتی ہو کہ اس(زیادتی ) کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ "سود "ہے۔
(بہارِ شریعت، 2/ 769)
سود کی مذمت پر پانچ (5) احادیثِ مبارکہ(1) حضرت جابر رضی اللہ عنہ
سے روایت ، رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سود لینے والے ، سود دینے والے، اس
کا کاغذ لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر
ہیں۔ (صحیح مسلم، حدیث 1597،ص 862) (2) غسیل الملائکہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو کوئی جان
بوجھ کر کھائے وہ چھتیس مرتبہ زنا (Adultery)کرنے سے بھی بد تر ہے۔(مسند امام احمد، 8/223،حدیث:22016)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے ، ان میں سے سب سے
کم درجہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زِنا کرے ۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/72، حدیث:2274)(4) حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ
پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (سود سے بظاہر) اگرچہ
مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (المسند للامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن مسعود،2/50،حدیث: 3754)(5) خلیفہ ثانی امیر
المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ِ ہاشمی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اس کو بھی
چھوڑ دو۔ (سنن ابنِ ماجہ، 3/73 ، حدیث: 2276)
سود کی وجہ سے معاشرے
میں ہونے والے فسادات: سود ایک ایسا ناسور ہے جو
معیشت کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران کی بڑی وجہ بھی معیشت میں
سودی معاملات ہی ہیں۔ سود معاشرے کے امن کے لیے بھی زہرِ قاتل کی سی حیثیت رکھتا
ہے کیوں کہ سود کھانے والا اس بات کا آرزومند رہتا ہے کہ اس کا مقروض (کسی بھی
نقصان وغیرہ کی صورت میں )قرض دینے میں مزید تاخیر کرے اور اسے زیادہ سود کی رقم
حاصل ہو۔ اگر ہم نے تھوڑے سے دنیوی نفع کی خاطر سود جیسی لعنت کو نہ چھوڑا تو
یقیناً ہم احادیث میں وارد وعیدات کے مستحق ٹھہریں گے۔
درس: پیارے اسلامی بھائیو ! سود سے بچنا ہم پر لازم ہے۔ کوئی بھی
دانا شخص (Wise Person) قلیل دنیوی
نفع کی خاطر اپنے اُخروی و ابَدی فائدے کو داؤ پر نہیں لگائے گا۔ لہذا سمجھداری
اسی میں ہے کہ خدائے واحد و رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین پر
مِن و عن عمل پیرا ہو کر سود جیسی لعنت سے اپنے کاروبار اور معاشرے کو پاک کیا
جائے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکیں۔
سود و رشوت میں نُحُوست ہے
بڑی
نیز دوزخ میں سزا ہوگی کڑی(وسائلِ
بخشش)
اللہ پاک ہمیں اور ہمارے عزیز و اقارب کو سود سے محفوظ
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم