محمد الیاس مدنی عطّاری(مفتش مجلس آئی ٹی (عالمی
مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی پاکستان)
حاجت مند کو قرض دینا کارِ ثواب اور اجرِ عظیم ہے، قرض دینے
والے کو اس بات کی اجازت ہو گی کہ جنت کے جس دروازے سے چاہے گا داخل ہو جائے گا،
جو نعمت چاہے گا پائے گا، بروزِ قیامت قرض دینے والے کو اجر و ثواب کا پیمانہ بھر
بھر کر دیا جائے گا۔ مگر افسوس! فی زمانہ ہمارے معاشرہ میں حاجت مند کو قرض تو دیا
جاتا ہے لیکن اس کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ اب کسی حاجت مند کو بغیر سود (Interest)کے قرض (Loan)ملنا مشکل ہو
گیا ہے۔ جب تک قرض پر قرض دینے والے کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو وہ حاجت مند کی حاجت
کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ہے جیب کے قریب ہاتھ کو
لانا گوارا نہیں کرتا ۔ ہاں یہ ضرور دیکھا گیا ہے جہاں قرض دینے والے کو قرض لینے
والے سے فائدہ حاصل ہو رہا ہے ہوتا ہے وہاں قرض دینے والا کا دل کرتا ہے کہ میں
منہ کا لقمہ بھی قرض میں دے دوں۔
یاد رکھئے! رسولِ بے مثال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: ہر قرض صدقہ ہے۔(المعجم الاوسط،2/345، حدیث: 3498)اور قرض پر کسی
بھی قسم کا نفع حاصل کرنا سود ہے۔ فتاویٰ رضویہ شریف میں اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت،
مولانا امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ قرض پر نفع لینے کے متعلق فرماتے ہیں:
قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔ حدیث
میں ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: قرض سے جو فائدہ
حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 17/713) سود قطعی حرام اور جہنم میں لے
جانے والا کام ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں
مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔(یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) الله
پاک نے قراٰن پاک میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)سورۂ بقرہ کی آیت 278،276،275 میں بھی سود کی حرمت کا
بیان موجود ہے اور حدیث میں ہے۔
(1) حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود
کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت
فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599) (2) حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
سود کا گناہ 73درجے ہے ، ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔
(مستدرک، 2 /338، حدیث:2306) (3)
سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک
درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، 4
/ 395، حدیث:5523)
(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی
قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر
آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت
فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب
التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)(5) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:
قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو
گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60،
حدیث:110)
بروزِ قیامت سود خور پر ایسا وبال آئے گا کہ سود خور کا
چلنا پھرنا مشکل ہو جائے، یہی اس کی پہچان ہو گی، آخرت میں ہلاکت اس کا مقدر بنے
گی، اس کے تمام نیک اعمال برباد ہو جائیں گے ، سود کا نہ صدقہ کام آئے گا، نہ
مسجد کو تعمیر کرنا اور اس کی آباد کرنا کوئی فائدہ دے ، حج، زکوٰۃ، روزہ، نماز
باجماعت ، رشتوں داروں سے حسنِ سلوک، یتیم و مسکین و فقیر وغریب غربا کے ساتھ مدد
کرناالغرض سود خور کی سودی مال سے کی گئی تمام نیکیاں برباد ہو جائیں گی۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : سود
خور کا نہ صدقہ قبول کیا جائے گا ، نہ جہاد ، نہ حج اور نہ ہی صلہ رحمی۔(تفسیر
قرطبی،2/274، البقرۃ،تحت الآیۃ:276)
اللہ پاک ہم سب کو عافیت اور امان عطا فرما کر سود کی آفتوں
سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم