(1) حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دوشخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا، یہ کون شخص ہے؟ کہا، یہ شخص جو نہر میں ہے، سود خور ہے۔(بہار شریعت ،2/ 767)(2) حضرت عبداللہ بن حنظلہ غسیل الملائکہ رضی اللہُ عنہما سے راوی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے، وہ چھتیس مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔(بہار شریعت، 2/ 768)

(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا گناہ ستر حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔ (بہار شریعت، 2/ 768) (4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں میں نے پوچھا: اے جبریل یہ کون لوگ ہیں، انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔ (بہار شریعت، 2/ 768)(5) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:(سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (بہار شریعت ،2/ 768)


سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ قراٰن و حدیث میں اس کے متعلق وعیدیں بیان ہوئی ہے(1) ۔ حضرت جابر (رضی اللہ عنہ ) سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے ،سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔ (مسلم ،کتاب المساقات والمزارعہ باب لعن اکل الربا و موکلہ ،ص 862، حدیث :106 ) (2) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :سود کا گناہ 70 درجے ہے ۔اس میں سب چھوٹا یہ ہے کہ ادمی اپنی ماں سے زنا کرے ۔ (مستدرک ،کتاب البیو ع ان اربی الرباالرجل المسلم، 2/338 ،حدیث :2306)

(3) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)

الله پاک ہمیں سود کھانے اور سودی کاروں بار بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: سود کے بارے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مکتبہ المدینہ کا رسالہ (سود اور اس کا علاج ) کا مطالعہ فرمائیں ۔ 


اللہ پاک نے سود کو حرام فرمایا ہے اور یہ بہت سخت گناہِ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ چنانچہ قراٰن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے اپنا اصل مال لینا جائز ہے۔ نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہیں نقصان ہو۔(پ3،البقرۃ: 278،279)اسی طرح ایک دوسری آیت میں یہ بھی ارشاد فرمایا گیا : اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ- ترجمۂ کنز الایمان:وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہویہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے ۔(پ3،البقرة : 275)

اسی طرح حدیثوں میں سود کی حرمت اور ممانعت بیان کی گئی ہے چنانچہ ( 1) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مہلک کبیرہ گناہوں کا بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سود کھانا بھی کبیرہ گناہ ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الایمان باب الکبائرو اکبرھا،ص60،حدیث 89)(2) حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے اور کھلانے والے اور سود لکھنے والے اور سود کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے اور یہ فرمایا یہ سب گناہ میں برابر ہے ۔(صحیح مسلم کتاب المساقاۃ باب لعن أکل الربو . ... الخ ، ص862،حدیث 1598)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح(بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل علیہ السّلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا،3/71، حدیث: 2273)(4) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : سود کا ایک درہم جان بوجھ کر کھانا 36 مرتبہ زنا کرنے سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ ہیں ۔(المسند للامام احمد بن حنبل حدیث عبداللہ بن حنظلۃ، 8/223،حدیث 22016)

ایک اور حدیث شریف میں ہے( 5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں ضرور تم پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جو سودخور نہ ہو اور اگر سود نہ کھائے گا تو سود کا دھواں ہی اسے پہنچے گا۔(سنن ابی داوُد، کتاب البیوع، باب فی اجتناب الشبھات، 3/330،حدیث :3331) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا بیشک سود اگرچہ کتنا ہی زیادہ ہو مگر اس کا انجام مال کی کمی ہے ۔(مشکوۃ المصابیح، کتاب البیوع، باب الربا، الفصل الثالث،2/524، حدیث:2827)سود کی حرمت و یقینی ہے جو سود کو حلال بتائے یا حلال جانے وہ کافر ہے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا کیونکہ ہر حرام قطعی کا حلال جاننے والا کافر ہے۔


تِجَارَت میں پائی جانے والی برائیوں میں سے سود (Interest) ایسی خبیث بُرائی ہے جس نے ہمیشہ مَعِیْشت (Economy) کو تباہ و برباد ہی کیا ہے ، قراٰن و حدیث میں اس کی مَذمَّت کو انتہائی شِدّت سے بیان کیا گیا ہے یہاں تک کہ سُود خوروں کو اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اعلانِ جنگ کی وعید بھی سنائی گئی ہے ۔

سود کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:۔(1)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور سیدُ المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث:106(1599)(2)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے36 بار زنا کرنے سے زیادہ بُرا ہے۔(شعب الایمان، الثامن والثلاثون من شعب الایمان، 4 / 395، حدیث: 5523)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے حضرت جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب التغلیظ فی الربا، 3 / 71، حدیث: 2273)

(4) حضرت سیدُنا عوف بن مالک رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ ، صاحبِ معطر پسینہ ، باعثِ نُزولِ سکینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن سود خور کو اس حال میں اٹھایا جائے گا کہ وہ دیوانہ و مخبوط الحواس ہو گا۔ (المعجم الکبیر ،18/60، حدیث:110)یعنی سود خور قبروں سے اٹھ کر حشر کی طرف ایسے گرتے پڑتے جائیں گے جیسے کسی پر شیطان سوار ہو کر اسے دیوانہ کر دے۔ جس سے وہ یکساں نہ چل سکیں گے۔ اس لئے کہ جب لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے اور محشر کی طرف چلیں گے تو سب یہاں تک کہ کفار بھی درست چل پڑیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہی سود خور کی پہچان ہو گی۔(5) حضرت سیدُنا عبدُاللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے راویت ہے کہ محسنِ کائنات ، فخر موجودات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: سُود سے (بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو ، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود، 2/50، حدیث: 3754)

اللہ پاک ہمیں سود جیسے گناہ سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت مال بھی ہے کہ جس ذریعے انسان اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اللہ پاک نے ہر انسان کو اس بات کا مکلف بنایا ہے کہ وہ مال جیسی عظیم نعمت کو اللہ و رسول کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق حاصل کرے۔ حرام طریقوں سے مال حاصل کرنے سے باز رہے کہ کل قیامت میں ہر شخص سے اس کے مال کے متعلق سوال ہوگا کہاں سے حاصل کیا؟ یعنی مال حاصل کرنے کے ذرائع کیا تھے؟ کہاں خرچ کیا؟ حقوق العباد اور حقوق اللہ ادا کرنے میں کوتاہی تو نہیں کی۔ مال حاصل کرنے کے بہت ذرائع ہیں آج کے اس پر فتن دور جہاں ہمارے معاشرے میں بڑے بڑے گناہ عام ہیں وہیں پر ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنا بھی عام ہوتا جا رہا ہے۔ ناجائز اور حرام طریقے سے مال حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ "سود" بھی ہے۔

اسلامی انقلاب اور نفازِ اسلام میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سود ہے۔ سود ایک ایسی لعنت ہے جس پر اللہ نے فرمایا کہ سود لینے والا وہ اللہ سے جنگ کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی طرف سے لڑائی کا یقین کرلو اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے اپنا اصل مال لینا جائز ہے۔ نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہیں نقصان ہو۔(پ3،البقرۃ: 278،279)

لیکن آج کے نام نہاد مسلمان دانشوروں کا یہ حال ہے کہ وہ توبہ کی بجائے آگے سے خود اللہ پاک کو اعلانِ جنگ کر رہے ہیں اور سود کی اہمیت و ضرورت پر کتابیں مضامین اور کالم لکھ رہے ہیں اور لیکچر دے رہے ہیں۔ اب ہم چند احادیث مبارکہ سے سود کی تباہیوں اور ہولناکیوں کو بیان کرتے کہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے لکھنے والے پر لعنت فرمائی (نسائی)حدیثِ پاک کی تشریح: مذکورہ حدیث پاک میں دیگر کئی منہیات (Forbiddance) کے ساتھ ساتھ سود کی بھی مذمت فرمائی اور مفتی احمد یار خان نعیمی نے اس کی یوں شرح بیان کی کہ سود دینے والا لکھنے والا چونکہ سود خور کے گناہ پر معاون و مددگار ہیں اس لیے سب لعنت میں آگئے، مسلمان اپنے خرچ کم کردیں، ضروریات کو حتی الامکان مختصر کریں مگر سودی قرض سے بچیں مسلمان اکثر مقدمہ بازیوں اور شادی غمی کی حرام رسموں میں سودی قرض لیتے ہیں۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 ،حدیث:2829)

ایک اور حدیث پاک میں ہے : حضرت ابن مسعود سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سود اگرچہ بہت (Lot)ہو مگر انجام کمی (Shortfall) کی طرف لوٹتا ہے۔(ابنِ ماجہ)وضاحت: یہ فرمان مسلمان کے لیے ہے کہ سود کا انجام قلت و ذلت ہے، اس کا بہت تجربہ ہے، شارح حدیث مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں کہ میں نے بڑے بڑے سود خوروں کو آخر برباد بلکہ ذلیل و خوار ہوتے دیکھا، بعض جلد اور بعض دیر سے، سود کا پیسہ اصل مال بھی لینے و برباد کرنے آتا ہے، اگر کفار کو پھل جائے تو پھل سکتا ہے، ہر ایک کی غذا مختلف ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 ،حدیث:2827)

اسی طرح سودی مال کمانے اور کھانے والے اس حدیثِ مبارکہ سے عبرت حاصل کریں کہ عبداللہ ابن حنظلہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر سود کا ایک درہم کھائے وہ چھتیس بار زنا سے سخت تر ہے۔(احمد،دارقطنی)وضاحت: سود کا درہم کھانے سے مراد یہ ہے کہ سود لینا خواہ کھائے یا پہنے یا کسی اور استعمال میں لائے یا صرف جمع کرکے رکھے، چونکہ تمام استعمالات میں کھانا زیادہ اہم ہے اس لیے اس کا ذکر فرمایا، ہماری اصطلاح میں بھی سود لینے والے کو سود خور یعنی سود کھانے والا کہا جاتا ہے، ایک درہم سے مراد معمولی سا مال ہے۔

ایک سود کے چھتیس زنا سے بدتر ہونے کی چند وجوہات ہیں:۔(1) کیونکہ زنا حق اللہ ہے اور سود حق العباد جو توبہ سے معاف نہیں ہوتا،(2) کیونکہ سود خور کو اللہ رسول سے جنگ کا اعلان ہے زانی کو یہ اعلان نہیں، سود خور کو خرابی خاتمہ کا اندیشہ ہے زانی کے متعلق یہ اندیشہ نہیں ، (3) سود خور مقروض اور اس کے بال بچوں کو تباہ کرتا ہے اسی لیے سود خور پر زیادہ سختی ہے۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 ،حدیث:2825)

ہمارا حال: آج کل دیگر برائیوں کے ساتھ ساتھ سود بھی ہمارے معاشرے میں پھیلتا جا رہا ہے مندرجہ بالا احادیث سے سود کی ہولناکیوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی عموماً شادی بیاہ کی غیر شرعی رسومات پر بے جا اخراجات کرتے ہیں اور ان اخراجات کیلئے اکثر سودی قرضہ جات لیے جاتے ہیں کاروبار کرنا ہو یا investment کرنی ہو حتی کہ روزمرہ کی خرید و فروخت میں بھی سود سے بچنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ۔

اللہ کریم ہمیں بھی اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شریعت کے بتائے ہوئے طریقوں سے حلال مال کمانے اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! آج کا ہمارا مضمون ہے سود کی مذمت کے بارے میں اور ہم اس میں جانیں گے سود کسے کہتے ہیں ؟ سود کا حکم ؟ سود کے متعلق کچھ احادیثِ مبارکہ تو آیئے ہم سب سے پہلے جانتے ہیں کہ سود کسے کہتے ہیں؟ سود کہتے ہیں کہ عقدِ معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو اور اس کے مقابل دوسری طرف زیادتی نہ ہو تو وہ سود ہے۔ اور سود کا حکم یہ ہے کہ وہ حرامِ قطعی ہے اور اس کا منکر کا فر ہے اور جو اسے حرام سمجھ کر لے یا دے تو وہ فاسق وفاجر مردود الشہادہ ہے ( اس کی گواہی قابلِ قبول نہیں) آیئے اب اس کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:۔ حدیث (1) امام بخاری اپنی صحیح میں سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دوشخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا، یہ کون شخص ہے؟ کہا، یہ شخص جو نہر میں ہے، سود خور ہے۔

حدیث (2) صحیح مسلم شریف میں عبادہ بن صامت رضی اﷲ عنہ سے مروی، کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سونا بدلے میں سونے کے اور چاندی بدلے میں چاندی کے اور گیہوں بدلے میں گیہوں کے اور جَو بدلے میں جَو کے اور کھجور بدلے میں کھجور کے اور نمک بدلے میں نمک کے برابر برابر اور دست بدست بیع کرو اور جب اصناف میں اختلاف ہو تو جیسے چاہو بیچو (یعنی کم و بیش میں اختیار ہے) جبکہ دست بدست ہوں۔ اور اسی کی مثل ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی، اس میں اتنا زیادہ ہے کہ جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا، اُس نے سود ی معاملہ کیا، لینے والا اور دینے والا دونوں برابر ہیں۔

حدیث (3) ابن ماجہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل! یہ کون لوگ ہیں؟ اُنھوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔حدیث (4) صحیحین میں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ اُدھار میں سود ہے۔ اور ایک روایت میں ہے، کہ دست بدست ہو تو سود نہیں یعنی جبکہ جنس مختلف ہو۔حدیث (5) دارمی امیرالمؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ فرمایا: سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو، اُسے بھی چھوڑ دو۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! آپ نے سود کی تعریف اور اس کا حکم اور سود لینے دینے کی مذمتیں اور اس کی وعیدیں بھی ملاحظہ فرمائی۔ تو ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی سود لینے دینے اور اس کے دستاویز لکھنے اور سودی کے گھر دعوت کھانے اور اس کا ہدیہ قبول کرنے سے بچیں۔ اللہ کریم ہمیں سود لینے دینے اور اس کے دستاویز بنانے اور سودی کے گھر دعوت کھانے اور اس کا ہدیہ قبول کرنے سے بچائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں۔ جس کا لغوی معنی ہے بڑھنا ، اضافہ ہونا، بلند ہونا۔

سود کی تعریف: قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی با وزنی چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔(1) ہلاکت خیز عمل: حضرت ابو ہریرہ اور اللہ نبی کریم علیہ والہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ہلاک کرنے والی سات گناہوں سے بچو! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے استفسار کیا کہ یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ سات چیزیں کیا ہیں؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، اللہ نے جس جان کو قتل کرنا حرام ٹھہرایا ہے اسے ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنا اور پاک دامن شادی شدہ مؤمنہ عورتوں پر بہتان لگانا۔ (صحیح البخاری کتاب الوصایا باب ان الذین یاکلون اموال الیتیم الخ، حدیث :2766)

(2) زنا و سود کی ہلاکت: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(3) سود سے پاگل پن پھیلتا ہے: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذھبی ، الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ ،ص 70)

(4) سود خور سخت عذاب میں مبتلا ہوں گے: حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)(5) مکی مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(المعجم الاوسط، 5/227، حديث: 7151)


سود کو عربی میں ربا کہا جاتا ہے۔ جس کا لغوی معنی ہے۔ مطلقاً زیادتی اور اصطلاح میں نفع بلا عوض کہ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت، 2/ 769)

آج جہاں ہمارے معاشرے کو ان گنت برائیاں نے تباہ کر رکھا ہے۔ وہیں سود کی وبا نے بھی مہاماری پھیلا رکھی ہے۔ فی زمانہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سودی کاروبار میں مبتلا ہے ۔مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سود حرام قطعی ہے اس کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادة(یعنی جس کی گواہی قبول نہ کی جائے) ہے ۔(بہار شریعت، 2/ 768 مکتبۃ المدینہ) سود جہنم میں لے جانے والا عمل اور ایک مہلک مرض ہے، قراٰن مجید میں اس کی حرمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے چنانچہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275)

اس کے باوجود بھی آج لوگ سودی کاروبار میں اس طرح منہمک ہیں کہ جیسے ان کے نزدیک سود کوئی گناہ ہے ہی نہیں، بعض لوگ تو یہ بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ سود کے حرام ہونے میں حکمت کیا ہے؟ دیگر قومیں سودی کاروبار کرکے ترقی کی اعلیٰ منزلیں طے کر رہی ہیں، ہم نے اگر یہ کاروبار چھوڑ دیا تو ہم ان سے پیچھے رہ جائیں گے۔ تو ایسے لوگ بغور سماعت کریں کہ کیا کبھی کسی حرام کام کا ارتکاب کر کے اور اللہ پاک کو ناراض کر کے ترقی کیا جا سکتا ہے؟ ذیل میں سود کے دنیاوی اور اخروی نقصانات کے متعلق چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تحریر کیے جاتے ہیں ملاحظہ کریں :۔(1)معلمِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔(سود اور اس کا علاج ،ص 15مکتبۃ المدینہ ) آج اگر کسی بستی میں سودی کاروبار کرنے والا رہتا ہے تو لوگ اس پر ملامت اور اس کا بائکاٹ کرنے کے بجائے اس کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں یہ خیال کرتے ہوئے کہ جب ہمیں پیسوں کی حاجت ہو تو ہم اس سے سود پر پیسے لے سکتے ہیں ۔

(2) آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں۔( صحیح مسلم،کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106) آج کل بعض لوگ محض اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے سود پر پیسے لیتے ہیں اور شادی بیاہوں میں اپنی حیثیت کے سوا خرچہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں سود پر پیسہ لینے کی نوبت آجاتی ہے، ایسے لوگ اس حدیث پر غور و فکر کریں کے سود کھانے والے کے ساتھ سود دینے والے بھی حتی کہ اس کے گواہ بھی گناہ میں یکساں ہیں ،تو چاہیے کہ جتنی بڑی چادر ہو اتنا ہی پیر پھیلائیں ۔

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔( سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،ص293،حدیث: 2274 ،ص ۲۳۶ مکتبہ احسان لکھنؤ) خواہ کتنا ہی برا آدمی ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو اپنی ماں سے زنا کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرے گا۔تو جو لوگ اس گناہِ عظیم میں مبتلا ہیں ان کو چاہئے کہ مذکورہ احدیث سے عبرت حاصل کرے اور جلد از جلد توبہ کرلیں۔


ہمارا دینِ اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جس میں دھوکا اور فریب ہو اور کسی کو نقصان پہنچایا جائے، اسی طرح ہمارے پیارے دین میں سود سے منع کیا گیا ہے ۔چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)اللہ پاک مؤمنوں سے فرمایا رہا ہے کہ سود کو چھوڑ دو۔ اب ہر اس شخص پر جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے فرض ہے کہ وہ سودی کاروبار کو چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ و رسول کے بتائے گئے طریقے کے مطابق کام کرے اسی میں ہمارے دنیا اور عاقبت کا فائدہ ہے۔

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ربا یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادۃ ہے عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ (بہار شریعت، 2/768، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ دہلی)

سود کی مذمت میں پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:۔(1) بخاری شریف میں ہے: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ميں نے شبِ معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا ديتا، میں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)

(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح بڑے بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ رہے تھے، میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، 2/763، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی) (3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کے ستر درجے ہیں ان میں سے سب سے ہلکا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے۔ (المرجع السابق)

(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (المرجع السابق)(5) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کبیرہ گناہ سات ہیں: (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، (2) کسی مؤمن جان کو قتل کرنا، (3) میدان جنگ سے بھاگنا، (4) سود کھانا، (5) یتیم کا مال کھانا، (6) والدین کی نافرمانی کرنا، (7) بیت اللہ شریف میں الحاد (بے دینی) اختیار کرنا۔ (المعجم الكبير للطبرانی، 17/48، مطبوعہ مکتبۃ ابن تیمیہ قاہرہ)

ان تمام فرامین پر غور کریں اور سود سے بچنے کی کوشش کریں۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس زمانے میں ہمارا سماج کئی بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اسی میں سے ایک خطرناک بیماری ہمارے درمیان بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر ہم غور کریں گے تو کسی حاجت مند کو بغیر سود(interest) کے قرض( loan) ملنا بہت مشکل ہے۔ لہذا پیارے اسلامی بھائیو ! اس بیماری کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کریں گے ۔

حدیث میں ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ رِباً یعنی قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،17/713)

پیارے اسلامی بھائیو! سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادۃ ہے۔ (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی) اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں اس کی مذمت فرمائی ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵)ترجمۂ کنز الایمان:وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیاہویہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اَب ایسی حرکت کرے گا تووہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔(پ3،البقرة : 275)

حدیث شریف کی روشنی میں سود کی مذمت:۔(1)حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا ، شفیعِ روزِ شُمار ، دو عالم کے مالک و مختاربِاذ ْنِ پروردگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جا رہے تھے۔ میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)

(2)حضرت سیِّدُنا جابر رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں ۔( صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106)(3)مکی مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(المعجم الاوسط، 5/227،حديث: 7151)

(4) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)(5)نبیوں کے سلطان ، سرورِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذھبی ، الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ ، ص 70)

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں کیا ہو گیا ہے کیا ہمیں اتنا بھی سمجھ نہیں کہ قرض کے لین دین میں ہم سود جیسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اس خطرناک بیماری سے حفاظت عطا فرمائے اور ہمیں قرض حسنہ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اللہ پاک نے اپنے بندوں کو حلال رزق تلاش کرنے، کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم دیا۔ اور انہیں حرام کردہ میں سے سود بھی ہے۔ سود حرام قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ اور کثیر آیات قراٰنی اور کثیر احادیث مبارکہ میں بھر پور سود کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے ۔

مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والا رسالہ سود اور اس کا علاج میں کتاب الکبائر للذھبی کے حوالہ سے سود کی مذمت کے متعلق اس طرح حدیث پاک نقل کی ہے۔(1) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)

(2) اسی طرح ایک اور حدیث پاک کتاب الکبائر للذھی کے حوالہ سے نقل کی ہے : نبیوں کے سلطان سرورِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 16 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں ۔(4) مکی مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین یہ ہے کہ جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

(5) ایک اور روایت میں سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے مدد گار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فتاوی رضویہ ج17، ص307 پر اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا ۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ہو سکتا۔

اللہ پاک حلال کمانے کھانے اور سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اپنی رحمتوں نعمتوں سے بحر و بر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


مال میں بے برکتی پیدا کرنے اور اسے حرام کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب سود (بیاج) ہے۔ چنانچہ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سُود۔ (پ3،البقرة : 275)

اس آیت میں سود کی حرمت اور سود خوروں کی شامت کا بیان ہے، سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں وہ یہ ہیں: سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے، سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہو جاتی ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان تحت الآیۃ: 275 البقرہ)

ہماری تجارتوں، سَودوں اور معاملات میں سود بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ جس کی بِنا پر شریف، سفید پوش شخص کے لئے آج قرضِ‌حسن ملنا مشکل ترین ہو گیا ہے۔ معاشرے میں رحم دلی اور خیر خواہی کا جذبہ دم توڑ چکا ہے اور اس کے علاوہ اخروی سزائیں الگ۔ لہذا احادیثِ طیبہ کی روشنی میں سود کی مذمت کو پڑھیے۔

(1)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ميں نے شبِ معراج ديکھا کہ دو شخص مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود شخص جب بھی باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا ديتا، میں نے پوچھا: یہ دریا میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب البیوع، باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)

(2)آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی الكبيرة الثانیۃ عشرة، ص 70)(3)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بےشک سود کے بہتر (72)دروازے ہیں، ان میں سےکمترین ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(المعجم الاوسط، 5/227،حديث: 7151)(4)تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: شبِ معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح (بڑے بڑے) ہیں ، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں۔ میں نے پوچھا، اے جبرئیل یہ کون لوگ ہیں ؟ اُنہوں نے کہا، یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب التجارات،باب التغلیظ في الربا،3/72،حدیث: 2273)

قیامت میں سودخور کی علامت: جو لوگ سود لیتے ہیں، قیامت کے دن ان کی پہچان یہ ہوگی کہ اس دن مردے اٹھ کر سواریوں پر کوئی پیدل اور کوئی آہستہ اور کوئی دوڑتا ہوا زمینِ‌محشر کی طرف چلے گا مگر سود خور اپنے پیٹ کے بوجھ سے چلیں گے۔ اس دن کفار بھی قبور سے اٹھ کر آسانی سے جائیں گے مگر سود خور کو چلنا پھرنا مشکل ہو گا اور یہ ہی قیامت کے دن سود خور کی پہچان ہوگی۔ (تفسیر ِنعیمی، ص 151)

سود و رشوت میں نُحُوست ہے بڑی

نیز دوزخ میں سزا ہوگی کڑی

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: (سود سے بظاہر) اگرچہ مال زیادہ ہو، مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔ (مسندامام احمد بن حنبل،مسند عبداللہ بن مسعود،2/50،حدیث: 3754)

پیارےاسلامی بھائیو! ان احادیث سے سود کی تباہ‌ کاریوں کا اندازہ لگائیے اور کل قیامت میں بارگاہِ الٰہی میں پیشی کے خوف سے لرز جائیے کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سود ہمارے ایمان کو برباد کر بیٹھے اور جہنم ہمیشہ کے لیے ہمارا مقدر بن جائے۔ اللہ پاک ہمیں حلال مال پر قناعت نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ‌النبی‌الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: سود کے متعلق مزید معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ "سود اور اس کا علاج" ضرور مطالعہ فرمائیں)