محمد مقصود عالم قادری (درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
کنز الایمان کھڑک،ممبئی ہند)
سود کو عربی میں ربا کہا جاتا ہے۔ جس کا لغوی معنی ہے۔
مطلقاً زیادتی اور اصطلاح میں نفع بلا عوض کہ عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف
مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود
ہے۔(بہار شریعت، 2/ 769)
آج جہاں ہمارے
معاشرے کو ان گنت برائیاں نے تباہ کر رکھا ہے۔ وہیں سود کی وبا نے بھی مہاماری
پھیلا رکھی ہے۔ فی زمانہ مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ سودی کاروبار میں مبتلا ہے ۔مفتی
امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سود حرام قطعی ہے اس کا منکر کافر ہے
اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادة(یعنی جس کی گواہی قبول نہ
کی جائے) ہے ۔(بہار شریعت، 2/ 768 مکتبۃ المدینہ) سود جہنم میں لے جانے والا عمل
اور ایک مہلک مرض ہے، قراٰن مجید میں اس کی حرمت واضح طور پر بیان کی گئی ہے
چنانچہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ
حَرَّمَ الرِّبٰواؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا
سُود۔ (پ3،البقرة : 275)
اس کے باوجود بھی آج لوگ سودی کاروبار میں اس طرح منہمک ہیں
کہ جیسے ان کے نزدیک سود کوئی گناہ ہے ہی نہیں، بعض لوگ تو یہ بھی کہتے نظر آتے
ہیں کہ سود کے حرام ہونے میں حکمت کیا ہے؟ دیگر قومیں سودی کاروبار کرکے ترقی کی
اعلیٰ منزلیں طے کر رہی ہیں، ہم نے اگر یہ کاروبار چھوڑ دیا تو ہم ان سے پیچھے رہ
جائیں گے۔ تو ایسے لوگ بغور سماعت کریں کہ کیا کبھی کسی حرام کام کا ارتکاب کر کے
اور اللہ پاک کو ناراض کر کے ترقی کیا جا سکتا ہے؟ ذیل میں سود کے دنیاوی اور
اخروی نقصانات کے متعلق چند فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تحریر
کیے جاتے ہیں ملاحظہ کریں :۔(1)معلمِ
کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود
پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے ۔(سود اور
اس کا علاج ،ص 15مکتبۃ المدینہ ) آج اگر کسی بستی میں سودی کاروبار کرنے والا رہتا
ہے تو لوگ اس پر ملامت اور اس کا بائکاٹ کرنے کے بجائے اس کی تعظیم و تکریم کرتے
ہیں یہ خیال کرتے ہوئے کہ جب ہمیں پیسوں کی حاجت ہو تو ہم اس سے سود پر پیسے لے
سکتے ہیں ۔
(2) آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لینے
والے اور سود دینے والے اور سود کا کاغذ لکھنے والے اور اُس کے گواہوں پر لعنت
فرمائی اور یہ فرمایا: کہ وہ سب برابر ہیں۔( صحیح مسلم،کتاب
المساقاۃ، باب لعن آ کل الربا ومؤکلہ،ص862،حدیث: 106) آج کل بعض لوگ محض اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے سود پر پیسے
لیتے ہیں اور شادی بیاہوں میں اپنی حیثیت کے سوا خرچہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں
سود پر پیسہ لینے کی نوبت آجاتی ہے، ایسے لوگ اس حدیث پر غور و فکر کریں کے سود
کھانے والے کے ساتھ سود دینے والے بھی حتی کہ اس کے گواہ بھی گناہ میں یکساں ہیں
،تو چاہیے کہ جتنی بڑی چادر ہو اتنا ہی پیر پھیلائیں ۔
(3) رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود (کا گناہ) ستر حصہ ہے، ان میں سب
سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔( سنن ابن ماجہ ،کتاب
التجارات،باب التغلیظ في الربا،ص293،حدیث: 2274 ،ص ۲۳۶ مکتبہ احسان
لکھنؤ) خواہ کتنا ہی برا آدمی ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا ہو اپنی ماں سے
زنا کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرے گا۔تو جو لوگ اس گناہِ عظیم میں مبتلا ہیں ان کو
چاہئے کہ مذکورہ احدیث سے عبرت حاصل کرے اور جلد از جلد توبہ کرلیں۔