اللہ پاک نے اپنے بندوں کو حلال رزق تلاش کرنے، کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم دیا۔ اور انہیں حرام کردہ میں سے سود بھی ہے۔ سود حرام قطعی ہے، اسے حلال جاننے والا کافر ہے۔ اور کثیر آیات قراٰنی اور کثیر احادیث مبارکہ میں بھر پور سود کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے ۔

مکتبۃ المدینہ سے شائع ہونے والا رسالہ سود اور اس کا علاج میں کتاب الکبائر للذھبی کے حوالہ سے سود کی مذمت کے متعلق اس طرح حدیث پاک نقل کی ہے۔(1) حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ ( کتاب الکبائر للذھبی،الکبیرة الثانیہ عشرہ، ص69)

(2) اسی طرح ایک اور حدیث پاک کتاب الکبائر للذھی کے حوالہ سے نقل کی ہے : نبیوں کے سلطان سرورِ ذیشان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 16 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور یہ سب (گناہ میں) برابر ہیں ۔(4) مکی مدنی آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ، ان میں سے کمترین یہ ہے کہ جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

(5) ایک اور روایت میں سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے مدد گار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت الشاہ امام احمد رضا خان فتاوی رضویہ ج17، ص307 پر اس حدیث پاک کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا چاہے اگر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر ستر بار زنا کرنا ۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح روا نہیں ہو سکتا۔

اللہ پاک حلال کمانے کھانے اور سود سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور اپنی رحمتوں نعمتوں سے بحر و بر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم