ہمارا دینِ اسلام ہر اس کام سے منع کرتا ہے جس میں دھوکا
اور فریب ہو اور کسی کو نقصان پہنچایا جائے، اسی طرح ہمارے پیارے دین میں سود سے
منع کیا گیا ہے ۔چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا
الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! دُگنا دَر دُگنا سود
نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں کامیابی مل جائے ۔ (پ4،اٰل عمران : 130)اللہ پاک مؤمنوں سے فرمایا رہا ہے کہ سود کو چھوڑ دو۔ اب
ہر اس شخص پر جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے فرض ہے کہ وہ سودی کاروبار کو چھوڑ کر صرف
اور صرف اللہ و رسول کے بتائے گئے طریقے کے مطابق کام کرے اسی میں ہمارے دنیا اور عاقبت
کا فائدہ ہے۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: ربا یعنی سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو
اس کا مرتکب ہے فاسق مردود الشہادۃ ہے عقد معاوضہ میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک
طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ (بہار شریعت، 2/768،
مطبوعہ مکتبۃ المدینہ دہلی)
سود کی مذمت میں پانچ
فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:۔(1) بخاری شریف میں ہے: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ميں نے شبِ معراج ديکھا کہ دو شخص
مجھے ارضِ مقدس (یعنی بیت المقدس)لے گئے، پھر ہم آگے چل دئيے يہاں تک کہ خون کے ایک
دریا پر پہنچے جس میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور دریا کے کنارے پر دوسرا شخص کھڑا
تھا جس کے سامنے پتھر رکھے ہوئے تھے، دریا میں موجود شخص جب بھی باہر نکلنے کا
ارادہ کرتا تو کنارے پر کھڑا شخص ایک پتھر اس کے منہ پر مار کر اسے اس کی جگہ لوٹا
ديتا، اسی طرح ہوتا رہا کہ جب بھی وہ (دریا والا)شخص کنارے پر آنے کا ارادہ کرتا
تو دوسرا شخص اس کے منہ پر پتھر مار کر اسے واپس لوٹا ديتا، میں نے پوچھا: یہ دریا
میں کون ہے؟ جواب ملا: یہ سود کھانے والا ہے۔ (صحیح بخاری،
کتاب البیوع، باب اکل ربا و شاھدہ وکاتبہ ،2/14،حدیث: 2085)
(2) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر
ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح بڑے بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آ
رہے تھے، میں نے جبرئیل علیہ السّلام سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے
عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ، 2/763، مطبوعہ دار احیاء
التراث العربی) (3) رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سود کے ستر درجے ہیں ان میں
سے سب سے ہلکا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے نکاح کرے۔ (المرجع السابق)
(4) حضرت
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی
دینے والے پر لعنت فرمائی۔ (المرجع السابق)(5) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کبیرہ
گناہ سات ہیں: (1) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، (2) کسی مؤمن جان کو قتل کرنا،
(3) میدان جنگ سے بھاگنا، (4) سود کھانا، (5) یتیم کا مال کھانا، (6) والدین کی
نافرمانی کرنا، (7) بیت اللہ شریف میں الحاد (بے دینی) اختیار کرنا۔ (المعجم
الكبير للطبرانی، 17/48، مطبوعہ مکتبۃ ابن تیمیہ قاہرہ)
ان تمام فرامین پر غور کریں اور سود سے بچنے کی کوشش کریں۔