اللہ پاک نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے
ایک نعمت مال بھی ہے کہ جس ذریعے انسان اپنی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ اللہ پاک نے
ہر انسان کو اس بات کا مکلف بنایا ہے کہ وہ مال جیسی عظیم نعمت کو اللہ و رسول کے بتائے
ہوئے طریقوں کے مطابق حاصل کرے۔ حرام طریقوں سے مال حاصل کرنے سے باز رہے کہ کل
قیامت میں ہر شخص سے اس کے مال کے متعلق سوال ہوگا کہاں سے حاصل کیا؟ یعنی مال
حاصل کرنے کے ذرائع کیا تھے؟ کہاں خرچ کیا؟ حقوق العباد اور حقوق اللہ ادا کرنے
میں کوتاہی تو نہیں کی۔ مال حاصل کرنے کے بہت ذرائع ہیں آج کے اس پر فتن دور جہاں
ہمارے معاشرے میں بڑے بڑے گناہ عام ہیں وہیں پر ناجائز طریقے سے مال حاصل کرنا بھی
عام ہوتا جا رہا ہے۔ ناجائز اور حرام طریقے سے مال حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ
"سود" بھی ہے۔
اسلامی انقلاب اور نفازِ اسلام میں ایک بہت بڑی رکاوٹ سود
ہے۔ سود ایک ایسی لعنت ہے جس پر اللہ نے فرمایا کہ سود لینے والا وہ اللہ سے جنگ
کرنے والا ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)فَاِنْ لَّمْ
تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ
فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) ترجمۂ کنزالعرفان:
اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے
اسے چھوڑ دو۔ پھر اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو اللہ اور اللہ کے رسول کی
طرف سے لڑائی کا یقین کرلو اور اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے اپنا اصل مال لینا
جائز ہے۔ نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ اور نہ تمہیں نقصان ہو۔(پ3،البقرۃ: 278،279)
لیکن آج کے نام نہاد مسلمان دانشوروں کا یہ حال ہے کہ وہ
توبہ کی بجائے آگے سے خود اللہ پاک کو اعلانِ جنگ کر رہے ہیں اور سود کی اہمیت و ضرورت
پر کتابیں مضامین اور کالم لکھ رہے ہیں اور لیکچر دے رہے ہیں۔ اب ہم چند احادیث
مبارکہ سے سود کی تباہیوں اور ہولناکیوں کو بیان کرتے کہ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ آپ نے اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ
فرماتے ہوئے سنا کہ آپ نے سود کھانے والے اور کھلانے والے لکھنے والے پر لعنت
فرمائی (نسائی)حدیثِ پاک کی
تشریح: مذکورہ حدیث پاک میں دیگر کئی منہیات (Forbiddance) کے ساتھ ساتھ سود کی بھی مذمت
فرمائی اور مفتی احمد یار خان نعیمی نے اس کی یوں شرح بیان کی کہ سود دینے والا
لکھنے والا چونکہ سود خور کے گناہ پر معاون و مددگار ہیں اس لیے سب لعنت میں آگئے،
مسلمان اپنے خرچ کم کردیں، ضروریات کو حتی الامکان مختصر کریں مگر سودی قرض سے
بچیں مسلمان اکثر مقدمہ بازیوں اور شادی غمی کی حرام رسموں میں سودی قرض لیتے ہیں۔(مرآۃ
المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 ،حدیث:2829)
ایک اور حدیث پاک میں
ہے : حضرت ابن مسعود سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے آخری
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ سود اگرچہ بہت (Lot)ہو مگر انجام
کمی (Shortfall) کی طرف لوٹتا
ہے۔(ابنِ ماجہ)وضاحت: یہ
فرمان مسلمان کے لیے ہے کہ سود کا انجام قلت و ذلت ہے، اس کا بہت تجربہ ہے، شارح
حدیث مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں کہ میں نے بڑے بڑے سود خوروں کو آخر
برباد بلکہ ذلیل و خوار ہوتے دیکھا، بعض جلد اور بعض دیر سے، سود کا پیسہ اصل مال
بھی لینے و برباد کرنے آتا ہے، اگر کفار کو پھل جائے تو پھل سکتا ہے، ہر ایک کی
غذا مختلف ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 ،حدیث:2827)
اسی طرح سودی مال کمانے اور کھانے والے اس حدیثِ مبارکہ سے
عبرت حاصل کریں کہ عبداللہ ابن حنظلہ سے روایت ہے فرماتے
ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص جان بوجھ کر
سود کا ایک درہم کھائے وہ چھتیس بار زنا سے سخت تر ہے۔(احمد،دارقطنی)وضاحت: سود کا درہم کھانے سے
مراد یہ ہے کہ سود لینا خواہ کھائے یا پہنے یا کسی اور استعمال میں لائے یا صرف
جمع کرکے رکھے، چونکہ تمام استعمالات میں کھانا زیادہ اہم ہے اس لیے اس کا ذکر
فرمایا، ہماری اصطلاح میں بھی سود لینے والے کو سود خور یعنی سود کھانے والا کہا
جاتا ہے، ایک درہم سے مراد معمولی سا مال ہے۔
ایک سود کے چھتیس
زنا سے بدتر ہونے کی چند وجوہات ہیں:۔(1) کیونکہ زنا حق اللہ ہے اور سود حق العباد
جو توبہ سے معاف نہیں ہوتا،(2) کیونکہ سود خور کو اللہ رسول سے جنگ کا اعلان ہے
زانی کو یہ اعلان نہیں، سود خور کو خرابی خاتمہ کا اندیشہ ہے زانی کے متعلق یہ
اندیشہ نہیں ، (3) سود خور مقروض اور اس کے بال بچوں کو تباہ کرتا ہے اسی لیے سود
خور پر زیادہ سختی ہے۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 ،حدیث:2825)
ہمارا حال: آج کل دیگر برائیوں کے ساتھ ساتھ سود بھی ہمارے معاشرے میں
پھیلتا جا رہا ہے مندرجہ بالا احادیث سے سود کی ہولناکیوں سے باخبر ہوتے ہوئے بھی
عموماً شادی بیاہ کی غیر شرعی رسومات پر بے جا اخراجات کرتے ہیں اور ان اخراجات
کیلئے اکثر سودی قرضہ جات لیے جاتے ہیں کاروبار کرنا ہو یا investment کرنی ہو حتی کہ روزمرہ کی خرید و
فروخت میں بھی سود سے بچنے کا اہتمام نہیں کیا جاتا ۔
اللہ کریم ہمیں بھی اسلاف کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شریعت
کے بتائے ہوئے طریقوں سے حلال مال کمانے اور اس کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم