حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے
:جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی
،الکبیرۃالثانیۃ عشرہ ،ص70)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ شبِ معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے
گزرا، جن کے پیٹ کمروں کی طرح(بڑے بڑے) تھے، جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے
جا رہے تھے، میں نے جبرائیل علیہ السّلام سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض
کی: یہ سود خور ہیں۔ (سنن ابن ماجہ،کتاب التجارات،باب التغلیظ فی الربا،3/71، حدیث:
2273)
افسوس صد کروڑ افسوس! اگر کوئی بندہ صرف اس حدیث کا صحیح
معنوں میں تصور کرے تو شاید کوئی سود کھائیں۔ اگر ہمارے پیٹ میں معمولی سا کیڑا
چلا جائے ، تو طبیعت میں بھونچال آجاتا ہے ۔ذرا غور کریں جب دنیا کی تکلیف کو
برداشت کرنے کی قوت نہیں تو پھر قیامت کے وہ سخت ترین عذاب کو کیسے برداشت کریں گے
؟اور سود کھانے والے لوگوں کی پیٹ اتنے بڑے بڑے ہو جائیں گے جیسا کہ کسی مکان کے
کمرے ہوں ۔اللہ اکبر یہ کس قدر بھیانک عذاب ہے ۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ
جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والے کو ہلاک کرنے کی
اجازت دے دیتا ہے ۔( کتاب الکبائر للذہبی ،الکبیرۃ الثانیۃ عشرۃ، ص 69)یہی سبب ہے
کہ آج ہمارے سماج میں امن و امان نہیں اور گھروں میں برکت نہیں ہیں کیونکہ آج
ہمارے سماج میں زنا کے ساتھ ساتھ سود کی کثرت اس قدر ہو گئی ہے کہ اگر ایک محلہ
میں 100گھر ہے تو95 گھروں میں سود کی وبا پہنچ چکی ہے ۔ تو پھر ایسے محلے میں
بیماری اور قحط سالی نہیں ہو گی تو پھر کیا ؟
ایک روایت میں سرکار والاتبار ہم بے کسوں کے مددگار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سود کے ستر دروازے ہیں ان میں سے
سب سے کم یہ ہے کہ جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(شعب الایمان،حدیث :552 ،ص
394) شرحِ حدیث: یعنی
ماں سے زنا کرنا جب کمترین درجہ ہوا تو بقیہ درجے اس سے زیادہ سخت ہوں گے،چونکہ
اہلِ عرب سود کے بہت زیادہ عادی تھے، ان سے سود چھوڑانا آسان نہ تھا اس لیے سود پر
زیادہ وعیدیں وارد ہوئیں۔ خیال رہے کہ زنا اکثر مرد عورت کی رضا مندی سے بلکہ
زیادہ تر عورت کی رضا سے ہوتا ہے اسی لیے رب تعالٰی نے زنا میں عورت کا ذکر پہلے
فرمایا۔ کہ فرمایا: اَلزَّانِیَةُ
وَ الزَّانِیْ مگر سود میں مقروض کی رضا قطعًا نہیں ہوتی، اس وجہ سے بھی
سود کے احکام سخت تر ہیں کہ یہ گناہ بھی ہے اور ظلم بھی صرف مقروض پر نہیں بلکہ اس
کے سارے بچوں پر سود خور ایک تیر سے بہت سوں کا شکار کرتا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح
مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 حدیث:2826)
اعلی حضرت امام اہلسنت مجدد دین و ملت فاضل بریلوی رضی
اللہُ عنہ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : تو جو شخص سود کا ایک پیسہ لینا
چاہے اگر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد مانتا ہے تو ذرا گریبان
میں منہ ڈال کر پہلے سوچ لے کہ اس پیسہ کا نہ ملنا قبول ہے یا اپنی ماں سے ستر
ستر(70)بار زنا کرنا۔ سود لینا حرام قطعی و کبیرہ و عظیمہ ہے جس کا لینا کسی طرح
روا نہیں۔( فتاویٰ رضویہ، 17/ 307)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا جب کہ سود کھائے
بغیر کوئی نہ رہے گا اگر سود نہ بھی کھائے گا تو اسے سود کا اثر ضرور پہنچے گا یہ
بھی روایت ہے کہ اس کا غبار پہنچے گا(احمد،ابوداؤد،نسائی،ابن ماجہ)
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ مولا تعالی ہم
تمام مسلمانوں کو سود جیسے سے حرام کام سے بچائیں اور اس کی وعید پر نظر رکھنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین