
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جہاں وہ انسانیت
کے دوسرے شعبوں میں رہنمائی کرتا ہے وہاں یہ اولاد کے حقوق کے لیے بھی رہنمائی
کرتا ہے۔ ہم بغیر کسی طوالت کے اولاد کے حقوق کا تذکرہ کرتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلا اور اہم حق اولاد یہ ہے جسکا بچے کی
پیدائش کے فوری بعد اسلامی اقدار بھی تقاضہ کرتا ہے جیسے کہ جب وہ پیدا ہو تو اس
کو پاک و صاف کرکے اسکے کانوں میں اذان کہی جائے اسے گھٹی دی جائے نیز اسکی پیدائش
کے ساتویں دن عقیقہ کرکے ایک اچھا اور اسلامی نام بمطابق اسماء النبی و صحابہ کرام
و اولیائے کرام تجویز کیا جائے۔
2۔اولاد کے بنیادی حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ
ماں باپ اپنی بساط کے مطابق اسکی پرورش کریں اسے اچھی طرح اپنی استطاعت کے مطابق
کھلائیں پلائیں اور اسکو اچھی تعلیم سکھائیں۔
3۔سب سے اہم رکن والدین کی اولاد کو اچھی تربیت
کرنا بھی ہے۔ آج جہاں کئی مشرقی و مغربی ممالک کے لوگ پریشان نظر آتے ہیں کہ آخر
ہماری اولاد کی تربیت میں کیا کمی رہ گئی ہے آئیے قرآن سے ایک مثال کے ذریعے سیکھتے ہیں کہ اولاد کی
تربیت کیسے کی جائے؟
قرآن کے سائے میں اولاد کی تربیت کرنے کا طریقہ: سورہ
لقمان کی کچھ آیات میں اولاد کی تربیت کا بہترین سبق دیا گیا ہے یہ وہ آیات ہیں جن
میں حضرت لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کس
طرح حضرت لقمان نے محبت اور نرم دلی سے اپنے بیٹے کو تربیت دی۔
ان آیات شریفہ میں لقمان کے جو الفاظ ذکر فرمائے
گئے ہیں ان الفاظ میں سب سے پہلی قابل توجہ بات لقمان کا اپنے بیٹے کو بار بار ”اے
میرے بیٹے! کہہ کہہ کر بات کرنا ہے، اپنی اولاد کو اس طرح مخاطب کرنے کے انداز کے
ذریعے ہمیں یہ سبق دیا گیا کہ ہم لوگ جب اپنی اولاد کے ساتھ بات کریں خاص طور پر
جب انہیں کوئی نصیحت کریں یا انہیں کسی کام کی تربیت دیں تو اپنے اور ان کے رشتے
کی یاد دہانی کرواتے رہیں تا کہ ہماری اولاد کے ذہن میں یہ واضح تر ہوتا جائے کہ
مجھے یہ سب کچھ سمجھانے والے میرے اپنے والدین ہیں کوئی دشمن نہیں ہیں، پس جو کچھ
یہ مجھے سمجھا رہے ہیں وہ یقیناً میرے لیے بہتر ی والا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس
انداز تخاطب کا ایک مثبت نفسیاتی اثر اولاد اور والدین کے درمیان محبت میں اضافہ
بھی ہے لہذا اس طریقے اور اسکے علاوہ اگر ہم انبیائے کرام و اولیائے عظام کے
واقعات پڑھیں تو ہم اولاد کی اچھی تربیت میں کس قدر کامیاب ہوسکتے ہیں۔
4۔ جب اولاد کچھ بڑی ہوجائے تو اسے فن و ہنر سکھائے
جس سے وہ اپنا روزگار کما سکے جیسے تجارت وغیرہ۔
اولاد کے 5 حقوق از بنت محمد حنیف، جامعۃ المدینہ نصرت
ٹاؤن رینالہ خورد

حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: بچوں کی تربیت اہم اور تاکیدی امور میں سے ہے بچہ والدین کے پاس امانت ہے اس
کا پاک دل ایک ایسا جوہر نایاب ہے جو ہر نقوش و صورت سے خالی ہے لہذا وہ ہر نقش کو
قبول کرنے والا اور جس کی طرف اسے مائل کیا جاتا ہے اس کی طرف مائل ہو جانے والا
ہے اگر اسے اچھی باتوں کی عادت ڈالی جائے اس کی تعلیم
و تربیت کی جائے تو اسی پر اس کی نشونما ہوتی ہے جس کے باعث وہ دنیا و آخرت میں
سعادت مند ہو جاتا ہے۔ (احیاء العلوم، 3/88)
جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح
اولاد کے بھی والدین پر حقوق ہوتے ہیں ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:
1:زبان کھلتے ہی اللہ اللہ پھر پورا کلمہ لا الہ
الا اللہ بھر پور کلمہ طیبہ سکھائے۔
2: جب تمیز آئے
ادب سکھائے، کھانے،
پینے،ہنسنے، بولنے، اٹھنے، بیٹھنے، چلنے۔ پھرنے، حیاء،لحاظ،بزرگوں کی تعظیم، ماں
باپ،استاد اور دختر (یعنی بیٹی) کو شوہر کے بھی اطاعت کے طرق و آداب بتائے۔
3: قرآن مجید
پڑھائے، استاد
نیک صالح متقی صحیح العقیدہ سنی سن رسیدہ کے سپرد کردے اور دختر کو نیک و پارسا
عورت سے پڑھوائے۔
4:حضور پرنور ﷺ کے آل و اصحاب اور اولیاء وعلماء کی
صحبت وعظمت کی تعلیم کرے کہ اصل سنت و زیور ایمان بلکہ باعث بقائے
ایمان ہے۔
اولاد کے 5 حقوق از بنت محمد فخر الدین، جامعۃ
المدینہ رحمت کالونی رحیم یار خان

دین اسلام میں حقوق العباد کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
یہاں تک کہ حقوق اللہ پورے کرنے کے باوجود حقوق العباد پورے نہ کرنے کی وجہ سے
بندہ جہنم داخل ہو سکتا ہے۔
جس طرح
اولاد پر والدین کے حقوق کی ادائیگی لازم ہے اسی طرح والدین پر اولاد کے حقوق کی
ادائیگی لازم ہے۔ جن کو پورا کرنا لازم ہے اولاد کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ اچھا نام رکھنا: چونکہ پیدائش کے بعد والدین کی طرف
سے نام رکھنا ہی پہلا تحفہ ہوتا ہے۔اس لیے والدین پر اولاد کا پہلا حق اس کا نام
رکھنا ہے۔بنیادی طور پر نام کسی شخصیت کا حصّہ ہوتا ہے اور نام ہی سے وہ شخص
پہچانا جاتا ہے اس حوالے سے روایت میں ہے کہ (مفہوم) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: آدمی
سب سے پہلا تحفہ اپنے بچے کو نام کا دیتا ہے۔ اسی لیے چاہیے کہ اچھے نام رکھے۔ (جمع
الجوامع،3/285،حدیث: 8875)
نام رکھنا صرف دنیا کی زندگی تک نہیں بلکہ آخرت میں
بھی انسان کو اسی نام سے پکارا جائے گا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ قیامت کے دن تم
اپنے آباء کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہٰذا اپنے اچھے نام رکھو۔ (ابو داود، 4/374،
حدیث: 4948)
2 ،3۔ تعلیم و تربیت: والدین
کا اولاد پر ایک حق یہ بھی ہے کہ انہیں اچھی تعلیم دلوائیں۔ کیونکہ معاشرے میں تعلیم
کی بہت اہمیت ہے۔ جہاں دنیاوی تعلیم کے لیے جدو جہد کی جاتی ہے وہاں دینی مسائل
وغیرہ کی بھی تعلیم دلوائی جائے اولاد کو دینی تعلیم دینے سے مراد فرائض واجبات کے
ضروری مسائل وغیرہ سکھائے جائیں۔ لیکن یہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ بچے کی سب سے
پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہے اس لیے مال کو چاہیے کہ وہ اولاد کی اچھی تربیت
کرے بچوں کی گھر کے کام کاج کے حوالے سے تربیت کرے ان کے سامنے اپنے رویے کو درست
رکھا جائے جیسا کہ روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کا اکرام کرو اور
انہیں اچھے آداب سکھاؤ۔ (ابن ماجہ، 4/189،
حدیث: 3671)
4۔ یکساں سلوک: ماں
باپ کو چاہیے کہ اولاد کے ساتھ ایک جیسا رویہ رکھیں، ہرگز ہرگز کسی ایک بچے کو
زیادہ اہمیت دے کر دوسروں کو احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دیں، کیونکہ اس کی وجہ
سے باقی بچے اپنے والدین سے بدظن ہو سکتے ہیں، اور اس میں باقی بچوں کی حق تلفی
بھی ہے، اور جب بھی گھر میں پھل وغیرہ کوئی چیز لائیں تو سب کو برابر دیں، اور سب
سے پہلے بیٹیوں کو دیں اور بیٹیوں کی دل جوئی کا خاص طور پر خیال رکھا جائے، کہ
بیٹیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے اس لیے کچھ دینے میں بیٹیوں سے ابتدا کی جائے۔ اللہ
پاک کے آخری نبی ﷺ جب بھی گھر میں کچھ لاتے تو سب سے پہلے اپنی چھوٹی بیٹی حضرت
فاطمہ رضی اللہ عنہ کو دیا کرتے۔
5۔ محبت اور شفقت: والدین
پر لازم ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ پیار محبت اور نرمی اختیار کریں۔ ان کے ساتھ
مشفقانہ سلوک کریں ان کی دل جوئی اور دلداری کا خیال رکھیں بچوں سے محبت سے پیش
آنے کے حوالے سے حدیث مبارکہ ہے۔ کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی
کریم ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا تو حضرت اقراع بن حابس رضی
اللہ عنہ نے عرض کی: میرے دس لڑکے ہیں۔ میں نے کبھی بھی ان میں سے کسی کو بوسہ
نہیں دیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (مکاشفۃ
القلوب، ص 594)
بچوں کو
پیار کریں مگر ان کی اچھی بری عادت کا خیال بھی رکھیں بچپن ہی میں انہیں پیارو
محبت سے اچھی عادت سکھائیں کہ بچپن سے پڑی عادات ساری زندگی ساتھ رہتی ہیں۔ بعض والدین
بچوں کی بری عادت دیکھ کر پیار میں منع نہیں کرتے بلکہ یوں کہہ دیتے ہیں کہ جب بڑا ہوگا سیکھ لے گا یوں اپنے بچوں کا
مستقبل خراب کر دیتے ہیں۔ ایسے والدین کو چاہیے کہ بچپن ہی سے غلط عادات پر روک
ٹوک کریں اور انہیں سمجھاتے رہیں۔ اور جب وہ کوئی اچھا کام کریں تو خوش ہو کر ان کی
حوصلہ افزائی کی جائے اور ممکنہ صورت میں انہیں انعام بھی دیں یوں بچہ اچھی عادات
بھی سیکھے گا اور اس کے دل میں آپ کی محبت بھی بڑھے گی۔
اللہ پاک ہمیں حقوق الله کے ساتھ ساتھ حقوق العباد
کی ادائیگی کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اولاد اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جس پر اللہ پاک کا
جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے بعض والدین ایسے ہیں جو اولاد کی نعمت سے محروم ہیں
اور دن رات دعائیں کرتے ہیں لہذا جنہیں اولاد کی نعمت حاصل ہے انہیں چاہیے کہ
اولاد کی قدر کریں اور جس طرح اولاد پر والدین کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح اولاد کے
بھی والدین پر حقوق ہوتے ہیں والدین پر اولاد کے جو حقوق اعلیٰ حضرت نے ارشاد
فرمائے درج ذیل ہیں:
والد کا اپنی اولاد پر سب سے پہلا حق یہ ہے کہ وہ
اپنے بچوں کی امی اچھی (نیک) تلاش کرے جب بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان
اور بائیں کان میں تکبیر کہے چھوہارا یہ کوئی میٹھی چیز منہ میں نرم کرکے اس کے
منہ میں ڈالے کہ یہ اخلاق اچھے ہونے کی علامت ہے ساتویں روز یا چودھویں یا اکیسویں
روز عقیقہ کرے لڑکی کے لیے ایک جانور لڑکے کے لئے دو جانور اچھا نام رکھے لڑکا کا
نام احمد یا محمد رکھے پکارنے کے لیے کوئی اور رکھ لے پیارے آقا ﷺنے ارشاد فرمایا:
جس دستر خوان پر کوئی احمد یا محمد نام کا ہوگا اس پر دو بار برکت نازل کی جائے گی
مارنے میں احتیاط کرے جو مانگے اگر مناسب ہو لے دےماں سے دو سال تک دودھ پلوائے
بچے کا نان نفقہ حاجت کا سامان مہیا کرے۔
زبان کھلتے ہی اﷲ اﷲ پھر لا الہ الا ﷲ پھر پورا
کلمہ سکھائے جب تمیز آئے ادب سکھائے، کھانے ،پینے، اٹھنے، بیٹھنے، حیا، بزرگوں کی
تعظیم، ماں باپ، استاذ ، کی تعظیم سکھائے بیٹی کو شوہر کی اطاعت کے آداب اور طریقے
بتائے قرآن پاک پڑھائےبیٹے کو صحیح
العقیدہ سنی اساذ کے حوالے کردے اور بیٹی کو نیک پارسا عورت سے پڑھوائے بعد ختم قرآن
تلاوت کی تاکید کرے حضور اقدس ﷺ کی تعظیم
و محبت انکے دل میں ڈالے سات سال کی عمر سے نماز کی تاکید کرنا شروع کردے 10 سال کی
عمر سے مار کر پڑھائےعلم دین خصوصاً فرائض و واجبات باطنی و ظاہری گناہوں کے متعلق
پڑھائے بیٹے کو لکھنا اور کسی فن میں ماہر ہونا سکھائے اور سورہ مائدہ کی تعلیم
دےبیٹی کو سینا پرونا کاتنا وغیرہ سکھائے سورہ نور کی تعلیم دے بیٹے کا ختنہ اعلان
کے ساتھ کرے بیٹی کی پیدائش پر خوش ہو اور اسے نعمت الہیہ جانے کوئی بھی پھل یہ نئ
چیز لائے تو بیٹی کو دے بیٹیوں سے دلجوئی و خاطر داری زیادہ رکھے کی انکے دل چھوٹے
ہوتے ہیں نو سال سے بچہ اور بچی کا بسترا الگ کردے سفر سے آئے تو انکے لئے ضرور
تحفہ لائےبیمار ہوں تو انکا علاج کروائے ہر گز ہر گز بری صحبت میں نہ بیٹھنے دے
وراثت سے محروم نہ کرے جب کفو ملے تو بیٹیوں کا نکاح کرنے میں دیر نہ کرے۔

نیک اولاد اللہ پاک کا عظیم انعام ہے۔ نیک اولاد کی
دعا کرنا سنت انبیاء ہے بطور مسلمان دین اسلام نے ہم پر کچھ حقوق لازم کیے جیسے
اولاد کے حقوق وغیرہ اولاد کے بہت سے حقوق ہیں اولاد کے حقوق میں سب سے مقدم
1۔ بچے کا اچھا نام رکھنا: بچے
کی پیدائش کے بعد سب سے پہلا تحفہ اور بنیادی حق اس کا اچھا نام رکھنا ہے جسے وہ
عمر بھر اپنے سینے سے لگائے رکھتا ہے، فرمان مصطفی ﷺ: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے
آباؤ اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا اچھے نام رکھا کرو۔ (ابو داود، 4/374،
حدیث: 4948)
2۔ ضروری عقائد سکھانا: والدین
کو چاہیے کہ جب ان کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے تو اسے اللہ پاک فرشتوں آسمانی
کتابوں انبیائے کرام قیامت اور جنت اور دوزخ کے بارے میں بتدریج عقائد سکھائیں اور
ان میں یہ عقائد پختہ کریں تاکہ کل کو وہ اپنی ساری عمر صحیح العقیدہ ہو کر گزار
سکے۔
3۔ پیر کامل کا مرید بنوانا: ایک
مسلمان کے لیے سب سے قیمتی متاع اس کا ایمان ہے ایمان کی حفاظت کی فکر ہمیں دنیاوی
اشیا سے کہیں زیادہ ہونی چاہیے نیک اعمال پر استقامت کے علاوہ ایمان کی حفاظت کا
ایک ذریعہ کسی پیر کامل سے بیعت ہو جانا بھی ہے۔
4۔ اچھے اخلاق و آداب سکھانا: اولاد
کو اچھے اخلاق و آداب سکھانا اولاد کا حق ہے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں
اچھے آداب سکھانے کی کوشش کرو۔ (ابن ماجہ، 4/189، حدیث: 3671)
5۔ شفقت و محبت: اولاد
کے حقوق میں ایک حق ان سے شفقت و محبت سے پیش آنا بھی ہے بچوں کی تعلیم و تربیت کے
لیے ان سے ابتدا ہی سے شفقت و محبت کے ساتھ پیش آنا چاہیے یوں جب مامتا اور شفقت
یدری کی شیرنیی گھول کر تعلیمات اسلام کا مشروب ان کے حلق میں انڈیلا جائے گا تو
وہ فورا اسے ہضم کر لیں گے چنانچہ پیارے آقا جن بچوں کو دیکھ کر مسکرائیں اور ان
کی طرف لگیں ان کی بچوں سے شفقت کا حال سنیے اقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک جنت میں
ایک گھر ہے جسے دار الفرح کہا جاتا ہے اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش
کرتے ہیں۔

سورۂ بقرہ آیت نمبر 83 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ
الْمَسٰكِیْنِ ترجمہ: اور والدین کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتےداروں
اور یتموں اور مسکینوں سے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں حقوق العباد
کی بہت اہمیت ہے بلکہ احادیث مبارکہ میں یہاں تک ہے کہ حقوق اللہ پورے کرنے کے
باوجود بہت سے لوگ حقوق العباد میں کمی کی وجہ سے جہنم کے مستحق ہوں گے۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں سب کے
حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے اولاد اللہ پاک کی عظیم نعمت ہے اس کے بہت سے
حقوق ہیں جو والدین پر عائد ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
1۔ اچھا نام رکھو نام بچے کے لیے پہلا تحفہ ہے۔ فرمان
مصطفیٰ ﷺ آدمی سب سے پہلا تحفہ اپنے بچے کو نام کا دیتا ہے اس لیے چاہیے کہ اس کا
اچھا نام رکھے۔ (جمع الجوامع،3/285، حدیث:
8875)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے
فرمایا: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے آباؤ اجداد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے لہذا
اپنے اچھے نام رکھو۔ (ابو داود، 4/374، حدیث: 4948)
نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے اچھے نام والے کے
کام بھی ان شاء اللہ اچھے ہوتے ہیں لہذا اپنی اولاد کے اچھے نام رکھو۔
2۔ ضروری عقائد سکھائیے والدین کو چاہیے کہ جب ان
کی اولاد سن شعور کو پہنچ جائے تو انہیں اللہ پاک فرشتے آسمانی کتابیں انبیائے
کرام قیامت جنت دوزخ کے بارے میں بتدریج سکھائے انہیں ختم نبوت اور دیگر عقائد اہل
سنت سکھائیے عشق خدا و محبت مصطفی صحابہ اہل بیت کی محبت سکھائیے کہ فرمان مصطفی ﷺ:
تم میں کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد
اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری، 1/17، حدیث: 14)
3۔ دینی تعلیم دلوائیے اپنی اولاد کو کامل مسلمان
بنانے کے لیے زیور علم دین سے آراستہ کرنا بے حد ضروری ہے وہ دنیاوی تعلیم جس سے
احکام شرعیہ کی خلاف ورزی لازم نہ آتی ہو وہ بھی دلائے لیکن زیادہ بہتر علم دین
حاصل کرنا ہے، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جس
شخص نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآن پڑھایا
پڑھنا سکھایا تو بروز قیامت جنت میں اس شخص کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی بنا
پر اہل جنت جان لیں گے کہ اس شخص نے دنیا میں اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائی تھی۔ (معجم
اوسط، 1/40، حدیث: 94)
4۔ نان و نفقہ اپنے بچوں اور دیگر اہل خانہ پر دل
کھول کر خرچ کیجئے اور بشارات مصطفی ﷺ کی حقدار بنیے چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ناجائز اور مشتبہ
چیز سے بچنے کے لیے خود پر خرچ کرے گا تو یہ صدقہ ہے اور جو کچھ اپنی بیوی اولاد
اور گھر والوں پر خرچ کرے گا صدقہ ہے۔ (مجمع الزوائد، 3/301، حدیث: 4660)
5۔ اولاد میں یکسا سلوک کیجیے ماں باپ کو چاہیے کہ
ایک سے زائد بچے ہونے کی صورت میں انہیں کوئی چیز دینے اور پیار و محبت اور شفقت
میں برابری کا اصول اپنائیں بلا وجہ شرعی کسی بچے بالخصوص بیٹے کو نظر انداز کر کے
دوسرے کو اس پر ترجیح نہ دیں، معلم اخلاق ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ
پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان برابری کا سلوک کرو حتی کہ بوسہ لینے میں
بھی برابری کرو۔ (کنز العمال، 16/ 185، حدیث: 45342)
اللہ پاک ہمیں جملہ حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

عورت جب صاحب اولاد اور بچوں کی ماں بن جائے
تو اس پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ شوہر اور والدین وغیرہ کے
حقوق کے علاوہ بچوں کے حقوق بھی عورت کے سر پر ہو جاتے ہیں۔ جن کو ادا کرنا ہر ماں
کا فرض منصبی ہے۔ جو ماں اپنے بچوں کا حق ادا نہ کرے گی۔ یقیناً وہ شریعت کے نزدیک
بہت بڑی گناہگار، اور سماج کی نظروں میں ذلیل و خوار ٹھہرے گی۔
(1)بچے کا نام رکھنا: والدین
کی طرف سے اولاد کےلیے سب سے پہلا تحفہ اسکا اچھا نام رکھنا ہے۔ نام رکھے یہاں تک
کہ کچے بچے کا بھی جو کم دنوں کا گر جائے ورنہ اللہ تعالیٰ
کے یہاں شاکی ہوگا (شکایت کریگا) برا نام نہ رکھے کہ بد فال، بد ہے (کہ برا شگون
برا ہے) عبداللہ،عبدالرحمٰن،احمد،حامد وغیرہا عبادت و حمد کے نام (یعنی جن ناموں
میں بندہ کی نسبت اسم جلالت یعنی اللہ یا اس کے صفاتی ناموں کی طرف ہو یا جس نام
میں حمد کا معنی ہو۔ یا انبیاء، اولیاء یا بزرگوں میں جو نیک لوگ گزرے ہوں ان کے
نام پر نام رکھے کہ موجب برکت (باعث برکت) ہے خصوصاً نام پاک محمد ﷺ کہ اس مبارک
نام کی بے پایاں برکت بچہ کے دنیا و آخرت میں کام آتی ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے لڑکا پیدا ہو اور وہ میری
محبت اور میرے نام پاک سے برکت حاصل کرنے کے لیے اسکا نام محمد رکھے، تو وہ اور اس
کا لڑکا دونوں جنت میں جائیں گے۔ (کنز العمال، جزء: 16، 8/175، حدیث: 45215)
جب محمد نام رکھے تو اس کی تعظیم و تکریم کرے۔ مارنے
برا کہنے میں احتیاط رکھے۔ پیار میں چھوٹے لقب بےقدر نام نہ رکھے کہ پڑا ہوا نام
مشکل سے چھوٹتا ہے۔
احتیاط: نام محمد یا
احمد رکھیں اور پکارنے کےلیے کوئی اور اچھا نام رکھ لیں۔
(2) بچوں سے پیارو محبت: ہر
ماں پر لازم ہے کہ اپنے بچوں سے پیارومحبت کرے اور ہر معاملہ میں ان کے ساتھ
مشفقانہ برتاؤ کرے اور ان کی دلجوئی و دل بستگی میں لگی رہے اور ان کی پرورش اور
تربیت میں پوری پوری کوشش کرے۔ بچوں کو ہر قسم کے رنج و غم اور تکلیفوں سے بچاتی
رہے۔ بے زبان بچے اپنی ضروریات بتا نہیں سکتے۔ اس لئے
ماں کا فرض ہے کہ بچوں کے اشارات کو سمجھ کر ان کی ضروریات کو پوری کرتی رہے۔ (3) بچوں کی تربیت: بچے جب کچھ بولنے لگیں تو ماں کو
چاہیئے
کہ انہیں بار بار اللہ و رسول ﷺ کا نام سنائے
ان کے سامنے بار بار کلمہ پڑھے۔ یہاں تک کہ وہ کلمہ پڑھنا سیکھ جائیں۔ جب بچے
بچیاں تعلیم کے قابل ہو جائیں تو سب سے پہلے ان کو قرآن شریف اور دینیات کی تعلیم دلائیں۔ بچوں کو
اسلامی آداب و اخلاق اور دین و مذہب کی باتیں سکھائیں۔
(4) بچوں کی صحبت پر توجہ دینا: خراب
لڑکوں اور لڑکیوں کی صحبت، ان کے ساتھ کھیلنے سے بچوں کو روکیں اور کھیل تماشوں کے
دیکھنے سے، ناچ گانے، سینما تھیٹر، وغیرہ لغویات سے بچوں اور بچیوں کو خاص طور پر
بچائیں۔ اچھی باتوں کی رغبت دلائیں اور بری باتوں سے نفرت دلائیں۔
(5)بچوں کو چیزیں دینے میں حق تلفی نہ
کرنا: نیا
میوہ، نیا پھل، پہلے بچوں کو کھلائیں پھر خود کھائیں کہ بچے بھی تازہ پھل ہیں۔ نئے
پھل کو نیا پھل دینا اچھا ہے۔ چند بچے بچیاں ہوں تو جو چیزیں دیں سب کو یکساں اور
برابر دیں۔ ہر گز کمی بیشی نہ کریں، ورنہ بچوں کی حق تلفی ہوگی۔ بچیوں کو ہر چیز
بچوں کے برابر ہی دیں۔ بلکہ بچیوں کی دلجوئی و دلداری کا خاص طور پر خیال رکھیں۔
کیونکہ بچیوں کا دل بہت نازک ہوتا ہے۔

قارئین کرام! جہاں شریعت مطہرہ نے والدین کے مقام و
مرتبے کا بیان کرتے ہوئے ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہیں اولاد کے بھی
کچھ حقوق گنوائے ہیں جن کا ادا کرنا والدین کے لئے ضروری ہے اگر والدین اپنی اولاد
کی اچھی تربیت کرنا اور انہیں سچا مسلمان بنانا اور دنیا وآخرت میں کامیاب دیکھنا
اور خود بھی سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو انکے حقوق کا خیال رکھنا ہوگا۔
احادیث پاک کی روشنی میں اولاد کے حقوق بیان کرنے
کی کوشش کروں گی پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجیے:
1۔ نام کا تحفہ: سرکار
مدینہ ﷺ نے فرمایا: آدمی سب سے پہلا تحفہ اپنے بچے کو نام کا دیتا ہے لہذا اسے
چاہیے کہ اس کا اچھا نام رکھے۔ (جمع الجوامع،3/285،حدیث: 8875)
نام محمد کی برکت: حضرت
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:روز قیامت دو شخص اللہ رب
العزت کے حضور کھڑے کئے جائیں گے حکم ہو گا انہیں جنت میں لے جاؤ،عرض کریں گے:
الہی! ہم کس عمل کی بدولت جنت کے قابل ہوئے ہم نے تو کوئی کام جنت کا نہیں کیا؟ اللہ
پاک فرما ئے گا: جنت میں جاؤ میں نے قسم ارشاد فرمائی ہے کہ جس کا نام احمد یا
محمد ہوگا دوزخ میں نہ جائے گا۔ (مسند الفردوس، 2/503، حدیث: 8515)
2۔ بچوں کو بددعا مت دیجئے: حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تم نہ اپنے لیے بددعا کرو،
نہ اپنی اولاد کے لیے بددعا کرو اور نہ اپنے مالوں کے لیے بددعا کرو،ایسا نہ ہو کہ
تم وہ گھڑی پا جاؤ جس میں اللہ سے جو دعا کی جا تی ہے، مقبول ہوتی ہے،تو تمہاری
بددعا بھی قبول ہو جائے۔ (ابو داود، 2/126، حدیث: 1532)
3۔کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا: فتاوی
قاضی خان میں ہے: حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: اولاد میں سے کسی
ایک کو دوسرے پر تر جیح دینے میں کچھ حرج نہیں جبکہ اسے دوسری اولاد پر ترجیح و
فضیلت دینا دینی فضل وشرف کی وجہ سے ہو،لیکن اگر سب برابر ہوں تو پھر ترجیح دینا
مکروہ ہے۔ (بہار شریعت، 3/154، 155،حصہ :15)
4۔آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے بچے کو تین چیزیں
سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن پاک پڑھنا۔ (الصواعق المحرقہ، ص 172)
تشریح: اس حدیث پاک
سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ اپنے اہل بیت کرام سے کس قدر محبت فرماتے کہ صحابہ کرام کو
اس بات کی تعلیم فرما رہے ہیں کہ تم تو مجھ سے اور میرے اہل بیت سے محبت کرتے ہی
ہو، اپنی آنے والی نسلوں میں بھی میری اور میرے اہل بیت کی محبت پیدا کرو تاکہ ان
کا شمار بھی نجات یافتہ لوگوں میں ہو۔
5۔شادی اور میراث کا حکم:
جب اولاد جوان ہو شادی کردے،شادی میں وہی رعایت قوم ودین وسیرت و صورت ملحوظ رکھے۔
اپنے بعد مرگ بھی ان کی فکر کرے یعنی کم سے کم دو
تہائی ترکہ چھوڑ جائے، ثلث سے زیادہ خیرات نہ کرے۔

اولاد انسانی اقدار کی بقا اور تحفظ کا ذریعہ ہے انہیں
سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ یہی قوم کا مستقبل ہیں، اولاد اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت
ہے، قرآن کریم میں اس نعمت عظمیٰ کی طرف
اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: وَّ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَزْوَاجِكُمْ بَنِیْنَ وَ حَفَدَةً (پ
14، النحل: 72) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے
نواسے پیدا کیے۔
اسلام نے جیسے دوسرے حقوق العباد پر زور دیا ویسے
اولاد کے بھی حقوق بیان فرمائے۔ چند درج ذیل ہیں:
1)اچھا نام رکھنا: اچھا نام
والدین کی طرف سے اولاد کیلئے پہلا اور بنیادی تحفہ ہوتا ہے جسے وہ عمر بھر سینے
سے لگائے رکھتا ہے۔یہاں تک کہ روز حشر بھی اسی نام سے پکارا جائے گا۔ بہار شریعت
میں ہے: جو نام برے ہوں ان کو بدل کر اچھے نام رکھنے چاہئیں۔ حدیث میں ہے: قیامت
کے دن تم اپنے اور اپنے باپوں کے نام سے پکارے جاؤ گے، لہذا اپنے اچھے نام رکھو۔ (ابو
داود، 4/374، حدیث: 4948)
یہاں ان کے لیے عبرت ہے جو اپنی اولاد کے نام فلمی
اداکار یا کفار کے ناموں پر رکھتے ہیں۔ اس سے بدترین ذلت اور کیا ہوگی کہ مسلمان
اولاد کو کفار کے ناموں سے پکارا جائے۔
بچوں کے نام عبدالرحمن، عبداللہ،احمد، حامد وغیرہ
حمد کے نام یاانبیاء کرام علیہم السلام اور اپنے بزرگوں میں سے جو نیک لوگ گزرے
انکے ناموں پر اور بچیوں کے نام صحابیات و صالحات کے نام پر رکھنے چاہئیں۔
2) یکساں سلوک: اگر
چند بچے ہوں تو غذا،لباس،اور رہن سہن میں سب کے ساتھ یکساں رویہ اختیار کیا
جائے۔بلکہ بیٹیوں سے زیادہ دلجوئی رکھیں کہ ان کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ جو چیز
لائیں یکساں دیں۔ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دیں۔ (مشعلۃ الارشاد،ص 27) اور انہیں بوجھ نہ جانیں۔ قرآن کریم میں ہے: وَ اِذَا بُشِّرَ
اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّ هُوَ كَظِیْمٌۚ(۵۸) (پ
14، النحل: 58) ترجمہ کنز الایمان: اور جب ان میں کسی کو بیٹی ہونے کی خوشخبری دی
جاتی ہے تو دن بھر اس کا منہ کالا رہتا ہے اور وہ غصہ کھاتا ہے۔
معلوم ہوا کہ لڑکی پیدا ہونے پر رنج کرنا کافروں کا
طریقہ ہے۔ فی زمانہ مسلمانوں میں بھی بیٹی پیدا ہونے پر غمزدہ ہو جانے، بیٹی کی
ولادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹنے میں عار محسوس کرنے، صرف بیٹیاں پیدا ہونے کی وجہ
سے ماؤں پر ظلم و ستم کرنے اور انہیں طلاقیں دے دینے تک کی وبا عام ہے، حالانکہ
بیٹی پیدا ہونے اور اس کی پرورش کرنے کی بہت فضیلت ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے: حضور
پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کی لڑکی ہو اور وہ اسے زندہ درگور نہ کرے اور اس کی
توہین نہ کرے اور اپنے بیٹوں کو اس پر ترجیح نہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل
فرمائے گا۔
3)اچھی تربیت: تربیت کا تعلق
ذہنی اور روحانی نشونما سے ہوتا ہے۔اولاد کی اچھی تربیت کا ذمہ والدین پر ہے اور
یہ والدین کیلئے اجر کا باعث ہے، جیسا کہ بہار شریعت میں ہے: والدین کا اولاد کی
تربیت میں مشغول رہنا نوافل میں مشغولیت سے بہتر ہے۔ (بہار شریعت،6/106، حصہ: 7)
اچھی تربیت میں اولاد کو ادب سکھانا، ان میں اچھی
عادتیں اور اعلیٰ اخلاق پیدا کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
والدین کی ایک تعداد اس انتظار میں رہتی ہے کہ بچہ
بڑا ہو جائے تو اخلاقی تربیت کریں گے تو یاد رکھیں بچہ بچپن میں جو سیکھتا ہے وہ
ساری عمر ذہن میں راسخ رہتا ہے لہذا بچے کے ہوش سنبھالتے ہی تربیت شروع کر دینی
چاہے۔ بنیاد مضبوط ہو گی تو ان شاءاللہ عمارت بھی پختہ ہو گی۔ اگر اپنی اولاد کی
اچھی تربیت کریں گے اور انہیں نماز روزہ اور اس کے علاوہ دیگر احکام شرعیہ پر عمل
کرنے کا پابند بنائیں گے تو یہ اولاد دنیا میں بھی آپ کے لیے راحت اور آخرت میں
بھی بخشش کا سامان ہو گی۔
تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی مر جاتا
ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کاموں کے کہ ان کا سلسلہ
جاری رہتا ہے: (1)صدقہ جاریہ (2)وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے۔ (3)نیک اولاد جو
اس کے حق میں دعائے خیر کرے۔ (مسلم، ص 684، حدیث: 4223)
4) علم دین سیکھانا: بچوں
کو بچپن ہی سےعقائد اسلام کے متعلق علم سکھانا چاہیے۔ اسلئے کہ بچہ دین اسلام اور
حق باپ قبول کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ہے اس وقت کا بتایا پتھر کی لکیر ہوگا۔ نیز طہارت،
عبادات، تصوف، ظاہری و باطنی گناہوں کے متعلق علم سکھائیں۔ لڑکیوں کو سورہ نور اور
لڑکوں کو سورہ مائدہ سکھانی چاہیے۔ (ماخوز از مشعلتہ الارشاد،ص 25،27)
علم دین حاصل کرنے کی فضیلت بھی بہت زیادہ ہے۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو تلاش علم میں نکلا وہ واپسی تک اللہ کی راہ میں
ہے۔ (مراۃ المناجیح،1/220)
5)حق میراث: اولاد کے حقوق
میں سے ایک اہم حق میراث کا ہے۔ اسلام نے اولاد کو والدین کی جائیداد میں نہ صرف
شریک کیا بلکہ انکے حصے بھی متعین کیے۔ چنانچہ اللہ رب العزت فرماتا ہے: یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ
اَوْلَادِكُمْۗ-لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِۚ-(پ
4، النساء: 11) ترجمہ کنز العرفان: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے
میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر۔ اس آیت سے میراث میں بیٹیوں کا حصہ بھی ثابت
ہوتا ہے۔ بیٹیاں اپنے حصے کا مطالبہ نہ کریں، تب بھی ان کا شرعی حصہ دینا ضروری ہے،
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے شریعت میں ان کا حصہ مقرر کیا ہے۔انکو انکے شرعی حصے سے
محروم کرنا شدید جرم ہے۔
اسی طرح بعض اپنے کسی بیٹے کو عاق کر دیتے ہیں یا
کہہ دیتے ہیں کہ ہماری میراث سے اسے کچھ نہ دیا جائے یہ محض بے کار ہے اس سے وہ
وارث محروم نہ ہوگا۔ حدیث پاک میں ہے رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنے وارث کو اس
کی میراث سے محروم کرے۔ تو الله اس کو قیامت کے دن جنت کی میراث سے محروم کر دے
گا۔ (ابن ماجہ، 3/304، حدیث: 2703)
اللہ پاک ہمیں اولاد کے حقوق ادا کرنے کی توفیق دے
اور اولاد کو انکے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔

بہاولپور، پنجاب میں قائم مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ میں پچھلے دنوں ایک مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں بہالپور ڈسٹرکٹ کے
تحصیل نگران و ڈسٹرکٹ ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ بہاولپور میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں ذیلی شعبہ فیضانِ مدینہ و امام مساجد کے
ڈسٹرکٹ اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے ڈویژن ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی شرکت ہوئی۔
اس میٹنگ میں نگرانِ بہاولپور ڈویژن ڈاکٹر حافظ
عبد الرؤف عطاری شعبے کے متعلق کلام کرتے ہوئے ماہانہ آمدن و اخراجات کا جائزہ لیا
اور شعبے کو خود کفیل کرنے کے حوالے سے اہداف دیئے۔
اسی دوران نگرانِ بہاولپور ڈویژن نے رمضانُ المبارک میں زیادہ سے زیادہ ڈونیشن جمع کرنے، شخصیات
سے ملاقات کرنے، 12 دینی کاموں کو بڑھانے اور ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت
کرنے کا ذہن دیا۔

مدنی مرکز فیضانِ مدینہ بہاولپور میں گزشتہ روز
شعبہ خدام المساجد و المدارس المدینہ کے ڈسٹرکٹ اور پراپرٹی اینڈ کنسٹرکشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈویژن ذمہ دار اسلامی
بھائیوں کا مدنی مشورہ ہوا۔
معلومات کے مطابق نگرانِ بہاولپور ڈویژن ڈاکٹر
حافظ عبد الرؤف عطاری نے شعبے کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے خالی پلاٹس میں مساجد و مدارس
المدینہ کی تعمیرات کرنے کے اہداف دیئے۔
اس کے علاوہ نگرانِ بہاولپور ڈویژن نے رمضانُ
المبارک میں زیادہ سے زیادہ عطیات کرنے، شخصیات سے ملاقات کرنے، 12 دینی کاموں کو
بڑھانے اور ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کا ذہن دیا۔
آخر میں وہاں موجود ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے
اپنے اپنے شعبوں سے متعلق مسائل بیان کئے جس کا انہیں حل بتایا گیا جبکہ دینی
کاموں میں مزید ترقی کے لئے اسلامی بھائیوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: احمدرضا عطاری ڈویژن میڈیا ڈیپارٹمنٹ ، کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)