عبادت کی تعریف:عبادت اُس انتہائی تعظیم کا نام ہے جو بندہ اپنی عبدیت یعنی بندہ ہونے اور معبودکی اُلوہیت یعنی معبود ہونے کے اعتقاد اور اعتراف کے ساتھ بجالائے۔یہاں عبادت توحید اور اس کے علاوہ اپنی تمام قسموں کو شامل ہے۔کافروں کو عبادت کا حکم اس معنیٰ میں ہے کہ وہ سب سے بنیادی عبادت یعنی ایمان لائیں اور اس کے بعد دیگر اعمال بجالائیں۔

لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ملتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو ۔(صراط الجنان،1/85)

(1)فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:حق اور باطل کے درمیان نماز کا فرق ہے۔

(2) قیامت کا سب سے پہلا سُوال: سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیضِ گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اِرشادِ حقیقت بنیاد ہے: قِیامت کے دن بندے کے اَعمال میں سب سے پہلے نماز کا سُوال ہو گا۔ اگر وہ دُرُست ہوئی تو اس نے کامیابی پائی اور اگر اس میں کمی ہوئی تو وہ رُسوا ہوا اور اس نے نقصان اُٹھایا۔(نماز کے احکام،ص 174)

(3) اوقات نمازِ عصر:حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نمازِ عصر قائم کی حالانکہ آفتاب بلند سفید اور صاف تھا۔(مسلم،حدیث:613)

رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز عصر پڑھتے تھےاور آفتاب بلند (زردی کے بغیر روشن) ہوتا تھا۔اگر کوئی شخص نمازِ عصر کے بعد مدینہ منورہ شہر سے "عوالی" (مدینہ کی نواحی بستیاں) جاتا تو جب ان کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا۔یہ بھی فرمایا کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے حتّٰی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ آجائے(یعنی غروب ہونے کے قریب ہوجائے تو کھڑا ہو کر چار چونچیں مارے کہ ان میں اللہ کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔(مسلم،حدیث:622)

(4) نمازِ عصر کے فوت ہونے کا گناہ: حضرتِ سیِّدُنا اَبُو الْمَلِیْح رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں : ایک ایسے روز کہ بادَل چھا ئے ہو ئے تھے، ہم صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنابُرَیْدَہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو کیو نکہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضَبط ہوگیا۔

(5)نماز عصر کی فضیلت کے بیان میں: حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:555)


(1) حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: جس نے دو ٹھنڈی نمازیں پڑھی ، وہ جنت میں داخل ہوگا۔(بخاری،2/474)

(2) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔(مسلم،4/238)

(3) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (یعنی Double) اجر ملے گا۔( مسلم، ص322،حدیث:1927)

(4) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،2/445،حدیث:555)

(5) حضرتِ سیِّدُنابُرَیْدَہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضَبط ہوگیا۔(بخاری ،2/442،حدیث: 553)


(1) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (فیضانِ نماز،ص99)

(2) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (یعنی Double) اجر ملے گا۔ (فیضانِ نماز،ص 100)

(3) آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے، جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ۔ (فیضانِ نماز،ص 109)

(4) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے، اُسے آگ نہ چھوئے گی۔ (فیضانِ نماز،ص 109)

(5) حضرت سیِّدُناجریر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :ہم حضورِ پاک صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضِر تھے، آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چو دھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے ربّ کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نمازِ فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو۔ پھر حضرتِ سیِّدُناجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیتِ مبارَکہ پڑھی: وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ ترجمہ کنزالایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(پ 16، طٰہٰ: 130)( فیضانِ نماز،ص100)


محمد اریب (درجہ ثالثہ،جامعۃ المدینہ فیضان کنز الایمان کراچی،پاکستان)

Tue, 12 Apr , 2022
2 years ago

نماز دین کے پانچ ستونوں میں سے دوسرا ستون ہے۔ مسلمان عاقل، بالغ، مرد و عورت پر دن میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔نماز کے متعلق حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہیں۔جیسا کہ احادیث مبارکہ کے مفہوم ہیں:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔اور ایک جگہ فرمایا: جس نے نماز کو قائم کیا ،اس نے دین کو قائم اور جس نے اسے ڈھا دیا ،اس نے دین کو ڈھا دیا۔

ان پانچ نمازوں میں سے ایک نماز، نمازِ عصر ہے،جو کہ اہمیت کی حامل ہے،اس کی فضیلت احادیث مبارکہ سے واضح ہیں:

(1) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (فیضانِ نماز،ص98)

(2) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (فیضانِ نماز،ص99)

(3) حضرت سیِّدُناجریر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :ہم حضورِ پاک صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضِر تھے، آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چو دھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے ربّ کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نمازِ فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو۔( فیضانِ نماز،ص100)

(4) تابعی بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنا اَبُو الْمَلِیْح رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں : ایک ایسے روز کہ بادَل چھا ئے ہو ئے تھے، ہم صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنابُرَیْدَہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو کیو نکہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضَبط ہوگیا۔( فیضانِ نماز،ص104)

(5) حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِعصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے) گئے ۔(فیضانِ نماز،ص 106)

محترم قارئین ! حدیث 3،2،1 سے نماز عصر پڑھنے کے اجر و ثواب کا پتہ چلتا ہے کہ نماز عصر پڑھنا کتنے اجر اور فضیلت کا سبب ہے، جہنم سے حفاظت، اللہ کا دیدار اور ثواب کو دگنا کرنے کا ذریعہ نماز عصر کی ادائیگی ہے۔ جبکہ نہ پڑھنے کی تباہ کاریاں کم نہیں۔ حدیث 5،4 کے مطابق اہل و عِیال و مال کے چھن جانے اور عمل کے ضبط ہونے کی عید ہے۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ آج لوگوں کے گھر والوں اور مال میں برکت نہ رہی جس کو دیکھے واہ بے بسی، بے سکونی اور بے برکتی کا رونا رو رہا ہے۔ کہیں اس کی وجہ ترکِ نمازِ عصر تو نہیں ، کیونکہ اس کا وقت بھی کم ہوتا ہے اور بندہ مصروف بھی ہوتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عصر کی نماز کی حفاظت کریں اور اہتمام کے ساتھ قائم کرے۔ اللہ ہمیں توفیق دے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )

تفسیر: مفتی قاسم عطاری صاحب نگہبانی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہمیشہ نماز پڑھنا ،با جماعت پڑھنا، درست پڑھنا ،صحیح وقت پر پڑھنا سب داخل ہیں۔ درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری میں ہےنماز وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔(تفسیر صراط الجنان)

حدیث نمبر (1) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:555)مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نماز ایک اعلیٰ عبادت ہے۔ نمازِ فجر اور عصر دیگر نمازوں کے مقابلے میں اعظم ( یعنی عظمت والے) ہیں۔ ان دونوں اوقات کے زیادہ عظمت وبزرگی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ فجر کی نماز کے بعد رزق تقسیم ہوتا ہے جبکہ دن کے آخری حصے ( یعنی عصر کے وقت) میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں۔ تو جو شخص ان دونوں وقتوں میں مصروف ِ عبادت ہوتا ہے اس کے رزق و عمل میں برکت دی جاتی ہے ۔(مرآۃ المناجیح)

حدیث نمبر (2) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :ایک یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہ جائے گا، اگر گیا تو عارِضی (یعنی وقتی )طور پر۔ دوسرے یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو اِنْ شَآءَاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں ۔

حدیث نمبر (3) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (یعنی Double) اجر ملے گا ۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)شرح:پہلا اَجر پچھلی اُمتوں کے لوگوں کی مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسراا جر عصر کی نماز پڑھنے پر ملے گا جس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے ۔(مرآۃ المناجیح۔3/139)

حدیث نمبر (4) صحابی ابنِ صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِعصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے) گئے ۔(بخاری ،1 /202 ،حدیث: 552)

حدیث نمبر (5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے ہی کو ملامت کرے۔(مسند ابو یعلیٰ،4/278،حدیث:4897)


 مالک کریم کی رحمت سے ہمیں جو لاتعداد نعمتیں عنایت ہوئی ہیں ان میں سے نماز بھی ایک عظیم نعمت ہے۔شیخ الاسلام و المسلمین امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاوی رضویہ شریف میں فرماتے ہیں کہ نمازِ پنجگانہ رب العالمین کی وہ نعمت عظمی(بہت بڑی نعمت) ہے کہ اس نے اپنے کرم عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی ہم سے پہلے کسی امت کو نہ ملی ۔(فتاوی رضویہ شریف، 5/43، رضا فاؤنڈیشن لاہور )

قرآن کریم و احادیث نبویہ میں بھی نماز کی اہمیت و فضیلت کو جگہ بہ جگہ ذکر کیا گیا اور نماز نہ پڑھنے والوں کے لئے وعید بھی ذکر کی گئی ہے ۔ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ۔

حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-ترجمئہ قرآن کنزالعرفان : تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی۔(پ2،بقرہ:238 )

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ فرماتے ہے کہ اس سے مراد نماز عصر ہی ہے۔(تفسیر نعیمی، 2 / 515)

سب سے افضل نماز:فیض القدیر میں ہے کہ پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نماز عصر ہے پھر نماز فجر پھر عشاء پھر مغرب پھر ظہر ۔ (فیض القدیر ، 2 / 53 )

نمازِ پنجگانہ کے کثیر فضائل قرآنِ پاک و احادیث طیبہ میں مذکور ہیں راقم السطور یہاں مدینہ کے پانچ حروف کی نسبت سے صرف نماز عصر کے متعلق پانچ احادیث پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

مدینہ کے پانچ حروف کی نسبت سے پانچ احادیث مبارکہ:

(1) حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم رسول اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کریگا اسے دگنا اجر ملے گا ۔( فیضان نماز،ص 104)

(2) حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا جس نے سورج طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے ) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی فجر و عصر کی نماز پڑھی) وه ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (فیضان نماز،ص 99)

شرح حدیث:اس حدیث مبارکہ کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مراۃالمناجیح میں دو مطلب ذکر فرمائیں ہیں جس میں سے ایک راقم یہاں ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہے : آپ رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو انشاءاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملی گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی کیونکہ یہی نمازیں زیادہ بھاری ہیں جب ان پر پابندی کرلی تو ان شاءاللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا ۔ ( مرآۃالمناجیح شرح مشکاۃ المصابیح، 1 / 371)

(3) حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو فرماتے سنا کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا ہے حتی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ آجائے (یعنی غروب ہونے کے قریب ہوجائے ) تو کھڑا ہوکر چار چونچیں مارے کہ ان میں اللہ پاک کا تھوڑا ہی ذکر کرے ۔ ( فیضان نماز،ص 108)

(4) حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی سرور کائنات صلی اللہ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا :جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں ( فیضان نماز ،ص107)

(5) امام احمد ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں: تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں وہ فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر وہ اوپر چلے جاتے ہیں جنہوں نے تمہارے پاس رات گزاری ہوتی ہے تو اللہ پاک ان سے پوچھتا ہے جبکہ وہ فرشتوں سے بہتر نمازیوں کے حالات کو جانتا ہے تم میرے بندوں کو کس کیفیت میں چھوڑ کر آئے ہو ؟ وہ کہتے ہیں کہ اب بھی ہم ان کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں اور ہم ان کے پاس گئے تھے وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔ (بخاری شریف مترجم ، 1 / 287)

نماز ہمارے لئے انعام ہے:قبلہ سیدی امیر اہلسنت زیدشرفہ فرماتے ہیں کہ صد کروڑ افسوس! آج اکثر مسلمانوں کو نماز کی بلکل پروا نہیں رہی ہماری مسجدیں نمازیوں سے خالی نظر آتی ہیں ۔ اللہ پاک نے نماز فرض کر کے ہم پر احسان عظیم فرمایا ہے ہم تھوڑی سی کوشش کریں نماز پڑھیں تو اللہ کریم ہمیں بہت سارا اجرو ثواب عنایت فرماتا ہے۔ (فیضان نماز، ص 8)

اللہ پاک ہمیں بھی تمام نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


ایمان و تصحیح عقائد ( یعنی درست عقیدوں) مطابقِ مذہب اہل سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں  نہایت اہم فرض ہے ۔ قرآن مجید و احادیث نبی کریم علیہ الصلٰوۃ والتسلیم اس کی اہمیت سے مالا مال ہیں ،جا بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین (یعنی نماز نہ پڑھنے والوں) پر وعید فرمائی۔

یہ ایک عظیم الشان نعمت ہے اور نماز ہمارے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو تحفہ میں ملی ہے تو قدر کرنی چاہیے اور یہ تحفہ بھی ایسا کمال کا ہے کہ رہتی دنیا بلکہ تا قیامت نہ کسی کو ملا ہے نہ ہی کسی کو ملے گا کیونکہ یہ خاص ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو ہی ملا ہے۔

یاد رکھیں نماز ہر مکلّف یعنی عاقِل بالغ پر نما ز فرض عین ہے اس کی فرضیت کا منکر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے۔ اور جو قصداً (یعنی جان بوجھ کے) نماز چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی وہ فاسِق ہے اور جو کوئی جان بوجھ کر ایک نماز قضا کرے گا وہ جہنم میں جائے گا چنانچہ ابو نعیم ابو سعید رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے قصداً نماز چھوڑی، جہنم کے دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔ (بہار شریعت، 1/ 441)

صحیحین میں نوفل بن معاویہ رضی اﷲ عنہ سے مروی، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جس کی نماز فوت ہوئی گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔لہذا نماز کی پابندی کریں۔

جس جگہ پے نماز کی وعیدیں ہیں تو اس جگہ اس کے فوائد بھی ہیں تو پہلے کچھ نماز کے فوائد پڑھ لیتے ہیں تاکہ نماز پڑھنے کو دل کرے ۔

نماز کے بہت سے دینی فوائد ہیں جیسے :مولیٰ کائنات کی رِضا اور اس سے قریب پہنچاتی ہے ،شیطان کو دور بھگاتی ہے اور شفاعتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور دنیاوی بھی کافی فوائد جیسے: بیماری دور ہوتی ہے، دل کی قوت اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ لیکن اتنے فائدے ہیں کہ بندہ شمار ہی نہیں کر سکتا۔

اہمیت :اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ عصر کے وقت لوگ کاروبار میں یا پھر فضول کاموں میں لگے ہوئے ہوتے ہیں یا پھر کھیل کھود میں لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن فقط کچھ منٹ رب کے حضور کھڑے نہیں ہوسکتے۔ الآمان و الحفیط یاد رکھیں قرآن و حدیث میں نماز عصر اہمیت و فضلیت بیان کی گئی ہے، کیونکہ نماز عصر دیگر نمازوں رکے مقابلہ میں اعظم (یعنی زیادہ عَظَمت والی) ہے۔ چنانچہ اللہ پاک خود قرآنِ مجید میں پارہ 2 سورہ البقرۃ آیۃ نمبر 238 میں ارشاد فرماتا ہے: حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )

درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے اور اکثر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی قول ہے۔

تو پتا چلا کہ نماز عصر کی کافی اہمیت ہے۔ آئیں مزید نماز عصر پر ابھارنے اور اس کی فضیلت پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھتے ہیں:۔

(1) حضرت سیدنا ابو بَصْرَہ غِفارِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا : یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اس کو ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں : یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے، تم ان سے عبرت پکڑنا ۔(فیضانِ نماز۔ ص 104)

دگنے اجر کی وجوہات:پہلا اَجر پچھلی اُمتوں کے لوگوں کی مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسراا جر عصر کی نماز پڑھنے پر ملے گا جس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے یا پھر پہلا اَجر عبادت پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اَجر قناعت کرتے ہوئے خرید و فروخت چھوڑنے پر ملے گا، کیونکہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں ۔

(2) حضرت سیدنا عُمَارَہ بن رُوَیْبَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (فیضانِ نماز، ص 99)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ فجروعصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہ جائے گا، اگر گیا تو عارضی (یعنی وقتی) طور پر۔ لہٰذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ بعض لوگ قیامت میں نمازیں لے کر آئیں گے مگر ان کی نمازیں اہل حقوق (یعنی جن کے حقوق پامال کئے ہوں گے اُن) کو دلوادی جائیں گی۔ دوسرا یہ کہ فجروعصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاء اللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گا اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں۔ جب ان پر پابندی کرلی تو ان شاء اللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا۔ لہٰذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ نجات کے لئے صرف یہ دو نمازیں ہی کافی ہیں باقی کی ضرورت نہیں۔ خیال رہے کہ ان دو نمازوں میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔ نیز یہ دن کے کناروں کی نمازیں ہیں۔ نیز یہ دونوں نفس پر گراں (یعنی بھاری) ہیں کہ صبح سونے کا وقت ہے اور عصر کاروبار کے فروغ (یعنی زوروشور) کا۔ لہٰذا ان (نمازوں) کا درجہ زیادہ ہے۔

(3)صحابی ابن صحابی حضرت سیدنا عبداللہ بن عُمَر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کی نماز عصر نکل گئی (جان بوجھ کر نماز عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال و مال ’’وتْر “ ہو (یعنی چھین لئے) گئے۔ (فیضانِ نماز ،ص 106)

حضرت علامہ ابو سُلَیمان خطّابی شافِعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وتْر کا معنی ہے” نقصان ہونا یا چھن جانا “ پس جس کے بال بچے اور مال چھن گئے یا اس کا نقصان ہوگیا گویا وہ اکیلا رہ گیا، لہذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے (یعنی برباد ہونے) ڈرتا ہے۔ (فیضانِ نماز ،ص 106)

(4)حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں، پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک کے اس حصے (فجروعصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں) کے تحت فرماتے ہیں : یہاں فرشتوں سے مراد یا تو اعمال لکھنے والے دو فرشتے ہیں یا انسان کی حفاظت کرنے والے ساٹھ فرشتے، ہر نابالغ کے ساتھ 60 فرشتے رہتے ہیں اور بالغ کے ساتھ62۔اسی لیے نماز کے سلام اور دیگر سلاموں میں ان کی نیت کی جاتی ہے، ان ملائکہ کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔

دن میں اور رات میں مگر فجروعصر میں پچھلے فرشتے جانے نہیں پاتے کہ اگلے ڈیوٹی والے آجاتے ہیں تاکہ ہماری ابتدا و انتہا (یعنی شروع کرنے اور ختم کرنے کی کیفیت) کے گواہ زیادہ ہوں اس حصے (اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں) کے تحت لکھتے ہیں : اپنے "ہیڈکوارٹر" کی طرف جہاں ان کا مقام ہے۔ مفتی صاحب حدیث پاک کے اس حصے (ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے) کے تحت تحریر کرتے ہیں : اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فرشتے نمازیوں کی پردہ پوشی کرتے ہیں کہ آس پاس کی نیکیوں کا ذکر اور درمیان کے گناہوں سے خاموشی یا یہ مطلب ہے کہ اے مولا ! جن بندوں کی ابتدا و انتہا (یعنی شروعات اور ختم ہونے کی کیفیت) ایسی ہو اس میں ہمیشہ ہی رہتی ہے(فیضانِ نماز ،ص 98)

(5) حضرت ابن مَسْعُود اور سُمرَہ ابن جُندُب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : بیچ کی نماز عصر پڑھو۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ نماز دن اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے نیز اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں اور اس وقت دنیوی کاروبار زور پر ہوتا ہے اس لیے اس کی تاکید زیادہ فرمائی گئی ہے اور اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی قول ہے۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوہ المصابیح ،1/ 375)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نمازِ عصر میں جلدی کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قولہ تعالیٰ حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )حضرت امام ابوحنیفہ اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا مذہب یہ ہے کہ اس سے عصر کی نماز مراد ہے اور احادیث مبارکہ اس پر دلالت کرتی ہیں۔

احادیث مبارکہ

(1)حضرت سیدنا ابو بصرہ غفاری رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نماز عصر سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اس ضائع کردیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کریگا اس دگنا اجر ملے گا۔(مشکوٰۃ شریف، جلد 2 ،حدیث : 273)

شرح: یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے تم ان سے عبرت پکڑنا ایک نماز پڑھنے کا اور دوسرے یہود و نصاریٰ کی مخالفت کا وہ بھی عبادت ہے۔

(2️) روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس کی نماز عصر جاتی رہی گویا اس کا گھر باراورمال لٹ گیا۔(مشکوٰۃ شریف، جلد 1 ،حدیث : 557) شرح: یعنی جیسے اس شخص کو وہ نقصان پہنچا جس کی تلافی نہیں ہو سکتی ایسے ہی عصر چھوڑنے والے کوناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

(3)روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن فرمایا انہوں نے ہمیں بیچ کی نماز یعنی نماز عصر سے روک دیا خدا ان کے گھر اور قبریں آگ سے بھردے۔(مشکوٰۃ شریف، جلد 1 ،حدیث :595)

(4)حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی ﷲ نے فرماتے ہیں کہ میں نے مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کی جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی (فجر و عصر کی نماز پڑ ھی) وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا ۔ (فیضان نماز ،ص99/100)

(5)تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابوالملیح رحمۃاللہ علیہ بیان کرتےہیں ایک ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے، ہم صحابی رسول حضرت سیدنا بریده رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا: نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نےارشادفرمایا ہے کہ جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہو گیا۔

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: غالباً عمل سے مراد وہ دنیوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے نماز عصر چھوڑی اور ضبطی سے مراد اس کام کی برکت کا ختم ہونا۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو عصر چھوڑنے کا عادی ہو جائے اس کے لیے اندیشہ ( یعنی خطرہ ہے) کہ وہ کافر ہو کر مرے، جس سے اعمال ضبط ہو جائیں،(البتہ ) اس کا مطلب یہ نہیں کہ عصر چھوڑنا کفر و ارتداد ہے۔(فیضان نماز، ص 104 /105)


اللہ پاک نے قرآن مجید میں خاص طور پر  صلاۃ الوسطی یعنی نماز عصر کی حفاظت کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صلاۃ الوسطی سے مراد نماز عصر ہے۔( تفسیر طبری، البقرۃ:238، 2/569،حدیث: 5385)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں نماز عصر کے بہت فضائل بیان ہوئے ہیں ،آئیے چند فضائل ملاحظہ کیجئے،

پہلی حدیث مبارکہ حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجرو عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں ،پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔( صحیح البخاری ،کتاب المواقیت،باب فضل صلاۃالعصر، 1/203 ، حدیث:555)

دوسری حدیث مبارکہ حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نَماز یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی،وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔( صحیح مسلم،باب فضل صلاتی الصبح۔۔۔الخ، ص250، حدیث :634)

تیسری حدیث مبارکہ حضرت سیِّدُنا ابو بَصْرَہ غِفارِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یہ نمازیعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائِع کردیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کریگا اسے دُگنا (یعنی Double) اَجر ملے گا۔( صحیح مسلم،کتا ب صلوۃ المسافرین وقصرھا ،باب الاوقا ت ،ص414،حدیث:830)

چوتھی حدیث مبارکہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِعصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے) گئے۔( صحیح بخاری ،کتاب المواقیت،باب اثم من فاتتہ العصر،ج1،ص202،حدیث:552)

پانچویں حدیث مبارکہ حضرت سیِّدُناجابر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رحمت ِ عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ مُعَظَّم ہے: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اُسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے: مجھے چھوڑ و میں نماز پڑھ لوں ۔( سنن ابن ماجہ، کتاب الزہد ، باب ذکر القبر و البلی ، الحدیث : 4272، ص2736)


اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے ۔(پ2،بقرہ:238 )

درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری میں ہے:نماز وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔ (بخاری، کتاب الدعوات)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے درج ذیل حدیثِ مبارکہ میں فجر اور عصر کی نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والوں کو نارِ دوزخ سے رہائی کی بشارت عطا فرمائی فرمایا:

لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا يَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ. ترجمہ:جس نے سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور اس کے غروب ہونے سے قبل یعنی فجر اور عصر کی نماز ادا کی وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔(مسلم شریف کتاب المساجد و مواضع الصلٰوة، باب فضل صلاتی الصبح والعصر)

نمازِ عصر کی تاکید و فضیلت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَن تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ. ترجمہ:جس نے نمازِ عصر چھوڑی اس کے عمل باطل ہو گئے۔‘‘(بخاری، کتاب مواقيت الصلٰوة)

حضرت فضالہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :علَّمَني رسولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم، فكان فيما عَلَّمَني: وحافِظْ على الصلواتِ الخمسِ. قال: قلتُ: إن هذه ساعاتٌ لي فيها أشغالٌ، فمُرْنِي بأمرٍ جامعٍ إذا أنا فعَلْتُه أجزَأَ عنِّي. فقال: حافِظْ على العَصْرَيْنِ، وما كانت مِن لُغَتِنا. فقلتُ وما العَصْرانِ؟ فقال: صلاةٌ قبلَ طلوع ِالشمسِ، وصلاةٌ قبلَ غروبِها. ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا: یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں ، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجئے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عصرین پر محافظت کرو ، عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے ( فجر اور عصر ) (سنن أبی داود:428)

جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: إنَّكم ستُعرَضونَ على ربِّكم فترَونَه كما ترونَ هذا القمرَ لا تُضامونَ في رؤيتِه ، فإن استطعتُم أن لا تُغلَبوا على صلاةٍ قبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وصلاةٍ قبل غروبِها فافعَلوا . ثمَّ قرأ: وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِۚ(۳۹) ۔ ترجمہ:تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے۔(پ 26۔قٓ:39)(صحيح ترمذي:2551)


سب خوبیاں اللہ پاک کے لئے جس نے اپنے لطف و کرم سے بندوں کو ڈھانپا، دین اور احکام دین کے انوار سے ان کے دلوں کو آباد فرمایا۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک نعمت نماز ہے۔ بے شک نماز دین کا ستون، یقین کا وسیلہ ،عبادات کی اصل اور طاعت کی چمک ہے۔ جس کو ادا کرنے سے ہمارے گناہ صغیرہ معاف ہوتے ہیں۔ اور کبیرہ گناہوں سے بچاتی ہے۔ اور منافقین سے فرق واضح کرتی ہے۔ رزق میں برکت ہوتی ہے۔ ہماری قبر کو روشن کرے گی اور عذاب قبر سے بچائے گی اور بروز قیامت اللہ پاک کا دیدار نصیب ہوگا۔ اللہ پاک نے مسلمانوں پر پانچ نمازیں فرض فرما کر یقینا ًاحسان عظیم فرمایا ہے۔ انہی نمازوں میں نماز عصر کی اہمیت و فضیلت اجاگر کرنے کے لیے پانچ فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو:۔

(1) حضرت سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم، ص 322،حدیث: 1927)

(2)حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز جہنم میں داخل نہیں نہ ہوگا۔(مسلم، ص 250،حدیث:1436)

(3)حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیں کہ مدینے کے تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں. اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے. تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:555)

(4)تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں ایک ایسے روز کے بادل چھائے ہوئے تھے، ہم صحابی رسول حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہو گیا۔ (بخاری ،1/203،حدیث:553)

(5)صحابی ابن صحابی حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے نبی، رسول ہاشمی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی نماز عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نماز عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال وہ مال "وتر" ہو (یعنی چھین لیے) گئے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:552)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب مسلمانوں کو پانچ وقت کا نمازی بنائے، حضور علیہ الصلوۃ والسلام اور صحابہ و اہل بیت علیہم الرضوان کا عاشق بنائے، ان کا با ادب بنائے، خاتمہ بالخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(نوٹ: یہ مضمون امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب فیضان نماز کی مدد سے لکھا گیا ہے)


اسلام میں عقائدِ مذہبِ اہل سنت کی تصحیح کے بعد سب سے پہلا فرض نماز ہے۔ قرآنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں بار بار نماز کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

نماز کو آقائے دوجہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا، حجَّۃُ الْودَاع کے خطبے میں بھی لوگوں کو اس کی پابندی کرنے کی تاکید فرمائی۔ ہر مسلمان پر پانچ وقت کی نماز پڑھنا فرض ہے۔ ان میں سے ایک نمازِ عصر بھی ہے۔عصر کا معنیٰ ہے"دن کا آخری حصہ" چونکہ یہ نماز اسی وقت میں ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو عصر کی نماز کہا جاتا ہے۔ چنانچہ نماز عصر کی فضیلت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں۔

(1) حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

(2) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:555)

(3) حضرت سیِّدُناجریر بن عبدُاللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :ہم حضورِ پاک صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضِر تھے، آپ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چو دھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے ربّ کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نمازِ فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو۔ پھر حضرتِ سیِّدُناجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیتِ مبارَکہ پڑھی:وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ ترجمہ کنزالایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(پ 16، طٰہٰ: 130)(مسلم، ص239 ،حدیث: 1434ملخصاً)

(4)حضرت سیدنا ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کریگا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)

(5) صحابی ابن صحابی حضرت سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی نماز عصر نکل گئی گویا اس کے اہل و عیال و مال"وتر" ہو(یعنی چھین لئے)گئے۔(بخاری ،1/202،حدیث: 552)