محمد منور عطاری( درجہ دورة الحدیث شریف مرکزی جامعۃ المدینہ
گجرات ،پاکستان)
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ
الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ
کی نماز کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب
سے ۔(پ2،بقرہ:238 )
درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، درمیانی نماز سے
مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری میں ہے:نماز وسطیٰ سے مراد عصر کی نماز ہے۔
(بخاری، کتاب الدعوات)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے درج ذیل حدیثِ
مبارکہ میں فجر اور عصر کی نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والوں کو نارِ دوزخ
سے رہائی کی بشارت عطا فرمائی فرمایا:
لَنْ
يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلَّی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَا
يَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ. ترجمہ:جس نے سورج
کے طلوع ہونے سے قبل اور اس کے غروب ہونے سے قبل یعنی فجر اور عصر کی نماز ادا کی
وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔(مسلم شریف کتاب المساجد و مواضع الصلٰوة، باب فضل
صلاتی الصبح والعصر)
نمازِ عصر کی تاکید و فضیلت کا اندازہ اس حدیث پاک سے بھی
لگایا جا سکتا ہے جس کے بارے میں حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَن
تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ. ترجمہ:جس نے نمازِ عصر چھوڑی اس کے عمل باطل ہو گئے۔‘‘(بخاری، کتاب مواقيت
الصلٰوة)
حضرت فضالہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :علَّمَني رسولُ اللهِ صلى الله عليه
وسلم، فكان فيما عَلَّمَني: وحافِظْ على الصلواتِ الخمسِ. قال: قلتُ: إن هذه
ساعاتٌ لي فيها أشغالٌ، فمُرْنِي بأمرٍ جامعٍ إذا أنا فعَلْتُه أجزَأَ عنِّي.
فقال: حافِظْ على العَصْرَيْنِ، وما كانت مِن لُغَتِنا. فقلتُ وما العَصْرانِ؟ فقال: صلاةٌ قبلَ طلوع ِالشمسِ، وصلاةٌ قبلَ
غروبِها. ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جو باتیں
سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا: یہ ایسے
اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں ، آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم
دیجئے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا: عصرین پر محافظت کرو ، عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے
میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نماز: ایک سورج
نکلنے سے پہلے، اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے ( فجر اور عصر ) (سنن أبی داود:428)
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: إنَّكم
ستُعرَضونَ على ربِّكم فترَونَه كما ترونَ هذا القمرَ لا تُضامونَ في رؤيتِه ، فإن
استطعتُم أن لا تُغلَبوا على صلاةٍ قبلَ طُلوعِ الشَّمسِ وصلاةٍ قبل غروبِها
فافعَلوا . ثمَّ قرأ: وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ
قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِۚ(۳۹) ۔ ترجمہ:تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اور اسے
اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو، اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں
ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز (فجر) اور
سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز (عصر) سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا
ضرور کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی ۔ ترجمۂ کنزالایمان:
اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور ڈوبنے سے
پہلے۔(پ 26۔قٓ:39)(صحيح ترمذي:2551)