نماز ہى مسلمان اور کافر مىں فرق کرتى ہے۔دن رات مىں پانچ نمازىں فرض ہىں۔پانچوں نمازوں کے ساتھ نمازِ عصر کا ذکر خصوصاً قرآنِ پاک مىں آىا ہے۔قرآنِ پاک مىں صلوۃِ وُسطى(ىعنى درمىانى نماز)کے متعلق ربِّ کریم نے ارشاد فرماىا:ترجمۂ کنزالعرفان:تمام نمازوں کى پابندى کرو اور خصوصاً درمىانى نماز کى اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔(البقرۃ: 238)نمازِ عصر کى اہمىت و فضىلت پر فرامىنِ مصطفٰے مندرجہ ذىل ہىں۔1:حضرت ابوہرىرہ رضی اللہ عنہ بىان کرتے ہىں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:رات اور دن کے فرشتے تمہارے پاس بارى بارى آتے ہىں اور صبح اور عصر کى نماز مىں ان کا اجتماع ہوتا ہے، پھر ڈىوٹى کے اعتبار سے اوپر چلے جاتے ہىں،پھر ان کا ربِّ کریم ان سے درىافت کرتا ہے، حالانکہ وہ ان سے زىادہ جاننے والا ہے کہ تم مىرے بندوں کو کس حال مىں چھوڑ کر آئے ہو؟فرشتے عرض کرتے ہىں:ہم جب ان کے پاس سے گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کےپاس پہنچے تووہ نماز پڑھ رہے تھے۔( مصنفہ امام المحدثىن ، ابوالحسىن مسلم بن الحاج القشىرى ،مسلم جلد 1، باب صبح اور عصر کى نماز کى فضىلت اور ان کى حفاظت، حدىث نمبر 1430، ص 457) 2:حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ بىان کرتے ہىں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب سے پہلے نماز پڑھى وہ دوزخ مىں نہىں جائے گا۔3: ابوبکرہ کے والد رَضِىَ اللہُ عنہ بىان کرتے ہىں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے دو ٹھنڈى نمازىں(عصر اور فجر) پڑھىں وہ جنت مىں جائے گا۔ 4: فرمانِ مصطفٰےصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :جب مردہ قبر مىں داخل ہوتا ہے اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے، وہ آنکھىں ملتا ہوا اٹھ بىٹھتا ہے اور کہتا ہے:( دعونى اصلى) ذرا ٹھہرو! مجھے نماز تو پڑھ لىنے دو۔حکىم الامت مفتى احمد ىار خان نعىمى رحمۃ اللہ علیہ اس حدىثِ پاک کے اس حصے” (دعونى اصلى) ىعنى ذرا ٹھہرو! مجھے نماز تو پڑھنے دو“ کے بارے مىں فرماتے ہىں:ىعنى اے فرشتو! سوالات بعد مىں کرنا،عصر کا وقت جارہا ہے ،مجھے نماز پڑھ لىنے دو، ىہ وہ کہے گا جو دنىا مىں نمازِ عصر کا پابند تھا، اللہ پاک نصىب کرے۔مزىد فرماتے ہىں:ممکن ہے کہ اس عرض پر سوال و جواب ہى نہ ہوں اور ہوں تو نہاىت آسان، کىونکہ اس کى ىہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہوچکى۔ 5:حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے نمازِ عصر چھوڑى اس کے عمل باطل ہوگئے۔ (اىضا ، حدىث نمبر 1435، ص 458، 559 3: اىضا ، حدىث نمبر 1436: ص 459 4: سنن ابن ماجہ ، کتاب الزھد، باب ذکر القبرو البلى ،حدىث 4272:، ج 4، ص 503))( مراة المناجىع، ج 5، ص 142، بہار شرىعت ج 1، ص 110، مطبوعہ مکتب المدىنہ باب المدىنہ کراچى پاکستان ْ6: بخارى، الصحىح ، کتاب مواقىت الصلوة، باب اثم من ترک العصر ، 1، ص 203، رقم 528)


نماز اىک اعلىٰ عبادت ہے کہ اس کے بارے مىں سوال جواب ہونا ہے۔نمازِ فجر و عصر دىگر نمازوں کے مقابلے مىں اعظم(ىعنى زىادہ عظمت والى) ہىں کىونکہ فجر کى نماز کے بعد رزق تقسىم ہوتا ہے، جبکہ دن کے آخرى حصے(ىعنى عصر کے وقت ) مىں اعمال اٹھائے جاتے ہىں ۔تو جو شخص ان دونوں وقتوں مىں مصروفِ عبادت ہوتا ہے اس کے رزق و عمل مىں برکت دى جاتى ہے۔نمازِ عصر کے متعلق احادىثِ مبارکہ مىں فضىلت بىان کى گئى ہے۔ آئىے!نمازِ عصر کے متعلق پانچ فرامىنِ مصطفٰے ملاحظہ فرمائىے۔1:حضر تِ عمارہ بن روىبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مىں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے ( ىعنى نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کى (ىعنى جس نے فجر و عصر کى نماز پڑھى)وہ ہر گز جہنم مىں داخل نہ ہوگا۔( مسلم،ص 250،حدىث 1436)2:حصرت جرىر بن عبداللہ رَضِىَ اللہُ عنہ بىان کرتے ہىں:ہم حضورعلیہ السلام کى بارگاہ مىں حاضر تھے،آپ نے چودھوىں رات کے چاند کى طرف دىکھ کر ارشاد فرماىا:عنقرىب تم اپنے رب کو اس طرح دىکھو گے جس طرح اس چاند کو دىکھ رہے ہو۔ تو تم لوگو سے ہوسکے تو نمازِ فجر و عصر کبھى نہ چھوڑو۔3:آقا علىہ الصلوة والسلام نے فرمایا:ىہ مىرى نماز ىعنى نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پىش کى گئى تو انہوں نے اسے ضائع کردىا، لہٰذا جو اسے پابندى سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔( مسلم، ص، 322، حدىث: 1927)4: سرکارِ دوعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: جس نے نمازِ عصر چھوڑ دى اس کا عمل ضبط ہوگىا۔5:اللہ پاک کے پىارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرماىا:جس کى نمازِ عصر نکل گئی ( ىعنى جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گوىا اس کے اہل و عىال و مال وتر ہو(ىعنى چھىن لىے) گئے۔(بخارى،1/ 202 ،حدىث: 552)اللہ پاک ہمىں نمازِ عصر کے ساتھ ساتھ تمام نمازوں کى پابندى کرنے کى توفىق عطا فرمائے امىن۔


ہر مسلمان مرد و عورت پر روزانہ پانچ نمازىں فرض ہىں ۔ربِّ کریم قرآن کرىم مىں فرماتا ہے:ان الصلوة کانت على المؤمنین کتابا موقوتا0(پ5، النسآء :103)ترجمہ:بىشک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے ۔نماز کى فرضىت کا انکار کفر ہے۔جان بوجھ کر جو اىک نماز ترک کرے وہ فاسق،سخت گناہ گار و عذابِ نار کا حق دار ہے۔جنت اے بے نمازىوں! کس طرح پاؤ گے؟ ناراض رب ہوا تو دوزخ مىں جاؤ گے۔نمازِ عصر کى اہمىت و فضىلت پر متعدد آىات و احادىث اور بزرگانِ دىن کے اقوال ملتے ہىں۔نمازِ عصر کى اہمىت و فضىلت: نمازِ عصر کے متعلق رب کریم فرماتا ہے:حفظو ا على الصلوات والصلوة الوسطی نمازِ عصر کو صلوة و سطی بھى کىا جاتا ہے۔ حضرت ابوہرىرہ رضی اللہ عنہ سے رواىت ہے،مدىنے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرماىا:تم مىں دن اور رات کے فرشتے بارى بارى آتے ہىں اور فجر و عصر کى نمازوں مىں جمع ہوجاتے ہىں پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم مىں رات گزارى ہے اوپر کى طرف چلے جاتے ہىں۔اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے مىرے بندوں کو کس حال مىں چھوڑا؟وہ عرض کرتے ہىں:ہم نے انہىں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھى وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخارى جلد 1، ص 203، حدىث)صحابى ابنِ صحابى و حضرت عبداللہ بن عمر رَضِىَ اللہُ عنہما سے رواىت ہے، اللہ پاک کے پىارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کى نمازِ عصر نکل گئى(ىعنى جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گوىا کہ اس کے اہل و عىال وتر ہوگئے (ىعنى چھىن لىے گئے۔)(فتاوىٰ ج 1، ص 202، حدىث 552)حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مىں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے ( نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کى (ىعنى جس نے فجر و عصر کى نماز پڑھى) وہ ہر گز جہنم مىں داخل نہ ہوگا۔(مسلم ص 250،حدىث 1433)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بىان کرتے ہىں: ہم حضورعلیہ السلام کى خدمت مىں حاضر تھے ، آپعلیہ السلام چودھوىں رات کے چاند کے چاند کى طرف دىکھ کر فرمایا:عنقرىب تم اپنے رب کو اسى طرح دىکھو گے جس طرح اس چاند کو دىکھ رہے ہو،اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نمازِ فجر و عصر کبھى نہ چھوڑو، پھر حضرت جرىر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ىہ آىت مبارکہ پڑھى:ترجمۂ کنزالاىمان، اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کى پاکى بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(مسلم ، ص 239، حدىث 1434)تابعى بزرگ حضرت ابوالملىح بىان کرتے ہىں:اىک اىسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے،ہم صحابىِ رسول حضرت برىدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد مىں تھے،آپ نے فرمایا:نمازِ عصر مىں جلدى کرو،کىونکہ سرکارِ دو عالم علیہ السلام نے فرمایا:جس نے نمازِ عصر چھوڑ دى اس کا عمل ضبط ہوگىا۔(بخارى ج1، ص 203، حدىث 552) فجر و عصر کى نماز مىں دن رات کے محافظ فرشتے جمع ہوئے ہوئے ہىں۔


اے عاشقان رسول!جب نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم معراج کو تشریف لے گئے تو اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نماز کا تحفہ عطا فرمایا:یادرہے!نماز اہلِ ایمان پر ایک اہم ترین فریضہ ہے۔نماز کا حکم اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں کئی جگہ فرمایا:جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمہ:بے شک مومنین پر مقررہ اوقات میں نماز فرض ہے۔(النساء:103 آیت نمبر)نمازِ عصر کے بارے میں قرآنِ حکیم میں رب کریم نے فرمایا:ترجمہ:تمام نمازوں کی حفاظت کرو خصوصیت کے ساتھ صلوۃ الوسطی کی۔(البقرۃ: 238)اس آیت میں صلوۃِ وُسطیٰ سے مراد نمازِ عصر ہے۔نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر احادیث:1:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِ کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:تمہارے پاس رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور وہ فجر کی نماز میں اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں۔پھر جو تم میں رات گزاریں وہ چڑھ جاتے ہیں ان سے انکا رب پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے زیادہ جانتا ہے کہ ”تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟“وہ کہتے ہیں:ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچےتھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(مراۃ آلمناجیح جلد اول صفحہ351) 2:۔امام بخاری روایت کرتے ہیں،حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:جس دن موسم ابر آلود تھااول وقت میں عصر کی نماز پڑھوکیونکہ نبیِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز کو ترک کردیا اس کا عمل ضائع ہوگیا۔(نعمۃ الباری جلد دوم صفحہ نمبر۔۔390)3:حضرت عمارہ ابنِ روبیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،میں نے نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:وہ شخص آگ میں ہرگز نہیں داخل نہیں ہو گا جوسورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے کی نمازیں پڑھتا رہے یعنی فجر اور عصر (مراۃ المناجیح جلد اول صفحہ 350)4:ابنِ بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:جس شخص کی نمازِ عصر فوت ہوجائے تو گویا اس کے اہل وعیال اور اس کا مال و متاع لوٹ گیا۔ (مسند امام اعظم صفحہ 243)اس حدیث کے تحت علامہ ابنِ عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نمازِ عصر کی اس قدر اہمیت ہے کہ اس نماز کو نہ پڑھنا گھر بار مال و دولت کی ہلاکت کے مترادف ہے۔اللہ کریم ہمیں تمام نمازیں مستحب اوقات میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔5:حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا:ہم نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس تھے،آپ نے ایک رات چاند کی طرف دیکھا یعنی ماہِ تمام کی شب میں،پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:بے شک تم اپنے رب کو اس طرح دیکھوں گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو،تمہیں اس کو دیکھنے میں کوئی مشقت نہیں ہوگی۔ اگر تم یہ کر سکتے ہو کہ طلوعِ آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے پہلے نماز پڑھنے سے مغلوب نہ ہو تو یہ ضرور کرو۔پھر آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی:ترجمہ:آپ طلوعِ آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے پہلے نماز میں اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح پڑھئے۔(قٓ:39)(نعمۃ الباری شرح صحیح البخاری جلد دوم صفحہ نمبر 391) اے عاشقان نماز! مذکورہ حدیث سے نمازِ عصر کی فضیلت کا معلوم ہوا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فجر اور عصر کی نماز کو زیادہ فضیلت حاصل ہے کیونکہ یہ نفس پر زیادہ دشوار ہوتی ہیں۔کیونکہ فجر کے وقت نیند سے جاگنا مشکل ہوتا ہے اور عصر کے وقت میں کاروبار کا زور و شور ہوتا ہےنیز ان دونوں کاموں کو چھوڑ کر نماز کے لیے جانا نفس پر دشوار ہوتا ہے ۔تو جو عمل جتنا نفس پر دشوار ہوتا ہے اس کا اجر بھی عظیم ہوتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں تمام نمازوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میں نے تمہاری امت پر پانچ نمازیں فرض کیں اور میں نے یہ عہد کیا ہے کہ جو ان نمازو ں کی وقت کے ساتھ پابندی کرے گا میں اسے جنت میں داخل کروں گا اور جو پابندی نہیں کرے گا اس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں۔( ابو داود جلد 1 صفحہ 188)نماز مسلمان کے لیے ایک وقت باندھا ہوا فرض ہے ،جس کا ذکر قرآنِ مجید میں متعدد مرتبہ آیا ہے۔نماز پڑھنے کی بہت زیادہ فضائل و برکات احادیثِ مبارکہ اور قرآنِ کریم سے ملتے ہیں وہیں نماز نہ پڑھنے کی بھی بے شمار وعیدیں بھی احادیث سے ملتی ہیں۔نماز کی فرضیت کا انکار کفر ہے۔اللہ پاک نے مسلمانوں پر نماز فرض فرما کر خود ہی مسلمانوں پراحسانِ عظیم فرما یا۔نماز جنت کی کنجی ہے۔نماز اللہ پاک کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ نمازی کو بروزِ قیامت نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔نمازی کو بروزِ قیامت اللہ پاک کادیدار ہوگا۔ویسے تو پانچوں نمازیں بہت زیادہ فضیلت رکھتی ہیں اور ہر نماز پڑھنے کا بہت زیادہ ثواب ہے یہاں تک کہ نفل نمازوں کی بھی بہت زیادہ فضائل احادیث سے ملتے ہیں مگر یہاں نمازِ عصر کے متعلق چند مدنی پھول پیش کیے جاتے ہیں۔احادیثِ مبارکہ اور آیاتِ قرآنی میں نمازِ عصر کی بہت زیادہ ترغیب دلائی گئی ہے۔قرآنِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے:حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی۔نگہبانی کرو نمازوں کی اور درمیانی نماز کی۔مفسرین کی رائے یہ ہے کہ عصرکی نماز ہی درمیانی نماز ہے کیونکہ اس سے پہلے بھی دو نمازیں اور اس کے بعد بھی دو نمازیں ہوتی ہیں ،نیز اس نماز کی قرآنِ کریم میں بھی خاص تاکید کی گئی ہے۔1 :حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مرنے والا جب قبر میں داخل ہوتا ہے تو اس کو سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے، وہ کہتا ہے:مجھے چھوڑو تاکہ میں نماز پڑھ لوں۔ ابن ماجہ جلد 4 صفحہ 503 مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیثِ پاک کے اس حصے کہ ”سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے“ کہ تحت فرماتے ہیں:یہ اسےمنکر نکیر کے جگانے پر ہوتا ہے خواہ دفن کسی وقت بھی ہو۔چونکہ نمازِ عصر کی زیادہ تاکید ہے اور سورج کا ڈوبنا اس کے جاتے رہنے کی دلیل ہے اور اس کا یہ کہنا کہ ”مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں یعنی اے فرشتو! مجھ سے سوالات بعد میں کرنا پہلے مجھے نماز پڑھنے دو“یہ وہی کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا۔2:حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نمازِ عصر تم سے پہلے لوگوں پر پیش کی گئی لیکن انہوں نے اسے ضائع کر دیا،تم اسے ادا کرو تمہارے لیے اس میں دگنا اجر ہے۔مسلم صفحہ 322 حدیث 1927مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:پہلی امتوں پر بھی نماز فرض تھی مگر انہوں نے اسے ادا نہ کیا اور عذاب کے مستحق ہوئے۔مراۃ المناجیح جلد 2 صفحہ 1663تابعی بزرگ حضرت ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :ایک روز ایسے بادل چھائے ہوئے تھے ہم صحابی رسول حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہاد میں تھے، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نمازِ عصر جلدی ادا کرو کیوں کہ نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہو گیا۔ فیضانِ نماز بخاری جلد 1 صفحہ 303-مراۃ المناجیح جلد 1 صفحہ 381 پر ہے:مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:غالبا عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے نمازیں چھوڑ دیں تو اس کام سے برکت زائل ہو جائے گی یا یہ مطلب کی جو عصر چھوڑ دے اس کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ کفر پہ مرے اور اس کے اعمال برباد ہو جائیں۔البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ عصر چھوڑنا کفر و ارتداد ہے۔4:حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے سورج کے نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز ادا کی( یعنی نمازِ فجر و عصر ادا کی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔مسلم صفحہ 250۔5:صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی عصر کی نماز نکل گئی ( یعنی جان بوجھ کر عصر کی نماز چھوڑی) گویا اس کے اہل وعیال ومال وتر ہوگئے یعنی چھین لیے گئے ۔بخاری جلد 1 صفحہ 202حضرت ابوسلیمان الخطابی ا لشافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وتر سے مراد ہے چھن جانا یعنی جس کے بال بچے مال وغیرہ چھن جائیں وہ اکیلا رہ جاتا ہے گویا جس طرح بندہ اپنے مال اور اولاد کی چھن جانے سے ڈرتا ہے اسی طرح نمازچھوڑنے سے بھی ڈرے۔فیضانِ نماز،صفحہ 106ان احادیثِ مبارکہ سے نمازِ عصر کی فضیلت معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جان بوجھ کے نماز قضا کر دینا کتنا گناہ ہے اور نمازِ عصر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ آئیے! نیت کرتی ہیں کہ اگر آج تک ہم نے نماز قضا کی ہو تو ان کو ادا کریں گی اور آئندہ پانچوں نمازیں پابندی وقت کے ساتھ پڑھنے کی نیت کرتی ہیں۔اللہ پاک ہمیں پنجگانہ نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:نمازدین کا ستون ہے۔(شعب الایمان)ستون پر ہی کوئی عمارت استوار ہوتی ہے اور دین کی عمارت کا مرکزی ستون نماز ہے۔نماز ادا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں تقریباً سات سو مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔درج ذیل احادیثِ مبارکہ میں نماز کی فضیلت بیان کی گئی ہے :1:وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّکٰوةَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَ0(پ2،البقرة:43)اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو۔2:يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ اِنَّ اللہ مَعَ الصَّابِرِينَ0(پ2،البقرة : 153)اے ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعے(مجھ سے) مدد چاہا کرو،یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ(ہوتا) ہے۔3:اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكوٰةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ0(پ2،البقرة: 277)بے شک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لیے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر(آخرت میں) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مختلف اوقات میں فرداً فرداً پانچوں نمازوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔نمازِ عصر کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مَن تَرَکَ صَلَاةَ الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ۔)بخاری، کتاب مواقيت الصلوة، باب اثم من ترک العصر، 1 / 203، رقم : 528(جس نے نمازِ عصر چھوڑی اس کے عمل باطل ہو گئے۔قرآنِ حکیم میں اس نماز کی محافظت کی خصوصی تلقین کی گئی ہے:حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَالصَّلٰوةِ الْوُسْطٰی۔(پ2، البقرة : 238)سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی۔حضر ت زہیر عمار بن رویبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو شخص طلوعِ آفتاب سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نمازپڑھتا ہے تو وہ جہنم میں نہیں جائے گا۔ یعنی نمازِ فجر اور نمازِ عصر پڑھتا ہے۔ (مسلم (634))حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس رات اور دن کے وقت فرشتے باری باری آتے ہیں اور وہ نماز صبح اور نمازِ عصر کےوقت اکٹھے ہوتے ہیں پھر جو فرشتے تمہارے پاس رات کو ٹھہرے تھے وہ اوپر چڑھ جاتے ہیں۔پس اللہ پاک ان فرشتوں سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان کے بارے میں خوب جانتا ہے:تم نے میرے بندوں کوکس حالت میں چھوڑا ؟فرشتے جواب دیتے ہیں: ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تو تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (متفق علیہ، بخاری (/332: فتح)و مسلم (632)۔حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس شخص نے نمازِ عصر چھوڑ ی دی پس اس کے عمل تو برباد ہو گئے۔(بخاری (/312 و66: فتح))حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فجر اور عصر کی نمازوں کو پابندی کے ساتھ ادا کرنے والوں کو نارِ دوزخ سے رہائی کی بشارت عطا فرمائی :لَنْ يَلِجَ النَّارَ اَحَدٌ صَلّٰی قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَا يَعْنِی الْفَجْرَ وَالْعَصْرَ۔( مسلم،کتاب المساجد و مواضع الصلوة، باب فضل صلاتی الصبح والعصر والمحافظۃ عليہا،1 / 440،رقم : 634) جس نے سورج کے طلوع ہونے سے قبل اور اس کے غروب ہونے سے قبل یعنی فجر اور عصر کی نماز ادا کی وہ ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا۔عن اَبِی بَكْرِ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ رُؤَيْبَةَ،عَنْ أَبِيهِ،قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،يَقُولُ:لَنْ يَلِجَ النَّارَ أَحَدٌ صَلّٰى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوبِهَا،يَعْنِی الْفَجْرَ وَ الْعَصْرَ،فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنْ اَهْلِ الْبَصْرَةِ:آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ الرَّجُلُ:وَ اَنَا اَشْهَدُ اَنِّی سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہ صَلَّى اللّٰہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،سَمِعَتْهُ اُذُنَایَ وَ وَعَاهُ قَلْبِی۔ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنا، فرماتے تھے:نہ داخل ہوگا کبھی وہ شخص دوزخ میں جس نے نماز ادا کی قبلِ طلوعِ آفتاب کے اور قبل ِغروبِ آفتاب کے یعنی فجر اور عصر کی نماز۔سو بصرہ والوں میں سے ایک شخص نے کہا: تم نے سنا ہے اس کو رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ اس نے کہا: اور میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی سنا ہے اس کو رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے،سنا ہے میرے کانوں نے اور یاد رکھا ہے مرے دل نے۔)راوی :ابوھریرۃ    المحدث:مسلم ا لمصدر: مسلم،الصفحۃ او الرقم:1436 ۔خلاصۃ حكم المحدث: صحیح(حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ترجمہ: جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی گویا اس کے اہل و عیال اور مال و دولت( سب کچھ) تباہ و برباد ہو گئے ۔( صحیح مسلم: 626)اس حدیثِ مبارکہ میں نمازِ عصر کو چھوڑنے کی وعید سنائی گئی ہے ،لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہماری غربت، بے چینی، بے برکتی، نافرمان اولاد یا مال و دولت کی تباہی و بربادی کہیں نمازِ عصر چھوڑنے کا سبب تو نہیں؟ اگر ہم نماز سے غافل ہیں توہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی طرف رجوع کریں اور پنج وقتہ نمازوں پر محافظت کریں ،نیزبطور خاص نمازِ عصر کا اہتمام کریں ۔نماز کی محافظت کرنے والوں کے لیے اللہ پاک کے ہاں عظیم اجروثواب ہے ۔اے اللہ پاک! تو ہمیں پنج وقتہ نمازی بنا اور اپنی توفیق سے نمازِ عصر تر ک کرنے سے بچا۔آمین


ىہ تو سب جانتے ہىں  کہ ىومىہ پانچ وقت کى نماز پڑھنا فرض ہے۔ لىکن پانچوىں نمازوں مىں نمازِ عصر کى بڑى اہمىت ،شدىد تاکىد اور بڑى فضىلت ہے،اسى لىے اللہ پاک نے نمازِ عصر کى خصوصى حفاظت کا مکلف بناىا ہے،جىسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ مجىد مىں فرمایا:(البقرۃ ، 238)ترجمۂ کنزالعرفان: ہم نے اللہ کا رنگ اپنے اوپر چڑھا لىا اور اللہ کا رنگ سے بہتر کس کا رنگ ہے؟ اور ہم اس کى عبادت کرنے والے ہىں۔نمازِ عصر کے بہت سارے فضائل ہىں۔ان مىں سے چند کا مىں سرسرى طور پر تذکرہ احادىثِ مبارکہ کى روشنى مىں کررہى ہوں۔1:حضرت ابو بصرہ غفارى رَضِىَ اللہُ عنہ بىان کرتے ہىں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہم کو مخمص نامى جگہ پر نما ز عصر پڑھائى تو فرماىا:ىہ نماز آپ سے پہلے لوگوں پر پىش کى گئى ( ىعنى فرض کى گئى) انہوں نے اس کو ضائع کردىا، پس جس نے اس نماز کى حفاظت کى اس کودگنا ثواب ملے گا اور اس کے بعد شاہد( ستارہ)طلوع ہونے تک اور کوئى نماز نہىں۔( ابودى، ابوبصرة الغفارى ، المحدث، مسلم المصدر، مسلم ، الصفحۃ اوالرقم: 830۔ خلاصہ حکم المحدث،) 2: نبىِ کرىم،رسولِ نذىر،سراجِ منىر، آخرى نبى صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ دلپذىر ہے: جب مردہ قبر مىں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتاہے،وہ آنکھىں ملتا ہوا اٹھ بىٹھتا ہے اور کہتا ہے:ذرا ٹھہرو، مجھے نماز توپڑھنے دو۔(ابن ماجہ)تشرىح: ”ذرا ٹھہرو، مجھے نماز توپڑھنے دو“سے مراد اے فرشتو!سوالات بعد مىں کرنا،عصر کا وقت جارہا ہے ،مجھے نماز پڑھ لىنے دو،ىہ وہ کہے گا جو دنىا مىں نماز ِعصر کا پابند تھا۔3: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رواىت ہے،شفىع المذنبىن رحمۃ اللعلمىن،ہمارے آخرى نبى صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہىں:اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتىں (سنتِ غىر ِمؤکدہ )پڑھىں۔(ابوداؤد ترمذى)4:عصر اور فجر کى پابندى کرنا جہنم سے نجات کا سبب ہے۔ سرکارِ مدىنہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہر گز جہنم مىں نہىں جائے گا جو سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈوبنے سے پہلے نمازپڑھے ىعنى جو فجر اور عصر کى نماز ادا کرے۔( مسلم، 1468)نمازِ عصر اتنى اہم نماز ہے ، اس کا اندازہ ہم اس رواىت سے لگاسکتی ہىں۔پىارے نبى صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کى نمازِ عصر چھوٹ گئى گوىا اس کا گھر اور مال سب لٹ گىا ىعنى عصر جىسى مبارک نماز کا فوت ہونا، بربادى ِاعمال مىں سے ہے۔( بخاری 552)5)نمازِ عصر کى حفاظت کرنا،دىدارِ الہٰى جىسى عظىم الشان نعمت پانے کا ذرىعہ ہے،جىسا کہ حضرت جرىر بن عبداللہ رَضِىَ اللہُ عنہ فرماتے ہىں:ہم لوگ نبىِ کرىم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کى خدمت مىں حاضر تھے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھوىں رات کے چاند کى طرف دىکھا،پھر فرماىا: تم لوگ اپنے رب کو اسى طرح دىکھو گے جىسے اس چاند کو دىکھ رہے ہو، اسے دىکھنے مىں تم کو کسى بھى قسم کى کچھ مشقت اور تکلىف نہىں ہوگى، لہٰذا اگر تم سے سورج کے طلوع سے پہلے اور غروب سے پہلے( عصر) کى نمازوں کے پڑھنے مىں کوتاہى نہ ہوسکے تو اىسا ضرور کروپھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس آىتِ مبارکہ کى تلاوت فرمائى: آىت مبارکہ تم سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے اللہ کى پاکىزگى بىان کرو۔ (بخاری 573)دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو نمازِ عصر کى اہمىت اور فضىلت سمجھنے کى توفىق عطا فرمائے اور پانچ وقت کی نمازوں کو وقت کى مکمل پابندى کے ساتھ ادا کرنے کى سعادت نصىب فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

ہر نماز پر ہے اجر ہزار مگر عصر کى نماز ہے بے حد کمال

اس کو چھورنے پر ہے بے حد نقصان گوىا گھر بار خاندان سب برباد


مىرے آقا اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں:نمازِ پنج گانہ ىعنى پانچ وقت کى نماز اللہ پاک کى وہ نعمتِ عظمى ہے کہ ا س نے اپنے کرمِ عظىم سے خاص ہم کو عطا فرمائى ہم سے پہلے کسى اور اُمت کو نہ ملى۔( () فىضانِ نماز، صفحہ 8)کلمۂ اسلام کے بعد سب سے بڑا رکن نماز ہے ۔ہر مسلمان عاقل و بالغ مرد و عورت پر روزانہ پانچ وقت کى نماز فرض ہے۔اس کے فرض ہونے کا انکار کفر ہے۔ جو جان بوجھ کر اىک نماز ترک کردے وہ فاسق،سخت گناہ گار اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔پیاری اسلامى بہنو!قرآن و حدىث مىں نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل اور نہ پڑھنے کى سخت سزائىں وارد ہىں،چنانچہ پارہ 28 سورۃ المنافقون کى آىت نمبر9 مىں ارشادِ بارى ہے:یا یھا الذین امنوا لا تلھکم اموالکم ولا اولادکم عن ذکر اللہ ومن یفعل ذلک فالٓئک ھم الخسرون0 ترجمہ ٔکنزالاىمان:اے اىمان والو! تمہارے مال نہ تمہارى اولاد کوئى چىز تمہىں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو اىسا کرے وہى لوگ نقصان اٹھانے والوں مىں سے ہے۔حضرت امام محمد بن احمد ذہبى رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہىں:مفسرىنِ کرام رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں:اس آىتِ مبارکہ مىں اللہ پاک کے ذکر سے مراد پانچ نمازىں ہىں۔پس جو شخص اپنے مال ىعنى خرىد و فروخت ،معىشت وروزگار،سازو سامان ا ور اولاد مىں مصروف رہے اور وقت پر نماز نہ پڑھے وہ نقصان اٹھانے والوں مىں سے ہے۔(اسلامى بہنوں کى نماز،صفحہ نمبر 79)انہى پانچوىں نمازوں مىں سے اىک نمازِ عصر بھی ہے۔اس کى فضىلت کے کىا کہنے!اسى لىے تو ربِّ کریم فرماتا ہے:حفظو ا على الصلوات والصلوة الوسطى ترجمہ ٔکنزالاىمان، نگہبانى ( ىعنى حفاظت ) کروں سب نمازوں اور بىچ کى نماز کى۔(ىعنى تمام نمازوں کی خصوصاً نمازِ عصر کى نگہبانى و حفاظت کرو) صوفىا رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہىں:جىسے جىو گے وىسے ہى مروں گے اور جىسے مرو گے وىسے ہى اٹھو گے۔ خىال رہے !مومن کو اس وقت اىسا معلوم ہوگا جىسے مىں سو کر اٹھتا ہوں،نزع وغىرہ سب بھول جائے گا۔ممکن ہے کہ اس عرض سے(مجھے چھوڑ دو!مىں نماز پڑھ لوں)پر سوال جواب ہى نہ ہوں اور ہوں تو نہاىت آسان کىونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہوچکى۔( فىضانِ نماز،صفحہ7 )صلوة ِوُسطى ىعنى نمازِ عصر کى قرآن شرىف اور احادىثِ مبارکہ مىں بہت تاکىد ہے،چنانچہ اس ضمن مىں پانچ فرامىنِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ملاحظہ ہوں:نمبر1:حضرت ابوموسى رضی اللہ عنہ سے رواىت ہے،فرماتے ہىں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دو ٹھنڈى نمازىں پڑھا کرے جنت مىں جائے گا۔ٹھنڈى نمازوں سے مراد فجر اور عشا ىا فجر اور عصر ہے۔( مراة المناجىح جلد اول ص نمبر381) نمبر2: فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو عصر سے پہلے چار رکعتىں پڑھے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمادے گا۔(فىضانِ نماز،ص نمبر 109) نمبر3:مسلم اور نسائى کى رواىت مىں ہے، فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:ىہ نمازِ عصر تم سے پہلے لوگوں پر پىش کى گئى لىکن انہوں نے اسے کھودىا پس تم مىں سے جو شخص اسے پابندى سے پڑھتا ہے اسے دوگناہ ثواب ملتا ہے اور اس نماز کے بعد ستارے نظر آنے تک کوئى نماز نہىں( مغرب کا جب وقت شروع ہوجاتا ہے تو بعض ستاروں کى تابندگى آجاتى ہے۔)(مکاشفہ القلوب،ص 360)نمبر4:فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک اس بندے پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے رکعتىں پڑھىں۔(احىا ءالعلوم ،جلد نمبر1، ص نمبر598)نمبر5:حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِىَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: مىں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع وغروب ہونے ىعنى نکلنے اورڈوبنے سے پہلے نماز ادا کى( ىعنى جس نے فجر و عصر کى نماز پڑھى) وہ ہر گز جہنم مىں داخل نہ ہوگا۔ حضرت مفتى احمد ىار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدىث کے تحت لکھتے ہىں:خلاصہ کچھ ىوں ہے:اس کے دو مطلب ہوسکتے ہىں:اىک ىہ ہے کہ فجر و عصر کى پابندى کرنے والا دوزخ مىں ہمىشہ رہنے کے لىے نہ جائے گا، اگر گىا تو عارضى(وقتى طور پر )دوسرا ىہ کہ فجر اور عصر کى پابندى کرنے والوں کو ان شاء اللہ باقى نمازوں کی بھى توفىق ملے گى، اور گناہوں سے بچنے کى ىعنى کىونکہ ىہى نمازىں نفس پر زىادہ بھارى ( ىعنى بھارى) ہىں کہ صبح سونے کا وقت ہے اور عصر کا روبار کے فروغ ىعنى ( زور شور) لہٰذا ان ( نمازوں ) کا درجہ زىادہ ہے۔( فىضانِ نماز، ص نمبر100)


علامہ عبدالرؤف مناوى   رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:پانچوں نمازوں مىں سب سے افضل نمازِ عصر ہے،پھر نمازِ فجر پھر نمازِ عشا ،پھر نمازِ مغرب،پھر نمازِ ظہر(فىض القدىر ج 2، ص 3)1:صحابى ابنِ صحابى حضرت عبداللہ بن عمر رَضِىَ اللہُ عنہما سے رواىت ہے، اللہ پاک کے پىارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کى نمازِ عصر نکل گئى (ىعنى جو جان بوجھ کر نماز چھوڑے) گوىا اس کے اہل و عىال مال وتر ہو(ىعنى چھىن لىے) گئے۔(بخارى ج 1، ص 202 حدىث 002)2:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو عصر سے پہلے چار رکعتىں پڑھے،اسے آگ نہ چھوئے گى۔(بہار شرىعت ، ج1، ص 441)3: خادمِ نبى حضرت انس بن مالک رَضِىَ اللہُ عنہ بىان کرتے ہىں:مىں نے سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:ىہ منافق کى نماز ہےکہ بىٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے حتى کہ جب سورج شىطان کے دو سىنگوں کے بىچ آجائے ( ىعنى غروب ہونے کے قرىب ہوجائے) تو کھڑا ہو کر چار چونچىں مارے کہ ان مىں اللہ پاک کا تھوڑا ہى ذکر کرے۔(مسلم، ص 234، حدىث: 1312)امام فقىہ ابواللىث سمر قندى رحمۃ اللہ علیہ نےتابعى بزرگ حضرت کعب بن الاحبار رَضِىَ اللہُ عنہ سے نقل کىا کہ انہوں نے فرمایا:مىں نے تورىت کے کسى مقام مىں پڑھا ( اللہ پاک فرماتا ہے:)اے موسى!عصر کى چار رکعتىں احمد اور ان کى امت ادا کرے گى تو ہفت (ىعنى ساتوں) آسمان و زمىن مىں کوئى فرشتہ باقى نہ بچے گا، سب ىہى ان کى مغفرت چاہىں گے اور ملائکہ جس کى مغفرت چاہىں مىں اسے ہر گز عذاب نہ دوں گا۔( حاشىہ فتاوىٰ رضوىہ مخرجہ ج 5، ص 52، تا 53) 4: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے،جس نے عصر سے پہلے چار کعتىں پڑھىں۔(ابوداؤد، 2/ 3، حدىث: 1271)نمازِ عصر کى پہلى چار رکعتىں سنتِ غىر مؤکدہ ہىں۔دىکھا آپ نے! اس حدىثِ مبارکہ مىں نمازِ عصر کى چار سنتوں کى کتنى فضىلت بىان کى گئى! اس لىے ہمىں بھى چاہىے کہ اس کا اجرو ثواب حاصل کرىں اور نہ صرف اجرو ثواب کے لىے ہم ىہ چار رکعتىں ادا کرىں بلکہ اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کى رضا حاصل کرنے کے لىے ىہ کام کرىں، کىونکہ صرف فرض نمازىں پڑھنا ہى اسلام نہىں ہے، ىعنى اگر کوئى نمازىں،فرائض اور نوافل تو ادا کرتا ہو لىکن سنتوں کو چھوڑ دے اور خود کو ویسےوہ کہتا عاشق رسول ہو اور اس عشق میں جان بھی لٹانے کی بات کرے تو پھر کہاں گیا وہ عشقِ سول؟اس لىے ہمىں چاہىے کہ صرف لفظوں سے نہىں بلکہ عمل سے بھى ىہ ظاہر کرنا ہے کہ ہم عاشقِ رسول ہىں،لىکن ىہاں ىہ بات بھى ضرورىاد رکھنى چاہىے کہ صرف نماز پڑھنا ہى اسلام نہىں اگر دل مىں عشقِ مصطفٰے کى تڑپ نہ ہو ان کے لىے اپنا مال اپنى جان، اپنى اولاد قربان کرنے کى ہمت نہ ہو تو پھر ان نمازوں کا کىا فائدہ؟ کسی نے لکھا ہے:نماز اچھى، روزہ اچھا،زکوٰة اچھى،حج اچھا ،مگر باوجود مىں اس کے مسلمان ہو نہىں سکتا،نہ جب تک کٹ مروں خواجہ بطحا کى حرمت پر،خدا شاہد ہے کامل مىرا اىمان ہو نہىں سکتا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمىں حقىقى معنوں مىں عاشقِ رسول بننے کى توفىق عطا فرمائے۔ امىن۔5: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرماىا:جس کا مفہوم کچھ ىوں ہے: جس کى اىک نماز ِ عصر رہ گئى ىعنى جس نے اىک دن کى نمازِ عصر چھوڑ دى اس کى دنىا اور آخرت تباہ ہوگئى۔ اللہ اکبر! دىکھا آپ نے !نمازِ عصر کے بارے مىں کتنا سخت حکم ہے کہ جس کى اىک نمازِ عصر رہ گئى اس کى دنىا اور آخرت تباہ ہوگئى ۔آج کل اکثرىت اىسى ہے جو نمازِ عصر کو چھوڑ دىتى ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمىں حقىقى معنى مىں نماز پڑھنے کى توفىق عطا فرمائے اور ہمىں سچا عاشقِ رسول بنائے۔ امىن


الحمدللہ علی احسانہٖ! ہم کتنی خوش نصیب ہیں کہ ہمیں نماز جیسی عظیم نعمت عطا ہوئی لیکن افسوس! لوگ کتنے ناقدرے ہیں کہ نمازیں قضا کر رہے ہیں اور معاذ اللہ نمازیں قضا کرنے کو گویا عیب ہی نہیں سمجھتے۔اللہ پاک مسلمانوں کے حال پر رحم فرمائے۔ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں جن میں ایک نمازِ عصر بھی  ہے جس کی بہت فضیلت ہے لیکن افسوس!صد افسوس! لوگ نمازِ عصر میں کوتاہی کرتے ہیں اور دنیاوی مشاغل میں اتنا ڈوب جاتے ہیں کہ انہیں نمازِ عصر کے قضا ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔نمازِ عصر دیگر نمازوں کے مقابلے میں اعظم یعنی زیادہ عظمت والی ہے کیونکہ یہ ایسے اوقات میں فرض ہے جو شرف یعنی عظمت و بزرگی والا ہے۔عصر دن کے آخری حصے میں ادا کرنی ہوتی ہے اور اس وقت میں اعمال اٹھائے جاتے ہیں ،لہٰذا انسان کو چاہیےکہ وہ اس وقت عبادت میں مشغول ہو تاکہ اس کے رزق اور عمل میں برکت دی جائے ۔اس نمازِ عصر کی تاکید اس لیے ہے کہ نمازِ عصر سیر و تفریح کی غفلت کا وقت ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی۔(1)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دوگنا یعنی(double)اجر ملے گا۔(مسلم،ص322،حدیث:1927)(2)حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے یعنی نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم،ص250،حدیث:1436)(3)تابعی بزرگ حضرت ابو الملیح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ایک ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے ہم صحابی رسول حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے۔ آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نمازِ عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط یعنی ضائع ہو گیا۔(بخاری،1/203،حدیث:553)(4)خادمِ نبی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے حتی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ آ جائے( یعنی غروب ہونے کے قریب ہو جائے) تو کھڑا ہو کر چار چونچے مارے کہ ان میں اللہ پاک کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔(مسلم،ص256،حدیث:1412)(5)حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے:مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔(ابن ماجہ،4/503،حدیث:4272)

رحمت کے شامیانوں میں خوشبو کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی ہوا چلائے گی اے بھائیو!نماز

دور ہوں بیماریاں،بیکاریاں،ناکامیاں دل میں داخل ہو مسرت تم پڑھو دل سے نماز

پڑھتی رہو نماز تو چہرے پہ نور ہے پڑھتی نہیں نماز وہ جنت سے دور ہے۔


نمازِ عصر نمازوں کے اوقات میں تیسری مرتبے پر فائز ہے،لیکن افضلیت اور کمال میں اعلیٰ درجے کی نماز ہے کیونکہ اس نماز کو پڑھنے والے کے لیے اللہ پاک نے جہنم سے نجات وعدہ فرمایا ہے۔ یہ نماز دن کے آخری حصے یعنی غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے ادا کی جاتی ہے۔اس میں لوگ دنیاوی مشغلے یعنی کاروبار،رزق کمانے میں مشغول ہوتے ہیں۔نمازِ عصر کو سب سے افضل نماز اس وجہ سے کہا گیا ہے  کہ جب بندہ دنیاوی فکر سے آزاد ہو کر اس نماز کو ادا کرتا ہے تو جہنم سے محفوظ کر دیا جاتا ہے۔اس نماز کو صلاۃ الوسطی یعنی درمیانی نماز بھی کہا جاتا ہے چونکہ کام اور کاروبار ہونے کی وجہ سے اس نماز کو ادا کرنا نفس پر بھاری گزرتا ہے اس وجہ سے اس کا اجر و ثواب زیادہ ہے اورعصر کی فضیلت کے بارے میں حدیثِ مبارکہ بھی ہے،چنانچہ فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے،اللہ پاک اس شخص پر رحم پر فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ۔(ابوداود،ص30،حدیث:1271)صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی عصر کی نماز نکل گئی (یعنی جان بوجھ کر نماز چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال اور مال وتر یعنی چھین لیے گئے۔(بخاری،1/202،حدیث:552)مسلم شریف کی ایک روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں ہرگز داخل نہیں ہوگا جو طلوعِ آفتاب سے پہلے اور غروبِ آفتاب سے پہلے(یعنی فجر اور عصر )کی نماز پڑھتا ہو۔(مسلم،ص25،حدیث:1439)(4)حضرت ابو بصرہ غفاری رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،مدینے والے آقا،احمد مجتبیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم،ص322،حدیث:1927)(5)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں،ہم حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے،حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو عصر کی نماز اور فجر کی نماز نہ چھوڑو۔پھر حضرت جریر رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ آیت پڑھی:وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل غروبھا(پ16،طہ:31) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب پاک کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(مسلم،ص239،حدیث:1434ملخصاً)پیارے مسلمانو!نمازِ عصر درمیانی درجے کی نماز ہے جس میں دن اور رات کے فرشتے اکھٹے ہوتے ہیں اور بندوں کے بارے میں لکھ رہے ہوتے ہیں اسی دوران ہمارے اعمال نامے بند کیے جاتے ہیں اور اللہ پاک کو پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم عصر کی نماز سچے دل سے ادا کریں تو اللہ پاک ہم سے زیادہ خوش ہو جائے گا اور جہنم کی آگ سے محفوظ فرمائے گا بلکہ صرف نمازِ عصر ہی نہیں باقی تمام نمازیں خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں۔نماز کے وقت لوگ اپنے کاروبار میں مشغول ہوتے ہیں اورجب انہیں نماز کا خیال آتا ہے تو ان کا نفس ان کے اوپر حاوی ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے وہ جماعتِ عصر کو ترک کر دیتے ہیں۔رزق کا وعدہ اللہ پاک نےفرمایا ہے۔اگر ہم کام کاج چھوڑ کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں گی تو کیا ہمیں رزق عطا نہیں کرے گا؟ بلکہ وہ تو ہمارا رزق کشادہ کر دے گا۔


عصر کا معنی: دن کا آخری حصہ۔عربی میں زمانے کو عصر کہتے ہیں۔عصر اس وقت کو بھی کہتے ہیں جو سورج غروب سے پہلے ہوتا ہے ۔ماہنامہ خواتین کی قاریات!عین جس طرح تمام عبادتوں میں افضل عبادت نماز ہے،اسی طرح نمازوں میں افضل نمازِ عصر ہے۔ جیسا کہ علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نمازِ عصر ہے۔(فیض القدیر،2/253)قرآنِ کریم نے بھی عصر کی بہت تاکید فرمائی اور حدیث نے بھی۔عصر کے متعلق فرمانِ باری ہے:ترجمۂ کنز الایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔(پ2، البقرۃ:238)تفسیرصراط الجنان میں ہے:”تمام نمازوں کی پابندی اور نگہبانی کرو“اس نگہبانی میں ہمیشہ نماز پڑھنا، باجماعت پڑھنا،درست پڑھنا،صحیح وقت پر پڑھنا سب داخل ہیں۔درمیانی نماز کی خصوص تاکید کی گئی۔درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری شریف میں ہے:نمازِ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔(صراط الجنان،1/363ملخصاً)نمازِ عصر کے متعلق پانچ فرامینِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:(1)جنتی صحابی حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں،پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اُوپر کی طرف چلے جاتے ہیں۔اللہ کریم باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟وہ عرض کرتے ہیں:ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔(بخاری،1/203،حدیث:555)(2)حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے یعنی نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم،ص250،حدیث:1436)(3)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:عنقریب یعنی قیامت کے دن تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو،تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔(مسلم،ص239،حدیث:1434ملخصاً)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا، لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دوگنا یعنی double اجر ملے گا۔(مسلم،ص322،حدیث:1927)مفسر ِقرآن حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی اُمتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے تو تم ان سے عبرت پکڑنا۔(مراۃ المناجیح،2/166)(5)صحابی ابنِ صحابی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی عصر کی نماز نکل گئی یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑ بیٹھے گویا اس کے اہل و عیال اور مال و تر ہو گئے یعنی چھین لیے گئے۔(بخاری،1/202،حدیث:552)حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وتر کا معنی نقصان ہونا یا چھن جانا،پس جس کے بال بچے اور مال چھن گئے یا اس کا نقص ہوگیا گویا وہ اکیلا رہ گیا، لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیےجس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے یعنی برباد ہونے سے ڈرتا ہے۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم،2/590)اللہ کریم ہمیں تمام نمازوں کو پابندی کے ساتھ صحیح وقت پر درست طریقے سے پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین