نماز مسلمانوں کے لئے اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہےجو اس نے اپنے فضل وکرم سے ہم پر لازم کی ہے ۔نماز پڑھنے والا دنیا کے تمام تر مشاغل  یہاں تک کہ حلال چیزوں کو بھی ترک کر کے اپنے آپ کو اللہ پاک کی بارگاہ میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔یوں تو پانچوں نماز کے اپنے فضائل ہیں لیکن ہم یہاں خصوصاً نمازِ عصر کے متعلق ارشادِ نبی پڑھیں گی لیکن اس سے پہلے قرآنِ کریم کی یہ آیت ِمبارکہ ضرور پڑھیے:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْاللہ قٰنِتِیْنَ0(البقرۃ:238) ترجمۂ کنز العرفان:تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:نمازِ عصر کی تاکید کی ظاہری وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ ایک تو اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔(بخاری،4/549، حدیث:7429-شرح السنہ،5 / 370، تحت الحدیث: 2510)دوسرا یہ کہ اس وقت کاروبار کی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے تو اس غفلت کے وقت میں نماز کی پابندی کرنا زیادہ اہم ہے۔ اب یہاں 3 فرامینِ مصطفٰے نمازِ عصر کی فضیلت ملاحظہ کیجئے:(1)حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے ( یعنی فجر اور عصر کی)نماز ادا کی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، 250 ،حدیث: 1436)(2)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: (عنقریب قیامت کے دن )تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس کو دیکھ رہے ہو ،تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور نمازِ عصر کبھی نہ چھوڑو ۔ (مسلم، 239 ،حدیث: 1434)(3)حضرت ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئیں تو انہوں نے اسے ضائع کردیا،لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دوگنا( یعنی ڈبل) اجر ملے گا۔نمازِ عصر کے چھوڑنے پر وعیدیں بھی حدیثِ پاک میں خصوصا وارد ہوئی ہیں جو درج ذیل ہیں:اہل و عیال اور مال برباد ہوگئے :حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال و مال وتر ہو گئے۔( یعنی چھین لیے گئے)( بخاری، 202 ،حدیث: 553)


اللہ پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا اور اس امت کے سردار، رحمت دو جہاںصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پیدا فرمایا جو تمام جہان کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے۔ اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بے شمار معجزے عطا فرمائے جن میں ایک معجزہ معراج شریف کا ہے جس میں آقا علیہ سلام نے اپنی سر کی آنکھوں سے اللہ پاک کا دیدار کیا اور اس سفر پر آقا علیہ السلام کو آپ کی امت کے لیے پچاس نمازوں کا تحفہ ملا جو تخفیف ہو کر پانچ رہ گئی مگر ثواب اب بھی پچاس نمازوں کا ہی ہے۔ ان پانچ نمازوں فجر،ظہر،عصر،مغرب اور عشا کی نماز کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔نمازِ عصر کی بھی بہت اہمیت اور فضیلت ہے۔آئیے ! عصر کی نماز کی اہمیت اور فضیلت سنتی ہیں۔نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں: یعنی پچھلی امتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،تم ان سے عبرت پکڑنا۔(فیضانِ نماز،ص105) (2)تین فرامینِ مصطفٰے:(1)اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔(2) جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ اس کے بدن کو آگ پر حرام فرمائے گا۔(3)جوعصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اسے آگ نہ چھوئے گی۔(فیضانِ نماز،ص109)(3) حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہر گز جہنم میں نہیں جائے گا۔(فیضانِ نماز،ص99)(4)رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہو جاتے ہیں،پھر وہ فرشتے جنہوں نے تمہارے ساتھ رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ۔اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(فیضانِ نماز،ص98)(5) آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر فرمایا: عنقریب تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔ (فیضانِ نماز،ص100)


امام احمد رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:رات اور دن کے فرشتے نمازِ فجر و عصر میں جمع ہوتے ہیں،جب وہ جاتے ہیں تو اللہ پاک ان سے فرماتا ہے: کہاں سے آئے ہو؟ حالانکہ وہ جانتا ہے۔عرض کرتے ہیں:تیرے بندوں کے پاس سے، جب ہم ان کے پاس گئے تو نماز پڑھ رہے تھے اور انہیں نماز پڑھتا چھوڑ کر تیرے پاس حاضر ہوئے۔(بہار شریعت،1/154)(2) حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا :میں نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص ہر گز آگ میں داخل نہیں ہوگا جو نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے یعنی فجر اور عصر کی نمازیں۔( مسلم:634)(3)حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص دو ٹھنڈی نمازیں فجر اور عصر پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔(مسلم:635) (4)حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم لوگ اپنے رب کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور اسے اسی طرح دیکھو گے جیسےاس چاند کو دیکھ رہے ہو،اسے دیکھنے میں کوئی مزاحمت نہیں ہوگی۔ پس اگر تم ایسا کر سکتے ہو تو سورج طلوع ہونے پہلے والی نماز یعنی فجر اور سورج غروب ہونے سے پہلی والی نماز یعنی عصر سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو۔پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ:پس اپنے مالک کی حمد و تسبیح کر سورج طلوع ہونے اور غروب ہونے سے پہلے۔(ترمذی:2551)(5)حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج غروب ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے،وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے :ذرا ٹھہرو مجھے نماز تو پڑھنے دو۔(باب ذکر القبر،4/503،حدیث:4272)


نمازِ عصر کی اہمیت اور فضیلت بہت ہے۔بخاری شریف میں آتا ہے:جس نے جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑ دی اس کے سارے اعمال ضائع ہو گئے ،اس کی اولاد مر گئی اور سارا گھر چوری ہو گیا۔ یہ نماز چونکہ سورج کے غروب ہونے سے تھوڑی دیر پہلے ادا ہوتی ہے۔ یہ وقت مصروفیت کا ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کی نماز رہ جاتی ہے۔”ایک عورت مدینے کے بازار میں رو رہی تھی اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تلاش میں تھی کہ اتنے میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لائے اور فرمایا:اے عورت! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: میرا خاوند گھر پر نہیں ہے اور مجھ سے زنا ہو گیا ، پھر میرا بچہ پیدا ہوا تو میں نے اس بچے کو ڈرم میں پھینک دیا۔جس ڈرم میں بچے کو پھینکا تھا وہ ڈرم سرکے والا تھا ۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا:وہ سرکہ کہاں گیا؟تو عورت بولی:وہ تو میں نے بیچ دیا۔ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو سرکہ تو نے بیچ دیا وہ حرام تھا۔ تو نے بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ تو نے جو زنا کیا اس کے لیے تجھے رجم کیا جائے گا، جو بچہ قتل کیا اس کے بدلے قتل کیا جائے گا اور جو سرکہ تو نے بیچا وہ حرام تھا اس کی بھی سزا ملے گی کیونکہ وہ حرام تھا۔پھر فرمایا: اے عورت! میں نے سمجھا کہ تمہاری عصر کی نماز قضا ہو گئی ہے۔“کتنی فضیلت ہے نمازِ عصر کی!ایک اور مقام پر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب کوئی بندہ یا بندی مر جاتا یا مر جاتی ہے چاہے وہ دن ہو رات ہو یا شام لیکن قبر میں اس کو یہ محسوس ہوگا کہ سورج غروب ہونے والا ہے اس وقت وہی نماز ادا کرے گا جو نمازِ عصر کا پابند ہوگا۔میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب اس بندے کی آنکھیں قبر میں بند ہو گئیں اور پھر فوری طور پر کھل جائے گئیں اور فرشتے سے کہے گا:میں ذرا نماز عصر ادا کر لوں۔ آج کل لوگوں کا رواج ہے کہ سورج کے غروب کے وقت گھر سے باہر نکل جاتے ہیں گھر کا سامان لانے کے لیے تو اس وقت انسان کے اندر غفلت آ جاتی ہے اور وہ نماز چھوڑ دیتا ہے۔بخاری شریف میں آتا ہے:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی نمازِ عصر چھوٹ گئی اس کا مال ضائع ہو جائے گا اور اس کا گھر تباہ و بربادہوجائےگا۔ویسے تو ہر بالغ بالغہ مسلمان پر نماز فرض کی گئی ہے چاہے وہ سفر میں ہو کسی سخت بیماری میں ہو یا کسی پریشانی مصیبت میں ہو معاف نہیں یہاں تک کہ حالتِ جنگ میں بھی نماز معاف نہیں۔ اگر جنگ میں ایک آگے بھاگ رہا ہے اور دوسرا شخص یعنی اس کا دشمن اس کے پیچھے رہا ہے آگے سمندر ہے اس پہلے والے شخص نے سمندر میں چھلانگ ماری ،دشمن اس کے پیچھے ہے اس کا قبلہ سے رخ ساقط ہو گیا،لیکن نماز معاف نہیں لہٰذا وہ نماز کے کلمات ادا کرے گا۔اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ جوڑنے والی نماز ہے اس کو قائم رکھے۔پہلی امت پر دو نمازیں فرض تھیں اور ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں۔ پہلی امت پر اذان فرض نہیں تھی اور ہم پر اذان فرض ہے۔اذان اتنا بڑا عمل ہے کہ اذان دینے والا قیامت کے دن سب سے بلند مقام پر ہوگا۔جیسا کہ حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: کاش !اللہ پاک کے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے مسجدِ نبی کی اذان مانگ لیتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اگر میں خلیفہ نہ ہوتا تو میں مسجدِ نبوی کا موذن ہوتا پر اللہ پاک نے پہلا مؤذن حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بنایا۔ہمیں نماز ملی پہلی امت کو نماز نہ ملی۔ اللہ پاک نے ہمیں پانچ وقت کی نمازیں عطا کیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سی نمازیں فرض کیں،جیسے اشراق کی نماز،چاشت کی نماز، تہجد کی نماز وغیرہ نیز ہمارے لیے جنت کے دروازے کھول دیے ۔ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آخری نصیحت فرمائی:نماز نہ چھوڑنا۔نماز سے متعلق تین احادیث:بخاری شریف میں بیان ہوئیں ہیں جن میں نمازِ عصر کی فضیلت اور اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔چودھویں کا چاند تھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں کے چاند کو دیکھا اور فرمایا:تم عنقریب اللہ پاک کو ایسے دیکھو گے،پھر فرمایا:طلوعِ عشا سے پہلے نمازِ فجر پڑھا کرو اور غروبِ عشا سے پہلے نمازِ عصر پڑھا کرو ان دونوں نمازوں کو چھوڑنا نہیں۔بخاری شریف کی 553 نمبرحدیث شریف ہے:اللہ پاک کے فرشتے زمین پر اترے ہیں کچھ فرشتے عصر کو آتے ہیں اور کچھ فرشتے فجر کو آتے ہیں ۔جو فرشتے فجر کو آتے ہیں وہ عصر کو واپس لوٹ جاتے ہیں اور جو فرشتے عصر کو آتے ہیں وہ فجر کے وقت واپس چلے جاتے ہیں۔فرشتے اللہ پاک کی بارگاہ میں جاتے ہیں اور کہتے ہیں:تیرے بندے بہت کامل ہیں۔ فجر میں جاؤ تب بھی نماز اور عصر میں جاؤ تب بھی نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ابنِ ماجہ کی حدیث ہے:جب بندے کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے وہاں ٹائم عصر کا ہوتا ہے، سورج غروب ہوتا ہے اور فرمایا: جس نے عصر کی نماز پڑھی ہے اور فجر کی نماز پڑھی ہے دونوں نمازوں کو ساتھ رکھا اور پھر ظہر اور عشا اور نماز مغرب بھی پڑھی ۔جب وہ حساب کے وقت سب سے آگے بیٹھے ہوں گے اور فرشتے ان کے پاس حساب لیے آئیں گے ان سے سوال کریں گے تو بندہ کہے گا:نماز پڑھنے دو سورج غروب ہونے والا ہے ۔فرشتے کہتے ہیں:اس سے کیا سوال کرنے! یہ تو نمازی بندہ ہے اور فرشتے کہتے ہیں: ہم کو پتا تھا کہ تو ضرور کامیاب ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے جس نے عصر کے بعد چار رکعت پڑھیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک سب کو پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔پانچ وقت کی نماز کو شعارِ زندگی بنا لیجئے،مشکلیں آسان ہو جائیں گی۔ان شاء اللہ


ہم سب جانتی ہیں کہ نماز پڑھنا بہت ضروری ہے۔قرآن ِکریم میں کئی مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔یومیہ پانچ وقت کی نماز پڑھنا ہر عاقل و بالغ مرد وعورت مسلمان پر فرض ہے۔ان پانچوں نمازوں میں نمازِ عصر کی بڑی اہمیت شدید تاکید اور بڑی فضیلت ہے ، اسی لیے اللہ پاک نے ہمیں نمازِ عصر کی خصوصیت اور خصوصی حفاظت کا مکلف بنایا ہے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنزلایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں کی اور بیچ کی نماز کی۔پانچ فرامینِ مصطفے:صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :(1)نمازِ عصر کی حفاظت کرنا دیدارِ الہٰی جیسی عظیم الشان نعمت پانے کا ذریعہ ہے جیسا کہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم لوگ نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا،پھر فرمایا:تم لوگ عنقریب اپنے پروردگار کی اسی طرح زیارت کرو گے جیسے تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو،تمہیں اس میں کوئی الجھن پیش نہیں آئے گی،لہٰذا اگر تم سے ہو سکے تو سورج طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے والی نماز(یعنی عصر) نہ چھوڑنا ،پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی:ترجمۂ کنزالعرفان:سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔(ابوداود،باب فی الرؤیۃ)(2)حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:وہ شخص کبھی دوزخ میں نہ ہوگا جس نے طلوعِ آفتاب سے قبل اور غروبِ آفتاب سے قبل نماز ادا کی یعنی فجر اور عصر ۔(مسلم،باب فضل صلاۃ الصبح والعصر)(3) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں،نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے دو ٹھنڈی نمازیں(یعنی ظہر اور عصر)پڑھیں وہ جنت میں جائے گا۔(مسلم،باب فضل صلاۃ الصبح والعصر)(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تمہارے پاس رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے آگے پیچھے آتے رہتے ہیں اور نمازِ فجر اور عصر میں جمع ہوتے ہیں،پھر چڑھ جاتے ہیں،وہ فرشتے جو رات کو تمہارے پاس تھے اور پروردگار ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ خوب جانتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا ؟وہ عرض کرتے ہیں: جب ہم نے ان کو چھوڑا تو وہ نماز یعنی فجر ادا کر رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز یعنی عصر ادا کر رہے تھے۔(مسلم،باب فضل صلاۃ الصبح والعصر)(5)عصر کی سنتِ قبلیہ کی فضیلت:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔(ابوداود،باب الصلاۃ قبل العصر)دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں نمازِ عصر کی اہمیت اور فضیلت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور پنج وقتہ نماز کو مکمل پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین


فرمانِ الٰہی ہے:ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتابا موقوتا0 ترجمۂ کنز الایمان:بے شک نماز مسلمانوں پر باندھا ہوا وقت ہے۔اللہ پاک نے بندوں پر پانچ نمازیں فرض فرمائی ہیں۔ان کے نام درج ذیل ہیں: فجر،ظہر،عصر،مغرب،عشا۔ان نمازوں میں سے نمازِ عصر بھی ایک بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے: جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے گا۔(معجم کبیر،23/35)سبحان اللہ!یہاں پر نمازِ عصر کی فضیلت بیان ہوئی کہ اس کے بدن آگ پر حرام فرما دے گا تو ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ پانچوں وقتوں کی نماز ادا کرے اور سنتیں بھی ادا کرے سنتیں اداکر کے اس مذکورہ فضیلت کو بھی پا لے۔اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ فرمانِ مصطفٰے ہے:اللہ پاک اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔سبحان اللہ !نمازِ عصر کی اہمیت اسی سے معلوم ہوتی ہے ۔ان احادیث کا مطالعہ کرنے والوں کو چاہیے کہ وہ تمام نمازیں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ سنتیں اور نوافل بھی ادا کریں اور ڈھیروں ڈھیر نیکیاں کمائیں ۔بعض احادیث میں یوں بھی ملتا ہے کہ نمازِ عصر کے بعد نہ سویا جائے اور نہ ہی نمازِ عصر بلکہ کسی بھی نماز کو قضا کیا جائے۔نمازِ عصر کے بعد نہ سوئے اس کے متعلق فرمانِ مصطفٰے ہے:جو شخص عصر کے بعد سوئے اور اس کی عقل جاتی رہے تو وہ اپنے ہی کو ملامت کرے۔ (بہار شریعت،3/435)مزید نمازِ عصر کے بارے میں معلومات حاصل کرتی ہیں:(4) حضرت جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے،آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب یعنی قیامت کے دن تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح چاند کو دیکھ رہے ہو۔ تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو اور پھر جریر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی: ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو صراتے ہوئےاس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلےاور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(پ16،طہ:130)(مسلم،ص239،حدیث:1434ملخصاً)اللہُ اکبر! پیاری اسلامی بہنو!نمازِ عصر کی فضیلت بیان ہوئی اور نمازِ عصر کے باعث دیدارِ الہٰی نصیب ہوگا ۔تو ہر مسلمان کو چاہیے کہ تمام نمازوں کی پابندی کرے،دنیاوی غرضوں کو چھوڑکر اخروی مقاصد کی طرف بڑھے اور اپنے رب کریم کی رضا حاصل کر کے اس کی نعمتوں کا شکر بجا لائے۔آئیے!نمازِ عصر کے متعلق ایک اور فرمانِ مصطفٰے ملاحظہ کرتی ہیں:(5)حضرت عمارہ بن رویبہ رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا : جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے یعنی نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم،ص250،حدیث:1436)سبحان اللہ!ان نمازوں کا درجہ زیادہ ہے اور یہ دونوں نمازیں دن کے کنارے پر بھی پائی جاتی ہیں اور یہی نمازیں نفس پر زیادہ بھاری ہوتی ہیں تو چاہیے کہ ان نمازوں کی پابندی کیجیے باقی تمام نمازوں کی پابندی کی توفیق بھی مل جائے گی۔اے اللہ پاک! ہم تجھ سے نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کرنے اور پابندی سے نماز پڑھنے کی توفیق طلب کرتی ہیں۔ اے رب کریم! بے شک تو مہربان، کریم، رؤف و رحیم ہے۔اے اللہ پاک! ہمیں پانچ وقت کی نمازی بنا۔آمین


علامہ عبدالرؤف مناوی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نمازِ عصر ہے،پھر نمازِ فجر ،پھر عشا،پھر مغرب،پھر ظہر۔(فیض القدیر،2/53)نمازِ عصر کے بارے میں پانچ فرامینِ مصطفٰے درج ذیل ہیں:(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،مدینے کے تاجدار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں،پھر وہ فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں۔اللہ پاک باخبر ہونے کے باوجود ان سے پوچھتا ہے:تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں:ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری،1/203،حدیث:555)(2)حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع و غروب یعنی نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے نماز ادا کی یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم،ص250،حدیث:1436) (3)حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:ہم حضورِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودہویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:عنقریب یعنی قیامت کے دن تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑنا۔پھر حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت کی و سبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس و قبل غروبھا:ترجمۂ کنز الایمان:اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(مسلم،ص239،حدیث:1434)(4)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے اسے دوگنا یعنی ڈبل اجر ملے گا ۔(مسلم،ص322،حدیث:1927) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی پچھلی امتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی۔ مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے۔ تم ان سے عبرت پکڑنا۔(مراٰۃ المناجیح،2/166) (5)تابعی بزرگ حضرت ابو الملیح رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں:ایک ایسے دن کہ بادل چھائے ہوئے تھے ہم صحابِی رسول حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں شریک تھے،آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو۔ کیونکہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے نمازِ عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہوگیا۔(بخاری،1/203،حدیث:553) اللہ پاک ہم سب کو نمازِ عصر کی برکتیں لوٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور پنجگانہ نمازیں پابندیِ وقت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نمازوں سے محبت عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین


قرآن ِمجید ،فرقانِ حمید اور احادیثِ مبارکہ میں نماز کی اہمیت و فضیلت کو اس قدر واضح کیا گیا ہے کہ جتنا اور کسی عبادت کو نہیں کیا گیا۔قرآن اور حدیث میں ایک بار نہیں دس بار نہیں بلکہ  تقریباًساڑھے سات سو بار نماز کا حکم دیا گیا ہے اب جب اتنی بارحکم دیا گیا تو اس کا ترک کرنا کتنا جرم ہوگا!ربِّ کریم فرماتا ہے:ترجمہ:حفظواعلی الصلوات والصلوۃ الوسطی وقوموا للہ قانتین0(البقرۃ:238)ترجمۂ کنزالایمان:تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً بیچ کی نماز کی اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔تمام نمازوں کی پابندی کرنے کا حکم دیا گیا بالخصوص درمیانی نماز کی تاکید کی گئی۔درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے ۔جیسا کہ بخاری میں ہے:نمازِ وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔(فیضانِ نماز) بروایت حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا اور کہتا ہے:مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:یہ احساس منکر نکیر کے جگانے پر ہوتا ہے خواہ دفن کسی وقت ہو چونکہ نمازِ عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے۔ اس لیے یہ وقت دکھایا جاتا ہے۔حدیثِ پاک کے اس حصے ”مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں“ کے تحت لکھتے ہیں:یعنی اے فرشتو!سوالات بعد میں کرنا عصر کاوقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔ یہ وہی کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا۔ اللہ پاک نصیب کرے۔ آمین۔(فیضانِ نماز،) بروایت حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ ،نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ نماز( یعنی نمازِ عصر )تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔ (فیضانِ نماز)بروایت حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ ،میں نے مصطفٰے جانِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔(فیضانِ نماز) بروایت حضرت جبیر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ،ہم حضورِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:عنقریب(یعنی قیامت کے دن)تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔پھر حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی: ترجمۂ کنز الایمان:اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(فیضانِ نماز)بروایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ،سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم میں رات اور دن کے فرشتے باری باری آتے ہیں اور فجر اور عصر کی نمازوں میں جمع ہو جاتے ہیں پھر دو فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں۔اللہ پاک خبر ہونے کے باوجود پوچھتا ہے: تم نے میرے بندے کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ (فیضانِ نماز)


دینِ اسلام میں داخل ہونے کے بعد نماز مسلمان کے لیے فرضِ عین ہے۔نماز دین کا ستون ہے۔جس طرح ستون کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ سکتی اسی طرح نماز کے بغیر بھی ایمان کی عمارت نامکمل ہے۔سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر معراج کی رات 50نمازیں فرض کی گئیں،پھر کم کی گئیں یہاں تک کہ5 رہ گئیں ۔اے محبوب! ہماری بات نہیں بدلتی اور آپ کے لیے ان پانچ کے بدلے میں50 کا ثواب ہے۔سبحان اللہ! یوں تو ہر نماز کے ہی اپنے فضائل ہیں۔آئیے!نمازِ عصر کے کچھ فضائل جانتی ہیں۔حدیثِ مبارکہ: (1) حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نور والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔ شرح: حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یہ پچھلی امتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھ اور عذاب کے مستحق ہوئے،تم ان سے عبرت پکڑنا ۔(بحوالہ فیضانِ نماز،ص104)حدیثِ مبارکہ:(2) اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑ دے) گویا اس کے اہل و عیال اور مال وتر ہو گئے (یعنی چھین لیے گئے۔) شرح: حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:وتر کا معنی ہے :نقصان ہونا یا چھن جانا ۔جس کے بال بچے اور مال چھن گئے یا اس کا نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و ولت کےبرباد ہونے سے ڈرتا ہے۔(فیضانِ نماز،ص106،107)حدیث:(3)حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے،رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا اور کہتا ہے :مجھے چھوڑ دو میں نماز تو پڑھ لوں۔(فیضانِ نماز،ص107)حدیث:(4) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا ہے حتی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ آ جائے( یعنی غروب ہونے کے قریب ہو جائے) تو کھڑا ہو کر چار چونچے مارے کہ ان میں اللہ پاک کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔شرح: اس حدیثِ پاک کی شرح میں مفتی احمدیار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:معلوم ہوا !دنیاوی کاروبار میں پھنس کر نمازِ عصر میں دیر کرنا منافقوں کی علامت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جلد باز نمازی کے سجدے کو مرغ کے چونچ مارنے سے تشبیہ دی ہے جو وہ چگتے وقت زمین پر جلدی جلدی مارتا ہے۔حدیث:(4،5) حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے گا۔(فیضانِ نماز،ص108،109) اللہ پاک ہمیں ساری نمازیں پابندی وقت کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


نماز کا لغوی معنیٰ:نماز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی”عاجزی،انکساری،پرستش،بندگی کے ہیں۔(فیروزالّغات،فیروز سنز، ص1377)عصر کا لغوی معنیٰ:عصر عربی زبان کا لفظ ہے،جس کا معنی:دن کا آخری حصہ،آفتاب کے سرخ ہونے تک ہے۔ (المنجد، ص595)نمازِ عصر کا نام عصر کیوں؟عصر اس وقت کا نام ہے جس میں نماز ادا کی جاتی ہے یعنی یہ وہ نماز ہے جو دن کے آخری حصے میں ادا کی جاتی ہے۔(تفسیر سورۃ العصر،کنزالعرفان)اسی لیے اسے نمازِ عصر کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے کون سی نماز کس نے ادا کی؟بعض روایات میں ہے کہ ایک انصاری نے حضور علیہ السلام سے فجر کی نماز کے بارے میں پوچھا:سب سے پہلے یہ نماز کس نے پڑھی؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:سب سے پہلےفجرحضرت آدم علیہ السلام نے،ظہر حضرت یعقوب علیہ السلام نے،مغرب حضرت داؤد علیہ السلام نے،عشا حضرت یونس علیہ السلام نے پڑھی۔(غنیۃ الطالبین،عبدالقادر جیلانی ،ص481،سن اشاعت2013)امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَر،قَالَ:سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ الْكَيْسَانِیّ يَقُولُ:سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عُبَيْدَ اللہ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ:اِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ،لَمَّا تِيبَ عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ،صَلَٰى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ،وَفُدِیَ اِسْحَاقُ عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلّٰى اِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ اَرْبَعًا،فَصَارَتِ الظُّهْرُ،وَ بُعِثَ عُزَيْرٌ،فَقِيلَ لَهُ:كَمْ لَبِثْتَ؟فَقَالَ:يَوْمًا،فَرَأَى الشَّمْسَ فَقَالَ:اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ،فَصَلَٰى اَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ الْعَصْرُ۔وَ قَدْ قِيلَ:غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ،وَ غُفِرَ لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ،فَقَامَ فَصَلّٰى اَرْبَعَ رَكَعَاتٍ،فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِی الثَّالِثَةِ،فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا۔وَ اَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ترجمہ:بحر بن حکم الکیسانی کہتے ہیں:میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ رحمۃ اللہ علیہم کو یہ کہتے ہوئے سنا :جب صبح کے وقت حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز ِفجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ انہوں نے کہا: ایک دن، پھر انہوں نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں تو وہ نمازِ عصر ہوگئی۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز مغرب ہوگئی۔جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشا) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)نمازِ عصر کی حفاظت کا حکم:اللہ پاک کا فرمان ہے :حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ(البقرۃ:238)ترجمہ: نمازوں کی حفاظت کرو ،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ پاک کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو۔یہاں بیچ کی نماز سے مراد عصر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، مفتی قاسم عطاری،جلد اول)نمازِ عصر کے بارے میں 5 فرامین مصطفٰےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:حضرت فضالہ لیثی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:علَّمَنی رسولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَكَانَ فِيْمَا عَلَّمَنی:وَ حَافِظْ عَلَى الصَّلٰوَاتِ الْخَمْسِ۔قَالَ:قُلْتُ:اِنَّ هٰذِهٖ سَاعَاتٌ لِی فِيْهَا اَشْغَالٌ،فَمُرْنِی بِاَمْرٍ جَامِعٍ اِذَا اَنَا فَعَلْتُهُ اَجْزَأَ عَنِّی۔فَقَال:حافِظْ عَلَى العَصْرَيْنِ،وَمَا كَانَتْ مِنْ لُغَتِنَا۔ فَقُلْتُ وَمَا الْعَصْرانِ؟فقال:صلاةٌ قبلَ طُلُوع ِالشَّمْسِ،وَ صلاةٌ قَبْلَ غُرُوْبِها۔(ابو داود:428)ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا:یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے ہیں،آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے کافی ہو جائے۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عصرین پر محافظت کرو ! عصرین کا لفظ ہماری زبان میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے( فجر اور عصر ) ۔2:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:يَتَعاقَبونَ فيكُم:ملائِكَةٌ بالليلِ وملائِكةٌ بالنهارِ،ويجتمعونَ فی صلاةِ الفجرِ و صلاةِ العصرِ،ثم يَعْرُجُ الذينَ باتوا فيكُم،فيَسألُهُم و هو أعلَمُ بِهِم:كيفَ تَرَكتُم عِبادی؟فيقولون:تَرَكْناهُم وهُم يُصلونَ،و أتَيناهُم وهُم يُصلونَ۔(بخاری:555)ترجمہ:رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں ۔فجر اور عصر کی نمازوں میں(دونوں قسم کے فرشتوں کا)اجتماع ہوتا ہے۔پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ پاک پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے کہ ”میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟“وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ(فجرکی)نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ(عصر کی)نماز پڑھ رہے تھے۔ 3:حضرت عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: لن يلجَ النارَ أحدٌ صلى قبل طلوعِ الشمسِ و قبل غروبها يعنی الفجرَ و العصرَ(مسلم:634)ترجمہ: وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا جو سورج نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے یعنی فجر اور عصر کی نمازیں ۔4:حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:من صلى البرديْنِ دخل الجنةَ(مسلم:635)ترجمہ: جوشخص دو ٹھنڈی نمازیں (فجروعصر) پڑھتا رہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔5:حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اذا دخلَ الميِّتُ القبرَ،مُثِّلَتِ الشَّمسُ عندَ غُروبِها،فيجلسُ يمسحُ عَينَيهِ،و يقولُ:دَعونی اصلِّی۔( ابن ماجہ:4272)ترجمہ: جب میت قبر میں پہنچتی ہے تو اسے سورج ڈوبتا نظر آ تا ہے ۔وہ آ نکھیں ملتا ہو ا اٹھا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے:مجھے چھوڑو نماز پڑ ھ لینے دو ۔فرض تو فرض سنتوں کے بھی کیا کہنے!نمازِ عصر کی فضیلت تو مدینہ مدینہ ہے!فرض تو فرض،اس کی سنتوں کے بھی کیا کہنے! آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان دلنشیں ہے:جو عصر سے پہلے 4 رکعتیں پڑھے اسے آگ نہ چھوئے گی۔(بہار شریعت،جلد اول،حصہ الف،ص۔661)اللہ کریم ہمیں بھی پابندیِ نماز کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین


کلمۂ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے ۔یہ ہر مکلف یعنی عاقل بالغ پر فرضِ عین ہے۔اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے اور جو قصداً چھوڑ دے اگرچہ ایک ہی وقت کی نماز ہے وہ فاسق ہے۔ نماز کے مختلف فضائل ہیں مثلا اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب ہے۔ مکی مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔نماز مومن کی معراج ہے۔پانچوں نمازیں ہی اہمیت فضیلت کی حامل ہیں اور ان پر متعدد احادیثِ مبارکہ مذکور ہیں لہٰذا ان میں سے نمازِ عصر کی اہمیت اور فضیلت پر پانچ فرامینِ مصطفٰے ملاحظہ فرمائیے: (1) نمازِ عصر کی اہمیت کے متعلق فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :تم میں سے کسی کے اہل اور مال میں کمی کر دی جائے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے کہ اس کی نمازِ عصر فوت ہو جائے۔(مجمع الزوائد،2/55،حدیث:1715)نمازِ عصر کی فضیلت کے متعلق فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:(2) جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا اور کہتا ہے:دعونی اصلی ذرا ٹھہرو مجھے نماز پڑھنےدو ۔(ابن ماجہ،4/503،حدیث:4272)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت اس حدیثِ پاک کے اس حصے”دعونی اصلی یعنی ذرا ٹہرو مجھے نماز پڑھنے دو“ کے بارے میں فرماتے ہیں: یعنی اے فرشتو!سوالات بعد میں کرنا عصر کا وقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو۔یہ وہ کہے گا جو دنیا میں نمازِ عصر کا پابند تھا۔اللہ پاک نصیب فرمائے۔ مزید فرماتے ہیں: اس عرض پر سوال و جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان، کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہو چکی۔(مراۃ المناجیح،1/142)(3) احمد اور ابو داود اور ترمذی بافادۂ تحسین عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے راوی ،فرماتے ہیں : حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں۔(ابوداود،2/30،حدیث: 1271)(4) طبرانی کبیر میں ام المومنین اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے راوی ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھ لے اللہ پاک اس کے بدن کو آگ پر حرام فرما دے گا۔(معجم کبیر،23/281)دوسری روایت طبرانی کی عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجمع صحابہ میں جس میں امیر المومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، فرمایا: جو عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھے اسے آگ نہ چھوئے گی۔(معجم اوسط،2/77،حدیث:208) (5)نسائی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے راوی ،فرماتے ہیں، رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص نے فجر کی ایک رکعت قبل طلوعِ آفتاب پا لی تو اس نے نماز پا لی( اس پر فرض ہو گئی) اور جسے ایک رکعت عصر کی قبل غروبِ آفتاب مل گئی اس نے نماز پا لی یعنی اس کی نماز ہو گئی۔ فجر میں تکبیر تحریمہ کہی اور فجر کا وقت ختم ہوگیا تو نماز نہ ہوگی۔عصر کی نیت باندھ لی تکبیر تحریمہ کہہ لی اس وقت تک آفتاب نہ ڈوبا تھا پھر ڈوب گیا نماز ہو گئی اور کافر مسلمان ہوا یا بچہ بالغ ہوا اس وقت کے آفتاب طلوع ہونے تک تکبیر تحریمہ کہہ لینے کا وقت باقی تھا اس فجر کی نماز اس پر فرض ہو گئی قضا پڑھے اور طلوعِ آفتاب کے بعد مسلمان یا بالغ ہوا تو وہ نماز اس پر فرض نہ ہوئی۔


اسلام میں سب اعمال سے پہلے نماز فرض ہوئی یعنی نبوت کے گیارویں سال ہجرت سے دو سال کچھ ماہ پہلے نیز ساری عبادتیں اللہ پاک نے فرش پر بھیجی مگر نماز اپنے محبوب کو عرش پر بلا کردی اس لیے کلمۂ شہادت کے بعد سب سے بڑی عبادت نماز ہے۔ جو نماز سیدھی کر کے پڑھے تو نماز اسے بھی سیدھا کر دیتی ہے اسی طرح کہ نماز ہمیشہ پڑھے،صحیح پڑھے،دل لگا کر پڑھے،اخلاص کے ساتھ ادا کیا کرے،یہی معنی ہیں نماز قائم کرنے کے جس کا حکم قرآنِ کریم میں ہے :و اقم الصلوۃ لذکری ترجمہ:اورمیری یاد کے لیے نماز قائم رکھو۔ قیامت میں قبر میں بھی داخل ہے کیونکہ موت بھی قیامت ہی ہے مطلب یہ ہے کہ نماز قبر میں اور پل صراط پر روشنی ہو گی کہ سجدہ گاہ تیز بیڑی کی طرح چمکے گی اور نماز اس کے مومن ہونے کی دلیل ہوگی نیز نماز کے ذریعے اسے ہر جگہ نجات ملے گی کیونکہ قیامت میں پہلا سوال نماز کا ہوگا اگر اس میں بندہ کامیاب ہوگیا تو ان شاءاللہ آگے بھی کامیاب ہوگا۔حفظواعلی الصلوات والصلوۃ الوسطی وقوموا للہ قنتین0 ترجمہ:تمام نمازوں خصوصا بیچ والی نماز(عصر)کی محافظت رکھو اور اللہ کے حضور ادب سے کھڑے رہو۔(پ2،البقرۃ: 238)(1) حدیثِ مبارکہ: روایت ہے انہی سے فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہو سورج کا انتظار کرتا رہے حتی کہ جب پیلاپڑ جائے اور شیطان کے دو سینگوں کے بیچ آجائے تو کھڑا ہو کر چار چونچے مارے کہ ان میں اللہ پاک کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔(مسلم)وضاحت: یعنی اس حدیثِ پاک سے تین مسئلے معلوم ہوئے :ایک یہ کہ دنیاوی کاروبار میں پھنس کر نمازِ عصر دیر سے پڑھنا منافقوں کی علامت ہے۔دوسرے یہ کہ غروب سے 20 منٹ پہلے کراہت کا وقت ہے۔وقت مستحب میں عصر پڑھنا چاہیے۔تیسرے یہ کہ رکوع اور سجدہ بہت اطمینان سے کرنا چاہیے۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جلد باز سجدے کو مرغ کے چونچ مارنے سے تشبیہ دی ہے جو وہ دانا چگتے وقت زمین پر جلدی جلدی مارتا ہے۔(2) حدیثِ مبارک: روایت ہے حضرت ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ عنہما سے فرماتے ہیں:حضور علیہ السلام نے فرمایا: جس کی نمازِ عصر جاتی رہی گویا اس کا گھر بار اور مال لٹ گیا ۔(مسلم،بخاری)وضاحت:یعنی جیسے اس شخص کو وہ نقصان پہنچا جس کی تلافی نہیں ہو سکتی ایسے ہی عصر چھوڑنے والے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے کہ جو عصر چھوڑنے کا عادی ہو جائے اس کے لیے اندیشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے جس سے عمل ضبط ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عصر چھوڑنا کفر اور ارتداد ہے۔ خیال رہے!نمازِ عصر کو قرآنِ کریم نے بیچ کی نماز فرما کر کی بہت تاکید فرمائی نیز اس وقت رات اور دن کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے اور یہ وقت لوگوں کی سیر و تفریح اور تجارتوں کے فروغ کا وقت ہے اس لیے کہ اکثر لوگ عصر میں سستی کر جاتے ہیں اور ان وجوہ سے قرآن شریف نے بھی عصر کی بہت تاکید فرمائی اور حدیث شریف نے بھی۔ (مراۃ المناجیح،1/269تا270)حدیثِ مبارکہ: روایت ہے حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ سے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خندق کے دن فرمایا: انہوں نے ہمیں بیچ کی نماز یعنی نمازِ عصر سے روک دیا، خدا ان کے گھر اور قبریں آگ سے بھر دے۔(مسلم،بخاری) وضاحت :اس حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا !جب کفار نے مسلمانوں پر حملے کیے جس وجہ سے یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان نے فرمایا: جس وجہ سے ہمیں خندق کھودنا پڑی جس میں مشغولیت کی وجہ سے ہماری نمازیں خصوصا نمازِ عصر قضا ہوگئی ۔اس سے معلوم ہوا ! بیچ کی نماز جس کی قرآن شریف میں بہت تاکید ہے۔خیال رہے!غزوۂ احد میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جسمانی ایذا بہت پہنچی لیکن وہاں کفار کو یہ دعائے ضرر نہ دی یہاں نمازیں قضا ہونے پر یہ دعائے ضرر دی معلوم ہوا!حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو نمازیں جان سے پیاری تھی نیز اس دعائے ضرر سے غضب مقصود ہے حقیقت دعائے ضرر مقصود نہیں اس وجہ سی کفار خندق میں سے بعض لوگ بعد میں ایمان لے آئے ۔اگر دعائے ضرر مقصود ہوتی تو ان میں سے کسی کو ایمان نصیب نہ ہوتا۔(4)حدیثِ مبارکہ روایت ہے:حضرت ابنِ مسعود اور سمرہ بن جندوب رَضِیَ اللہُ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بیچ کی نماز عصر ہے۔(ترمذی) وضاحت: کیونکہ یہ نماز دن اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے نیز اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں نیز اس وقت دنیاوی کاروبارزیادہ زور پر ہوتے ہیں اس لیے اس کی تاکید زیادہ فرمائی گئی۔(مراۃ المناجیح،1/284تا285)(5)حدیثِ مبارکہ: روایت ہے حضرت بریدہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے ،فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو نمازِ عصر چھوڑے اس کے عمل ضبط ہو گئے۔(بخاری) وضاحت:غالبا عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے نمازِ عصر چھوڑ دی۔ضبطی سے مراد اس کام کی برکت کا ختم ہونا، باقی اس کی وجہ پیچھے حدیث نمبر2 میں بیان کر دی گئی ہے۔(مراۃ المناجیح ،1/270)

ہر عبادت سے برتر عبادت نماز ساری دولت سے بڑھ کر ہے دولت نماز

قلبِ غمگین کا سامانِ فرحت نماز ہے مریضوں کو پیغامِ صحت نماز

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ یا اللہ! ہمیں عشق ِنماز عطا فرما اور نمازِ عصر کو پابندی سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین