نمازِ عصر کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے از
بنتِ نیاز احمد قریشی،جوہرٹاؤن
نماز کا لغوی
معنیٰ:نماز فارسی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی”عاجزی،انکساری،پرستش،بندگی کے ہیں۔(فیروزالّغات،فیروز سنز، ص1377)عصر کا لغوی معنیٰ:عصر عربی زبان کا لفظ ہے،جس کا معنی:دن کا آخری حصہ،آفتاب
کے سرخ ہونے تک ہے۔ (المنجد، ص595)نمازِ عصر کا نام عصر
کیوں؟عصر اس وقت کا نام ہے جس میں نماز ادا کی جاتی ہے یعنی یہ وہ نماز ہے جو دن
کے آخری حصے میں ادا کی جاتی ہے۔(تفسیر سورۃ
العصر،کنزالعرفان)اسی لیے اسے نمازِ عصر کہا جاتا ہے۔سب سے
پہلے کون سی نماز کس نے ادا کی؟بعض روایات میں ہے کہ ایک انصاری نے حضور علیہ السلام سے فجر کی نماز
کے بارے میں پوچھا:سب سے پہلے یہ نماز کس نے پڑھی؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:سب سے
پہلےفجرحضرت آدم علیہ
السلام نے،ظہر حضرت یعقوب علیہ السلام نے،مغرب حضرت
داؤد علیہ السلام نے،عشا حضرت یونس علیہ السلام نے پڑھی۔(غنیۃ الطالبین،عبدالقادر جیلانی ،ص481،سن اشاعت2013)امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت بایں الفاظ نقل کی ہے:حَدَّثَنِی الْقَاسِمُ بْنُ جَعْفَر،قَالَ:سَمِعْتُ بَحْرَ بْنَ الْحَكَمِ
الْكَيْسَانِیّ يَقُولُ:سَمِعْتُ اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ عُبَيْدَ اللہ بْنَ
مُحَمَّدِ بْنِ عَائِشَةَ يَقُولُ:اِنَّ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ،لَمَّا تِيبَ
عَلَيْهِ عِنْدَ الْفَجْرِ،صَلَٰى رَكْعَتَيْنِ فَصَارَتِ الصُّبْحُ،وَفُدِیَ اِسْحَاقُ
عِنْدَ الظُّهْرِ فَصَلّٰى اِبْرَاهِيمُ عَلَيْهِ السَّلَامُ اَرْبَعًا،فَصَارَتِ
الظُّهْرُ،وَ بُعِثَ عُزَيْرٌ،فَقِيلَ لَهُ:كَمْ لَبِثْتَ؟فَقَالَ:يَوْمًا،فَرَأَى
الشَّمْسَ فَقَالَ:اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ،فَصَلَٰى اَرْبَعَ رَكَعَاتٍ فَصَارَتِ
الْعَصْرُ۔وَ قَدْ قِيلَ:غُفِرَ لِعُزَيْرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ،وَ غُفِرَ
لِدَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عِنْدَ الْمَغْرِبِ،فَقَامَ فَصَلّٰى اَرْبَعَ
رَكَعَاتٍ،فَجَهَدَ فَجَلَسَ فِی الثَّالِثَةِ،فَصَارَتِ الْمَغْرِبُ ثَلَاثًا۔وَ
اَوَّلُ مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللہ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ترجمہ:بحر بن حکم الکیسانی
کہتے ہیں:میں نے ابو عبد الرحمن عبید اللہ بن محمد بن عائشہ رحمۃ
اللہ علیہم کو یہ کہتے ہوئے سنا :جب صبح کے وقت حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول
ہوئی تو آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پس وہ نماز ِفجر ہوگئی۔ اور اسحاق علیہ السلام کا فدیہ ظہر کے
وقت ادا کیا گیا تو ابراہیم علیہ السلام نے چار رکعات ادا کیں، پس وہ نماز ظہر ہوگئی۔ اور جب عزیر علیہ السلام کو اٹھایا گیا
تو ان سے پوچھا گیا: آپ اس حالت میں کتنا عرصہ رہے؟ انہوں نے کہا: ایک دن، پھر انہوں
نے سورج کو دیکھا تو کہا: یا دن کا بھی کچھ حصہ۔ پھر انہوں نے چار رکعات ادا کیں
تو وہ نمازِ عصر ہوگئی۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ عزیر اور داؤد علیہما السلام کی مغرب کے وقت مغفرت ہوئی تو
انہوں نے چار رکعات نماز شروع کی لیکن تھک کر تیسری رکعت میں بیٹھ گئے۔ پس وہ نماز
مغرب ہوگئی۔جس ہستی نے سب سے پہلے آخری نماز (یعنی نمازِ عشا) ادا کی وہ ہمارے نبی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔(شرح معانی الآثار ط عالم الکتاب: 1/175، حدیث نمبر: 1046)نمازِ عصر
کی حفاظت کا حکم:اللہ پاک کا فرمان ہے :حَافِظُوا
عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَىٰ وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ(البقرۃ:238)ترجمہ: نمازوں کی
حفاظت کرو ،بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ پاک کے لیے با ادب کھڑے رہا کرو۔یہاں بیچ کی
نماز سے مراد عصر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، مفتی
قاسم عطاری،جلد اول)نمازِ عصر کے بارے میں 5 فرامین مصطفٰےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:حضرت فضالہ لیثی رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے:علَّمَنی رسولُ اللہ
صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،فَكَانَ فِيْمَا عَلَّمَنی:وَ حَافِظْ عَلَى الصَّلٰوَاتِ
الْخَمْسِ۔قَالَ:قُلْتُ:اِنَّ هٰذِهٖ سَاعَاتٌ لِی فِيْهَا اَشْغَالٌ،فَمُرْنِی بِاَمْرٍ
جَامِعٍ اِذَا اَنَا فَعَلْتُهُ اَجْزَأَ عَنِّی۔فَقَال:حافِظْ عَلَى
العَصْرَيْنِ،وَمَا كَانَتْ مِنْ لُغَتِنَا۔ فَقُلْتُ وَمَا الْعَصْرانِ؟فقال:صلاةٌ
قبلَ طُلُوع ِالشَّمْسِ،وَ صلاةٌ قَبْلَ غُرُوْبِها۔(ابو داود:428)ترجمہ: رسول اللہ
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے مجھے جو باتیں سکھائیں ان میں یہ بات بھی تھی کہ پانچوں
نماز پر محافظت کرو، میں نے کہا:یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مجھے بہت کام ہوتے
ہیں،آپ مجھے ایسا جامع کام کرنے کا حکم دیجیے کہ جب میں اس کو کروں تو وہ مجھے
کافی ہو جائے۔ آپ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: عصرین پر محافظت کرو ! عصرین کا لفظ ہماری زبان
میں مروج نہ تھا، اس لیے میں نے پوچھا: عصرین کیا ہے؟ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: دو نماز: ایک سورج نکلنے سے پہلے اور ایک سورج ڈوبنے سے پہلے( فجر اور عصر ) ۔2:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:يَتَعاقَبونَ
فيكُم:ملائِكَةٌ بالليلِ وملائِكةٌ بالنهارِ،ويجتمعونَ فی صلاةِ الفجرِ و صلاةِ
العصرِ،ثم يَعْرُجُ الذينَ باتوا فيكُم،فيَسألُهُم و هو أعلَمُ بِهِم:كيفَ
تَرَكتُم عِبادی؟فيقولون:تَرَكْناهُم وهُم يُصلونَ،و أتَيناهُم وهُم يُصلونَ۔(بخاری:555)ترجمہ:رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں
۔فجر اور عصر کی نمازوں میں(دونوں قسم کے
فرشتوں کا)اجتماع ہوتا ہے۔پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر
چڑھتے ہیں تو اللہ پاک پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق
جانتا ہے کہ ”میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا؟“وہ جواب دیتے ہیں: ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ(فجرکی)نماز پڑھ رہے تھے
اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ(عصر کی)نماز پڑھ رہے تھے۔ 3:حضرت عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے کہا:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا: لن يلجَ النارَ أحدٌ صلى
قبل طلوعِ الشمسِ و قبل غروبها يعنی الفجرَ و العصرَ(مسلم:634)ترجمہ: وہ شخص ہرگز آگ میں داخل نہیں ہو گا جو سورج نکلنے
اور اس کے غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھتا ہے یعنی فجر اور عصر کی نمازیں ۔4:حضرت ابوموسی
اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:من صلى البرديْنِ دخل الجنةَ(مسلم:635)ترجمہ: جوشخص دو
ٹھنڈی نمازیں (فجروعصر) پڑھتا رہا وہ
جنت میں داخل ہوگا۔5:حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اذا دخلَ الميِّتُ القبرَ،مُثِّلَتِ الشَّمسُ عندَ غُروبِها،فيجلسُ يمسحُ
عَينَيهِ،و يقولُ:دَعونی اصلِّی۔( ابن ماجہ:4272)ترجمہ: جب میت قبر میں پہنچتی ہے تو اسے سورج ڈوبتا نظر آ
تا ہے ۔وہ آ نکھیں ملتا ہو ا اٹھا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے:مجھے چھوڑو نماز پڑ ھ
لینے دو ۔فرض تو فرض سنتوں کے بھی کیا کہنے!نمازِ عصر کی فضیلت تو
مدینہ مدینہ ہے!فرض تو فرض،اس کی سنتوں کے بھی کیا کہنے! آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان دلنشیں ہے:جو عصر سے پہلے 4 رکعتیں پڑھے اسے آگ نہ چھوئے گی۔(بہار شریعت،جلد اول،حصہ الف،ص۔661)اللہ کریم ہمیں بھی پابندیِ نماز کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین