اسلام میں کچھ عبادات مخصوص شرائط کے پائے جانے کی صورت میں فرض ہیں جیسے روزہ، زکوٰۃ، حج وغیرہ اور ان میں سے ایک فرض عبادت نماز ہے۔ نماز ہر مسلمان عاقل بالغ پر دن میں پانچ مرتبہ اس کے وقت میں ادا کرنا فرض ہے۔ پانچ فرض نمازیں فجر، ظہر، عصر، مغرب اور عشا ہیں۔ ان کی اہمیت و فضیلت پر بہت سی احادیث ہیں جن میں سے نماز عصر کی اہمیت و فضیلت پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مندرجہ ذیل ہیں:

(1)حضرت سیدنا ابوبصرہ غفاری رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (Double)اجر ملے گا۔

(2) امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی بن ابی طالب رضي الله عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین، صلی الله علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت ہمیشہ عصر سے پہلے ان چار رکعتوں کو ادا کرتی رہےگی یہاں تک کہ اس دنیا ہی میں اس کی حتمی مغفرت کردی جائے گی۔

(3) ام المؤمنین حضرت سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا :جو عصر سے پہلے چار رکعتیں ادا کرے گا اللہ پاک اس کے بدن کو جہنم پر حرام فرمادے گا۔

(4) حضرت سیدنا عمارہ بن روبیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا:جس نے سورج کے طلوع وغروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی ( یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔

(5) حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص فجر اور عصر کی بعد تین تین مرتبہ یہ دعا پڑھے گا: أستغفِرُ اللهَ الَّذي لا إلهَ إلّا هوَ الحيُّ القَيومُ وأتوبُ إليهِ ترجمہ: میں اللہ پاک سے بخشش چاہتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے قائم ہے اور میں اس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔ تو اس کے گناہ مٹا دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔

آخری نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کتنے پیارے انداز میں نماز عصر ادا کرنے کا ترغیبا ًحکم ارشاد فرمایا ۔تو ہمیں بھی چاہیے کہ نماز عصر بشمول دیگر نمازوں کو ان کے اوقات میں ادا کریں۔ نماز کی عادت اپنانے کے لئے امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب "فیضان نماز" کا مطالعہ بہت مفید ہے۔ الله پاک ہمیں نماز کو اس کے ظاہری و باطنی حقوق کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز ایک اعلیٰ عبادت ہے جس کے قرآن و حدیث میں بہت زیادہ فضائل بیان کئے گئے ہیں بالخصوص نماز عصر جو کی صلوٰۃ وسطی (درمیانی نماز) ہے اس کے بارے میں قرآن مجید کے پارہ 2 سورہ بقرہ کی آیت نمبر 238 میں فرمایا گیا :حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ- ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی ۔(پ2،بقرہ:238 )تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت مبارکہ میں درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری میں ہے کہ نماز وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء علی المشرکین، الحدیث:6396)

نماز عصر کے احادیث کی روشنی میں فضائل درج ذیل ہیں۔

(1)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ نماز یعنی نمازے عصر تم سے پہلے لوگوں پر پیش کی گئی لیکن انہوں نے اس کو ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دو گنا اجر ملے گا۔(مسلم، حدیث : 1927)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے تم ان سے عبرت پکڑنا۔(مرأۃ المناجیح ، 2 /166)

(2)حضرت سیدنا ابو الملیح فرماتے ہیں کہ ایک ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے ہم صحابی رسول حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے آپ نے فرمایا نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہوگیا۔(بخاری ،حدیث:553)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: غالباً عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جن کی وجہ سے اس نے نماز چھوڑی اور عمل ضبط ہونے سے مراد کام کی برکت کا ختم ہونا ہے۔(مرأۃالمناجیح ،1/381)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر نکل گئی گویا اس کے اہل وعیال و مال وتر(چھین لیے گئے) ہو گئے۔(بخاری ،حدیث:552)حضرت ابوسلیمان خطابی شافعی فرماتے ہیں کہ وتر سے مراد نقصان ہونا یا چھن جانا ہے۔لہذا جس کے مال بچے چھن گئے اور اس کا نقصان ہو گیا اور وہ اکیلا رہ گیا لہذا نماز کے فوت ہونے سے بھی انسان کو ایسے ہی ڈرنا چاہیے جیسے وہ اپنے اہل و عیال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔(فیضان نماز،ص:106)

(4)حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جس نے سورج کے طلوع و غروب سے پہلے نماز ادا کی(یعنی نماز فجر و عصر ادا کی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہو گا۔(مسلم شریف،حدیث:1436)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں اس حدیث مبارکہ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ نماز فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ کے لئے نہیں جائے گا اگر گیا بھی تو عارضی طور پر۔ دوسرا یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاءاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق مل جائے گی اور گناہوں سے بچنے کی بھی کیونکہ یہی نمازیں نفس پر زیادہ بھاری ہیں۔(مرأۃ المناجیح ، 1 / 394)

(5)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب مرنے والا قبر میں جاتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔(ابن ماجہ، حدیث:4272 )حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں چونکہ نماز عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے اس لیے یہ وقت دکھایا جاتا ہے۔ حدیث کے اس حصے (مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں) کے تحت فرماتے ہیں یعنی اے فرشتو سوالات بعد میں کرنا عصر کا وقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو یہ وہی کہے گا جو دنیا میں نماز عصر کا پابند تھا۔(مرأۃ المناجیح ، 1 / 142)


انبیا و رُسُل نے مختلف اوقات میں نماز ادا کی اور اللہ پاک نے اپنے بندوں پر ان حسین اداؤں کو لازم فرما دیا۔ جیسا کہ حضرت سیدنا عزیر علیہ السلام سو برس کے بعد زندہ فرمائے گئے،اس کے بعد آپ نے چار رکعتیں ادا کیں تو یہ نماز عصر ہو گئی۔(شرح معانی الآثار،1/226،حدیث:1014)

نماز عصر کی اہمیت و فضیلت میں بے شمار فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتب احادیث میں زینت قرطاس ہیں۔ جیسا کہ نماز عصر کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے کہ،حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کے دن فرمایا : انہوں نے ہمیں بیچ کی نماز یعنی نماز عصر سے روک دیا خدا ان کے گھراور قبریں آگ سے بھر دے۔(مشکوٰةالمصابیح،جلد 1،حدیث:583) اس حدیث کی شرح میں مفتی احمدیار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ کفار کے حملے کی وجہ سے مسلمانوں کو خندق کھودنا پڑی جس میں مشغولیت کی وجہ سے ان کی نمازِ عصر قضا ہوگئی۔ غزوہ اُحد میں حضور کو جسمانی اذیت بہت پہنچی لیکن وہاں کفار کو یہ بدعا نہ دی۔ یہاں غزوہ خندق میں نمازیں قضا ہونے پر یہ بد دعا دی تو معلوم ہوا کہ حضور کو نماز جان سے پیاری تھی۔ نیز اس بد دعا سے اظہار غضب و ملال مقصود ہے حقیقتاً بد دعا مقصود نہیں۔

نماز عصر کے فضائل بے شمار ہیں ،جیسا کہ حضرت سیدنا ابو القاسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ نمازِعصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)

حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ ”جو دو ٹھنڈی نمازیں (یعنی فجر و عصر) پڑھا کرے جنت میں جائے گا ۔ ( مشکوٰة المصابیح ، جلد 1،حدیث:572)

حضرت سیدنا عُمارَہ بن رُوَیبَہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کو طلوع اور غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی (یعنی فجر و عصر پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

ایک دفعہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چودھویں کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا: عنقریب یعنی قیامت کے دن تم اپنے رب کو اس طرح دیکھوگے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو ، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نمازِ فجر اور عصر کبھی نہ چھوڑو۔ (مسلم ،ص 239، حدیث:1434)

قرآن مجید میں بھی اللہ تعالی نے خصوصیت کے ساتھ نماز عصر ادا کرنے کا حکم دیا ہے: حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-ترجمہ کنز الایمان :نگہبانی کرو سب نمازوں کی اور بیچ کی نماز کی۔(پ2،بقرہ:238 )

یہاں بیچ کی نماز سے عصر کی نماز مراد ہے۔ لہذا ہمیں پانچ وقت کی نماز بالخصوص عصر کی نماز پابندی سے ادا کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی نماز پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایمان و عقائد کی درستگی کے بعد تمام فرائض میں اہم فرض نماز ہے۔ہر مسلمان عاقل بالغ پر روزانہ پانچ وقت کی نماز فرض ہے اس کی فرضیت (یعنی فرض ہونے) کا انکار کفر ہے ۔جو جان بوجھ کر ایک نماز ترک کرے وہ فاسق سخت گناہ گار عذاب نار کا حق دار ہے۔

نماز عصر کی تاکید " مفتی احمد یار خان علیہ رحمہ فرماتے ہیں فجر وعصر کی نماز میں رات و دن کے محافظ فرشتے جمع ہو جاتے ہیں : اور آپ آگے ارشاد فرماتے ہیں نماز عصر کارو بار ، سیر وتفریح کی غفلت کا وقت ہے۔ ان وجوہ(Reasons)سے عصر نماز کی تاکید زیادہ ہے ۔

اللہ پاک فرماتا ہے نماز عصر کے متعلق :حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-ترجمۂ کنزالایمان : نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی۔(پ2،بقرہ:238 )(مرآۃالمناجیح، 7/517تا518،ملخصا)

نماز عصرکی فضیلت پر پانچ احادیث :

(1) حضرت سیدنا ابو بصرہ غِفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا (یعنی Double) اجر ملے گا ۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان علیہ رحمہ فرماتے ہیں : یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوے، تم ان سے عبرت پکڑنا ۔(مراٰۃالمناجیح ،2/166)

(2) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا اس کے اہل ومال برباد ہوگئے ۔(بخاری ،1 /202 ،حدیث: 552)

(3) حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس نے سورج کے طلوع وغروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر وعصر کی نماز پڑھی )وہ ہر گز جہنم میں داخل نہیں ہوگا ۔( فیضان نماز، ص: 100)

(4)حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مرنے والا قبر میں دفن ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے :مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ حدیث پاک کے اس حصے (سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے) کے تحت فرماتے ہیں یہ احساس منکر نکیر کے جگانے پر ہوتا ہے، خواہ دفن کسی وقت ہو ۔ چونکہ نماز عصر کی زیادہ تاکید ہے اور سورج کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے اس لئے یہ وقت دکھایا جاتا ہے ۔حدیث کے اس حصے (مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں) کے تحت لکھتے ہیں یعنی اے فرشتو سوالات بعد میں کرنا عصر کا وقت جارہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو ، یہ وہ ہی کہے گا جو دنیا میں نماز عصر کا پابند تھا اللہ نصیب کرے۔ (فیضان نماز، ص107)

(5️)حضرت سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا :عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہوسکے تو نماز فجر وعصر کبھی نہ چھوڑو ، پھر حضرت سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت مبارک پڑھی :وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚترجمۂ کنزالایمان '' اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ۔(پ 16، طٰہٰ: 130)(فیضان نماز )


(1) حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز  جہنم میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہ جائے گا ، اگر گیا تو عارضی (یعنی وقتی) طور پر۔ لہذا یہ حدیث کے خلاف نہیں کہ بعض لوگ قیامت میں نمازیں لے آئیں گے مگر ان کی نمازیں اہل حقوق (یعنی جن کے حقوق پامال کئے ہوں گے ان ) کو دلوادی جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاءاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی ، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں۔ جب ان پابندی کرلی تو ان شاءاللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا ،لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ نجات کے لئے صرف یہ دو نمازیں ہی کافی ہیں باقی کی ضرورت نہیں۔ خیال رہے کہ ان دو نمازوں میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، نیز یہ دن کے کناروں کی نمازیں ہیں، نیز یہ دونوں نفس پر گراں (یعنی بھاری ) ہیں کہ صبح سونے کا وقت ہے اور عصر کاروبار کے فروغ (یعنی زور وشور) کا ، لہذا ان (نمازوں) کا درجہ زیادہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1 / 394)

حضرت سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:،، عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نماز فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو ۔ پھر حضرت سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(پ 16، طٰہٰ: 130)(مسلم، ص 239،حدیث: 1434 ملخصا)

حضرت سیدنا ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کریگا اسے دگنا ( یعنیDouble ) اجر ملے گا۔ (مسلم ص 322،حدیث: 1928 ) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ، تم ان سے عبرت پکڑنا۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 2 / 166 )

تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ایک ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے، ہم صحابی رسول حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے ، آپ نے فرمایا : نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ، جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہو گیا۔( بخاری ، 1 / 203 ،حدیث: 553)


دین کے بنیادی امور میں سے ایک اہم ترین امر نماز ہے۔ پانچوں نمازوں میں سے ہر ایک نماز  کی اپنی ایک فضیلت ہے، لیکن علامہ عبدالرءوف مناوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :پانچوں نمازوں میں سب سے افضل عصر کی نماز ہے۔(فیض القدیر، 2/53)

نہ صرف قرآن و احادیث میں نماز عصر کی فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ پچھلی آسمانی کتاب تورات میں بھی اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے چنانچہ حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ سے منقول ہے آپ نے فرمایا :میں نے تورات کے کسی مقام میں پڑھا (اللہ پاک فرماتا ہے) : اے موسیٰ عصر کی چار رکعتیں احمد اور ان کی امّت ادا کرے گی تو ساتوں آسمان و زمین میں کوئی فرشتہ باقی نہ بچے گا، سب ہی ان کی مغفرت چاہیں گے اور ملائکہ جس کی مغفرت چاہیں میں اسے ہرگز عذاب نہ دوں گا۔(حاشیہ فتاویٰ رضویہ ،5/52)

بہت سارے مقامات پر احادیث میں بھی نماز عصر کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے ۔ ان میں سے پانچ فرامین درج ذیل ہیں:

(1) حضرت عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر اور عصر کی نماز پڑھی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہوگا (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

( 2) حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا تو لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)

(3) صحابی رسول حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے نماز عصر چھوڑ دی، اس کا عمل ضبط ہوگیا۔ (بخاری ۔1/203، حدیث :553) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :غالباً عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جس کی وجہ سے اُس نے نماز عصر چھوڑی( اور) ضبط سے مراد اس کام کی برکت کا ختم ہونا ہے۔ (مراۃالمناجیح ،1/381)

(4)حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جس کی نماز عصر نکل گئی (یعنی جان بوجھ کر نماز عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل وعیال و مال وتر ہو (یعنی چھین لیے) گئے ۔(بخاری ،1 /202 ،حدیث: 552)

(5) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معظم ہے :جب مرنے والا قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے :مجھے چھوڑو میں نماز پڑھ لوں۔ (ابن ماجہ، 4/503،حدیث:4272)

آج اگر معاشرہ پر نگاہ ڈالی جائے تو عجیب ایک بے چینی کی فضاء دکھائی دیتی ہے، بہت سے لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ دل کا سکون میسر نہیں اور ذہن پریشان رہتا ہے آئیے سنتے ہیں اس کا حل کیا ہے، امام شعرانی فرماتے ہیں :میں نے سیّدی علی خواص رحمۃاللہ علیہ کو فرماتے سنا ہے کہ روح کی غذا یعنی معنوی رزق جو کہ دکھائی نہیں دیتا (یعنی دل و دماغ کا سکون جس پر مبنی ہوتا ہے) اللہ پاک عصر کی نماز سے لیکر غروب آفتاب تک تقسیم فرماتا ہے۔(لواقح الانوارالقدسیۃ،ص67) روایت کا مقصد یہ ہے کے اس وقت کو غفلت میں نہ گزارو بلکہ ذکر وعبادت میں بسر کرو۔

ایک طرف اگر ہم اس وقت کو عبادت میں گزاریں گے تو ڈھیروں ڈھیر ثواب تو ہاتھ آئے گا ہی دوسری طرف اُس کی برکت سے ہمیں دل و دماغ کا سکون بھی عطا کیا جائے گا۔ تو ہمیں چاہیے کہ ویسے تو سارا دن ہی اللہ کی رضا کے کاموں میں گزاریں لیکن بالخصوص عصر کے وقت کو اللہ پاک کی عبادت کرتے ہوئے گزاریں۔

اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ساری زندگی ہمیں اپنی رضا کے کاموں میں گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے ہر عبادت کا ایک ستون اور پایہ ہوتا ہے جس پر پوری عمارت کا دارو مدار ہوتا ہے، اگر کبھی اس ستون پر کوئی آفت آجائے تو پوری عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے نماز ایک دیندار انسان کے دین و عقائد کے لئے ایک ستون کے مانند ہے۔پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! نمازِ پنجگانہ مسلمانوں کے لئے ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ اسلامی عبادات میں سب سے افضل عبادت نماز ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں ۔جن میں سے نماز عصر کی اہمیت و افضلیت پر 5 فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر کیے جاتے ہیں:۔

(1) حضرت عمارہ بن روبیہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہرگز جہنم میں نہیں جائے گا جو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نماز پڑھے یعنی فجر اور عصر کی نماز پڑھے (صحيح مسلم)

(2)حضرت ابن عمر رضي اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی نماز عصرجاتی رہی گویا اس کا گھر بار اور مال لٹ گیا۔(مشکوة المصابیح)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ الله علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی جیسے اس شخص کو وہ نقصان پہنچا جس کی تلافی نہیں ہوسکتی ایسے ہی عصر چھوڑنے والے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔

(3)حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو نماز عصر چھوڑدے اس کے عمل ضبط ہوگئے۔(مشکوة المصابیح)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃاللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:عمل ضبط ہونے سے مراد اس کام کی برکت کا ختم ہونا ہے یا یہ مطلب ہے کہ جو عصر چھوڑنے کا عادی ہوجائے اس کے لئے اندیشہ ہے کہ وہ کافر ہوکر مرے۔

(4)حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو دو ٹھنڈی نمازیں پڑھا کرے جنت میں جائے گا۔(مشکوة المصابیح)مرأة المناجیح میں ہے کہ ٹھنڈی نمازوں سے مراد فجر و عصر ہے۔

(5)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کردیا لہذاجو اسے پابندی سے اداکریگا اسے دگنا اجر ملے گا۔(صحیح مسلم)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے، تم ان سے عبرت پکڑنا۔

اللہ پاک ہمیں پانچوں وقت کی نماز با جماعت پڑھنےکی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم 


(1) حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں :  ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چودھیں کے چاند کو دیکھا اور فرمایا: تم اپنے رب کو دیکھو گے جیسے تم اس چاند کو دیکھتے ہو اور اس کے دیکھنے میں تمہیں کوٸی مشقت نہ ہوگی۔ اگر تمہیں استطاعت ہو تو مغلوب نہ ہوجاٶ سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے والی نماز سے ، تو ایسا ضرور کرو ( یعنی ان نمازوں سے غافل کرنے والے اسباب دور کرنے کی کوشش کرو)۔ پھر یہ آیت تلاوت کی :وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ الْغُرُوْبِۚ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور ڈوبنے سے پہلے۔(پ 26۔قٓ:39)حضرت اسماعیل نے فرمایا : (یہ نمایں) پڑھو، تم سے یہ فوت نہ ہوجائیں۔(بخاری ،1/ 286 ،حدیث :521 مترجم )

(2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تمہارے پاس رات اور دن کے فرشتے یکے بعد دیگرے آتے رہتے ہیں وہ فجر کی نماز اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر وہ اوپر چلے جاتے ہیں جنہوں نے تمہارے پاس رات گزاری ہوتی ہے تو اللہ پاک ان سے پوچھتا ہے جب کہ وہ فرشتوں سے بہتر نمازیوں کے حالات کو جانتا ہے تم میرے بندوں کو کس کیفیت میں چھوڑ کر آئے ہو وہ کہتے ہیں کہ اب بھی ہم ان کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑ آئے ہیں اور ہم ان کے پاس گئے تھے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔(بخاری ،1/ 287 ،حدیث :522 مترجم )

(3) حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خندق کے موقع پر فرمایا :اللہ پاک ان کے گھروں اور ان کی قبروں کو آگ سے بھر دے جس طرح انہوں نے ہمیں درمیانی نماز سے روکے رکھا۔(ابن ماجہ ،1/ 225 ،حدیث :675 مترجم )

(4) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس آدمی کی عصر کی نماز فوت ہو جاتی ہے گویا اس کے اہل اور مال چھین لئے گئے۔(ابن ماجہ ،1/ 225 ،حدیث :676 مترجم )

(5) حضرت عمارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے اور سورج غروب ہونے سے پہلے نماز پڑھی وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔(سنن نسائی،1/ 196، حدیث: 467 مترجم )


فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم:تم میں سے کسی کے اہل اور مال میں کمی کردی جائےتو اس کے لئے بہتر ہے کہ اس کی نماز عصر فوت ہوجائے۔(مجمع الزوائد،2/50،حدیث: 1715)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم:وہ شخص دوزخ میں نہیں جائے گا جو سورج نکلنے سے پہلے یعنی(فجر)اور سورج ڈوبنے سے پہلے یعنی(عصر)نماز پڑھے گا-(سنن نسائی، 1/ 474)

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم: جس کی عصر ک نماز جاتی رہی اس کا اتنا بڑا نقصان ہو گیا کہ گویا اس کا خاندان اور مال سب تباہ ہوگا۔(بخاری)

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرما یا: اللہ پاک کی رحمت ہو اس بندے پر جو عصر سے پہلے 4رکعتیں پڑھے۔(سنن ترمذی، کتاب مواقیت الصلوۃ باب ما جاء فی العربی قبل العصر ،حدیث:430)


دینِ اسلام میں تمام فرائض کی تکمیل پر انتہائی زور دیا گیا ہے بالخصوص نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔اس لیے کہ نماز جمیع عبادات کی اصل اور مومن کی معراج ہے۔ پھر نماز میں بھی نمازِ عصر کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کثیر احادیثِ طیبہ میں اس کی تاکید موجود ہے۔ ذیل میں ہم پانچ احادیثِ کریمہ ذکر کرتے ہیں جن سے نمازِ عصر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

(1)عَنْ ‌عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الَّذِي تَفُوتُهُ ‌صَلَاةُ ‌الْعَصْرِ كَأَنَّمَا وُتِرَ أَهْلَهُ وَمَالَهُ ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی گویا کہ اس کے اہل و عیال اور اس کا مال لُٹ گیا۔

(2)عَنْ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ فَاتَتْهُ ‌صَلَاةُ ‌الْعَصْرِ حَبِطَ عَمَلُهُ» ترجمہ: حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کی عصر کی نماز فوت ہوگئی اس کا عمل برباد ہوگیا۔

(3)عَنْ ‌أَبِي الْمَلِيحِ قَالَ:«كُنَّا مَعَ بُرَيْدَةَ فِي غَزْوَةٍ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، فَقَالَ: بَكِّرُوا بِصَلَاةِ الْعَصْرِ، فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ تَرَكَ ‌صَلَاةَ ‌الْعَصْرِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ» ترجمہ: حضرت ابو الملیح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم بادلوں کے دن ایک غزوے میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا کہ جلدی جلدی عصر کی نماز پڑھو کیونکہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس کا عمل برباد ہوگیا۔

(4)عَنْ ‌عَلِيٍّ قَالَ:«قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ:شَغَلُونَاعَنِ الصَّلَاةِ الْوُسْطَى‌صَلَاةِ الْعَصْرِ،مَلَأَ اللهُ بُيُوتَهُمْ وَقُبُورَهُمْ نَارًا ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے احزاب کے دن فرمایا کہ (مشرکین نے) ہمیں صلوٰۃِ وسطٰی ،عصر کی نماز سے مشغول رکھا ، اللہ پاک ان کے گھروں اور قبروں کو آگے سے بھر دے۔

(5)مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَنْ يَلِجَ النَّارَ مَنْ صَلَّى قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا» ترجمہ: حضرت ابو بکر بن عمارہ بن رویبہ ثقفی اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ شخص کبھی بھی آگ میں داخل نہیں ہوگا جس نے سورج کے طلوع ہونے(یعنی صبح کی نماز) اور غروب ہونےسے پہلے (یعنی عصر کی )نماز پڑھی۔

اللہ کریم پیارے محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہم سب کو نمازِ پنجگانہ باجماعت مسجد کی صفِ اول میں ادا کرنے کی توفیقِ رفیق نصیب فرمائے۔


نماز کو اُمّ العبادات کا درجہ دیا گیا ہے۔ قرآن و احادیث میں نماز پڑھنے کے بہت سے فضائل اور نہ پڑھنے کی بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔ خصوصاً  نماز عصر جس کو صلوة الوسطی بھی کہا جاتا ہے اسکی ترغیب پر 5 فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم درج ذیل ہے :۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے ،وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتاہے:دعونی اصلی یعنی ذرا ٹھہرو ! مجھے نماز تو پڑھنے دو۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الزھد ،3/503،حدیث: 4272)حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ،حدیث پاک کےاس حصے (دعونی اصلی ) کے تحت لکھتے ہیں :یعنی اے فرشتو! سوالات بعد میں کرنا ،عصر کا وقت جا رہا ہے ،پہلے مجھے نما ز پڑھنے دو ۔ یہ وہ کہے گا جو دنیا میں نمازِعصر کا پابند تھا ،اللہ نصیب فرمائے ۔مزید فرماتے ہیں :ممکن ہے کہ اس عرض پر سوال و جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان،کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہو چکی۔(مراٰۃ المناجیح ،جلد 1،صفحہ 142)

(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہواسورج کا انتظار کرتا رہے ،یہاں تک کہ جب پیلا پڑ جائے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جائے تو کھڑا ہو کر چار چونچیں مارے کہ ان میں اللہ کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔(مسلم،ص246،حدیث:1412)اس حدیث سے تین مسئلے معلوم ہوئے :ایک یہ کہ دنیاوی کاروبار میں پھنس کر نمازِ عصر میں تاخیر کرنا منافقوں کی علامت ہے ۔ دوسرا یہ کہ سورج غروب ہونے سے 20 منٹ پہلے مکروہ وقت ہے ،عصر کو مستحب وقت میں پڑھنا چاہیے ۔ تیسرایہ کہ رکوع اور سجود بہت اطمینان سے کرنا چاہیے ،حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جلد بازی میں سجدہ کرنے کو مرغے کے چونچ مارنے سے تشبیہ دی جو وہ دانہ چُگتے وقت زمین پر جلدی جلدی مارتا ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ، 1/381،حدیث :556)

(3) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب ، اللہ کے پیارے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑ دے ) گویا اس کے اہل وعیال "وَتر " ہو گئے ۔وَتر کا مطلب : حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :وَتر کا معنی ہے: ’’نقصان ہونا یا چھن جانا،‘‘ پس جس کے بال بچے اور مال چِھن گئے یا اس کا کوئی نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا ۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے ( یعنی بربادہونے )سے ڈرتا ہے ۔(اکمال المعلم بفوائد المسلم ،2/590)

(4) حضرت سیدنا ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پہلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اس کو ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اس کے لیے دُگنا اجر ملے گا ۔(مسلم ،ص322،حدیث:1927)

دُگنا اجر ملنے کی وجوہات:ـپہلا اجر پچھلی امتوں کے لوگوں کی مُخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کرنے کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اجر عصر کی نماز پڑھنے پر ملے گا جس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے ۔یا پہلا اجر عبادت پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اجر قناعت کرتے ہوئے خرید و فروخت چھوڑنے پر ملے گا ، کیونکہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں ۔ یا پہلا اجر عصر کی فضیلت کی وجہ سے ملے گا کیونکہ یہ صلاۃ الوسطٰی (یعنی درمیانی نماز) ہے اور دوسرا اجر اس کی پابندی کے سبب ملے گا ۔(شرح الطیبی ، 3/ 19 ، مرقاۃ المفاتیح ، 3 / :139)

(5) تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ایک روز ایسے بادل چھائے ہوئے تھے ، ہم صحابئ رسول حضرت سیدنا بُریدَہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں شریک تھے ، آپ نے فرمایا : نمازِ عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ : جس نے نمازِ عصر چھوڑ دی اُس کا عمل ضبط ہو گیا ۔( بخاری ، 1/ 203 ،حدیث : 553)حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :غالباً عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے نمازِعصر چھوڑی اور "ضبط ہو جانے "سے مراد اس کام کی برکت ختم ہو جانا ہے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو عصر کی نماز چھوڑنے کی عادت بنا لے ، اس کے لیے یہ اندیشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے گا کہ جس سے اعمال ضبط ہو جائیں گے البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کے عصر کی نماز چھوڑنا کفر و ارتداد ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ،1/ 381)نیز! رنج و اَلَم ، پریشانیاں و غَم ،کم یا ختم کرنے کے لیے نماز میں پلکوں کو نَم کیجیے !!!

اللہ پاک ہم سب کو نماز پر استقامت عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرت سیِّدُنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے مصطَفٰے جانِ رحمت صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا :جس نے سورج کے طُلُوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نَماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نما ز پڑھی) وہ ہر گز جہنَّم میں داخِل نہ ہوگا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں :ایک یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لیے نہ جائے گا، اگر گیا تو عارِضی (یعنی وقتی )طور پر۔ لہٰذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ بعض لوگ قیامت میں نمازیں لے کر آئیں گے مگر ان کی نمازیں اہلِ حقوق(یعنی جن کے حقوق پامال کئے ہوں گے اُن) کو دلوادی جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو اِنْ شَآءَاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں ۔ جب ان پر پابندی کرلی تو اِنْ شَآءَاللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا، لہٰذا اس حدیث پر یہ اعتِراض نہیں کہ نَجات کے لیے صرف یہ دو نمازیں ہی کافی ہیں باقی کی ضَرورت نہیں ۔ خیال رہے کہ ان دو نمازوں میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں ، نیز یہ دن کے کَناروں کی نماز یں ہیں ، نیز یہ دونوں نفس پر گِراں (یعنی بھاری) ہیں کہ صبح سونے کا وقت ہے اور عصر کا روبار کے فروغ(یعنی زور وشور) کا، لہٰذا ان (نمازوں ) کا دَرَجہ زیادہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1/394)

حضرت سیدنا ابو بصیرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نوروالے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔(مسلم، ص322،حدیث:1927)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :یعنی پچھلی اُمتوں پر بھی نمازِ عصر فرض تھی مگر وہ اِسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ،تم ان سے عبرت پکڑنا۔ (مراٰۃالمناجیح ،2/166)

تابعی بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنا اَبُو الْمَلِیْح رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں : ایک ایسے روز کہ بادَل چھا ئے ہو ئے تھے، ہم صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنابُرَیْدَہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو کیو نکہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضَبط ہوگیا۔(بخاری ،1/203،حدیث: 553)

صحابی ابنِ صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی نمازِعصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑے گویا اُس کے اَہل وعیال و مال ’’وَتر‘‘ ہو (یعنی چھین لئے) گئے۔(بخاری ،1 /202 ،حدیث: 552)