نماز ایک اعلیٰ عبادت ہے جس کے قرآن و حدیث میں بہت زیادہ فضائل بیان کئے گئے ہیں بالخصوص نماز عصر جو کی صلوٰۃ وسطی (درمیانی نماز) ہے اس کے بارے میں قرآن مجید کے پارہ 2 سورہ بقرہ کی آیت نمبر 238 میں فرمایا گیا :حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ- ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز کی ۔(پ2،بقرہ:238 )تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت مبارکہ میں درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے جیسا کہ بخاری میں ہے کہ نماز وسطی سے مراد عصر کی نماز ہے۔(بخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء علی المشرکین، الحدیث:6396)

نماز عصر کے احادیث کی روشنی میں فضائل درج ذیل ہیں۔

(1)حضرت ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ نماز یعنی نمازے عصر تم سے پہلے لوگوں پر پیش کی گئی لیکن انہوں نے اس کو ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اسے دو گنا اجر ملے گا۔(مسلم، حدیث : 1927)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ تعالی اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے تم ان سے عبرت پکڑنا۔(مرأۃ المناجیح ، 2 /166)

(2)حضرت سیدنا ابو الملیح فرماتے ہیں کہ ایک ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے ہم صحابی رسول حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے آپ نے فرمایا نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہوگیا۔(بخاری ،حدیث:553)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں: غالباً عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جن کی وجہ سے اس نے نماز چھوڑی اور عمل ضبط ہونے سے مراد کام کی برکت کا ختم ہونا ہے۔(مرأۃالمناجیح ،1/381)

(3)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز عصر نکل گئی گویا اس کے اہل وعیال و مال وتر(چھین لیے گئے) ہو گئے۔(بخاری ،حدیث:552)حضرت ابوسلیمان خطابی شافعی فرماتے ہیں کہ وتر سے مراد نقصان ہونا یا چھن جانا ہے۔لہذا جس کے مال بچے چھن گئے اور اس کا نقصان ہو گیا اور وہ اکیلا رہ گیا لہذا نماز کے فوت ہونے سے بھی انسان کو ایسے ہی ڈرنا چاہیے جیسے وہ اپنے اہل و عیال کے فوت ہونے سے ڈرتا ہے۔(فیضان نماز،ص:106)

(4)حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جس نے سورج کے طلوع و غروب سے پہلے نماز ادا کی(یعنی نماز فجر و عصر ادا کی) وہ ہرگز جہنم میں داخل نہ ہو گا۔(مسلم شریف،حدیث:1436)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کی شرح میں فرماتے ہیں اس حدیث مبارکہ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ نماز فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ کے لئے نہیں جائے گا اگر گیا بھی تو عارضی طور پر۔ دوسرا یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاءاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق مل جائے گی اور گناہوں سے بچنے کی بھی کیونکہ یہی نمازیں نفس پر زیادہ بھاری ہیں۔(مرأۃ المناجیح ، 1 / 394)

(5)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب مرنے والا قبر میں جاتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے تو وہ آنکھیں ملتا ہوا بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں۔(ابن ماجہ، حدیث:4272 )حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں چونکہ نماز عصر کی زیادہ تاکید ہے اور آفتاب کا ڈوبنا اس کا وقت جاتے رہنے کی دلیل ہے اس لیے یہ وقت دکھایا جاتا ہے۔ حدیث کے اس حصے (مجھے چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں) کے تحت فرماتے ہیں یعنی اے فرشتو سوالات بعد میں کرنا عصر کا وقت جا رہا ہے مجھے نماز پڑھ لینے دو یہ وہی کہے گا جو دنیا میں نماز عصر کا پابند تھا۔(مرأۃ المناجیح ، 1 / 142)