(1) حضرت سیدنا عمارہ بن رویبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز  جہنم میں داخل نہ ہو گا۔ (مسلم ،ص250،حدیث: 1436)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں: ایک یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہ جائے گا ، اگر گیا تو عارضی (یعنی وقتی) طور پر۔ لہذا یہ حدیث کے خلاف نہیں کہ بعض لوگ قیامت میں نمازیں لے آئیں گے مگر ان کی نمازیں اہل حقوق (یعنی جن کے حقوق پامال کئے ہوں گے ان ) کو دلوادی جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ فجر و عصر کی پابندی کرنے والوں کو ان شاءاللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گی اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی ، کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں۔ جب ان پابندی کرلی تو ان شاءاللہ بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا ،لہذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ نجات کے لئے صرف یہ دو نمازیں ہی کافی ہیں باقی کی ضرورت نہیں۔ خیال رہے کہ ان دو نمازوں میں دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں، نیز یہ دن کے کناروں کی نمازیں ہیں، نیز یہ دونوں نفس پر گراں (یعنی بھاری ) ہیں کہ صبح سونے کا وقت ہے اور عصر کاروبار کے فروغ (یعنی زور وشور) کا ، لہذا ان (نمازوں) کا درجہ زیادہ ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1 / 394)

حضرت سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھ کر ارشاد فرمایا:،، عنقریب (یعنی قیامت کے دن) تم اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تو اگر تم لوگوں سے ہو سکے تو نماز فجر و عصر کبھی نہ چھوڑو ۔ پھر حضرت سیدنا جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِهَاۚ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب کو سراہتے ہوئے اس کی پاکی بولو سورج چمکنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے۔(پ 16، طٰہٰ: 130)(مسلم، ص 239،حدیث: 1434 ملخصا)

حضرت سیدنا ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اسے ضائع کر دیا لہذا جو اسے پابندی سے ادا کریگا اسے دگنا ( یعنیDouble ) اجر ملے گا۔ (مسلم ص 322،حدیث: 1928 ) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں: یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے ، تم ان سے عبرت پکڑنا۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 2 / 166 )

تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ایک ایسے روز کہ بادل چھائے ہوئے تھے، ہم صحابی رسول حضرت سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے ، آپ نے فرمایا : نماز عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ، جس نے نماز عصر چھوڑ دی اس کا عمل ضبط ہو گیا۔( بخاری ، 1 / 203 ،حدیث: 553)