نماز کو اُمّ العبادات کا درجہ دیا گیا ہے۔ قرآن و احادیث میں نماز پڑھنے کے بہت سے فضائل اور نہ پڑھنے کی بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔ خصوصاً  نماز عصر جس کو صلوة الوسطی بھی کہا جاتا ہے اسکی ترغیب پر 5 فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم درج ذیل ہے :۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : جب مردہ قبر میں داخل ہوتا ہے تو اسے سورج ڈوبتا ہوا معلوم ہوتا ہے ،وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا ہے اور کہتاہے:دعونی اصلی یعنی ذرا ٹھہرو ! مجھے نماز تو پڑھنے دو۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الزھد ،3/503،حدیث: 4272)حکیم الامت مفتی احمد یار خاں نعیمی رحمۃ اللہ علیہ ،حدیث پاک کےاس حصے (دعونی اصلی ) کے تحت لکھتے ہیں :یعنی اے فرشتو! سوالات بعد میں کرنا ،عصر کا وقت جا رہا ہے ،پہلے مجھے نما ز پڑھنے دو ۔ یہ وہ کہے گا جو دنیا میں نمازِعصر کا پابند تھا ،اللہ نصیب فرمائے ۔مزید فرماتے ہیں :ممکن ہے کہ اس عرض پر سوال و جواب ہی نہ ہوں اور ہوں تو نہایت آسان،کیونکہ اس کی یہ گفتگو تمام سوالوں کا جواب ہو چکی۔(مراٰۃ المناجیح ،جلد 1،صفحہ 142)

(2) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :یہ منافق کی نماز ہے کہ بیٹھا ہواسورج کا انتظار کرتا رہے ،یہاں تک کہ جب پیلا پڑ جائے اور شیطان کے دو سینگوں کے درمیان آ جائے تو کھڑا ہو کر چار چونچیں مارے کہ ان میں اللہ کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔(مسلم،ص246،حدیث:1412)اس حدیث سے تین مسئلے معلوم ہوئے :ایک یہ کہ دنیاوی کاروبار میں پھنس کر نمازِ عصر میں تاخیر کرنا منافقوں کی علامت ہے ۔ دوسرا یہ کہ سورج غروب ہونے سے 20 منٹ پہلے مکروہ وقت ہے ،عصر کو مستحب وقت میں پڑھنا چاہیے ۔ تیسرایہ کہ رکوع اور سجود بہت اطمینان سے کرنا چاہیے ،حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جلد بازی میں سجدہ کرنے کو مرغے کے چونچ مارنے سے تشبیہ دی جو وہ دانہ چُگتے وقت زمین پر جلدی جلدی مارتا ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ، 1/381،حدیث :556)

(3) حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے محبوب ، اللہ کے پیارے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس کی نمازِ عصر نکل گئی (یعنی جو جان بوجھ کر نمازِ عصر چھوڑ دے ) گویا اس کے اہل وعیال "وَتر " ہو گئے ۔وَتر کا مطلب : حضرت علامہ ابو سلیمان خطابی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :وَتر کا معنی ہے: ’’نقصان ہونا یا چھن جانا،‘‘ پس جس کے بال بچے اور مال چِھن گئے یا اس کا کوئی نقصان ہو گیا گویا وہ اکیلا رہ گیا ۔ لہٰذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے ( یعنی بربادہونے )سے ڈرتا ہے ۔(اکمال المعلم بفوائد المسلم ،2/590)

(4) حضرت سیدنا ابو بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : یہ نماز یعنی نمازِ عصر تم سے پہلے لوگوں پر پیش کی گئی تو انہوں نے اس کو ضائع کر دیا لہٰذا جو اسے پابندی سے ادا کرے گا اس کے لیے دُگنا اجر ملے گا ۔(مسلم ،ص322،حدیث:1927)

دُگنا اجر ملنے کی وجوہات:ـپہلا اجر پچھلی امتوں کے لوگوں کی مُخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کرنے کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اجر عصر کی نماز پڑھنے پر ملے گا جس طرح دیگر نمازوں کا ملتا ہے ۔یا پہلا اجر عبادت پر پابندی کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اجر قناعت کرتے ہوئے خرید و فروخت چھوڑنے پر ملے گا ، کیونکہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں ۔ یا پہلا اجر عصر کی فضیلت کی وجہ سے ملے گا کیونکہ یہ صلاۃ الوسطٰی (یعنی درمیانی نماز) ہے اور دوسرا اجر اس کی پابندی کے سبب ملے گا ۔(شرح الطیبی ، 3/ 19 ، مرقاۃ المفاتیح ، 3 / :139)

(5) تابعی بزرگ حضرت سیدنا ابو الملیح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :ایک روز ایسے بادل چھائے ہوئے تھے ، ہم صحابئ رسول حضرت سیدنا بُریدَہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں شریک تھے ، آپ نے فرمایا : نمازِ عصر میں جلدی کرو کیونکہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ : جس نے نمازِ عصر چھوڑ دی اُس کا عمل ضبط ہو گیا ۔( بخاری ، 1/ 203 ،حدیث : 553)حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ پاک کے تحت لکھتے ہیں :غالباً عمل سے مراد وہ دنیاوی کام ہے جس کی وجہ سے اس نے نمازِعصر چھوڑی اور "ضبط ہو جانے "سے مراد اس کام کی برکت ختم ہو جانا ہے ۔ یا یہ مطلب ہے کہ جو عصر کی نماز چھوڑنے کی عادت بنا لے ، اس کے لیے یہ اندیشہ ہے کہ وہ کافر ہو کر مرے گا کہ جس سے اعمال ضبط ہو جائیں گے البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کے عصر کی نماز چھوڑنا کفر و ارتداد ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ،1/ 381)نیز! رنج و اَلَم ، پریشانیاں و غَم ،کم یا ختم کرنے کے لیے نماز میں پلکوں کو نَم کیجیے !!!

اللہ پاک ہم سب کو نماز پر استقامت عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم