عبادت کی تعریف:عبادت اُس انتہائی تعظیم کا نام ہے جو بندہ اپنی عبدیت یعنی
بندہ ہونے اور معبودکی اُلوہیت یعنی معبود ہونے کے اعتقاد اور اعتراف کے ساتھ
بجالائے۔یہاں عبادت توحید اور اس کے علاوہ اپنی تمام قسموں کو شامل ہے۔کافروں کو
عبادت کا حکم اس معنیٰ میں ہے کہ وہ سب سے بنیادی عبادت یعنی ایمان لائیں اور اس
کے بعد دیگر اعمال بجالائیں۔
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ: تاکہ تمہیں پرہیزگاری ملے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو
ملتا ہے جبکہ اللہ تعالٰی اس سے پاک ہے کہ
اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو ۔(صراط الجنان،1/85)
(1)فرمانِ مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:حق اور باطل کے درمیان نماز کا فرق ہے۔
(2) قیامت کا سب سے
پہلا سُوال: سرکارِ مدینہ،
سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیضِ گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
اِرشادِ حقیقت بنیاد ہے: قِیامت کے دن بندے کے اَعمال میں سب سے پہلے نماز کا
سُوال ہو گا۔ اگر وہ دُرُست ہوئی تو اس نے کامیابی پائی اور اگر اس میں کمی ہوئی
تو وہ رُسوا ہوا اور اس نے نقصان اُٹھایا۔(نماز کے احکام،ص 174)
(3) اوقات نمازِ عصر:حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نمازِ عصر
قائم کی حالانکہ آفتاب بلند سفید اور صاف تھا۔(مسلم،حدیث:613)
رسولِ پاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز عصر پڑھتے تھےاور آفتاب بلند (زردی کے بغیر روشن)
ہوتا تھا۔اگر کوئی شخص نمازِ عصر کے بعد مدینہ منورہ شہر سے "عوالی" (مدینہ کی نواحی بستیاں) جاتا تو جب
ان کے پاس پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا۔یہ بھی فرمایا کہ یہ منافق کی نماز ہے کہ
بیٹھا ہوا سورج کا انتظار کرتا رہے حتّٰی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے بیچ
آجائے(یعنی غروب ہونے کے قریب ہوجائے تو کھڑا ہو کر چار چونچیں مارے کہ ان میں
اللہ کا تھوڑا ہی ذکر کرے۔(مسلم،حدیث:622)
(4) نمازِ عصر کے فوت
ہونے کا گناہ: حضرتِ سیِّدُنا
اَبُو الْمَلِیْح رحمۃُ اللہِ علیہ بیان
کرتے ہیں : ایک ایسے روز کہ بادَل چھا ئے ہو ئے تھے، ہم صحابیِ رسول حضرتِ سیِّدُنابُرَیْدَہ
رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں تھے، آپ نے فرمایا: نمازِ عصر میں جلدی کرو کیو
نکہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس نے
نمازِعصر چھوڑدی اُس کا عمل ضَبط ہوگیا۔
(5)نماز عصر کی فضیلت
کے بیان میں: حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے
کے تاجدار صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں رات اور دن کے
فرشتے بار ی باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں ، پھروہ
فرشتے جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں ، اللہ پاک باخبر
ہونے کے باوُجود ان سے پوچھتا ہے: تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض
کرتے ہیں : ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ
نماز پڑھ رہے تھے۔ (بخاری ،1/203،حدیث:555)