ایمان و تصحیح عقائد ( یعنی درست عقیدوں) مطابقِ مذہب اہل
سنت و جماعت کے بعد نماز تمام فرائض میں
نہایت اہم فرض ہے ۔ قرآن مجید و احادیث نبی کریم علیہ الصلٰوۃ
والتسلیم اس کی اہمیت سے مالا مال ہیں ،جا
بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین (یعنی نماز نہ پڑھنے والوں) پر وعید فرمائی۔
یہ ایک عظیم الشان
نعمت ہے اور نماز ہمارے پیارے اور آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ و
سلم کو تحفہ میں ملی ہے تو قدر کرنی چاہیے اور یہ تحفہ بھی ایسا کمال کا ہے کہ
رہتی دنیا بلکہ تا قیامت نہ کسی کو ملا ہے نہ ہی کسی کو ملے گا کیونکہ یہ خاص
ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو ہی ملا ہے۔
یاد رکھیں نماز ہر مکلّف یعنی عاقِل بالغ پر نما ز فرض عین
ہے اس کی فرضیت کا منکر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے۔ اور جو قصداً (یعنی جان
بوجھ کے) نماز چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی وہ فاسِق ہے اور جو کوئی جان بوجھ کر ایک نماز قضا کرے گا وہ
جہنم میں جائے گا چنانچہ ابو نعیم ابو
سعید رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:جس نے قصداً نماز
چھوڑی، جہنم کے دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔ (بہار شریعت، 1/ 441)
صحیحین میں نوفل بن
معاویہ رضی اﷲ عنہ سے مروی، حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : جس کی نماز
فوت ہوئی گویا اس کے اہل و مال جاتے رہے۔لہذا نماز کی پابندی کریں۔
جس جگہ پے نماز کی وعیدیں ہیں تو اس جگہ اس کے فوائد بھی
ہیں تو پہلے کچھ نماز کے فوائد پڑھ لیتے ہیں تاکہ نماز پڑھنے کو دل کرے ۔
نماز کے بہت سے دینی فوائد ہیں جیسے :مولیٰ کائنات کی رِضا
اور اس سے قریب پہنچاتی ہے ،شیطان کو دور بھگاتی ہے اور شفاعتِ مصطفیٰ صلی اللہ
علیہ والہ و سلم اور دنیاوی بھی کافی فوائد جیسے: بیماری دور ہوتی ہے، دل کی قوت
اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ لیکن اتنے فائدے ہیں کہ بندہ شمار ہی نہیں کر سکتا۔
اہمیت :اکثر یہ
دیکھا گیا ہے کہ عصر کے وقت لوگ کاروبار میں یا پھر فضول کاموں میں لگے ہوئے ہوتے
ہیں یا پھر کھیل کھود میں لگے ہوئے ہوتے ہیں لیکن فقط کچھ منٹ رب کے حضور کھڑے
نہیں ہوسکتے۔ الآمان و الحفیط یاد رکھیں قرآن و حدیث میں نماز عصر اہمیت و فضلیت بیان کی گئی ہے، کیونکہ نماز عصر
دیگر نمازوں رکے مقابلہ میں اعظم (یعنی زیادہ عَظَمت والی) ہے۔ چنانچہ اللہ پاک
خود قرآنِ مجید میں پارہ 2 سورہ البقرۃ
آیۃ نمبر 238 میں ارشاد فرماتا ہے: حٰفِظُوْا
عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ(۲۳۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:نگہبانی کرو سب نمازوں اور بیچ کی نماز
کی اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے
۔(پ2،بقرہ:238 )
درمیانی نماز سے مراد نماز عصر ہے اور اکثر صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم کا بھی یہی قول ہے۔
تو پتا چلا کہ نماز عصر کی کافی اہمیت ہے۔ آئیں
مزید نماز عصر پر ابھارنے اور اس کی فضیلت
پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و
سلم پڑھتے ہیں:۔
(1) حضرت سیدنا ابو بَصْرَہ غِفارِی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور والے آقا صلی اللہ علیہ
والہ و سلم نے فرمایا : یہ نماز یعنی نماز عصر تم سے پچھلے لوگوں پر پیش کی گئی تو
انہوں نے اس کو ضائع کر دیا لہذا جو اسے
پابندی سے ادا کرے گا اسے دگنا اجر ملے گا۔
حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت
لکھتے ہیں : یعنی پچھلی امتوں پر بھی نماز عصر فرض تھی مگر
وہ اسے چھوڑ بیٹھے اور عذاب کے مستحق ہوئے، تم ان سے عبرت پکڑنا ۔(فیضانِ نماز۔ ص 104)
دگنے اجر کی وجوہات:پہلا اَجر پچھلی اُمتوں کے لوگوں کی مخالفت کرتے ہوئے عصر کی نماز پر پابندی کی
وجہ سے ملے گا اور دوسراا جر عصر کی نماز پڑھنے پر ملے گا جس طرح دیگر نمازوں کا
ملتا ہے یا پھر پہلا اَجر عبادت پر پابندی
کی وجہ سے ملے گا اور دوسرا اَجر قناعت کرتے ہوئے خرید و فروخت چھوڑنے پر ملے گا،
کیونکہ عصر کے وقت لوگ بازاروں میں کام کاج میں مصروف ہوتے ہیں ۔
(2) حضرت سیدنا عُمَارَہ بن رُوَیْبَہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں میں نے مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے
سورج کے طلوع و غروب ہونے (یعنی نکلنے اور ڈوبنے) سے پہلے نماز ادا کی (یعنی جس نے
فجر و عصر کی نماز پڑھی) وہ ہر گز جہنم میں داخل نہ ہوگا۔ (فیضانِ نماز، ص 99)حضرت مفتی احمد یار خان
رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں :اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ
کہ فجروعصر کی پابندی کرنے والا دوزخ میں ہمیشہ رہنے کے لئے نہ جائے گا، اگر گیا
تو عارضی (یعنی وقتی) طور پر۔ لہٰذا یہ حدیث اس حدیث کے خلاف نہیں کہ بعض لوگ
قیامت میں نمازیں لے کر آئیں گے مگر ان کی نمازیں اہل حقوق (یعنی جن کے حقوق پامال
کئے ہوں گے اُن) کو دلوادی جائیں گی۔ دوسرا یہ کہ فجروعصر کی پابندی کرنے والوں کو
ان شاء اللہ باقی نمازوں کی بھی توفیق ملے گا اور سارے گناہوں سے بچنے کی بھی،
کیونکہ یہی نمازیں (نفس پر) زیادہ بھاری ہیں۔ جب ان پر پابندی کرلی تو ان شاء اللہ
بقیہ نمازوں پر بھی پابندی کرے گا۔ لہٰذا اس حدیث پر یہ اعتراض نہیں کہ نجات کے لئے
صرف یہ دو نمازیں ہی کافی ہیں باقی کی ضرورت نہیں۔ خیال رہے کہ ان دو نمازوں میں
دن رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں۔ نیز یہ دن کے کناروں کی نمازیں ہیں۔ نیز یہ دونوں
نفس پر گراں (یعنی بھاری) ہیں کہ صبح سونے کا وقت ہے اور عصر کاروبار کے فروغ
(یعنی زوروشور) کا۔ لہٰذا ان (نمازوں) کا درجہ زیادہ ہے۔
(3)صحابی ابن صحابی
حضرت سیدنا عبداللہ بن عُمَر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی
صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جس کی نماز عصر نکل گئی (جان بوجھ کر
نماز عصر چھوڑے) گویا اس کے اہل و عیال و مال ’’وتْر “ ہو (یعنی چھین لئے) گئے۔
(فیضانِ نماز ،ص 106)
حضرت علامہ ابو
سُلَیمان خطّابی شافِعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وتْر کا معنی ہے” نقصان ہونا
یا چھن جانا “ پس جس کے بال بچے اور مال چھن گئے یا اس کا نقصان ہوگیا گویا وہ
اکیلا رہ گیا، لہذا نماز کے فوت ہونے سے انسان کو اس طرح ڈرنا چاہیے جس طرح وہ
اپنے گھر کے افراد اور مال و دولت کے جانے (یعنی برباد ہونے) ڈرتا ہے۔ (فیضانِ
نماز ،ص 106)
(4)حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے
کے تاجدار صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم میں رات اور دن کے فرشتے
باری باری آتے ہیں اور فجر و عصر کی نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں، پھر وہ فرشتے
جنہوں نے تم میں رات گزاری ہے اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں۔ اللہ پاک باخبر ہونے کے
باوجود ان سے پوچھتا ہے : تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ وہ عرض کرتے ہیں
: ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ
رہے تھے ۔حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ حدیث پاک کے اس حصے (فجروعصر کی
نمازوں میں جمع ہوجاتے ہیں) کے تحت فرماتے ہیں : یہاں فرشتوں سے مراد یا تو اعمال
لکھنے والے دو فرشتے ہیں یا انسان کی حفاظت کرنے والے ساٹھ فرشتے، ہر نابالغ کے
ساتھ 60 فرشتے رہتے ہیں اور بالغ کے ساتھ62۔اسی لیے نماز کے سلام اور دیگر سلاموں
میں ان کی نیت کی جاتی ہے، ان ملائکہ کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔
دن میں اور رات میں مگر فجروعصر میں پچھلے فرشتے جانے نہیں
پاتے کہ اگلے ڈیوٹی والے آجاتے ہیں تاکہ ہماری ابتدا و انتہا (یعنی شروع کرنے اور
ختم کرنے کی کیفیت) کے گواہ زیادہ ہوں اس حصے (اوپر کی طرف چلے جاتے ہیں) کے تحت لکھتے ہیں : اپنے
"ہیڈکوارٹر" کی طرف جہاں ان کا مقام ہے۔ مفتی صاحب حدیث پاک کے اس حصے
(ہم نے انہیں نماز پڑھتے چھوڑا اور جب ہم ان کے پاس پہنچے تھے تب بھی وہ نماز پڑھ
رہے تھے) کے تحت تحریر کرتے ہیں : اس کا مطلب یا تو یہ ہے کہ فرشتے نمازیوں کی
پردہ پوشی کرتے ہیں کہ آس پاس کی نیکیوں کا ذکر اور درمیان کے گناہوں سے خاموشی یا
یہ مطلب ہے کہ اے مولا ! جن بندوں کی ابتدا و انتہا (یعنی شروعات اور ختم ہونے کی
کیفیت) ایسی ہو اس میں ہمیشہ ہی رہتی ہے(فیضانِ نماز ،ص 98)
(5) حضرت ابن مَسْعُود اور سُمرَہ ابن جُندُب رضی اللہ
عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :
بیچ کی نماز عصر پڑھو۔
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ نماز دن
اور رات کی نمازوں کے درمیان ہے نیز اس وقت دن اور رات کے فرشتے جمع ہوتے ہیں اور
اس وقت دنیوی کاروبار زور پر ہوتا ہے اس لیے اس کی تاکید زیادہ فرمائی گئی ہے اور
اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم کا یہی قول ہے۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوہ المصابیح ،1/ 375)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نمازِ عصر میں جلدی کرنے کی
توفیق نصیب فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم