حقوق حق کی جمع ہے اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کو دوسرے بندے کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ہے محسن انسانیت حضور ﷺ کی تشریف آوری سے قبل دنیا میں ہر شخص اپنے حقوق اور فرائض سے غافل تھا مرد عورتوں سے تو اپنے سارے حقوق ادا کرواتے تھے مگر عورتوں کو ایک لونڈی کی حیثیت سے رکھتے تھے، نہ ان کے حقوق کی ادائیگی کرتے تھے اور نہ ہی انہیں کوئی عزت دیتے تھے۔ مرد پر نکاح کے بعد عورت کے حقوق کی ادائیگی لازم ہو جاتی ہے اگر وہ اس میں کوتاہی کرے تو عذاب خداوندی کا سزا وار ہوگا۔ مرد پر عورت کے حقوق درج ذیل ہیں:

حسن سلوک: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

اللہ پاک نے بیویوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم فرمایا لہذا شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی، 5/475، حدیث: 3921)

نان و نفقہ: نکاح کے بعد مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ بیوی کے سارے خرچ پورے کرے اس کے کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کا خیال رکھے۔ مرد کی کمائی کا بہترین ذریعہ اپنے بیوی بچوں پر خرچ کرنا ہے۔

بیوی کے رشتہ داروں سے حسن سلوک: جس طرح شوہر چاہتا ہے کہ بیوی اس کے گھروالوں رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے انکی خدمت کرے اس طرح شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے والدین اور رشتہ داروں کےساتھ حسن سلوک کرے۔

حدیث شریف میں ہے: اگر تم قیامت میں مجھ سے قرب چاہتے ہو تو اپنی بیوی کو راضی رکھو بلکہ اسکی خوشنودی کیلئے اس کے میکے والوں بلکہ اس کی سہیلیوں سے بھی حسن سلوک کرو۔

مارنے کی ممانعت:اسلام میں عورتوں کو مارنے کی ممانعت کی گئی ہے:بیوی کے حقوق کے بارے میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: انہیں وہ کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو نہ انہیں مارو اور نہ انہیں برا بھلا کہو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

رہنے کے مقام: شوہر کے حقوق میں شامل ہے کہ وہ بیوی کے رہنے کیلئے مکان کا بندوبست کرے تاکہ بیوی وہاں عزت و حفاظت سے رہے۔

ان روایتوں سے معلوم ہوا عورتوں کے معاملہ میں صبرو تحمل سے کام لینا چاہیے اور حکمت عملی اور دانائی کے ساتھ گزر بسر کرنا چاہیے۔

نکاح نہایت ہی نازک رشتہ ہے۔ اس کو نبھانے میں میاں بیوی دونوں کا بہت اہم کردار ہے کہ بیوی شوہر کے اور شوہر بیوی کے حقوق بجا لائے۔ جس طرح اسلام نے بیوی پر اس کے شوہر کے حقوق لازم کیے ہیں اسی طرح شوہر پر بیوی کے حقوق لازم کیے ہیں جن میں سے چند حقوق ملاحظہ فرمائیے:

شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں: حضرت معاویہ بن حیدۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یارسول اللہ! بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ، پہنو تو انہیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے برا نہ کہو اور اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142) علامہ محمد بن علّان شافعی رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: اس کا معنیٰ یہ ہے کہ جب مرد خود بقدر کفایت کھاتا ہو تو عورت کو بھی بقدر کفایت کھلانا فرض ہے اور اگر مرد اچھا کھانے، اچھا پہننے والا ہو تو ضرورت سے زیادہ جو کھلائے یا پہنائےگا تو وہ عورت پر احسان اور نفل ہوگا۔

بیوی کے حقوق ادا کرنے والا بہترین شخص: رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامل مؤمن وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہو اور تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) علامہ ابن اثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث پاک میں صلہ رحمی کرنے اور اس پر ابھارنے کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے کہا: اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی بیوی سے خوش اخلاقی سے پیش آئے اور اس کو ایذا نہ دے اور اس پر احسان کرے اور اس کی طرف سے ملنے والی تکالیف پر صبر کرے۔

عورت پسلی کی مانند ہے: بخاری و مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے: عورت پسلی کی مانند ہے، اگر اسے سیدھا کرو گے تو توڑ دو گے اور اگر تم اس سے نفع اٹھانا چاہو تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی نفع اٹھاؤ۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

مزید حقوق یہ ہیں: عورتوں کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان پر احسان کرنا، ان کی بد اخلاقی ا ور عقل کی کمزوری پر صبر کرنا یہ سوچ کر کہ عورت ناقص العقل ہے اور بلا سبب ان کو طلاق دینے کو نا پسند کرنا اور اس بات کی خواہش نہ رکھنا کہ یہ بالکل سیدھی ہو جائے گی کہ عورت کو پسلی سے پیدا فرمایا گیا ہے۔

اللہ پاک ہمیں سنت کا پیکر بنائے اور بدسلوکی سے بچائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین

میاں بیوی کا تعلق ایک باہمی معاہدہ یعنی نکاح سے قائم ہوتا ہے نکاح کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا عہد کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی دونوں کے کچھ فرائض اور حقوق مقرر فرمائے ہیں اور دونوں کو ان کے ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے چونکہ عورت کی خوشگوار اور پرسکون زندگی کا دارومدار اکثر و بیشتر شوہر کے طرز عمل پر ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

آقا جان ﷺ نے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی، آئیے اس حوالے سے چار فرامین مصطفی ﷺ ملاحظہ کرتے ہیں:

1۔ ارشاد فرمایا: کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا(مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

2۔ عورت پسلی سےپیدا کی گئی وہ روش میں سیدھی ہر گز نہ ہوگی تو اگر تم اس سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس سے نفع حاصل کرو حالانکہ اس میں ٹیڑھ ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اس کا توڑنا اس کا طلاق ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

3۔ تم میں سےبہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں اور جب تمہارا ساتھی مر جائے تو اسے چھوڑ دو۔ اس کا مطلب کہ جب کوئی مر جائے تو دوسرا اسے اچھائی سے یاد کرے برائیاں بیان نہ کرے۔

4۔ بیوی کے متعلق نیکی کی وصیت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور یقینا پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا ہے تو اگر اسے سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو تو ٹیڑھا رہے گا لہذا عورتوں کے متعلق وصیت قبول کرو۔ (بخاری، 3 /457، حدیث: 5185)

معلوم ہوا کہ گھر کو خوشگوار ماحول کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں خوش خلقی کا معاملہ کریں نرمی اور شیریں زبان اختیار کریں اور اگر کوئی ناگوار بات پیش ائے تو اس کو برداشت کرلیں خصوصا مرد کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے عورت فطرتاً کمزور اور جذباتی ہوتی ہے اس کی کمزوری کی رعایت کرے آقا جان ﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں عورتوں کے بارے میں خصوصی تاکید اور وصیت فرمائی اس کا لحاظ رکھے، اگر شوہر کے مالی حالات ناگفتہ ہو تو بیوی کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ تعاون کرے اور سادہ زندگی پر اکتفا کرے۔

اللہ پاک ہمیں قلب سلیم اور عقل سلیم عطا فرمائے اور حقوق العباد کامل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اﷲ پاک نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط دیئے ہیں اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی میاں بیوی ہیں اگر ان میں تعلقات استوار رہے اور دونوں قرآن و احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور نبی کریم ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق اجتماعی زندگی گزارنے کا اہتمام کریں تو ایک نیک و صالح کنبہ وجود میں آئے گا، یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اﷲ پاک کی عبادت ہے اور عبادت صحیح معنوں میں تب ہی ہو پائے گی جب آدمی پرسکون زندگی گزار رہا ہو اور پرسکون زندگی کیلئے باہمی تعلق و محبت ضروری ہے، چنانچہ اﷲ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

اور سکون جب ہوگا جب نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب زندگی کو اپنایا جائے لہٰذا مرد کیلئے لازم ہے کہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے جو شریعت نے بحیثیت شوہر ہونے کے اس پر عائد کیے ہیں:

پہلا حق: دینداری کی بنیاد پر نکاح ہو۔ مرد کو سکون جب ملے گا جب اس کی بیوی نیک اور پاکیزہ ہو جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو بجا لائے گی تو ان کے احکامات میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے اللہ پاک کی رضا مندی شوہر کی رضامندی میں ہے اور ظاہر ہے جب اللہ پاک کی فرمانبردار نہ ہو تو شوہر کی فرمانبردار کیسے بن سکتی ہے؟

اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت سے چار وجوہات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے: (1) اس کے مال کی وجہ سے (2) اس کے خاندان کی وجہ سے (3) اس کی خوبصورتی کی وجہ سے (4) اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دینداری کو اختیار کرو کامیابی ہوگے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے عزت دیکھ کر شادی کی اللہ اسکی ذلت کو بڑھائے گا اور جس نے مال دیکھ کر شادی کی اس کے فقر کو بڑھائے گا اور جو آدمی شادی میں خاندان کو بنیاد بنائے گا اللہ اس کی کمینگی کو بڑھائے گا اور جس کی نیت آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت ہو یا صلہ رحمی کرنے کے لئے کی اللہ شادی میں برکت پیدا کرے گا۔

دوسرا حق: مہر کی ادائیگی: مہر عورت کا حق ہے اس سے عورت کی شرافت اور عزت بڑھ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ نکاح کے دوران اگرچہ اس کا تذکرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے بہر صورت شوہر پر واجب ہوتا ہے معاف اسی صورت ہوسکتا ہے جب عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے معاف کردے۔ اگر نہیں ادا کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص شادی کرے اور تھوڑا مہر متعین کرے یا بہت زیادہ اور اسکو ادا نہ کرے تو اس نے بیوی کے ساتھ دھوکہ کیا اور ادا کیے بغیر موت آگئی تو زنا کے جرم میں گرفتار کردیا جائے گا۔

تیسرا حق: بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا بھی بیوی کا حق ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

چوتھا حق:حیاء اور پردے کی تعلیم: مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو ہمیشہ نیک باتوں حیاء اور پردے کی تعلیم دے، بے حیائی اور فیشن سے بھر پور کپڑے پہننے سے منع کرے جن سے ان کے جسم کی ہیئت اور رنگ واضح ہو۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: تین شخص کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے ان میں ایک دیوث ہے۔ (مسند امام احمد، 2/351، حدیث: 5372)

جو مرد باوجود قدرت اپنی بیوی اور گھر کی عورتوں کو بے پردگی سے منع نہ کرے وہ دیوث ہے مرد اپنی عورت کو نیکی کی دعوت دیتا رہے اس کو ضروری مسائل زندگی سکھاتا رہے۔

پانچواں حق: بیوی کی ہر بات ماننا جو خلاف شرح نہ ہو: بیشک یہ حق نہیں ہے لیکن میاں بیوی کے ازدواجی تعلق کو خوشحال بنانے میں مفید ہے۔ بیوی کو جتنا خوش رکھ سکتا ہے رکھے کیونکہ اگر بیوی خوش رہے گی تو اس کو خوش رکھے گی اگر کبھی بیوی غمگین یا رنجیدہ ہو تو اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرے اگر بیوی ناراض ہو تو اسے شریعت کے دائرے میں رہ کر منائے، کیونکہ روٹھنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سنت ہے اور منانا پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔

جس طرح اللہ نے مردوں میں خاوند کو ایک منفرد مقام عطا فرمایا ہے اسی طرح عورتوں میں بیوی کو بھی مقام عطا فرمایا ہے۔ جس طرح خاوند کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔

1۔ بیوی کے حقوق میں یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی نرمی اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کرے اور اسکے علاوہ بیوی کے رشتہ داروں میں جو معاملات ہیں اور گھریلو تمام معاملات کو اچھے طریقے سے حل کرنا خاوند کی عظیم ذمہ داری ہے اور یہ بات اللہ پاک کو بھی محبوب ہے اسکے پیارے محبوبﷺ کو بھی محبوب ہے۔

2۔ پیارے آقاﷺ نے فرمایا: اے میری امت! تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں بیوی بچوں کے ساتھ بہتر ہے اور میں محمد ﷺ تم سب سے اپنے گھر والوں کے ساتھ بہتر ہوں۔(ترمذی،5/475، حدیث: 3921) بیوی کی عزت کرنے والا کریم شخص ہے اور بیوی کو ذلیل کرنے والا کمینہ ہے۔

3۔ حضور مکی مدنیﷺ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی مسلمان اپنی ایماندار بیوی کے ساتھ بغض نہ رکھے کیونکہ اسکی ایک خصلت تمہارے لیے ناپسند ہے تو دوسری خصلت اسکی پسندیدہ ہو گی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

4۔ خاوند بیوی آپس میں ہنسیں کھیلیں کیونکہ میں پسند نہیں کرتا کہ تمہارے دین میں سختی ہو۔

5۔ مومنوں مسلمانوں میں کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو اور اے میری امت! تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر زندگی بسر کرے اور بیوی کے ساتھ لطف مہربانی کرے اور اے میری امت! میں تم سب سے اپنے گھر میں بہتر زندگی بسر کرتا ہوں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

اللہ پاک ہمیں توفیق دے کہ سنت کے مطابق ہم زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ آمین

اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر لازم کیے ہیں اس طرح عورتوں کے کچھ حقوق مردوں پر لازم کیے ہیں جن کا ادا کرنا مردوں پر لازم ہے، چنانچہ قرآن مجید میں ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں اور حضور کا یہ بھی فرمان ہے کہ میں تم لوگوں کو عورتوں کے بارے میں وصیت کرتا ہوں لہذا تم لوگ میری وصیت قبول کرو۔

اب یہاں عورتوں کے کچھ حقوق بیان کرتے ہیں:

1۔ عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی حق ہے کہ غم خواری اور تیمارداری میں ہر گز ہر گز کو تاہی نہ کریں بلکہ اپنی دلداری اور دل جوئی اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھا دیں کہ میرے شوہر کو مجھ سے بے حد محبت ہےاس کا نتیجہ یہ گا کہ عورت شوہر کے اس احسان کو یاد رکھے گی اور شوہر کی خدمت میں اپنی جان لڑا دے گی۔

2۔ شوہر کو چاہیے کہ عورت کہ اخراجات کے بارے میں بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کریں نہ حد سے زیادہ فضول خرچی کریں بلکہ اپنی آمدنی دیکھ کر اخراجات مقرر کرے نہ اپنی طاقت سے بہت کم نہ بہت زیادہ۔

3۔ عورت کا اس کے شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر اس کو بناؤ سنگھار و نفاست وغیرہ کا سامان (تیل، کنگھی، مہندی، سرمہ،خوشبو) وغیرہ فراہم کرتا رہے تاکہ عورت اپنے آپ کو صاف ستھرا رکھ سکے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے۔

4۔ شوہر کو چاہیے کہ سفر میں جاتے وقت اپنی بیوی سے انتہائی محبت کے ساتھ ہنسی خوشی ملاقات کر کے گھر سے نکلے اور سفر سے واپسی پر بیوی کے لے کچھ نہ کچھ ضرور لے کر آئیں کچھ نہ ہو تو کچھ کھٹا میٹھا ہی کے آئیں اور بیوی سے کہیں یہ خاص تمہارے لیے ہیں۔

5۔ مرد بلا شبہ عورت پر حاکم ہیں لہذا مرد کو یہ حق حاصل ہے کہ بیوی پر اپنا حکم چلائے مگر پھر مرد کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی بیوی سے کسی ایسے کام کی فرمائش نہ کریں جو اس کی طاقت سے باہر ہوں یا اس کو وہ کام انتہائی نا پسند ہوں کیونکہ عورت اگر چہ جبری طور پر وہ کام کر دیں گی لیکن اس کے دل میں نا گواری ضرور پیدا ہو گی۔

قرآن نے گھریلو زندگی اور معاشرتی برائیوں کی اصلاح پر بہت زور دیا ہے اسی لئے جو گناہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور جو چیزیں خاندانی نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہیں ان کی قرآن میں بار بار اصلاح فرمائی گئی ہے اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں سب سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔

قران مجید میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔ شوہروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ عورتوں کے مالک نہیں ان کی بیویاں ان کی کنیزیں نہیں۔ بلحاظ حقوق دونوں ایک سطح پر ہیں ہاں جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے باعث مرد کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔

1۔ مہر کی ادائیگی: ایک اسلامی اصطلاح ہے ایک مال جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے اور عورت کی بینادی حقوق میں سے ایک حق ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہےکہ حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ عورت کو مہر میں سے کچھ نہ دے گا، توجس روز مرے گا زانی مرے گا اور جو کسی سے کوئی شے خریدے اور یہ نیت ہو کہ قیمت میں سے اسے کچھ نہ دے گا تو جس دن مرے گا، خائن مرے گا اور خائن نار میں ہے۔ (معجم کبیر، 8/35، حدیث: 7302)

2۔ نان ونفقہ کا حق: یعنی بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے،لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں اگرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے: خبردار بیویوں کا تم پر حق ہے کہ اوڑھنے پہننے اور کھانے پینے کے معاملات ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔ (ترمذی، 2/386، حدیث: 1166)

3۔ عدل وانصاف: شوہر پر اپنی ایک سے زائد بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔کسی ایک کی طرف زیادہ مائل ہونے سے گریز کرے۔ رسول کریم رؤف رحیم ﷺ نے فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی طرف اس کا میلان زیادہ ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ (ترمذی،2/375، حدیث:1144) خود ہمارے نبی اکرم ﷺ تعلیم امت کے لیے اپنی ازواج مطہرات میں عدل و انصاف فرماتے تھے۔

4۔ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورۂ نساء میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایات کا بیان ہے۔

اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا، اس میں فرمایا: عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ وہ تمہارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمہیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمہیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (ترمذی،2/387، حدیث:1166)

5۔ ایذا رسانی سے بچنا: یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ صحیحین میں عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام مارتا ہے پھر دوسرے وقت مجامعت کرے گا۔ (بخاری،3/465، حدیث: 5204)

الغر ض مرد و عورت ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری کرتے رہیں تو معاشرے جنت کا نمونہ پیش کرنے لگے۔ اللہ کریم ہم سب مسلمانوں شریعت مطہرہ کا پابند بنائے۔

جس طرح مردوں کا حق عورتوں پرہےاسی طرح عورتوں کا بھی حق مردوں پر ہے۔ گویا دنیا کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ بس مردوں کے حقوق عورتوں پر اور شوہروں کے حقوق بیویوں پر ہوتے ہیں نہیں بلکہ اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق مردوں پر اور بیویوں کے حقوق بھی شوہروں پر ہوتے ہیں۔ مرد عورت دونوں کو حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے مخلص اور وفادار رہیں بلکہ یک جاں و دوقالب ہوں، ایک دوسرے کے پردہ پوش ایک دوسرے کی زینت اور ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہوں اور ایک دوسرے کی معاشی اور معاشرتی کمی میں کمال کا وسیلہ بن کر رہیں۔

اکثر عورتوں میں ضد اور ہٹ ہوتی ہے مرد کو چاہیئے کہ اس کی ضد کے مقابلے میں سختی اور درشتی سے کام نہ لے، رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

1۔ عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

2۔ مسلمان مرد اپنی مسلمان بیوی سے بغض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469) یعنی عورت کی ساری ہی عادتیں خراب نہیں ہوں گی جبکہ اچھی بری عادتیں اور ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اسی کی اچھی عادتوں پر نظر رکھے۔

3۔ تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) انسان کے بہتر، خوش اخلاق اور صالح ہونے کی یہ ایک ایسی پہچان بتادی گئی ہے کہ اس آئینہ میں ہر شخص اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے جو اپنوں کے ساتھ احسان اور انصاف نہیں کر سکتا اس سے کیا توقع کہ وہ دوسروں سے اچھا سلوک کرے گا۔ حسن معاملہ اور نیکی گھر سے شروع ہونی چاہیے۔

4۔ مردوں پر فرض ہے کہ عورتوں کو اچھی رہائش اچھا اور حلال کھانا اچھا پہننے کے لئے دینا چاہیے اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)

5۔ ایک موقع پر ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ بیوی کا حق شوہر پر کیا ہے؟ فرمایا: جب خود کھائے تو اس کو کھلائے اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اسکی سزا کے لیے اس کو علیحدہ کر دے۔(ابن ماجہ، 2/409، حدیث: 1850)

الغرض اسلامی خاندان میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا بہی خواہ ایک دوسرے کا ہمدرد اور ایک دوسرے کا پردہ پوش رہنا چاہیے۔ باہمی رواداری سے کام لینا چاہیے۔ دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ اس کے لیے اوڑھنا بچھونا ہے یہ اس کے لیے اوڑھنا بچھونا ہے جس طرح لباسی جسم کے عیبوں کو چھپاتا ہے اور اس کے حسن و خوبی کو ابھارتا ہے، اسی طرح شوہر اور بیوی کا اخلاقی کمال یہ ہے کہ ایک دوسرے کی کمزوری کو چھپائیں اس پر صبر کریں اور ایک دوسرے کی خوبیوں کو نگاہ میں رکھیں اور بہتر سے بہتر صورت میں اپنے باہمی تعلقات کو ظاہر کریں۔


جس طرح اللّہ نے مردوں میں میں خاوند کو ایک مقام عطا فرمایا ہے اسی طرح عورتوں میں بیوی کو بھی مقام عطا فرمایا ہے جس طرح خاوند کے کچھ حقوق ہیں جو عورت پر لازم ہوے ہیں اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق کے جو شوہر پر لازم ہوتے ہیں خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی،نرمی اور محبت کے ساتھ زندگی بسر کرے، چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خاوند اپنی بیوی کی بدخلقی پر صبر کرے اس کو اللہ ایسا ثواب عطا کرے گا جیسے کہ حضرت ابوب علیہ السلام کو ان کی آزمائش پر صبر کرنے سے عطا ہوا اور جو بیوی اپنے خاوند کی بد اخلاقی پر صبر کرے اس کو اللہ ایسا ثواب عطا کرے گا جیسے فرعون کی ایماندار بیوی آسیہ رضی اللہ عنہا کو عطا ہوا۔ (احیاء العلوم، 2/24)

اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا خاوند حضرت ایوب علیہ السلام کے درجے کو پہنچ جائے گا۔ نہیں کیونکہ غیر نبی کسی نبی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتا اور یہ مثال صرف ترغیب کے لئے ہے۔مزید حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جان لینا چاہیے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک یہی نہیں کہ اسکو تکلیف نہ دی جائے بلکہ حسن سلوک یہ ہے کہ بیوی طیش اور غصہ میں آئے تو اسکے غصے کو برداشت کیا جائے اور حتی الامکان حضور سید دوعالم ﷺ کی پیروی کرے۔

حضرت عرباض رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس پر بھی اس خاوند کو اجروثواب عطا ہوگا۔ (مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659)اس حدیث مبارکہ سے ہمارے وہ اسلامی بھائی عبرت حاصل کریں جو گھر میں ساری ذمہ داریاں بیوی پر ہی ڈال دیتے ہیں حتیٰ کہ پانی پینا ہو تو خود نہیں بلکہ بیوی ہی پلائے گی اور اس کے علاوہ گھر سے باہر کسی دکان وغیرہ پر سبزی دودھ یا دوسرے کام جو کہ شوہر ہی کرے تو بہتر رہتے ہیں، وہ بھی بیوی سے کرواتے ہیں وہ حضور اکرام ﷺ کے اس عمل مبارک سے نصیحت حاصل کریں۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ گھر کا کام خود کرتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

غور تو کیجیے کہ آپ ﷺ اتنے اعلیٰ سے اعلیٰ رتبے والے ہو نے کے باوجود بھی گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کی مدد فرمایا کرتے تھے اور ہم لوگ کس پانی میں ہیں۔

لہٰذا یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی اور شوہر دونوں ہی کے حقوق ہیں جس طرح حقوق اللہ کو سر انجام نہ دینے سے پکڑ ہوگی اسی طرح حقوق العباد کو ادانہ کرنے والے کی بھی پکڑ ہوگی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پیارے آقا ﷺ کے صدقے میں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی ادا کرنے کی توفیق ادا فرمائے۔ آمین

حق وہ ہے جس کی ہم دوسروں سے توقع کریں اور دوسرے جس کی توقع ہم سے کریں۔ شریعت مطہرہ نے ہر انسان خواہ وہ کسی روپ میں ہو اسے حقوق دئیے ہیں۔ اسی طرح دور جہالت کے بعد رحمت عالم ﷺ نے جو عزت اور حقوق عورت کو دئیے وہ پہلے کوئی مہیا نہ کر سکا۔ بیوی کے حقوق یہاں پیش کیے جاتے ہیں:

پہلا حق: بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی کو اپنی خادمہ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ اس کے احساسات کا خیال رکھیں اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں کیونکہ وہ آ پ کی شریک حیات ہے اسکی ضروریات کا خیال رکھیں۔ تاجدار انبیاء ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: بیشک کامل ایمان والا وہ ہے جس کا خلق اچھا ہو اور وہ اپنی بیوی کے ساتھ نرمی سے پیش آئے۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس پر بھی اس خاوند کو اجر وثواب ملے گا۔ (مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659)

دوسرا حق: حلال رزق کھلائیں: شوہر پر بیوی کا نان نفقہ اور رہائش کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق مکان فراہم کرنا واجب ہوتا ہے۔ بیوی کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے حلال کھلائیں حرام و ناجائز نہ کھلائیں کیونکہ حرام کھانے والا دوزخ کا حقدار ہے اور خاوند جب کھانا کھائے تو اپنے اہل و عیال کو بھی کھلائے یہ باعث ثواب ہے۔ پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: اے بندے اپنے گھر والوں پر بیوی بچوں پر اپنی وسعت کے مطابق خرچ کر اور ان پر تادیب کی لاٹھی لٹکائے رکھ ان کو اللہ کے حق میں ڈراتا رہ۔

تیسرا حق: بیوی کی تلخ کلامی پر صبر کرنا: میاں بیوی کی ازدواجی زندگی کا جب آغاز ہوتا ہے تو بیوی بسا اوقات گھریلو نشیب و فراز کو سمجھ نہیں پاتی اور بیوی کی بعض باتیں شوہر کو نا خوشگوار لگتی ہیں اس پر شوہر کو ہر صورت صبر کرنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آ تا ہے: جو خاوند بیوی کی تلخ کلامی پر صبر کرے اس کو اللہ پاک ایسا ثواب عطا کرے گا جتنا حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی آزمائش پر صبر کرنے سے عطا ہوا۔ (احیاء العلوم، 2/24)

چوتھا حق: بیوی کو امر بالمعروف و نھی عن المنکر کرنا: مرد کو چاہیئے کہ وہ اپنی بیوی کو نیک باتوں کی تلقین کرے، حیاء اور پردے سے متعلق تعلیم دے اور شریعت پر چلنے کی تاکید کرے اور ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرے۔

پانچواں حق: بیوی پر بد گمانی نہ کریں: بغیر قوی ثبوت کے بیوی پر بد گمانی منع ہے۔ اس کے باعث گھر تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اس لئے اس سے بچنا انتہائی ضروری ہے اور یہ عورت کے لیے تکلیف کا باعث ہے۔

شریعت مطہرہ نے ہمیں اتنے پیارے نظم و ضوابط عطا کیے ہیں اللہ پاک ہمیں ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آ مین بجاہ النبی الامین ﷺ

اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔ اردو میں یہ مضمون یوں ادا ہو گا کہ جس طرح مردوں کا عورتوں پر حق ہے اسی طرح عورتوں کا بھی مردوں پر حق ہے۔ عورتیں جانور یا جائیداد نہیں کہ مال موروثہ کی طرح ان پر مردوں کو تصرف کا حق حاصل ہو تو شوہر کہیں بھول نہ میں نہ پڑ جائیں کہ ان کے صرف حقوق ہی حقوق ہیں فرض و ذمہ داری کچھ نہیں؟ بلکہ ان پر بھی عورتوں کے حقوق ہیں بلحاظ حقوق دونوں ایک سطح پر ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- (پ 2، البقرۃ:187) ترجمہ: وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔

اکثر عورتوں میں ضد ہوتی ہے مرد کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور سختی نہ کرے اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

اے لوگو!عورتوں کے بارے میں نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)

ایک موقع پر ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! بیوی کا حق شوہر پر کیا ہے؟ فرمایا: جب خود کھائے تو اس کو کھلائے، جب اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اس کی سزا کے لیے اس کو علیحدہ کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/409، حدیث: 1850)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا برتاؤ کرے اور میں بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص583)

نبی کریم ﷺ نے اپنے وصال کے وقت جبکہ زبان لڑ کھڑا رہی تھی تو تین چیزوں کے بارے میں نصیحت فرمائی: نماز، نماز اور جو تمہاری ملکیت(غلام) ہیں ان کی قوت برداشت سے زائد تکلیف نہ دینا اور عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے ہاتھوں میں قید ہیں اور تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے ان کی شرم گاہیں تم پر حلال ہوئی ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص580)

خوشگوار اِزْدِواجی زندگی کافی حد تک اس بات پر موقوف ہے کہ میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حُقوق کے بارے میں کتنی معلومات ہے اور وہ اس معلومات کی روشنی میں کس حد تک اپنے رفیقِ حیات کے حُقوق کا خیال رکھتا ہے۔ عموماً ایک دوسرے کے حُقوق ادا نہ کرنے اور ایک دوسرے کو اہمیَّت نہ دینے ہی کی وجہ سے باہم ناچاقیاں پیدا ہوجاتی ہیں جو میاں بیوی میں فاصلوں اور دُوریوں کو بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ دينِ اسلام میں میاں بیوی کے حُقوق کو بہت اہمیَّت حاصل ہے، کثیر احادیث میں میاں بیوی کوایک دوسرے کےحُقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ بیوی کے حقوق بیان کیے جا رہے ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور علم میں اضافہ کیجئے:

نان ونفقہ دینا:بیوی کے کھانے، پینےوغیرہ ضروریاتِ زندگی کاانتظام کرنا شوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)

رہائش دینا:بیوی کی رہائش کےلیےمکان کا انتظام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے اور ذہن میں رکھیں کہ یہاں مکان سے مرادعلیٰحدہ گھر دینا نہیں ،بلکہ ایسا کمرہ،جس میں عورت خود مختار ہو کر زندگی گزار سکے،کسی کی مداخلت نہ ہو،ایسا کمرہ مہیّا کرنے سے بھی یہ واجب ادا ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور ا نہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔ (پ28، الطلاق:6)

مہر ادا کرنا:بیوی کامہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اورشوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔ (پ4، النسآء:4)

نیکی کی تلقین اور برائی سے ممانعت:شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اُسے نیکی کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے منع کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم ارشاد فرمایا ہے کہ خود اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28، التحریم:6)

حسنِ معاشرت:ہر معاملے میں بیوی سےاچھا سُلوک رکھنا بھی ضروری ہے کہ اِس سے محبت میں اضافہ ہو گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔(صحیح البخاری ‘‘،کتاب النکاح،باب الوصاۃ بالنساء،الحدیث: 5186،ج 3،ص 457)

بغض نہ رکھے:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’مسلمان مرد، عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بُری معلوم ہوتی ہے دوسری پسند ہوگی۔‘‘ (المرجع السابق،الحدیث:63۔(1469)،ص 775)

یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہونگی جب کہ اچھی بُری ہرقسم کی باتیں ہونگی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بُری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔(بہار شریعت حصہ 7، حقوق الزوجین۔المعجم الکبیر ‘‘،باب التاء،الحدیث: 1258،ج 2،ص 52)