شادی کے بعد زندگی ایک نئے دور سے گزرتی ہے تو اس زندگی کو خوشحال بنانے میں شوہر اور بیوی دونوں کا اہم کردار ہوتا ہے اس لیے اسلام نے دونوں میاں اور بیوی پر کچھ حقوق لازم کیے ہیں۔ اگر دونوں وہ حقوق ادا کرتے رہیں تو ان کی زندگی پر سکون گزر سکتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر فرض فرمائے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرا دیئے ہیں جن کا ادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔اسی طرح نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

1۔ ہر شوہر کے اوپر اس کی بیوی کا یہ حق فرض ہے کہ وہ اس کے کھانے، پینے، پہننے، رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق اور اپنی طاقت بھر انتظام کرے۔ ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ یہ اللہ کی بندی میرے بندھن میں بندھی ہوئی ہے۔ اور اپنے والدین، بہن، بھائی اور عزیزو اقارب کو چھوڑ کر صرف میری ہو کر رہ گئی ہے۔اور میری زندگی کے دکھ سکھ کی شریک بن چکی ہے۔ اس لیے اس کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرنا میرا فرض ہے۔

2۔ عورت کو بلا کسی بڑے قصور کے کبھی ہرگز ہرگز نہ مارے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص عورت کو اس طرح نہ مارے جس طرح اپنے غلام کو مارا کرتا ہے پھر دوسرے وقت میں اس سے صحبت بھی کرے۔ (بخاری،3/465، حدیث: 5204)

البتہ ہاں اگر عورت کوئی بڑا قصور کر بیٹھے تو بدلہ لینے یا دکھ دینے کے لیے نہیں بلکہ اصلاح کی نیت سے اسے مار سکتا ہے لیکن مارتے وقت اس بات کا دھیان رہے کہ عورت کو شدت چوٹ یا زخم نہ پہنچے۔

3۔ میاں بیوی کی خوش گوار زندگی بسر ہونے کے لیے جس طرح عورتوں کو مردوں کے جذبات کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اسی طرح مردوں کو بھی لازم ہے کہ وہ بھی عورتوں کے جذبات کا خیال رکھیں۔ ورنہ جس طرح مرد کی ناراضگی سے عورت کی زندگی جہنم بن جاتی ہے اسی طرح عورت کی ناراضگی بھی مرد کے لئے وبال بن سکتی ہے۔ اس طرح مرد پر لازم ہے کہ عورت کی سیرت اور صورت پر طعنہ زنی نہ کرے۔

4۔ مرد کو چاہیے کہ خبر دار خبر دار اپنی عورت کے سامنے کسی دوسری عورت کے حسن و جمال یا اس کی خوبیوں کی تعریف نہ کرے ورنہ عورت بد گمانی کا شکار ہو سکتی ہے یا یہ سمجھے گی کہ میرے شوہر کے دل میں اس کے لیے لگاؤ ہے۔اور یہ خیال عورت کے دل کا ایک ایسا کانٹا ہے کہ عورت کو ایک لمحہ بھی سکون نصیب نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو! جس طرح کوئی شوہر اپنی بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ ساز باز ہوتے نہیں دیکھ سکتا ایسے ہی بیوی بھی اپنے شوہر کے بارے میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کے اس کا کسی دوسری عورت کے ساتھ کوئی تعلق ہو۔ لہٰذا اس معاملے میں شوہر کولازم ہے کہ بہت احتیاط رکھے۔ ورنہ بد گمانیوں کا طوفان میاں بیوی کی خوش گوار زندگی کو تباہ و برباد کر دے گا۔

5۔ عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ عورت کی غم خواری اور تیماداری میں ہرگز ہرگز کوئی کوتاہی نہ کرے بلکہ اپنی دلجوئی و دلداری اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھا دے کے میرے شوہر کو مجھ سے بے حد محبت ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت شوہر کے اس احسان کو یاد رکھے گی۔ اور وہ بھی شوہر کی خدمت گزاری میں اپنی جان لڑا دے گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 

اللہ ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

اللہ نے بیویوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم فرمایا۔لہذا شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے،شوہر پر بحیثیت شوہر اپنی بیوی اور بچوں کے کھانے، کپڑے اور رہائش کی ذمہ داری ہے۔ حضور رحمت عالم ﷺ اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بہت اچھی طرح خوش مزاجی اور خوش اخلاقی سے اپنی زندگی کے شب وروز بسر کرتے تھے۔ آپ کی خاطر داری اور دل جوئی کے چند واقعات ملاحظہ کریں۔

1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: یعنی حضور ﷺ گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مثلا کبھی جھاڑو دے دیا کبھی بستر وغیرہ تہ کر دیا یا آنا وغیرہ گوندھ دیایا سینے پرونے کے کام میں شامل ہو گئے لیکن افسوس کہ آج کے شوہر سارے کام بیو بیوں سے لینا چاہتے ہیں، ان کی ناز برداری اور ان کے راحت اور آرام کا خیال نہیں کرتے۔ ایسا نہیں ہوناچاہیے۔

2۔ حضور ﷺ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو خوش کرنے کے لیے ان کی سہیلیوں کو گڑیا کھیلنے کے لیے بھیج دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضور ﷺ نے حضرت عائشہ کے پاس گھوڑے کی گڑیا دیکھی جس کے دونوں بازو پر پر لگے ہوئے تھے، فرمایا یہ گھوڑا کیسا ہے ؟ اس کے دونوں پر کیسے ہیں؟ حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ حضرت سلیمان کے گھوڑے کے پر نہ تھے۔ یہ جواب سن کر حضور بہت ہنسے۔

خیبر سے واپسی کے وقت ایک مقام پر حضور ﷺ کی اونٹنی پھسل گئی اور حضور گر پڑے اور ام المومنین حضرت صفیہ بھی گر پڑیں۔ حضرت ابوطلحہ آپ کو سنبھالنے کے لیے آپ کی طرف دوڑے تو آپ نے فرمایا: پہلے عورت کی خبر لو، چنانچہ حضرت ابوطلحہ اپنے چہرہ پر کپڑا ڈال کر ان کی طرف چلے، جب ان کے پاس پہنچ گئے تو وہی کپڑا ان کے اوپر ڈال دیا اور کجا وہ درست کر کے ان کو سوار کر دیا۔

ان چند واقعات سے حضور رحمت عالم ﷺ کی خوش مزاجی و خوش اخلاقی اور ازواج مطہرات کے ساتھ خوبصورت زندگی گزارنے کے چند کوائف معلوم ہوئے۔ ہمیں بھی آپ کے طور و طریق پر عمل کرنا چاہئے۔

اسلام نے نکاح کو اللہ کی ایک نعمت اور پاکیزہ ترین رشتہ قرار دیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح نکاح سے دوری کو کسی قسم کی نیکی اور فضیلت کا سبب نہیں گردانا بلکہ اسے اللہ کے محبوب بندوں انبیاء اور رسولوں کی صفت بتایا، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلًا مِّنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةًؕ- (پ 13، الرعد: 38) ترجمہ: ہم آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیوی بچوں والا بنایا تھا۔ جس طرح بیوی کے اوپر شوہر کے حقوق ہیں اسی طرح شوہر کے او پر بیوی کے بھی کچھ حقوق ہیں تا کہ ازدواجی زندگی خیر و سعادت کے ساتھ گذرے۔ ان حقوق میں سے کچھ ملاحظہ فرمائیے۔

عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں:

(1) میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، وہ تمہارے پاس مقیّدہیں، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، 2/ 387، حدیث: 1166)

(2) جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی، 2 / 392، حدیث: 1177)

(3) جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی، 2/386، حدیث: 1164)

(4) میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، 3 /457، حدیث: 5185)

(5) عورت پسلی سے پیدا کی گئی وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

شوہر پر بیوی کے حقوق: شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔

اللہ پاک ہمیں تمام حقوق العباد کو احسن انداز سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

چونکہ عورتوں کے حقوق کا بیان چل رہا ہے۔ لہٰذا یہاں ان کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جومال تم اسے دے چکے ہو تواس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ ا ہل عرب میں یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت انہیں پسند آجاتی تو ا پنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاتے تاکہ وہ اس سے پریشان ہو کر جو کچھ لے چکی ہے واپس کردے اور طلاق حاصل کر لے۔ (تفسیر بیضاوی،  2 / 163)

عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حقوق کا لحاظ رکھیں، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں:

(1) حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، وہ تمہارے پاس مقیدہیں، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، 2 / 387، حدیث: 1166)

(2) سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی، 2 / 392، حدیث: 1177)

(3) سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی، 2 / 386، حدیث: 1164)

(4) میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، 3 /457، حدیث: 5185)

(5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 775، حدیث: 1468)

شوہر پر بیوی کے حقوق: شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں۔

عورت خدا کی نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت ہےدنیا کی آبادکاری اور دینداری میں مردوں کے ساتھ تقریباً برابر شریک ہےمرد کے دل کا سکون،روح کی راحت،بدن کا چین ہےعورت کا وجود انسانی تمدن کے لئیے بے حد ضروری ہے اگر عورت نہ ہوتی تو مردوں کی زندگی جنگلی جانوروں سے بدتر ہوتی، عورت کی زندگی کے راستہ میں یوں تو بہت موڑ آتے ہیں مگر اس کی زندگی کے چار دور خاص طور پر قابل ذکر ہیں: 1) عورت کا بچپن۔  2) عورت بالغ ہونے کے بعد۔ 3) عورت بیوی بن جانے کے بعد۔ 4) عورت ماں بن کے بعد۔

تیسرے دور کہ جب عورت بیوی بن جائے تو جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق اس پر لازم ہو جاتے ہیں اسی طرح شوہر پر بیوی کے حقوق لازم ہوتے ہیں جن کا ادا کرنا مرد پر فرض ہے۔ الله کریم ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

اسی طرح حدیث پاک میں رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں، اب بیوی کے حقوق میں سے چند بیان کیے جاتے ہیں:

1۔ اگر کسی کے پاس دو بیویاں یا اس سے زائد ہوں تو اس پر فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک کرےکھانے،پینے بناؤ سنگھار غرض تمام معاملات میں برابر برتےاسی طرح رات گزارنے کے بارے میں بیویوں میں باری مقرر کرنے میں بھی برابری کا لحاظ رکھے یاد رکھئے !اگر کسی نے تمام بیویوں کے درمیان یکساں و برابر سلوک نہ کیا تو وہ حق العبد میں گرفتار اور عذاب نار کا حقدار ہوگا۔

2۔ اسی طرح بیوی کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شوہر بیوی کے اخراجات کے بارے میں بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کرے اپنی آمدنی کو دیکھ کر بیوی کے اخراجات مقرر کرے۔

3۔ عورت کا اس کے شوہر پر یہ بھی حق ہے کہ شوہر عورت کی نفاست اور بناؤ سنگھار کا سامان یعنی صابن،تیل،کنگھی،مہندی،خوشبو وغیرہ فراہم کرتا رہے تاکہ عورت اپنے آپ کو صاف ستھری رکھے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ رہے۔

4۔ اگر میاں بیوی کے درمیان کوئی اختلاف یا کشیدگی پیدا ہو جائے تو شوہر پر لازم ہے کہ طلاق دینے میں ہرگز ہرگز جلدی نہ کرے بلکہ اپنے غصہ کو ضبط کرے اور غصہ اتر جانے کے بعد خوب غور و فکر کرے اور طلاق میں جلدی نہ کرے کہ طلاق اچھی چیز نہیں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: حلال چیزوں میں سب سے زیادہ خدا کے نزدیک ناپسندیدہ چیز طلاق ہے۔

5۔ عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر عورت کے بستر کی راز والی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کرے بلکہ اس کو راز بنا کر اپنے دل ہی میں رکھے کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا: خدا کے نزدیک بدترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے پاس جائے پھر اس کے پردہ کی باتوں کو لوگوں پر ظاہر کرے اور اپنی بیوی کو دوسروں کی نگاہ میں رسوا کرے۔

الله کریم کی بارگاہ میں دعا ہے ہم پر جن جن کے حقوق لازم ہیں ان کو احسن انداز سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اللہ تعالیٰ نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول وضوابط دیئے ہیں اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی میاں بیوی ہیں اگر ان میں تعلقات استوار ہیں اور دونوں نے نبی اکرم ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق اجتماعی زندگی گزارنے کا اہتمام کیا تو ایک نیک صالح کنبہ وجود میں آئے گا، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تمہیں سکون حاصل ہو۔

اور سکون تب ہوگا جب نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب زندگی کو اپنایا جائے لہذا مرد کیلئے لازم ہے کہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے جو شریعت نے بحیثیت شوہر ہونے کے اس پر عائد کئے ہیں:

1۔ مہر کی ادائیگی: مہر عورت کا حق ہے اس سے عورت کی شرافت اور عزت بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کے دوران اس کا تذکرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، بہر صورت شوہر پر واجب ہو جاتا ہے، معاف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے معاف کر دے، اگر نہیں ادا کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص شادی کرے اور تھوڑا مہر متعین کرے یا بہت زیادہ اور اسکو ادا نہ کرے تو اس نے بیوی کے ساتھ دھوکہ کیا اور اگر ادا کیے بغیر موت آگئی تو زنا کے جرم میں گرفتار کر کے لایا جائے گا۔

2۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا یہ بھی بیوی کا حق ہے۔ اچھے اخلاق سے پیش آیا جائے اسے بچوں کے سامنے ذلیل نہ کیا جائے گھر کی دیگر خواتین کے سامنے اس کی عزت بڑھائی جائے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/ 386،حدیث: 1165)اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اچھے اخلاق کو کمال ایمان کی علامت قرار دیا ہے اور بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کو سب سے بہتر ہونے کی علامت بتایا ہے۔

3۔ بیوی کے عیب تلاش نہ کریں: اگر کوئی عیب نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے، اس دنیا میں ہر انسان میں بے شمار خوبیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں آدمی کو ہمیشہ سامنے والے کی خوبیوں پر نگاہ رکھنی چاہیے کسی کی برائیاں تلاش کر کے اس کو ذلیل نہ کیا جائے، اسی طرح بیوی میں بے شمار خوبیاں ہیں انہی کو بنیاد بنا کر زندگی گزاری جائے اگر کوئی معمولی برائی ہے تو نظر انداز کر دی جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر اس میں ایک برائی ہے تو دوسری اچھائی بھی تو ہے اسے دیکھ لیا کرو۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

کیا یہ خوبی کوئی کم ہے کہ وہ شوہر کے ایمان کی حفاظت میں بہترین مددگار ہے ورنہ شوہر کسی گناہ میں مبتلا ہو کر ایمان کا نقصان کر دے تو آخرت برباد ہو جائے گی۔ یہ خوبی کم ہے کہ آدمی کی معاشرے میں عزت بڑھتی ہے، کیا یہ خوبی کم ہے کہ شوہر کے بچوں کی نگہداشت کر رہی ہے۔

4۔ نان و نفقہ اور معاشی حقوق: مردوں کے ذمے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کی کفالت کو رکھا اور عورت کے نان نفقے اور اس کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔

5۔ وراثت میں حصہ: اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں پر مردوں کے لیے وراثت کے حقوق کو مقرر کیا ہے وہیں پر عورتوں کے لیے بھی حق وراثت کو مقرر کیا گیا ہے چنانچہ بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس کی وراثت میں اس حق کا تفصیلی طور پر سورہ نساءمیں ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ عورت کے اس حق کو غصب کر لیاجاتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش اور اجازت موجود نہیں ہے۔

جس طرح شوہر کے بیوی پر حقوق ہیں، اسی طرح بیوی کے بھی شوہر پر حقوق ہیں ان میں کچھ مالی حقوق ہیں اور کچھ

غیر مالی ہیں۔

1۔ مہر: یہ خاص بیوی کا حق ہے، اس کی قلت اور کثرت کی کوئی حد نہیں ہے لیکن مہر میں مبالغہ کرنا نا پسندیدہ فعل ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے آسان ہو۔

نفقہ: اس کا مطلب خاوند پر بیوی کا واجب الاداء خرچ جیسے کھانا، کپڑا اور ہائش اور دواو غیر ہ اگر چہ بیوی مالدار ہو۔

حسن سلوک: خاوند پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے، اس کی عزت کرے اور ایسا کام کرے جو دلوں میں محبت پیدا کرے۔ مسلم شخص کے کمال اخلاق کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ مہربان ہو۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بہترین اخلاق والا سب سے کامل مومن ہے اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہوں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165) عورت کی عزت میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس سے سرزد ہونے والی غلطیوں کو برداشت کیا جائے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اچھی بات کہے ورنہ خاموش رہے اور عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو اس لئے کہ وہ پسلی سے بنی ہے اور پسلی میں نچلی پسلی سب سے ٹیڑھی ہے تو اگر اسے سیدھا کرے گا تو توڑ دے گا اور اگر یونہی چھوڑ دیا تو ہمیشہ ٹیڑھی رہے گی، عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ (بخاری، 3 /457، حدیث: 5185)اور حسن سلوک میں یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اندر محبت و سرور پیدا کرے کیونکہ اس سے خاندان میں مودت اور رحمت کا ماحول پیدا ہوتا ہے۔

رسول الله ﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جنسی مذاق کرتے تھے اور دوڑ میں مقابلہ کرتے تھے۔

4۔ بیوی کی ہر اس چیز سے حفاظت کرنا جو اس کی عزت کو ٹھیس پہنچائے: مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے تئیں غیرت کے معاملہ میں میانہ رو ہو تا کہ ازدواجی زندگی میں فساد بر پانہ ہو جائے اور زندگی جہنم نہ بن جائے۔ ان کے درمیان اعتبار ختم ہو جائے اور زندگی گزارنا ناممکن ہو جائے۔

دینی تعلیم دینا اور گناہ سے بچانا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا (پ28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔

عورت کا راز فاش نہ کرے: رسول الله ﷺ نے فرمايا: اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ برا شخص قیامت کے دن وہ ہے جو اپنی عورت کے پاس جائے اور عورت اس کے پاس جائے (یعنی صحبت کرے) پھر اس کا بھید

ظاہر کر دے۔

8۔ جب خاوند زیادہ عرصہ گھر سے دور رہے تو رات میں اچانک گھر میں نہ آئے جیسے کہ وہ سفر پر ہو۔ اگر وہ پہلے سے باخبر کر دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ زوجین کے مابین تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے یہ اسلامی آداب میں سے ایک اعلی اصول ہے، اس میں بیوٹی کے جذبات کا احترام ہے، آپکا اعتماد باقی رہتا ہے اور محبت پائیدار ہوتی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم کو گھر چھوڑے ایک مدت گزرگئی ہو تو اچانک رات میں نہ آیا کرو۔

بیویوں کے درمیان انصاف کرنا: اگر آدمی کے پاس ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان کے درمیان انصاف کرے۔ رسول اللہ ﷺ فرمایا: جب کسی کے نکاح میں دو بیویاں ہوں اور وہ ان میں انصاف نہ کرے تو روز قیامت وہ مفلوج پہلو کے ساتھ آئے گا۔ (ترمذی،2/375، حدیث:1144)

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے: اور ان (عورتوں) سے اچھا برتاؤ کرو۔

بیوی کے حقوق: بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اس کے ساتھ محبت سے پیش آؤ اور اپنی بیوی سے اچھا برتاؤ کرو۔

1۔ اے لوگوں عورتوں کے بارے میں نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تو میری نصیحت کو قبول کرو بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کو پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)

2۔ تم میں سے اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں ان کی ہر ضرورت پوری کریں ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔(ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

3۔ مرد اور عورت دونوں کو حکم ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مخلص اور وفادار ہیں ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔

4۔ مسلمان مرد اپنی بیوی سے بغض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بری ہے تو دوسری پسند ہوگی۔(مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

5۔ عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

1۔ مردوں کو چاہیے کے اپنی عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔ آپﷺ نے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ بہت عمدہ سلوک کیا۔ بلکہ آپﷺ کا حسن خلق تو بے مثال ہے۔ بیوی کی صلاحیت کسی نہ کسی اعتبار سے مرد سے کمزور ہوتی ہے اسی لیے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ نے اپنے کلام پاک میں عورتوں کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا: وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(۲۱) (پ 4، النساء: 21) ترجمہ: اور وہ تم سے گاڑھا عہد لے چکیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومنوں میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں ان میں سے اچھا ہو اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

2۔ آپ ﷺ اپنی زوجہ محترم ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بڑی بے تکلف زندگی گزارتے تھے اور ان کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے دنیوی معاملات کو بخوبی سر انجام دیتے تھے۔ آپﷺ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خوشی کو جس طرح پہچانتے تھے اس کے بارے میں حدیث پاک یہ ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو؟ میں نے عرض کیا آپ ﷺ کیسے پہچانتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو محمد ﷺ کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم ! میں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! یا رسول اللہﷺ ! میں صرف آپﷺ کا اسم ترک کرتی ہوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر بیوی کبھی ناراض ہو جائے تو بڑی خوش اسلوبی سے اسے راضی کر لینا چاہیے مقصد یہ ہے کہ بیوی پر ہر وقت رعب نہ ڈالا جائے بلکہ نرمی بھی اختیار کی جائے۔ (شوہر اور بیوی کے حقوق، ص 170)

3۔ بیوی کے حقوق میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جائز باتوں پر اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کی عادات اور شوق کا خیال رکھا جائے بالخصوص جب عورت کی عمر ذرا کم ہو اور اس کی عادتوں میں بچپن دکھائی دے تو ان سے درگزر کر دینا چاہیے۔ چنانچہ اس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں؛ میں آپﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلتی تھی۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لاتے تو وہ چلی جاتی تھیں اور رسول اللہﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلنے لگ جاتی تھیں۔

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بیوی کے جذبات اور خیالات کی دلداری کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ اس کا ایسا شوق جو خلاف شریعت نہ ہو اسے برداشت کرنا چاہیے۔ (شوہر اور بیوی کے حقوق، ص 173)

4۔ عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر عورت کے بستر کی راز والی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کرے بلکہ اس کو راز بنا کو اپنے دل ہی میں رکھے۔ کسی کے پوشیدہ عیب کو چھپانے میں بہت درجہ ہے۔ اس کے متعلق آپﷺ کا فرمان یہ ہے: جو کسی کے پوشیدہ عیب دیکھ کر اسے چھپائے گا گویا اس نے زندہ درگور لڑکی کو پھر زندہ کیا۔ (شوہر اور بیوی کے حقوق، ص 178)

5۔ مہر اس معاوضے کو کہا جاتا ہے جو نکاح کے موقع پر خاوند کی جانب سے عورت کے لیے حقوق زوجیت کی بناء پر مقرر کیا جاتا ہے مہر نکاح کی ضروری شرائط میں سے ہے یعنی اگر کوئی شخص نکاح کے وقت یہ نیت کرے کہ مہر نہیں دیا جائے گا تو اس کا نکاح صحیح نہ ہو گا۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَؕ-فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًؕ- (پ 4، النساء: 24) ترجمہ کنز الایمان: اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو قید لاتے نہ پانی گراتے تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو تو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو۔

آپ ﷺ کی اپنی تمام ازواج مطہرات کا مہر مقرر ہوا اس لیے آپﷺ کی اتباع میں مہر مقرر کرنا سنت ہے۔

اسلام دین فطرت ہے جو ہر طبقے کے حقوق وفرائض کے متعلق رہنمائی فرماتا ہے۔ ان حقوق کی ادائیگی سے ہی معاشرے کا حسن برقرار رہتا ہے۔انہی میں سے بیوی کے حقوق بھی ہیں۔ آئیے ملاحظہ کرتے ہیں:

1) ادائیگی مہر: مہر بیوی کا حق ہے اور شوہر پر ادا کرنا واجب ہے۔ حق مہر کے متعلق اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- (پ4،نساء:4) ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔

2) نان و نفقہ: بیوی کے نان و نفقہ(کھانے، پینے) اور دیگر ضروریات زندگی کا اہتمام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے۔ حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ! بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ، پہنو تو انہیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے برا نہ کہو اور اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

3) رہائش: بیوی کا ایک حق رہائش بھی ہے لہذا شوہر پر واجب ہے کہ بیوی کیلئے مناسب رہائش کا انتظام کرے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- (پ 28،الطلاق:6) ترجمہ کنز الایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور انہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

4) حسن سلوک: بیوی سے اچھا سلوک کرنا بھی اس کا حق ہے اور محبت میں اضافے کا بھی سبب ہے۔ ارشاد رب الانعام ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مؤمنوں سے کامل تر مؤمن اچھے اخلاق والا ہے اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں سے بہترین ہو۔ (ترمذی، 2/ 386،حدیث: 1165)

5) امر بالمعروف و نہی عن المنکر: شوہر پر بیوی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ وقتاً فوقتاً اسے نیکی کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے منع کرے۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا (پ28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں شریعت کے مطابق ایک دوسرے کے حقوق سمجھنے اور انہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں کے کچھ حقوق عورتوں پر بھی لازم فرماۓاسی طرح عورتوں کے بھی کچھ حقوق مردوں پر لازم ٹھہرا دیئے ہیں جن کاادا کرنا مردوں پر فرض ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پیش آئیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح،2/240، حدیث: 3264)

1۔ ہر شوہر کے اوپر اس کی بیوی کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کے کھانے پہننے اور رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق اور اپنی طاقت بھرا نتظام کرے اور ہر وقت اس کا خیال رکھے کہ یہ اللہ کی بندی میرے نکاح کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے اور یہ اپنے ماں باپ بھائی بہن اور تمام عزیز واقارب سے جدا ہوکر صرف میری ہوکر رہ گئی ہے اور میری زندگی کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک بن گئی ہے اس لیے اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا انتظام کرنا میرا فرض ہے۔

یاد رکھو! جو مرد اپنی لاپروائی سے اپنی بیویوں کے نان ونفقہ اور اخراجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت بڑے گنہگار حقوق العباد میں گرفتار اور قہر قہارو عذاب نار کے سزاوار ہیں۔

2۔ شوہر کو چاہیے کہ عورت کے اخراجات کے بارے میں بہت زیادہ بخیلی اور کنجوسی نہ کرے نہ حد سے زیادہ فضول خرچی کرے۔ اپنی آمدنی کو دیکھ کر بیوی کے اخراجات مقرر کرے۔ نہ اپنی طاقت سے بہت کم نہ اپنی طاقت سے بہت زیادہ۔

3۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کو گھر کی چار دیواری کے اندر قید کرکے نہ رکھے بلکہ کبھی کبھی والدین اور رشتہ داروں کے یہاں آنے جانے کی اجازت دیتا رہے اور اس کی سہیلیوں اور رشتہ داری والی عورتوں اور پڑوسنوں سے بھی ملنے جلنے پر پابندی نہ لگائے۔ بشرطیکہ ان عورتوں کے میل جول سے کسی فتنہ وفساد کا اندیشہ نہ ہو اور اگر ان عورتوں کے میل ملاپ سے بیوی کے بدچلن یا بد اخلاق ہوجانے کا خطرہ ہو تو ان عورتوں سے میل جول پر پابندی لگادینا ضروری ہے اور یہ شوہر کا حق ہے۔

4۔ اگر کسی کے پاس دو بیویاں یا اس سے زیادہ ہوں تو اس پر فرض ہے کہ تمام بیویوں کے درمیان عدل اور برابری کا سلوک اور برتاؤ کرے کھانے، پینے، مکان، سامان، روشنی، بناؤ سنگھار کی چیزوں غرض تمام معاملات میں برابری برتے۔ اسی طرح ہر بیوی کے پاس رات گزارنے کی باری مقرر کرنے میں برابری کا خیال ملحوظ رکھے۔ یاد رکھو !کہ اگر کسی نے اپنی تمام بیویوں کے ساتھ یکساں اور برابر سلوک نہیں کیا تو وہ حق العباد میں گرفتار اور عذاب جہنم کا حق دار ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ جس شخص کے پاس دو بیویاں ہوں اور اس نے ان کے درمیان عدل اور برابری کا برتاؤ نہیں کیا تو وہ قیامت کے دن میدان محشر میں اس حالت میں اٹھا یا جاۓ گا کہ اس کا آدھا بدن مفلوج (فالج لگا ہوا) ہوگا۔ (ترمذی، 2/375، حدیث: 1144)

5۔ عورت اگر بیمار ہو جائے تو شوہر کا یہ اخلاقی فریضہ ہے کہ عورت کی غم خواری اور تیمارداری میں ہرگز ہرگز کوئی کوتاہی نہ کرے بلکہ اپنی دلداری ودلجوئی اور بھاگ دوڑ سے عورت کے دل پر نقش بٹھادے کہ میرے شوہر کو مجھ سے بے حد محبت ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عورت شوہر کے احسان کو یاد رکھے گی اور وہ بھی شوہر کی خدمت گزاری میں اپنی جان لڑادے گی۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

اللہ نے بیویوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے ساتھ زندگی گزارنے کا حکم فرمایا لہذا شوہر پر لازم ہے کہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، شوہر پر بحیثیت شوہر اپنی بیوی اور بچوں کے کھانے، کپڑے اور رہائش کی ذمہ داری ہے۔

ایذا پر صبر کا ثواب: رسول مقبول ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنی بیوی کی بد خصلتی پر صبر کرے اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا حضرت ایوب علیہ السلام کو ان کی مصیبت پر ملا۔ (کیمیائے سعادت، ص 262)

عورتوں پر مردوں کے حقوق: اے اسلام کی مقدس شہزادیو! اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو بیویوں پر حاکم بنایا ہے اور بہت بڑی بزرگی دی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:انہیں وہ کھلاؤ جو تم کھاتے ہو اور انہیں وہ پہناؤ جو تم پہنتے ہو نہ انہیں مارو اور نہ انہیں برا بھلا کہو۔(ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

بیوی کے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

مہر کی ادائیگی: مہر کی ادائیگی ہر مرد پر لازم ہے بیوی کی جانب سے مقرر کردہ حق مہر ادا کرے کوئی بھی مرد بلا اجازت بیوی کی حق مہر کی رقم نہیں استعمال کر سکتا اس پر صرف اور صرف بیوی کا حق ہے وہ اس کو جدھر چاہے جیسے چاہے استعمال کرے۔

حسن معاشرت: یعنی اچھا رہن سہن، حسن سلوک، نیک باتوں کی تعلیم دینا اسے پردے کا حکم دینا اس کے ساتھ پیار محبت سے پیش آئے جو اپنے لئے پسند کرے وہی اس کے لئے بھی پسند کرے اس کے نان و نفقہ کا خیال رکھے اس کے رہائش کا انتظام کرے اس کا ہر طرح سے خیال رکھے۔

بیوی سے بغض نہ رکھنا: بیوی کے ساتھ بغض نہ رکھے اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئے کہ حدیث مبارکہ میں ہے: مسلمان مرد (اپنی) عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے (یعنی اس سے نفرت و بغض نہ رکھے) اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے،دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

حیا و حجاب کی تعلیم و تاکید: شوہر اپنی بیوی کو حیا و حجاب کی تاکید کرے اسے پیار و محبت سے نرمی کے ساتھ سمجھائے کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑدے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

گھر امن کا گہوارہ: میاں بیوی کو چاہئے کہ آپس میں رواداری و محبت سے رہیں دونوں ایک دوسرے کے حقوق پر نظر رکھیں جیسے حدیث مبارکہ میں ہے کہ تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (ابن ماجہ، 2/278، حدیث: 1978)

میاں بیوی کا رشتہ اتنا کمزور نہیں ہونا چاہئے کہ اس رشتے کو لوگ اپنی مرضی سے چلائیں، یہ رشتہ میاں بیوی ہی کی رضامندی سے چلنا چاہیے۔

اللہ پاک میاں بیوی کو تمام حقوق کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین