اللہ تعالیٰ نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول وضوابط دیئے ہیں اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی میاں بیوی ہیں اگر ان میں تعلقات استوار ہیں اور دونوں نے نبی اکرم ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق اجتماعی زندگی گزارنے کا اہتمام کیا تو ایک نیک صالح کنبہ وجود میں آئے گا، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:اللہ وہ ذات ہے جس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تا کہ تمہیں سکون حاصل ہو۔

اور سکون تب ہوگا جب نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب زندگی کو اپنایا جائے لہذا مرد کیلئے لازم ہے کہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے جو شریعت نے بحیثیت شوہر ہونے کے اس پر عائد کئے ہیں:

1۔ مہر کی ادائیگی: مہر عورت کا حق ہے اس سے عورت کی شرافت اور عزت بڑھ جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نکاح کے دوران اس کا تذکرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، بہر صورت شوہر پر واجب ہو جاتا ہے، معاف اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے معاف کر دے، اگر نہیں ادا کرے گا تو گنہگار ہوگا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص شادی کرے اور تھوڑا مہر متعین کرے یا بہت زیادہ اور اسکو ادا نہ کرے تو اس نے بیوی کے ساتھ دھوکہ کیا اور اگر ادا کیے بغیر موت آگئی تو زنا کے جرم میں گرفتار کر کے لایا جائے گا۔

2۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا یہ بھی بیوی کا حق ہے۔ اچھے اخلاق سے پیش آیا جائے اسے بچوں کے سامنے ذلیل نہ کیا جائے گھر کی دیگر خواتین کے سامنے اس کی عزت بڑھائی جائے۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہوں اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/ 386،حدیث: 1165)اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے اچھے اخلاق کو کمال ایمان کی علامت قرار دیا ہے اور بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کو سب سے بہتر ہونے کی علامت بتایا ہے۔

3۔ بیوی کے عیب تلاش نہ کریں: اگر کوئی عیب نظر آئے تو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرے، اس دنیا میں ہر انسان میں بے شمار خوبیاں بھی ہیں اور برائیاں بھی ہیں آدمی کو ہمیشہ سامنے والے کی خوبیوں پر نگاہ رکھنی چاہیے کسی کی برائیاں تلاش کر کے اس کو ذلیل نہ کیا جائے، اسی طرح بیوی میں بے شمار خوبیاں ہیں انہی کو بنیاد بنا کر زندگی گزاری جائے اگر کوئی معمولی برائی ہے تو نظر انداز کر دی جائے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر اس میں ایک برائی ہے تو دوسری اچھائی بھی تو ہے اسے دیکھ لیا کرو۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

کیا یہ خوبی کوئی کم ہے کہ وہ شوہر کے ایمان کی حفاظت میں بہترین مددگار ہے ورنہ شوہر کسی گناہ میں مبتلا ہو کر ایمان کا نقصان کر دے تو آخرت برباد ہو جائے گی۔ یہ خوبی کم ہے کہ آدمی کی معاشرے میں عزت بڑھتی ہے، کیا یہ خوبی کم ہے کہ شوہر کے بچوں کی نگہداشت کر رہی ہے۔

4۔ نان و نفقہ اور معاشی حقوق: مردوں کے ذمے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کی کفالت کو رکھا اور عورت کے نان نفقے اور اس کی جملہ ضروریات کو پورا کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 34 میں ارشاد فرماتے ہیں: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔

5۔ وراثت میں حصہ: اللہ تبارک و تعالیٰ نے جہاں پر مردوں کے لیے وراثت کے حقوق کو مقرر کیا ہے وہیں پر عورتوں کے لیے بھی حق وراثت کو مقرر کیا گیا ہے چنانچہ بیٹی، بیوی اور ماں کی حیثیت سے اس کی وراثت میں اس حق کا تفصیلی طور پر سورہ نساءمیں ذکر کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں کئی مرتبہ عورت کے اس حق کو غصب کر لیاجاتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش اور اجازت موجود نہیں ہے۔