1۔ مردوں کو چاہیے کے اپنی عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئے۔ آپﷺ نے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ بہت عمدہ سلوک کیا۔ بلکہ آپﷺ کا حسن خلق تو بے مثال ہے۔ بیوی کی صلاحیت کسی نہ کسی اعتبار سے مرد سے کمزور ہوتی ہے اسی لیے بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ نے اپنے کلام پاک میں عورتوں کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا: وَّ اَخَذْنَ مِنْكُمْ مِّیْثَاقًا غَلِیْظًا(۲۱) (پ 4، النساء: 21) ترجمہ: اور وہ تم سے گاڑھا عہد لے چکیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومنوں میں کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو اخلاق میں ان میں سے اچھا ہو اور تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

2۔ آپ ﷺ اپنی زوجہ محترم ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بڑی بے تکلف زندگی گزارتے تھے اور ان کے مزاج کا لحاظ رکھتے ہوئے دنیوی معاملات کو بخوبی سر انجام دیتے تھے۔ آپﷺ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خوشی کو جس طرح پہچانتے تھے اس کے بارے میں حدیث پاک یہ ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں خوب جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو؟ میں نے عرض کیا آپ ﷺ کیسے پہچانتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو محمد ﷺ کے رب کی قسم! اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم ! میں نے عرض کیا اللہ کی قسم ! یا رسول اللہﷺ ! میں صرف آپﷺ کا اسم ترک کرتی ہوں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے اگر بیوی کبھی ناراض ہو جائے تو بڑی خوش اسلوبی سے اسے راضی کر لینا چاہیے مقصد یہ ہے کہ بیوی پر ہر وقت رعب نہ ڈالا جائے بلکہ نرمی بھی اختیار کی جائے۔ (شوہر اور بیوی کے حقوق، ص 170)

3۔ بیوی کے حقوق میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ جائز باتوں پر اپنی بیوی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اس کی عادات اور شوق کا خیال رکھا جائے بالخصوص جب عورت کی عمر ذرا کم ہو اور اس کی عادتوں میں بچپن دکھائی دے تو ان سے درگزر کر دینا چاہیے۔ چنانچہ اس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں؛ میں آپﷺ کے پاس گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری کچھ سہیلیاں تھیں جو میرے ساتھ کھیلتی تھی۔ جب رسول اللہﷺ تشریف لاتے تو وہ چلی جاتی تھیں اور رسول اللہﷺ انہیں میرے پاس بھیج دیتے تو وہ میرے ساتھ کھیلنے لگ جاتی تھیں۔

اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ بیوی کے جذبات اور خیالات کی دلداری کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ اس کا ایسا شوق جو خلاف شریعت نہ ہو اسے برداشت کرنا چاہیے۔ (شوہر اور بیوی کے حقوق، ص 173)

4۔ عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ شوہر عورت کے بستر کی راز والی باتوں کو دوسروں کے سامنے بیان نہ کرے بلکہ اس کو راز بنا کو اپنے دل ہی میں رکھے۔ کسی کے پوشیدہ عیب کو چھپانے میں بہت درجہ ہے۔ اس کے متعلق آپﷺ کا فرمان یہ ہے: جو کسی کے پوشیدہ عیب دیکھ کر اسے چھپائے گا گویا اس نے زندہ درگور لڑکی کو پھر زندہ کیا۔ (شوہر اور بیوی کے حقوق، ص 178)

5۔ مہر اس معاوضے کو کہا جاتا ہے جو نکاح کے موقع پر خاوند کی جانب سے عورت کے لیے حقوق زوجیت کی بناء پر مقرر کیا جاتا ہے مہر نکاح کی ضروری شرائط میں سے ہے یعنی اگر کوئی شخص نکاح کے وقت یہ نیت کرے کہ مہر نہیں دیا جائے گا تو اس کا نکاح صحیح نہ ہو گا۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَؕ-فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًؕ- (پ 4، النساء: 24) ترجمہ کنز الایمان: اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو قید لاتے نہ پانی گراتے تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو تو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو۔

آپ ﷺ کی اپنی تمام ازواج مطہرات کا مہر مقرر ہوا اس لیے آپﷺ کی اتباع میں مہر مقرر کرنا سنت ہے۔