الحمدللہ دین اسلام میں ہر کسی کے حقوق ہیں اور ان کے حقوق کو پورے کرنے پر تاکید کی گئی ہیں۔ میاں وبیوی کے حقوق کے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں اس رشتے کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے تو ان کے آپس میں ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ہر مسلمان مرد کو چاہیئے کہ اپنی زوجہ کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔ ہر بات پر ٹوکنا یا تھوڑی تھوڑی بات پر اسے لعن وطعن کرنا یہ گھر کے اجڑنے کا سبب ہے اس لیے ہر ممکن مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کریں۔ اور ان کے حقوق کے بارے میں احادیث کریمہ میں بھی خوب وضاحت فرمائی گئی ہے۔

انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے میاں بیوی کا تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدّن کی بنیاد ہےاور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس رشتہ کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )

اِس رشتے کی اہمیت کے پیشِ نظرقرآن و حدیث میں شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کئی حقوق بیان فرمائے گئے ہیں،جن کو پورا کرنا میاں بیوی میں سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے۔بیوی کے شوہر پر درج ذیل حقوق بیان کیے گئے ہیں:

(1)نان ونفقہ:بیوی کے کھانے، پینےوغیرہ ضروریاتِ زندگی کاانتظام کرنا شوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)

(2)سُکنیٰ:بیوی کی رہائش کےلیےمکان کا انتظام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے اور ذہن میں رکھیں کہ یہاں مکان سے مرادعلیٰحدہ گھر دینا نہیں ،بلکہ ایسا کمرہ،جس میں عورت خود مختار ہو کر زندگی گزار سکے،کسی کی مداخلت نہ ہو،ایسا کمرہ مہیّا کرنے سے بھی یہ واجب ادا ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور ا نہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔ (پ28، الطلاق:6)

(3)مہر ادا کرنا:بیوی کامہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اورشوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔ (پ4، النسآء:4)

(4)نیکی کی تلقین اور برائی سے ممانعت:شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اُسے نیکی کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے منع کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم ارشاد فرمایا ہے کہ خود اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28، التحریم:6)

(5)حسنِ معاشرت:ہر معاملے میں بیوی سےاچھا سُلوک رکھنا بھی ضروری ہے کہ اِس سے محبت میں اضافہ ہو گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’مرد پر عورت کا حق نان ونفقہ دینا،رہنے کو مکان دینا،مہر وقت پر ادا کرنا،اُس کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ رکھنا،اُسے خلافِ شرع باتوں سے بچانا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،ص 379، 380،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

البتہ عورت پر بھی ضروری ہے کہ شوہر کے حقوق ادا کرے اوراللہ و رسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کےبعد بیوی پر سب سے بڑھ کرحتی کہ اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شوہر کا حق ہے۔

حضرت سیّدتناعائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:’’ای الناس اعظم حقا علی المرأۃ؟ ترجمہ: عورت پرجن لوگوں کے حقوق ہیں،اُن میں سب سے زیادہ حق کس کاہے؟تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’زوجھا‘‘ترجمہ:اُس کے شوہر کا۔(المستدرک علی الصحیحین،ج4،ص167،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اور عورت پر مرد کا حق خاص امورِ متعلقہ زوجیت (ازدواجی زندگی سے متعلق،جو بھی حقوق ہیں،اُن)میں اللہ و رسول(عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے بعد تمام حقوق حتی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے۔اِن امور میں اُس کے احکام کی اطاعت اور اُس کے ناموس کی نگہداشت عورت پر فرض اہم ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،ص380،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)(الحاصل و الترغیب)

اسلامی تعلیمات اور قرآن پاک واحادیث کریمہ کے پیش نظر یہ بات عیاں ہے کہ دین اسلام میں بندے کو زندگی گزارنے کے تمدن واسلوب دیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندے کو معاشرے میں رہنے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک کرنے کیلئے۔ ہر ایک پر باہم حقوق رکھے ہیں۔ تاکہ بندہ ان حقوق کو ادا کرکے احسن طریقے سے حسن سلوک کرے۔ ان میں سے بیوی کے شوہر پر حقوق رکھے ہیں۔ چونکہ یہ ایک بہت اہم ونازک رشتہ ہے۔ جس کو قائم رکھنے کیلئے باہم جو حقوق ہیں۔ ان کو ادا کرتے ہوئے اس رشتے کو برقرار رکھنے کے ساتھ ہی بندہ اللہ پاک کے احکام کو بجا لائے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کے اسوہِٕ حسنہ پر عمل کرکے اللہ ورسولہ عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرے اور اپنی دنیا وآخرت بھی سنوارے کیونکہ اللہ پاک کے احکام بجالانے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہی کامیابی ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ دین اسلام کے دیے گئے تمدن وطریقوں کے مطابق زندگی گزارکر اپنے رب عزوجل ومصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کریں۔ نیز اپنے رشتہ داروں و تمام کے حقوق کی پاسداری ودیانتداری کریں۔

اللہ پاک ہم سب کو حقوق اللہ و حقوق العباد پورے کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

ایک شخص امیرُ المؤمنین حضرت سَیِّدُنا فاروق اعظم رَضِیَ اللہ تعالیٰ عَنْہ کی بارگاہ میں اپنی بیوی کی شکایت لے کر حاضرہوا۔ جب دروازے پر پہنچا تو ان کی زوجہ حضرت اُمِّ کلثوم رَضِیَ اللہ تعالیٰ عَنْہا کی(غصے کی حالت میں)بلند آواز سے گفتگو کرنے کی آواز سنائی دی۔ جب اس شخص نے یہ ماجرا دیکھا تویہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ میں اپنی بیوی کی شکایت کرنے آیا تھا لیکن یہاں تو خود امیرُالمؤمنین بھی اسی مسئلے سے دوچار ہیں۔ بعد میں حضرت سَیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تعالیٰ عَنْہ نے اس شخص کو بُلواکر آنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے عرض کی: حضور!میں تو آپ کی بارگاہ میں اپنی بیوی کی شکایت لے کر آیا تھا مگر جب دروازے پر آپ کی زوجہ محترمہ کی گفتگو سنی تو میں واپس لوٹ گیا۔ آپ رَضِیَ اللہ تعالیٰ عَنْہ نے فرمایا کہ میری بیوی کے مجھ پر چند حقوق ہیں جن کی بنا پر میں اس سے درگزر کرتا ہوں۔

٭ وہ مجھے جہنم کی آگ سے بچانے کا ذریعہ ہے، اس کی وجہ سے میرا دل حرام کی خواہش سے بچا رہتا ہے۔ ٭ جب میں گھر سے باہر ہوتا ہوں تو وہ میرے مال کی حفاظت کرتی ہے۔ ٭ میرے کپڑے دھوتی ہے۔ ٭ میرے بچے کی پرورش کرتی ہے۔ ٭ میرے لئے کھانا پکاتی ہے۔

یہ سُن کر وہ شخص بے ساختہ بول اُٹھا کہ یہ تمام فوائد تو مجھے بھی اپنی بیوی سے حاصل ہوتے ہیں، مگر افسوس! میں نے اُس کی اِن خدمات اور احسانات کو مدِّنظر رکھتے ہوئے کبھی اُس کی کوتاہیوں سے درگزر نہیں کیا، آج کے بعد میں بھی درگزر سے کام لوں گا آپ رَضِیَ اللہ تعالیٰ عَنْہ نے اُس شخص کو جو مدنی پھول عطا فرمائے ان سے یہی درس ملتا ہے کہ شوہر کو عفو و درگزر، بُرد باری، تحمل مزاجی اور وسیع ظرفی جیسی خوبیوں کا پیکر ہونا چاہئے۔

(1) حُسنِ اخلاق: حضوراکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔(بہار شریعت ج 2۔ص 103)

(2) ظلم نہ کرنا: صحیحین میں عبداللہ بن زمعہ رضی اللّہ تعالیٰ عنہ سے مروی، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے مجامعت کرے گا۔(بہار شریعت ج 2۔ص 104)

(3)بیوی پر خرچ کرنا:حضرت سیّدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا نہیں ارشاد فرمایا: الله عز وجل کی رضا کے لئے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو (اس کا بھی اجر ملے گا)۔

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضی اللهُ تعالیٰ عَنْہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلِين رَحْمَۃ لِلْعَلَمين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔(رسالہ شوہر کو کیسا ہونا چاہئے)

(4) خوش طبعی کرنا: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود اپنی بعض ازواجِ مُطَهَّرات کے مختلف رویوں کے باوجود اُن کے ساتھ خوش طبعی فرماتے۔ مرد عورت کی ایذا اور بد سلو کی پر بھی اُس سے خوش اخلاقی سے پیش آئے یہی وہ چیز ہے جو عورت کے دل کو جیت لیتی ہے۔ ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِيَ اللهُ تعالیٰ عَنْہا سے روایت ہے کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے دوڑنے میں مقابلہ کیا، پس میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے آگے نکل گئی۔) (ریاض الصالحین ج 3 ص 465):

(5) بیوی کو علم دین سیکھانا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28، التحریم:6)

مفتى قاسم صاحب فرماتے ہیں:اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاں مسلمان پر اپنی اصلاح کرنا ضروری ہے وہیں اہل خانہ کی اسلامی تعلیم و تربیت کرنا بھی اس پر لازم ہے، لہذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پنے بیوی بچوں اور گھر میں جو افراد اس کے ماتحت ہیں ان سب کو اسلامی احکامات کی تعلیم دے یاد لوائے یو نہیں اسلامی تعلیمات کے سائے میں ان کی تربیت کرے تاکہ یہ بھی جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں۔(صراط الجنان)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

ہر ایک بیوی بعض چیزوں کو پسند کرتی ہے۔ اور بعض چیزوں کو نا پسند کرتی ہے نیک اور اچھے شوہر کی شان یہی ہونی چاہیے کہ اس کے جذبات وخیالات میں اس کے موافق ہونے کی پوری پوری کوشش کرے تاکہ میاں بیوی کے درمیان پیار محبت اور اتفاق پیدا ہو جائے اور شوہر اگر اپنی بیوی سے حسن سلوک اور پیار محبت کرے گا تو بیوی اس سے بڑھ کر اسے پیار محبت کرے گی۔بیوی کے حقوق پر احادیث:

(1) وفات کے وقت بیویوں کے متعلق حسن سلوک کی وصیت کرنا: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ بیویوں۔ کے متعلق نیکی کی وصیت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور یقیناً پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا ہے تو اگر اسے سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو تو ٹیڑھا رہے گا لہذا عورتوں کے متعلقہ وصیت قبول کرو۔ (مراۃ المناجیح، جلد 5 ص101)

بیوی کو دشمن نہ جاننا: حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ کوئی مومن کسی مومنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا۔( مراۃالمناجیح، جلد5 ص(102)

بیوی کو نہ مارنا: حضرت عبداللہ ابن زمعہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے نہ مارے پھر آخر دن میں اس سے صحبت کرے گا۔ (مراۃ المناجیح، جلد 5 ص102)

بیوی کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا:حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنے گھروالوں کے ساتھ اچھا ہوں اور جب تمہارا ساتھی مرجائے تو اسے چھوڑ دو۔ (مراۃ المناجیح، جلد 5 ص (110)

بیوی کو برا بھلا نہ کہنا اور اسکو اپنے ساتھ کھانا کھلانا: حضرت حکیم ابن معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اپنے والد سے راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم میں سے کسی کی بیوی کا حق اس پر کیا ہے فرمایا جب تم کھاؤ اسے کھلاؤ اورجب تم پہنو اسے پہناؤ اور اسکے منہ پر نہ مارو اور اسےبرا نہ کہو اور اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں ۔ (مراة مناجیح جلد5 ص113)

بیوی کے راز چھپانا: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت۔ ہے کہ نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا کہ قیامت کے دن الله کے نزدیک سب سے بدتر شخص وہ ہے جو اپنا آپ عورت کو سپرد کرے اور عورت اپنا آپ مرد کو سپردکرے پھر وہ مرد عورت کے راز پھیلادے۔(ریاض الصالحین باب حفظ السر حدیث 1)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

بہر حال شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اور شوہر کو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں بیوی کے جائز مطالبات کو پورا کرنے اور جائز خواہشات پر پورا اُترنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے بن سنور کر رہے اسی طرح اسے بھی بیوی کی فطری چاہت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی کے لیے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص۔ توجہ دینی چاہیے۔ خواہ وہ زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کر یا کرے۔ شوہر پر بیوی کے چند حقوق ملا حظہ کیجئے:

حسن اخلاق سے پیش آنا: شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے۔ کہ وہ اپنی بیوی سے حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اس سے نرمی سے بات کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ ( سنن ابن ماجہ ، أبواب النکاح، باب حسن معاشرة النساء،الحدیث: 1978، ج 2، ص 488)

ایذا نہ دینا: شوہر پر ایک حق یہ بھی ہےکہ بیوی کو کبھی تکلیف نہ دے اسےکوئی ایذ نہ پہنچائے۔ اس پر سختی نہ کرے چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے مجامعت کرے گا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب النکاح باب ما يكره من ضرب النساء، الحدیث: 5204 ج 3ص 465)

غلطی پر در گزر کرنا: شوہر پر حق یہ بھی ہے کےبیوی سے کوئی ایسا فعل ہو جائے تو اسے معاف کردے۔ اس کی غلطیوں پر درگزر کرے۔ چنانچہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: مسلمان مرد عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے۔ دوسری پسند ہوگی۔ یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جب کہ اچھی بری ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔ (المرجع السابق۔الحدیث:63۔(1469) ص775)

اچھی عادات تلاش کرنا:شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھا گمان رکھے۔ بیوی کی اچھی عادات تلاش کرے جس سے بیوی کو کوئی عذرنہ ہو۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی ر ہے گی۔ ( صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، الحديث: 5186، ج 3، ص457)

شوہر کا گھریلو کام کرنا سنت ہے: شوہر پر حق یہ بھی ہے کہ عموماً گھر میں شوہر کا مزاج اپنی بیوی پر حکم چلانے کا ہوتا ہے۔ معمولی کام کے لیے بھی اسے تنگ کیا جاتا ہے جہاں تک ممکن ہو خود بھی بیوی کی خدمت کرے کہ اس میں شوہر کے لیے اجرو ثواب ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اس کا اجر دیا جاتا ہے۔(مجمع الزوائد، كتاب الزكاة، باب فى نفقة الرجل۔ الخ 300/3حدیث: 4659)

بیوی پر خرچ کرنے کا اجر:شوہر پر حق یہ بھی ہے کہ وہ بیوی کے کھانے، پہننے، رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے۔ اپنی بیوی پر تنگی کرنے کے بجائے رضائے الٰہی کے لئے دل کھول کر خرچ کریں۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا۔ حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔ (بخاری کتاب الجنائز، باب رثاء النبي ۔۔۔۔ الخ، 1/438، حدیث1295)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ عزوجل نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بے راہ روی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے کے لیے، نسل انسانی کی بقا اور قلبی سکون کی فراہمی کے لیے ا نہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتہ ازدواج کہلاتا ہے۔ یہ رشتہ جتنا اہم ہے اتنا ہی نازک بھی ہے کیونکہ ایک دوسرے کی خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنے ایک دوسرے کی پسند کا خیال نہ رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے جبکہ باہمی تعاون زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دیتا ہے۔ میاں بیوی پر ایک دوسرے کے کچھ حقوق ہیں جنہیں پورا کرنا دونوں پر لازم ہے۔ آئیے شوہر کے ذمے بیوی کے جو حقوق ہیں ؟ وہ ملاحظہ ہوں۔

(1) نظافت کا احتمام کرنا: جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے بن سنور کر رہے اسی طرح اسے بھی بیوی کی فطری چاہت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی کے لیے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے خواہ وہ زبان سے اس بات کا اظہار کرےیا نہ کرے۔(شوہر کو کیسا ہونا چاہئے صفحہ 5)

2۔ بیوی پر خرچ کرنے کی فضیلت: ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی غلام پر خرچ کیا۔ ایک دینار وہ ہے جو تم نے کسی مسکین پر خرچ کیا اور ایک دینار وه ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر خرچ کیا۔ ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار کا ہے جو تم نے اپنے گھر والوں پر خرچ کیا۔(اسلامی شادی صفحہ 106)

3۔ بیوی کو نیک کاموں کا حکم دینا:شوہر کو چاہیے کہ وہ خود بھی نماز روزے کی پابندی اور دیگر نیک کام کرے اور اپنی بیوی کو بھی نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سنتوں پر عمل کرنے کی اور دیگر عبادات کی ترغیب دیتا رہے اور مسائل سیکھنے میں اس کی مدد کرے ۔(اسلامی شادی صفحہ 115)

4۔ بیوی کو اچھا کھلانا پلانا :

حضرت حکیم بن معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ماحق رَوْجَةِ أحدنا عَلَيْهِ قَالَ أَن تُطْعِمَهَا إِذَا طعمُتَ وتَکسوها اِذَا اکتَسبت یعنی ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا۔ جیسا تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ اور جیسا تم پہنو اسے بھی پہناؤ۔ (مراۃ المناجیح جلد پنجم باب عشرة النساء۔ وما لكل واحد من الحقوق حديث ٣١١٩) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس حیثیت کا کھانا مرد خود کھاتا ہو جیسا لباس خود پہنتا ہو اس حیثیت کا بیوی کو کھلائے پہنائے۔

5۔ بہترین شخص:اللہ کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومنوں میں سے کامل تر مومن اچھےاخلاق والا ہے اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا ہو۔(ترمذی386/2، حدیث 1165)

فتاوی رضویہ کی جلد 24 میں شوہر پر بیوی کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں تفسیر صراط الجنان میں ان کا خلاصہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ خرچہ دینا رہائش مہیا کرنا۔ اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، نیک باتوں ۔ حیا اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا۔ اس کی ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں ہے۔ الله ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے، ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ازدواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے، اس میں زوجین، خاندان، گھر اور سماج کے تئیں بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، ان کی علیحدگی سے بے شمار مسائل پیدا ہوتے ہیں، خصوصا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے۔

عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیا ہے؟ عورت کو ایسی مخلوق کے طور پر دیکھا جانا چاہئے جو بلند انسانوں کی پرورش کرکے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں اور اس کی آزادی کیسی ہونا چاہئے۔ عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ تو مرد اور عورت دونوں سے مل کے تشکیل پاتا ہے اور دونوں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں لیکن گھر کی فضا کی طمانیت اور آشیانے کا چین و سکون عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ عورت کو اس نگاہ سے دیکھا جائے تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟

انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے میاں بیوی کا تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدّن کی بنیاد ہےاور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس رشتہ کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )

اِس رشتے کی اہمیت کے پیشِ نظرقرآن و حدیث میں شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کئی حقوق بیان فرمائے گئے ہیں،جن کو پورا کرنا میاں بیوی میں سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے۔بیوی کے شوہر پر درج ذیل حقوق بیان کیے گئے ہیں:

(1)نان ونفقہ:بیوی کے کھانے، پینےوغیرہ ضروریاتِ زندگی کاانتظام کرنا شوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)

(2)بیوی کی رہائش کےلیےمکان کا انتظام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے۔

(3)بیوی کامہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اورشوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4)

(4)شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اُسے نیکی کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے منع کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم ارشاد فرمایا ہے کہ خود اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجَمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28، التحریم:6)

(5)حسنِ معاشرت:ہر معاملے میں بیوی سےاچھا سُلوک رکھنا بھی ضروری ہے کہ اِس سے محبت میں اضافہ ہو گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

امام اہل سنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’مرد پر عورت کا حق نان ونفقہ دینا،رہنے کو مکان دینا،مہر وقت پر ادا کرنا،اُس کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ رکھنا،اُسے خلافِ شرع باتوں سے بچانا۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،ص 379، 380،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

البتہ عورت پر بھی ضروری ہے کہ شوہر کے حقوق ادا کرے اوراللہ و رسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کےبعد بیوی پر سب سے بڑھ کرحتی کہ اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شوہر کا حق ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں دین اسلام نے جس طرح شوہر کے حقوق ادا کرنے پر زور دیا اسی طرح بیوی کے حقوق کی بھی اہمیت بیان فرمائی جیسے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا:وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228) چنانچہ آپ بھی بیوی کے چند حقوق پڑھیے اور علم و عمل میں اضافہ کیجیئے۔

1 ۔اچھی عادات کو تلاش کرنا: رسول اﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مسلمان مرد عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اسکی ایک عادت بُری معلوم ہوتی ہے دوسری پسند ہوگی ( صحیح مسلم الحدیث ٦٣۔ (١٤٧٩)، ص ٧٧٥)

یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جب کہ اچھی بری ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔

2 ۔حسن اخلاق کا مظاہرہ کرنا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ ( سنن ابن ماجہ الحدیث: ١٩٧٨، ج٢، ص٤٧٨)

3 اپنی بیوی کو نہ مارنا: صحیحین میں عبدﷲ بن رمعہ رضی ﷲ عنہ سے مروی، رسول ﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے مجامعت کرے گا ( صحیح البخاری ، الحدیث: ٥٢٠٤، ج 3 ص ٤٦٥)

یعنی زوجیت کے تعلقات اس قسم کے ہیں کہ ہر ایک کو دوسرے کی حاجت اور باہم ایسے مراسم کہ ان کا چھوڑنا دشوار لہذا جو ان باتوں کا خیال کرے گا مارنے کا ہر گز قصد نہ کرے گا۔

4۔ نان و نفقہ ادا کرنا: بیوی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کو نان و نفقہ (یعنی خرچ) ادا کیا جائے جیسا کہ بہار شریعت میں اگر یہ اندیشہ ہے کہ نکاح کر یگا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کر سکے گا تو (نکاح کرنا) مکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح کرنا حرام مگر نکاح بہر حال ہو جائے گا۔ (بہارِ شریعت، حصہ ہفتم، 5/2)

5 ۔نیک کاموں کا حکم دینا: صحابہ کرام عَلَيْهِمُ الرِّضوَان نے رسول ﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی:یا رسول ﷲصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کس طرح بچا سکتے ہیں؟ سرکار مدینہ فیض گنجینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم اپنے اہل و عیال کو ان کاموں کا حکم دو جو ﷲ عزَّوجَلَّ کو پسند ہیں اور ان کاموں سے روکو جو ربّ تعالیٰ کو نا پسند ہیں۔(درمنثور، ب ٢٨، التحر یم،تحت الآیت:٦، ٨ ٢٢٥ ملتقطاً )

اﷲ تعالیٰ ہمیں ہر مسلمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم!

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

الله تبارک وتعالیٰ نے تخليق آدم علیہ السلام فرمائى پھر جب الله پاک نے آپ کو جنت ميں رہنے کا حكم ديا تو آپ جنت ميں تنہائى كى وجہ سے کچھ ملول ہوئے تو الله پاک نے آپ پر نیند کا غلبہ فرمايا اور آپ گہری نیند سوگئے تو نیند ہی کی حالت میں بائيں(الٹى) پسلی سے الله پاک نے حضرت حوا رضى الله عنہا كو پیدا فرمايا!

جب نيند سے بیدار ہوئے تو یہ دیکھ کر حيران ره گئے کہ ایک نہایت ہی خوبصورت اور حسين و جميل عورت آپ کے پاس بیٹھی ہوئى ہے آپ نے ان سے فرمايا كہ تم کون ہو؟ اور کس لیے آئى ہو؟ تو حضرت حوا رضى الله عنہا نے جواب ديا كہ میں آپ کی بیوی ہوں اور الله پاک نے مجھے اس لیے پیدا فرمايا ہے تاکہ آپ کو مجھ سے اُنس اور سكون قلب(دل) حاصل ہو اور مجھے آپ سے اُنسيت اور تسكين(سكون) ملے اور ہم دونوں ایک دوسرے سے مل کر خوش رہیں اور پیار و محبت كے ساتھ زندگی بسر کریں اور الله پاک کی نعمتوں کا شکر ادا كرتے رہیں(عجائب القرآن وغرائب القرآن)اور یہی سے میاں بیوی کے مقدس رشتے کی ابتداء ہوئى اور الله پاک اس مقدس رشتہ کا قرآن پاک میں اس طرح ذكر فرمايا ہے:

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)

سبحان الله! كيا خوبصورت انداز ميں رب تعالى نے میاں بیوی کے مقدس رشتہ کو کیسے خوبصورت انداز ميں بيان فرمايا ہے اور جس طرح الله اور اس كے رسول نے دوسرے رشتوں کے حقوق بيان فرمائيں ہیں اسی طرح بیوی پر شوہر کے حقوق اور شوہر پر بیوی کے حقوق بهى بيان فرمائے ہیں چنانچہ چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:

نان نفقہ: حضرت حكيم بن معاویہ قشیری رضى الله عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے عرض كيا يارسول الله! ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے؟ فرمايا جب تم كهاؤ تو اسے کھلاؤ اور جب تم پہنو تو اسے پہناؤ اور اس کے منہ پر نہ مارو، اور اسے برا نہ کہو اور اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں۔(سنن ابی داؤد ،كتاب النكاح، ج2)

حسن سلوک: حضرت ابو هريرة رضى الله عنہ نے کہا کہ حضور عليہ السلام نے فرمايا مسلمانوں ميں كامل الايمان وه شخص ہے جو اپنے اخلاق ميں سب سے اچھا ہو اور تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ليے سب سے بہتر ہوں۔(سنن الترمذى ،كتاب الرضاع، ج2) شوہر پر سب سے بڑی ذمہ داری ہے کہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے اس کی عزت كرے اور ایسا کام کرے جو دلوں میں محبت پیدا کرے ۔

حفاظت كرنا: بيوى كى ہر اس چیز سے حفاظت كرنا جو اس كى عزت كو نقصان پہنچائے ۔

مسائل ضروريہ: شوہر پر لازمی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طہارت کے ضرورى مسائل سكهائے اگر شوہر اتنا زیادہ علم نہ رکھتا ہو تو اس کو کسی ادارہ یا کسی عالمہ سے اپنے ضرورت کے مسائل سيكهنے کی اجازت اور اس پر زور دے ۔

عیب تلاش نہ کرے: شوہر پر ضرورى ہے کہ اپنی بیوی کے عیبوں کو تلاش نہ کرے اگر کوئى عيب ظاہر بھی ہو جائے تو اس کو چھپائے اور اس پر اس کی اصلاح كرے کہ حديث پاک میں ہے حضور عليہ السلام نے فرمايا كوئى مومن مرد كسى مومنہ عورت سے بغض نہ رکھے کیونکہ اگر عورت کی کوئى كوئى عادت برى معلوم ہوتی تو اس کی کوئى عادت پسندیدہ بھی ہوگی۔(مشکوة المصابيح، ج2، ص280)

والدین سے ملاقات: شوہر پر واجب ہے کہ ہفتہ میں ایک بار والدین سے ملاقات کی اجازت دے اس کو اس سے نہ روکا جائے ۔

طعنہ نہ مارے: شوہر پر لازمی ہے کہ عورت پر کسی بھی وجہ یا بات کو لے کر طعنہ نہ مارے بدقسمتى كے ساتھ آج كل ہر گھر میں شوہر بيوى كو طعنہ دے رہا ہوتا ہے کہ تیرے ماں باپ نے شادی پر کیا دیا تیرے خاندان والے ایسے ہیں تو نے ایسا کیا تھا وغيره وغيره العياذ بالله

الله كريم سے دعا ہے کہ ہر کسى كو سب كے حقوق ادا كرنے کی توفيق عطا فرمائے الله كريم سے دعا ہے ہمارے معاشرے کے ہر گھر کو امن و سکون کا گہوارہ بنادے اور ہمارے معاشرے سے طلاق كا نام و نشان تک مت جائے آمين!

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام، اعتدال کا دین ہے، عدل و انصاف اور حقوق کی مساوانہ تقسیم اس کا خاص وصف ہے۔ زوجین کے حقوق میں بھی اس دین متین نے اعتدال کی راہ کو اختیار کیا ہے اور اس خاص وصف کے سبب یہ دین دنیا کے تمام تر دیگر ادیان سے ممتاز ہے۔میاں بیوی کے حقوق سے مرادوہ ذمہ داریاں ہیں، جومرد و زن پر ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد شرعی و اخلاقی طور پر عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح اسلام نے مرد کے حقوق بیان کیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے حقوق کا تعین بھی فرمایا ہے۔ جن میں سے کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر،نان و نفقہ، اوررہائش شامل ہے۔اورکچھ غیر مالی حقوق ہیں جن میں بیویوں کے درمیان عدل انصاف کرنا، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا، بیوی کوتکلیف نہ دینا شامل ہیں۔ان کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:

مالی حقوق:

1۔مہر: مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4) ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمۂ کنز الایمان: تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر ا نہیں دو اور قرار داد (طے شدہ)کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تو اُس میں گناہ نہیں ۔(پ5، النسآء:24)

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی مہر کے متعلق بیان ہوا:

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی سے فرمایا: اس کو کوئی چیز دو ۔ تو انہوں نے عرض کیا:میرے پاس کچھ نہیں ہے،تب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ (سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:2125)

2۔ نان ونفقہ: نفقہ کے لغوی معنی خرچ کے ہیں۔ اِس سے مراد وہ شے ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے یعنی اخراجاتِ اولاد یا بیوی کا خرچ وغیرہ۔ اِصطلاحاً نفقہ سے مراد عورت کے روزمرہ کے اخراجات ہیں جن میں خوراک، لباس اور سکونت شامل ہیں جو مرد کی استطاعت کے مطابق اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔ علما کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے۔

نان ونفقہ کا مقصد: بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا، پینا، رہائش وغیرہ یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے۔اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنز الایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان: مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا۔(پ28، الطلاق:7) اسی طرح حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا:

جناب حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: ہم پر بیوی کے کیا حقوق ہیں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب تُو کھائے تو اسے کھلائے، جب تُو پہنے تو اسے پہنائے، یا یوں فرمایا جب کما کر لائے (تو اسے پہنائے)اورچہرے پر نہ مار، اسے برا نہ بول اور اس سے جدا نہ ہو مگر گھر میں

3۔سکنٰی یعنی رہائش: یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6) شوہر کے لیے لازم ہے کہ وہ بیوی کی رہائش کے لیے کم از کم ایسا انتظام ضرور کرے جہاں اس کی بیوی بے خوف ہو کر رہ سکے اور اگراُس کی بیوی علیحدہ رہائش کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کی طاقت رکھتا ہو تو اُسے علیحدہ رہائش کا انتظام کرنا چاہیے۔

غیرمالی حقوق:

1:بیویوں کے درمیان عدل وانصاف: بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان ونفقہ اورسکنیٰ وغیرہ اور دیگر تمام معاملات میں عدل و انصاف کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو 2دو 2 اور تین3 تین3 اور چار 4چار4 پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو۔(پ4، النسآء:3)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگرچہ مرد کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کے درمیان عدل و انصاف کرے، اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس کو ایک ہی بیوی رکھنی چاہیے جو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک سے زائد بیویاں تو رکھ لیتے ہیں لیکن وہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر پاتے۔

2:حسن معاشرت: حُسنِ معاشرت سے مراد یہ ہے کہ انسان جس سے ملے اور جس سے میل جول رکھے ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے،خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا: ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے جب (اپنی بیوی میں) کوئی (پسند نہ آنے والا) معاملہ دیکھے تو اچھی طرح سے بات کہے یا خاموش رہے۔ اور عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1468)

اب ہم چندایک نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اپنی بیویوں کےساتھ حسن معاشرت کے نمونے پیش کرتے ہیں:

عروہ بن زبیر سے روایت کیا، انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہیں اور حبشی اپنے چھوٹے نیزوں کے ساتھ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مسجد میں کھیل (مشقیں کر) رہے ہیں۔ اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے اپنی چادر سے چھپائے ہوئے ہیں تاکہ میں ان کے کرتب دیکھ سکوں، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری خاطر کھڑے رہے حتیٰ کہ میں ہی ہوں جو واپس پلٹی۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 892)

ہمیں بھی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور جو حقوق ان کے ہمارے ذمہ ہیں ا نہیں اچھی طرح سے ادا کرنا چاہیے،اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک کے اخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: النکاح من سنتی نکاح میری سنت ہے! نکاح اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)

اس سے نکاح کے رشتے کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یہ مقدس رشتہ دو انسانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے، اسی لیے دینِ اسلام نے اس رشتے کی حفاظت کے پیشِ نظر بیوی پر شوہر کے اور شوہر پر بیوی کے حقوق کو لازم کیا،ہمارا مقصد یہاں شوہر پر جو بیوی کے حقوق ہیں ان کو بیان کرنا ہے۔

یاد رہے! بیوی کے حقوق کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کی شریعت مطہرہ میں جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تو مالی حقوق ہیں اور کچھ معاشرتی، جیسے مہر، نفقہ، رہائش دینا، اچھے انداز کے ساتھ رہنا، بیوی کو تکلیف نہ دینا وغیرہ، ہم دونوں کو اختصار سے بیان کرتے ہیں۔

بیوی کا مہر شوہر پر ضروری ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4)

معلوم ہوا شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو اس کا مہر دے، بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ لاکھ دو لاکھ مہر فقط لکھوا لیتے ہیں اور دیتے نہیں بلکہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ بیوی معاف کر دے! یہ گناہ کا کام ہے، مرد مہر اتنا لکھوائے جتنا دے سکتا ہو، اور لڑکی والوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ اتنا ہی مہر رکھوائیں کہ شوہر بیچارا ادا کر سکے، شریعت نے اس شادی کو پسند فرمایا جو آسان ہو۔ اللہ پاک ہمیں حقوق کی ادائیگی اور ایک دوسرے کے لیے آسانی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مرد پر نان و نفقہ واجب ہے: مرد حضرات پر مہر کے علاوہ نفقہ بھی واجب ہے، صاحب بہار شریعت، صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ القوی بہار شریعت کی جلد 2، حصہ الف، صفحہ نمبر 260 پر فرماتے ہیں: نفقہ سے مراد کھانا، کپڑا، رہنے کا مکان ہے اور نفقہ واجب ہونے کے تین سبب ہیں زوجیت، نسب، ملک۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(7) ترجمۂ کنز الایمان: مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے قریب ہے کہ اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔(پ28، الطلاق:7)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی طاقت کے مطابق خوش دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی زوجہ کو خرچہ وغیرہ دے اور تنگی کا خوف نہ کرے اگر کوئی پریشانی ہے بھی تو یہ وقتی ہے کیونکہ ہر دشواری کے بعد اللہ آسانی فرمائے گا۔

بیوی کی رہائش کا ذمہ شوہر پر ہے: اسی طرح بیوی کو رہائش دینا بھی شوہر پر لازم ہے اوربیوی کے حقوق میں شامل ہے چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور ا نہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔ (پ28، الطلاق:6)

لہذا پتہ چلا کہ مہر نفقہ رہائش یہ وہ عورت کے حقوق ہیں جو شوہر پر لازم ہے لہذا شوہر ان کو صدقِ دل سے اللہ کی رضا کے لیے ادا کرے اور اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی یاد رکھیں: مسلمان جو کچھ اپنے اہل پر خرچ کرے اور نیت ثواب کی ہو تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ (صحیح بخاری،باب النفقات،باب فضل النفقہ علی الاھل ۔۔ ۔الخ،حدیث: 5351)

یہ کچھ عورت کے وہ حقوق تھے جن کا تعلق مال سے تھا اب آئیے اختصار کے ساتھ غیر مالی حقوق کا بھی تذکرہ کرتے ہیں:

عورت کی غلطیوں کے ساتھ اسے قبول کرو: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، ہر گز تمہارے لیے سیدھی نہیں ہوگی، اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو! تو اسی حالت میں فائدہ حاصل کرو، اگر سیدھا کرنے جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے، اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔(مشکاۃ،حدیث3239)

اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا ہونا اس کی فطرت سے ہے، وہ مکمل سیدھی ہوجائے ایسا نہیں ہو سکتا، اس لیے مرد حضرات کو تحمل و بردباری کے ساتھ درگزر سے کام لیتے ہوئے عورت کی غلطیوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔

شوہر کے لیے نفیس تعلیم: رسول کریم روؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا۔(مشکاۃ،حدیث،3240)

سبحان اللہ! کتنی پیاری اور نفیس تعلیم ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کو بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے، اسے چاہیے کہ اس کی برائیاں نظر انداز کرے اور اچھائیوں پر نظر رکھے اور اپنی بیوی سے محبت کرے اسے دشمن ہر گز نا جانے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ایک کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ احکامات الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ دین اسلام کے اصول و قوانین کا تابع ہوتا ہے۔تو اسلام نے جس طرح مردوں میں شوہر کو منفرد مقام عطا کیا اسی طرح عورتوں میں بیوی کو انفرادی شان وعظمت عطا کی۔ اسلام نے جس طرح شوہر کے کچھ حقوق بیان کئے اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق بیان کئے۔جن کو ادا کرناشوہر پر لازم ہے۔

بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ شوہر بیوی کیساتھ خوش اخلاقی،نرمی اور محبت و شفقت کیساتھ زندگی بسر کرے۔ چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

اور نبی مکرم نور مجسم شفیع معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی بیویوں کے حقوق بیان فرمائے۔ چند احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:

1۔ کامل ترین مؤمن: وَعَنْ أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےفرماتے ہیں رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا مؤمنوں میں سے کامل تر مؤمن اچھے اخلاق والا ہے۔ اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں سے بہترین ہو۔ (مرآۃ المناجیح: جلد،5:حدیث نمبر:3264)

2۔کامل مؤمن کون؟: حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَكْمَل الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا،أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، وَأَلْطَفَهُمْ بِأَهْلِهِ یعنی مؤمنین میں سے سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں،اور وہ اپنے گھر والوں(بیوی،پچوں) پر زیادہ مہربان ہو۔ ایک روایت میں ہے: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہے۔اور میں اپنی ازواج کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔ (احیاء العلوم مترجم:جلد،2:ص،253: مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

3۔ ہم پر بیوی کے حقوق: وَعَن حَكِيم بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہ! مَا حَقُّ زَوْجَةٍ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكتَسَيْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ ترجمہ: حضرت حکیم ابن معاویہ قشیری سے روایت ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسولﷲ ہم میں سے کسی کی بیوی کا حق اس پر کیا ہے؟ فرمایا جب تم کھاؤ اسے کھلاؤ اورجب تم پہنو اسے پہناؤ۔اور اس کے منہ پر نہ مارو اور اسے برا نہ کہو اور اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں۔ (مشکاۃ: جلد، 2: حدیث، 3258:ص:26)

4۔ دشمن نہ جانو: وَعَنْ أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ترجمہ: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔کوئی مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا۔

شرح حدیث: مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سبحان اﷲ! کیسی نفیس تعلیم،مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے،لہذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے۔یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا،ہم خود ہزار ہا برائیوں کا چشمہ ہیں،ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو،اچھائیوں پر نظر رکھو،ہاں اصلاح کی کوشش کرو،بے عیب تو رسولﷲ ہیں۔ ( مرآۃ المناجیح جلد،5: حدیث نمبر:3240 )

5۔بیوی کے شوہر پر حقوق صراط الجنان کی روشنی میں: 01۔ خرچہ دینا ۔ 02۔ رہائش مہیا کرنا ۔ 03۔ اچھے طریقے سے گزارہ کرنا ۔ 04۔ اسکی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں ۔ 05۔ جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اسکی دلجوئی کرنا۔ 06۔ نیک باتوں،حیا اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا ۔ 07۔ ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا۔(صراط الجنان: جلد،1:ص 348)

6۔بہترین شوہر: بہترین شوہر وہ ہے 01۔جو اپنی بیوی کیساتھ نرمی اور حسن سلوک کیساتھ پیش آئے۔ 02۔جو اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ 03۔جو اپنی بیوی کا اس طرح ہو کر رہے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔ 04۔جو اپنی بیوی کو اپنے عیش وآرام میں برابر کا شریک سمجھے۔ 05۔جو اپنی کی خوبیوں پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔ 06۔جو اپنی بیوی کو دینداری کی تاکید کرتا رہے اور شریعت پر چلائے۔ 07۔جو اپنی بیوی کو پردے میں رکھ کر اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ 08۔جو اپنی بیوی پر ظلم اور کسی قسم کی بے جا زیادتی نہ کرے۔ 09۔جو اپنی بیوی کی تند مزاجی اور بد اخلاقی پر صبر کرے۔ 10۔جو اپنی بیوی کو ہر طرح کی ذلت و رسوائی سے بچا کر رکھے۔ 11۔جو اپنی بیوی کے اخراجات میں بخل اور کنجوسی نہ کرے۔ 12۔جو اپنی بیوی کی مصیبتوں،بیماریوں اور رنج و غم میں دلجوئی اور وفا داری کا ثبوت دے۔ 13۔جو اپنی بیوی پر ایسا کنٹرول رکھے کہ وہ کسی برائی کی طرف رخ بھی نہ کرے ۔ (ماخوذ:جنتی زیور: ص،84/85: مکتبہ المدینہ)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

کہا جاتا ہے کہ میاں اور بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اگر گاڑی کا ایک پہیہ بھی صحیح طرح کام نہ کرے تو گاڑی نہیں چلتی یوں ہی ازدواجی زندگی میں خوشحالی فقط اسی صورت میں ممکن ہے جب میاں اور بیوی دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن سر انجام دیں وگرنہ زندگی کی گاڑی کا چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔

اسلام چونکہ فقط ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے۔ اس لیے اسلام میں جہاں ایک بچے کی پیدائش سے لے کر موت تک زندگی گزارنے کے تمام اصول و ضوابط بالتفصیل بیان کر دیے گئے وہیں ازدواجی زندگی کو خوبصورتی کے ساتھ گزارنے کے لئے میاں بیوی کے حقوق و فرائض بھی بیان کیے گئے تاکہ یہ مقدس رشتہ خوبصورتی کے ساتھ نبھایا جا سکے ۔ اسلام میں خاوند پر بیوی کے درج ذیل حقوق کو بیان کیا گیا ہے:

حق مہر: بیوی کے حقوق میں سب سے پہلا حق مہر ہے۔ یعنی جیسے ہی ایک عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہے اسے مہر کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا(4) ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا (خوش گوار اور مزےسے)۔ (پ4، النسآء:4)

اس آیت کریمہ میں شوہروں کو حکم دیا گیا کہ وہ بیویوں کو ان کا مہر خوشی سے دیں۔ البتہ بعد ادائیگی اگر بیوی اپنی خوشی سے بطور تحفہ شوہر کو مہر کا کچھ حصہ یا مکمل مہر دے دیتی ہے تو اسے لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن اسے مہر معاف کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ مہر بیوی کا حق ہے لہذا اگر اس کے والد یا ولی نے بوقت نکاح مہر لے لیا ہو وہ تو بیوی کے حوالے کر دیا جائے۔

نان و نفقہ: دوسرا حق نان و نفقہ ہے،شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کی تمام ضروریات زندگی کو پورا کرے۔ اس کے لیے کھانے پینے لباس اور دیگر تمام اخراجات کا بندوبست کرے۔ خطبہ حجۃ الوداع جو کہ انسانی حقوق کا عالمی منشور ہے اس میں نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیویوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لباس اور طعام میں اچھا سلوک کرو ۔(ترمذی حدیث 1163)

حتی کہ طلاق کے بعد بھی ایامِ عدت میں نفقہ خاوند ہی کے ذمے ہے اللہ کریم نے قرآن عظیم میں ارشاد فرمایا: وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِؕ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ(241) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور طلاق والیوں کے لیے بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے یہ واجب ہے پرہیزگاروں۔(پ2، البقرۃ:241)

سکنی:بیوی کا تیسرا حق سکنی یعنی رہائش ہے۔ شوہر پر واجب ہے کہ وہ اپنی استطاعت اور قدرت کے مطابق بیوی کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست کرے۔ نفقہ کی طرح سکنی بھی ایسا حق ہے جو دورانِ عدت بھی شوہر کے ذمے ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔ (پ28، الطلاق:6)

عدل و انصاف: شوہر پر لازم ہے کہ وہ لباس، رہائش اور نفقہ وغیرہ میں عدل و انصاف سے کام لے اور اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان تمام چیزوں میں مساوات کا دامن تھامے رکھے۔ بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کو اس بات پر موقوف رکھا کہ ان کے ما بین عدل و انصاف کیا جائے۔چنانچہ ارشاد فرمایا:

فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ(3) ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔ (پ4، النسآء: 3)

اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں لکھا ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی، کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں، کھانے پینے میں، رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہو۔

حسن سلوک: شوہر پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ بیوی سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرے اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کو جا بجا بیان فرمایاہے چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

قرآنِ مجید کے علاوہ کئی احادیث کریمہ بھی عورتوں سے حسن سلوک پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تم میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے گھروالوں کے لئے تم سب سے اچھا ہوں۔(ترمذی،کتاب المناقب،باب فضل ازواج النبی،5/475حدیث:3921)

ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ تم سب میں بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اچھا ہو۔(شعب الایمان،باب فی حقوق الاولاد والاہلین،6/415، حدیث:8720) ان روایات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی تلقین کی ہے۔

ایذا رسانی سے بچنا: اسلام میں ایذا رسانی منع ہے،کسی بھی مسلمان کو بلا وجہ تکلیف پہنچانے کی شدید مذمت کی گئی ہےچنانچہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ترجمہ: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری جلد اول: كتاب الإيمان: حدیث 10)

یعنی حقیقی معنوں میں مسلمان کہلانے کے لائق وہی شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ وہ نہ تو زبان سے غیبت، چغلی، گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کے ذریعے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے اور نہ ہی ہاتھ کے ذریعے کسی کو ایذا دے۔

اس روایت میں ایک عام مسلمان کو ایذا دینے سے بھی کتنی سختی سے منع کیا گیا ہے تو زوجہ جو کہ دوسروں کی بنسبت حسن سلوک کی زیادہ حقدار ہوتی ہے۔ اسے کیونکر تکلیف دی جا سکتی ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الا واستوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم ترجمہ: سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو ۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔(ترمذی، حدیث 1163)

الغرض اسلام نے بیوی کے حقوق تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں اور زمانہ جاہلیت میں عورت سے کی جانے والی بد سلوکی کی تمام رسومات کو دفن کر دیا ہے اور عورت کو معاشرے میں ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں ہی فقط اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں تو واقعی گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔