میاں بیوی کا باہمی تعلق دنیا میں ایک لائق مثال تعلق ہے۔کیونکہ نکاح ہوتے ہی نام و جان سے ناآشنا دو انسانوں کے درمیان انسیت و محبت کے ساتھ ساتھ ایک گہرا تعلق بھی قائم ہوجاتا ہے۔

تو اس صورتحال میں زوجین کے درمیان اس تعلق کا برقرار رہنا اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ اس تعلق کے قیام اور اپنے گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے۔ کہ اپنے گھر بار بہن بھائیوں، اور ماں باپ کو خیر آباد کہہ کر آنے والی اس خدا کی بندی کا اگر وہ خیال نہیں رکھے گا اور اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور اس کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کے متعلق اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )

اسی طرح ایک اور مقام میں فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کو ادا کرنا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔(خزائن العرفان، پ2، البقرہ، تحت الآیۃ: 228)

امام ابو عبد الله محمد من احمد بن ابو بکر قرطبی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہیں اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بلاشبہ میں اپنی بیوی کے لئے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں وہ تمام حقوق اچھی طرح حاصل کروں جو میرے اُس پر ہیں اور وہ بھی اپنے حقوق حاصل کرے جو اس کے مجھ پر ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ علیہنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ (اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق)

اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی کہ بیویوں کے ساتھ اچھی صحبت اور بہترین سلوک خاوندوں پر اسی طرح لازم ہے جس طرح ہے بیویوں پر ہر اُس (جائز) کام میں خاوندوں کی اطاعت واجب ہے جس کا وہ ا نہیں حکم دیں۔(تفسیر قرطبی، پ2، البقرہ، تحت الآیۃ:228)

احادیث میں بھی بیویوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:۔

یاد مدینہ کے آٹھ حروف کی نسبت سے بیوی کے حقوق کے متعلق آٹھ فرامین مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1) لا يفرك مؤمنٌ مؤينةً ان کرہ منها خِلُقا رضی منها آخر یعنی کوئی مسلمان مرد (شوہر) کسی مسلمان عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے اگر اس کی ایک عادت نا پسند ہے تو دوسری پسند ہو گی۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء،ص،775، حدیث: 1469)

(2) خَيْرُ كُمْ خيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُ کم لاھلی ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔(ابن ماجہ ابواب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، الحديث478/2 حدیث:1977)

(3)سب سے بدترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔عرض کی گئی: وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے، بچے بھاگ جاتے اور غلام سہم جاتے ہیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگے اوردیگر گھر والے سُکھ کا سانس لیں۔(معجم اوسط،ج6،ص287،حدیث:7898)

(4)عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیرھی اوپر والی پسلی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ (بخاری،کتاب النکاح، باب الوصاة النساء، 457/3،حدیث 5186)

(5)جس نے اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کیا تو اللہ پاک اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے مصیبت پر صبر کرنے کی مثل اجر عطا فرمائے گا اور اگر عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرے تو اللہ پاک اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے ثواب کی مثل اجر عطا فرمائے گا۔ (کتاب الکبائر، الکبیرة السابعہ والاربعون، ص:602)

(6)ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار دو ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ ان میں سب سے زیاد اجرہ اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔(مسلم، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة علی العیال ۔۔ ۔۔ الخ، ص،499 حدیث: 995)

(7)حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے جو چیز انسان کے ترازوئے اعمال میں رکھی جائے گی وہ انسان کا وہ خرچ ہو گا جو اس نے اپنے گھر والوں پر کیا ہو گا۔(معجم الاوسط، 328/4،حدیث: 6135)

(8)جب تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلاؤ اورجب خود پہنو تو اسے بھی پہنا ؤ اور چہرے پر مت مارو اور اسے بُرے الفاظ نہ کہو اور اس سے (وقتی)قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔(ابو داؤد،ج2،ص356، حدیث:2142)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ مسلمانوں کے تمام گھروں کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے اور ہمیں باکردار مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک کے اخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: النکاح من سنتی نکاح میری سنت ہے! ۔اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)

اس سے نکاح کے رشتے کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی ظاھر ہے کہ یہ مقدس رشتہ دو انسانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے، اسی لیے دینِ اسلام نے اس رشتے کی حفاظت کے پیشِ نظر بیوی پر شوہر کے اور شوہر پر بیوی کے حقوق کو لازم کیا،ہمارا مقصد یہاں شوہر پر جو بیوی کے حقوق ہیں ان کو بیان کرنا ہے۔

یاد رہے بیوی کے حقوق کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کی شریعت مطہرہ میں جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔ بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تو مالی حقوق ہیں اور کچھ معاشرتی، جیسے مہر ، نفقہ، رہائش دینا، اچھے انداز کے ساتھ رہنا، بیوی کو تکلیف نہ دینا وغیرہ، ہم دونوں کو اختصار سے بیان کرتے ہیں:

عورت کی غلطیوں کے ساتھ اسے قبول کرو: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، ہر گز تمہارے لیے سیدھی نہیں ہوگی، اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو! تو اسی حالت میں فائدہ حاصل کرو، اگر سیدھا کرنے جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے، اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔(مشکاۃ،حدیث:3239)

اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا ہونا اس کی فطرت سے ہے، وہ مکمل سیدھی ہوجائے ، ایسا نہیں ہو سکتا، اس لیے مرد حضرات کو تحمل و بردباری کے ساتھ درگزر سے کام لیتے ہوئے عورت کی غلطیوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔

شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں :

(1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں ۔

سبحان اللہ! کتنی پیاری اور نفیس تعلیم ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کو بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے، اسے چاہیے کہ اس کی برائیاں نظر انداز کرے اور اچھائیوں پر نظر رکھے اور اپنی بیوی سے محبت کرے اسے دشمن ہر گز نا جانے۔

اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

شوہر کے بیوی پر بہت سے حقوق ہیں لیکن اسی طرح بیوی کے شوہر پر حقوق ہوتے ہیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔آیت کی مناسبت سے یہاں ہم بیوی کے چند حقوق بیان کرتے ہیں۔چنانچہ شوہر پر بیوی کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1)مہر:یہ خاص بیوی کا حق ہے اب یہ شوہر پر ہے کہ وہ جتنا آسانی سے ادا کرسکتا ہے اتنا مہر ادا کرے چنانچہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ سب سے بابرکت نکاح وہ ہوتا ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے زیادہ آسان ہو۔(2/268مشکاۃ، کتاب النکاح، ط: قدیمی)

(2)خرچہ دینا: اب اس میں کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنا وغیرہ اور کپڑے وغیرہ مہیا کرنا اور ان کی رہائش کا انتظام کرنا اور اگر کوئی بیماری لاحق ہو تو اس کی دوا وغیرہ کا انتظام کرنا ۔

(3)نیک باتوں،حیا اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا: یعنی ان کو باحیاء بنانا اور ان کو پردہ دار لباس پہننے کی تلقین کرنا نیز غیر محرم وغیرہ سے پردے کا سختی سے پابند بنانا۔اس کا بہترین طریقہ اور حل مدنی چینل ہے کہ یہ ایسی ہی پیاری اور اسلامی تعلیمات سکھاتا ہے۔

(4)جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا:یعنی کھانا اچھا بنا ہو یا مناسب ہو تو اس کی تعریف کرنا دلجوئی کے طور پر اور ویسے بھی دلجوئی کا حکم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے۔ اور دلجوئی سنت بھی ہے۔اور اسی طرح اگر اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ اس کا حق نہیں ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بے راہ روی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے نیز نسل انسانی کی بقاءبڑھوتری اور قلبی سکون کی فراہمی کے لیے ا نہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پر ویا ہے وہ رشتہ ازدواج کہلاتا ہے یہ رشتہ جتنا اہم ہے اُتنا ہی ناز ک بھی ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کی خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنے درگزر سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو انظر انداز کرکے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر کھول دیتی ہے جس کے نتیجے میں گھر جنگ کا میدان بن جاتا ہے اس وجہ سے شوہر کو چاہئے کہ وہ درگز اور برد باری، تحمل مزاجی اور وسیع ظرفی جیسی خوبیوں کا پیکر ہونا چاہیے ۔

اگر شوہر اپنی بیوی کی اچھائیوں اور اس کے احسانات ہی نظر رکھے اور معمولی غلطیوں میں اس سے درگزر کرے۔ گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیوی کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟ اللہ پاک نے بیویوں کے حقوق سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر بیویوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ امام ابو عبد الله بن محمد بن احمد بن ابو بکر قرطبی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہے۔ شوہر پر بیوی کے حقوق ملاحظہ فرمایئے:

1۔ حسن اخلاق سے پیش آئے: فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: خیر کم لاھلہ واناخیر کم لاھلی ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔

2۔ بیوی پر جتنا خرج اتنا ہی بڑا اجر:حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سےمروی ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو اس کا بھی اجر ملے گا۔

3۔ نیک کاموں کا حکم دینا: جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض گزار ہوئے۔ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کسی طرح بچا سکتے ہیں ؟ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، تم اپنے اہل و عیال کو ان کاموں کا حکم دو جو اللہ کو پسند ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کونا پسند ہے (در منثور پ 28 اتحریم، تحت الآیہ 225/86۔) ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

بادشاہ نگران ہے اس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

4۔ پردے کا حکم دینا۔

فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ہیں جن پر اللہ عزوجل نے جنت حرام فرمادی ہے ایک تو وہ شخص جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے اور تیسراوہ دیوث (یعنی بے حیاہو) کہ جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی کے کاموں کو برقرار رکھے۔(مسند امام احمد 35/1/2 حدیث 5372)

5۔ ایذا نہ دینا: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے آخر میں اس سے محبت کرے گا یا صحبت کرے گا۔

6۔ گھر میں بچے کی طرح اور قوم میں مرد بن کر رہو: خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ے سخت مزاج ہونے کے باوجود فرما یا: آدمی کو اپنے گھر میں بچےکی طرح رہنا چاہئے اور جب اس سے دینی امور میں سے کوئی چیز طلب کی جائے جو اس کے پاس ہو تو اسے مرد پایا جائے حضرت سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عقل مند کو چاہئے کہ گھر میں بچے کی طرح اور لوگوں میں مردوں کی طرح رہے۔

مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا۔ جاسکتا ہے کہ شریعت نے مرد کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سنگ دلی اور بے حسی والا رویہ اپنانے سے منع کیا ہے مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لیے ایسا درخت ثابت ہو جس کے سائے میں اسے ہر طرح کا سکون میسر آئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ بیوی کے شرعی حقوق احسن طریقے سے ادا کر ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

الحمدللہ ہم مسلمان ہیں اور ایک کامل مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ احکامات الٰہیہ کا پابند ہوتا ہے۔ وہ اپنی خواہشات کا نہیں بلکہ دین اسلام کے اصول و قوانین کا تابع ہوتا ہے۔تو اسلام نے جس طرح مردوں میں شوہر کو منفرد مقام عطا کیا اسی طرح عورتوں میں بیوی کو انفرادی شان وعظمت عطا کی۔اسلام نے جس طرح شوہر کے کچھ حقوق بیان کئے اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق بیان کئے۔جن کو ادا کرناشوہر پر لازم ہے۔بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ شوہر بیوی کیساتھ خوش اخلاقی،نرمی اور محبت و شفقت کیساتھ زندگی بسر کرے۔

چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 ) اور نبی مکرم نور مجسم شفیع معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی بیویوں کے حقوق بیان فرمائے۔چند احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں۔

1 کامل ترین مؤمن: وَعَنْ أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُكُمْ خِيَارُكُمْ لِنِسَائِهِمْ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہےفرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مؤمنوں میں سے کامل تر مؤمن اچھے اخلاق والا ہے۔ اور تم میں بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں سے بہترین ہو۔ (مرآۃ المناجیح: جلد،5:حدیث نمبر:3264)

2کامل مؤمن کون؟: حسن اخلاق کے پیکر محبوب رب اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: أَكْمَل الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا،أَحْسَنَهُمْ خُلُقًا، وَأَلْطَفَهُمْ بِأَهْلِهِ یعنی مؤمنین میں سے سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کے اخلاق زیادہ اچھے ہوں اور وہ اپنے گھر والوں (بیوی، پچوں) پر زیادہ مہربان ہو۔

ایک روایت میں ہے: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہے۔اور میں اپنی ازواج کیساتھ سب سے زیادہ بھلائی کرنے والا ہوں۔ (احیاء العلوم مترجم:جلد،2:ص،253: مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

3۔ بیوی کے حقوق: وَعَن حَكِيم بْنِ مُعَاوِيَةَ الْقُشَيْرِيِّ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہ! مَا حَقُّ زَوْجَةٍ أَحَدِنَا عَلَيْهِ؟ قَالَ: أَنْ تُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمْتَ، وَتَكْسُوَهَا إِذَا اكتَسَيْتَ، وَلَا تَضْرِبِ الْوَجْهَ، وَلَا تُقَبِّحْ، وَلَا تَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ ترجمہ: حضرت حکیم ابن معاویہ قشیری سے روایت ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسولﷲ ہم میں سے کسی کی بیوی کا حق اس پر کیا ہے فرمایا جب تم کھاؤ اسے کھلاؤ اورجب تم پہنو اسے پہناؤ۔اور اس کے منہ پر نہ مارو۔اور اسے برا نہ کہو۔اور اسے نہ چھوڑو مگر گھر میں۔ (مشکاۃ: جلد، 2: حدیث، 3258:ص:26 )

4۔ دشمن نہ جانو: وَعَنْ أَبِي هُرَيرَة قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَفْرَكْ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةً، إِنْ كَرِهَ مِنْهَا خُلُقًا رَضِيَ مِنْهَا آخَرَ ترجمہ: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں۔ رسولﷲ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔کوئی مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا۔

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: سبحان اﷲ! کیسی نفیس تعلیم،مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے،لہذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دنیا میں اکیلا ہی رہ جائے گا،ہم خود ہزار ہا برائیوں کا چشمہ ہیں،ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو،اچھائیوں پر نظر رکھو،ہاں اصلاح کی کوشش کرو،بے عیب تو رسولﷲ ہیں۔( مرآۃ المناجیح جلد،5: حدیث نمبر:3240 )

5۔بیوی کے شوہر پر حقوق صراط الجنان کی روشنی میں: 01۔ خرچہ دینا ۔ 02۔ رہائش مہیا کرنا ۔ 03۔ اچھے طریقے سے گزارہ کرنا ۔ 04۔ اسکی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں ۔ 05۔ جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اسکی دلجوئی کرنا۔ 06۔ نیک باتوں،حیا اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا ۔ 07۔ ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا۔(صراط الجنان: جلد،1:ص 348)

6۔بہترین شوہر: بہترین شوہر وہ ہے: 01۔جو اپنی بیوی کیساتھ نرمی اور حسن سلوک کیساتھ پیش آئے۔ 02۔جو اپنی بیوی کے حقوق ادا کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔ 03۔جو اپنی بیوی کا اس طرح ہو کر رہے کہ کسی اجنبی عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔ 04۔جو اپنی بیوی کو اپنے عیش وآرام میں برابر کا شریک سمجھے۔ 05۔جو اپنی بیوی کی خوبیوں پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں کو نظر انداز کرے۔ 06۔جو اپنی بیوی کو دینداری کی تاکید کرتا رہے اور شریعت پر چلائے۔ 07۔جو اپنی بیوی کو پردے میں رکھ کر اسکی عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ 08۔جو اپنی بیوی پر ظلم اور کسی قسم کی بے جا زیادتی نہ کرے۔ 09۔جو اپنی بیوی کی تند مزاجی اور بد اخلاقی پر صبر کرے۔ 10۔جو اپنی بیوی کو ہر طرح کی ذلت و رسوائی سے بچا کر رکھے۔ 11۔جو اپنی بیوی کے اخراجات میں بخل اور کنجوسی نہ کرے۔ 12۔جو اپنی بیوی کی مصیبتوں،بیماریوں اور رنج و غم میں دلجوئی اور وفا داری کا ثبوت دے۔ 13۔جو اپنی بیوی پر ایسا کنٹرول رکھے کہ وہ کسی برائی کی طرف رخ بھی نہ کرے ۔ (ماخوذ:جنتی زیور: ص،84/85: مکتبہ المدینہ)

اللہ پاک ہمیں شریعت کے احکام پڑھ کر سمجھ کر اور اس پر عمل پہرہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 ) رسول کریم حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے: میں تمہیں تمہاری عورتوں کے بارے میں تاکید کرتا ہوں۔ اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت میں ہر شخص کو اس بات پر متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے حقوق کے مطالبے پر زور نہیں دیا گیا ہے۔ آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے اور اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہے ہڑتال کر رہا ہے، تحریکیں چلا رہا ہے، مظاہرے کر رہا ہے گویا کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن آج ادائیگی فرض کے لیے کوئی انجمن موجود نہیں ہے کسی بھی شخص کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمہ عائد ہیں وہ ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔ لیکن اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو سب کے حقوق ادا ہو جائیں گے شوہر اگر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہوگئے بیوی اپنے فرائض ادا کرے تو شوہر کا حق ادا ہوگیا۔ شریعت کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ تم اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرو بہر حال اسلام نے ہر شخص کے حقوق کی مقدار رکھی ہے ۔

اسلام میں بیوی کے حقوق کے درمیان بخل، کینہ، غیر اخلاقی برتاؤ، تنازع زوجین، ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی عورت کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی کا حکم دیتا ہے۔

معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اور اسلام کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے عورت کی آزادی کیا ہے؟عورت کو اس حیثیت کے طور پر دیکھا جائے جو بلند اور کامیاب، ذی شعور انسانوں کی پرورش کر کے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں؟؟ اور اس کی آزادی کیسی ہونی چاہئے۔

عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ،خاندان مرد اور عورت سے تشکیل پاتا ہے اور دونو ں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں، لیکن گھر کی فضا کی تکمیل، اور طمانیت، اور آشیانے کا چین و سکون، عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ مذکورہ چیزوں کو مدنظر رکھ کہ عورت کو دیکھا جائے تو تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال، صبر، بہادری کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟

یوں تو اگر بیان کرنے لگ جائیں تو شاید کئی دن اور راتیں گزر جائیں جیسے :

بیوی کے حقوق:

اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے ۔

حق عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی جماعت کا واجب حصہ ہونااس کی جمع حقوق ہے۔ عورت چار بنیادی حیثیتوں میں ہماری سامنے آتی ہے،ماں،بہن،بیوی،اور بیٹی۔ اسلام نے عورت کو ہر روپ میں عزت و احترام کے قابل ٹھرایا۔

اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے جو حقوق متعین فرمائے ہیں ا نہیں چار قسموں میں بیان کیا جاسکتا ہے ذاتی، معاشرتی، معاشی،اور قلبی حقوق۔

شوہر پر بیوی کے لئے اسلام مندرجہ ذیل چیزیں لازم فرماتا ہے :

مالی حقوق:مہر۔رہائش۔نفقہ۔

مہر:ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے کہ ایسے مرد و عورت قیامت کے روز زانی و زانیہ اُٹھیں گے۔ یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔ اگر مہر کی مقدار کو نکاح کے عقد میں متعین نہیں کی گیا تو بھی مہر مثل یعنی عورت کی خاندانی مہر واجب ہوگی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا(4) ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا (خوش گوار اور مزےسے)۔ (پ4، النسآء:4)

نفقہ: یعنی بیوی کے اخراجات: جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(7)

ترجَمۂ کنزُالایمان:مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے قریب ہے کہ اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔(پ28، الطلاق:7)

علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے، حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں ا گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔

رہائش:یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6)

اسی سلسلے میں ارشاد نبوی ہے: انْ تُطْعِمَہَا اذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوَہَا اذَا اِکتَسَیْتَ، وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْہَ، وَلاَ تُقْبِّحَ، وَلَا تَہْجُرْ إلَّا فِي الْبَیْتِ ترجمہ: تم پر بیوی کا حق یہ ہے کہ جب کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے بد دعا نہ دو، ناراض ہوکر گھر سے باہر نہ نکالو۔

غیر مالی حقوق : عدل و انصاف۔ حسن سلوک۔ایذا رسانی سے بچنا۔

عدل و انصاف: جیسے اللہ تعالیٰ کا ہر چیز میں عدل و انصاف کا حکم ہے فرمان باری تعالیٰ ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤمیرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔(پ8، الاعراف:29)

شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔

حسن سلوک:بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا، شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نساء میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایت کا بیان ہے۔

اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ وہ تمھارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمھیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایذا رسانی سے بچنا:یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔ جیسے تفسیر صراط الجنان میں ہے:

شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں ۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


 اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہےاور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے، ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان،ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔

حق عربی زبان کا مفرد لفظ ہے، اس کے معنی فرد یا جماعت کا واجب حصہ ہوتا ہے، اس کی جمع حقوق آتی ہے۔

حقوق: ازدواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے، اس میں زوجین خاندان، گھر اور سماج کے تئیں بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، ان کی علیحدگی سے بے شمار مسائل میدا ہوتے ہیں، خصوصا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے۔ پیغمبر اسلام محمد حضرت محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔ شوہر کے بیوی پرحقوق درج ذیل ہیں:

مالی حقوق: مہر۔ نفقہ۔ رہائش۔

مہر:ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے ۔یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔

نفقہ: بیوی، نکاح یعنی بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کے عقد کے ذریعے شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے حتی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔

بیوی اگر شوہر کی اجازت سے کچھ کماتی ہے تو بیوی پر لازم نہیں ہوگا کہ وہ گھر کے اخراجات میں خرچ کرے، البتہ وہ اپنی جانب سے تبرعاً کر سکتی ہے۔

رہائش:یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے۔

غیر مالی حقوق:

عدل وانصاف۔ حسن سلوک۔ ایذا رسانی سے بچنا۔

عدل وانصاف:شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔

حسن سلوک:بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نسا میں تفصیل سے حسن اور رعایات کا بیان ہے۔

اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا: اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو کیونکہ وہ تمہارے مقابلہ میں کمزور ہیں تمھیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایذا رسانی سے بچنا:یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ بن فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے اسلام فطرت پسند دین ہے اور فطرت کو پسند کرتا ہے ازدواجی تعلق بھی ایک فطری عمل ہے ازدواجی تعلق میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیات کا باعث بنتی ہے ازواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے اس میں زوجین پر بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتیں ہیں ۔ اسلام میں بیوی کے کیا حقوق ہے ان میں کچھ پیش خدمت ہے :

1:مہر : اللہ پاک نے قرآن مجید برھان رشید میں فرمایا : وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کے مہر خوشی سے ادا کریں پھر اگر ان کی بیویاں خوش دلی سے اپنے مہر سے انہیں کچھ تحفے کے طور پر دے تو وہ اسے پاکیزہ اور خوشگوار سمجھ کر کھائیں اس میں ان کا کوئی دنیوی یا اخروی نقصان نہیں ہے ۔(پارہ ٤ سورت، النسا6 ،آیت ٤، صراط الجنان، جلد ٢/١٦٤)

2: نفقہ: یعنی بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر لازم ہیں جب تک وہ ان کے پاس ہیں نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی نکاح کے عقد کے ذریعے شوہر کی ملکیت و اختیار میں آجاتی ہے حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا درست نہیں ہے کیونکہ نفقہ شوہر پر لازم ہے اگرچہ بیوی مالدار ہو ، حتی کہ نفقہ ایام عدت میں بھی شوہر پر لازم ہے ۔ اللہ پاک نے قران مجید میں ارشاد فرمایا:وَ لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِؕ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ(241) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور طلاق والیوں کے لیے بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے یہ واجب ہے پرہیزگاروں۔(پ2، البقرۃ:241)

3: سکنٰی یعنی رہائش: یہ بھی ایک اہم حق ہے مرد پر اپنی استطاعت کے مطابق واجب ہے حتی کہ اگر بالفرض طلاق واقع ہو جاتی ہے عدت میں بھی رہائش کا انتظام مرد پر لازم ہے ۔ قرآن مجید اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6)

4:عدل و انصاف : شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ رہائش اور لباس میں انصاف کرنا لازم ہے ایک سے زائد نکاح کی اجازت بھی اسی صورت ہے جب وہ عدل کر سکے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی (نکاح)کرو۔(پ4، النسآء: 3)

5: حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس کے حقوق ادا کرنا اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر پر ضروری ہے ۔ حضرت عمرو بن احوص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا میں تمہیں عورتوں کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں وہ تمہارے پاس مقید ہے تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں تو ا نہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑو (اگر نہ مانیں) تو ہلکی مار مارو پس اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو تمہارے ناپسندہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں نہ آنے دیں جنہيں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی کرو عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، کتاب الرضاع، ٣٨٧/٢ الحدیث ١١٦٦)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سرکار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں عورتوں کے بارے بھلائی کی وصیت کرتا ہوں تم میری وصیت کو قبول کروں وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے اگر تو ایسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔( بخاری، کتاب النکاح، ٣٨٧/٢ الحدیث ١١٦٤)

محترم قارئين اسلام نے ہی عورت کو عزت دی ہے اور اسلام نے ہی عورت کو حقوق دیئے ہیں اللہ کریم مرد و عورت دونوں کو اپنے اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

پیارے اور محترم اسلامی بھائیو! بیوی اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔دینِ اسلام میں بیوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور بیوی کے حقوق کا بہت خاص خیال رکھا گیا ہے۔بہر حال شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور شوہر کو ان کا خیال رکھنا چاہیئے علاوہ ازیں بیوی کے جائز مطالبات کو پورا کرنے اور جائز خواہشات پر پورا اترنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیئے۔جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اسکی بیوی اس کیلئے بن سنور کر رہے اسی طرح شوہر کو بھی بیوی کی فطری چاہت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسکی دلجوئی کیلئے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیئے خواہ بیوی زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کرے۔

فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ تم اپنے کپڑوں کو دھوؤ اور اپنے بالوں کی اصلاح کرو اور مسواک کر کے زینت اور پاکی حاصل کرو کیونکہ بنی اسرائیل ان چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے تھے اسی لئے ان کی عورتوں نے بدکاری کی۔

معلوم ہوا کہ شوہر کو صفائی ستھرائی اور طہارت کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیئے اور حتی الامکان اپنی بیوی کی توقعات پر پورا اترنے اور اس سے حُسنِ سلوک روا رکھنے کی کوشش کرنی چاہیئے تاکہ زندگی کی گاڑی شاہراہِ حیات پر کامیابی سے گامزن رہے۔ آئیے بیویوں کے حق میں شوہروں کو نصیحت کے مدنی پھولوں پر مشتمل 5 فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے :

(1) تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سے بہتر ہوں (ابنِ ماجہ،ابواب النکاح، باب حسن معاشرت النساء 478/2 حدیث 1977)

(2) کوئی مسلمان مرد (شوہر) کسی مسلمان عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے اگر اسکی ایک عادت ناپسند ہے تو دوسری پسند ہوگی۔(مسلم، کتاب الرضاع،باب الوصیت بالنساء،صفحہ 775،حدیث 1469)

(3) تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے،پھر دن کے آخر میں اس سے صحبت کرے گا۔ (بخاری،کتاب النکاح،حدیث 5204)

(4) عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی پسلی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔(بخاری،کتاب النکاح،باب الوصاۃ بالنساء،457/3،حدیث5186)

(5) عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ تمہارے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اس کے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا لو اور اگر اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔ (مسلم،کتاب الرضاع،باب الوصیۃ بالنساء،صفحہ775،حدیث 1468)

دعا ہے اللہ پاک ہمیں بیویوں کے حقوق ادا کرنے اور ان سے حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

نکاح کا ایک مقصد اچھے خاندان کی بنیاد رکھنا بھی ہوتا ہے، جس کے لیے شوہر کا کردار بڑا اہم ہے ۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی کی ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے کہ یہ اللہ کی بندی اپنے ماں باپ، بھائی، بہن اور تمام عزیز و اقارب سے جدا ہو کر صرف میری ہو کر رہ گئی ہے۔ اور میری زندگی کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک بن گئی ہے اس لیے اس کی زندگی کی تمام ضروریات کا انتظام کرنا میرا فرض ہے۔

جو مرد اپنی بے پرواہی سے اپنی بیویوں کے نان و نفقہ اور اخراجات زندگی کا انتظام نہیں کرتے وہ بہت بڑے گنہگار، حقوق العباد میں گرفتار اور قہر و عذاب نار کے سزا وار ہیں۔ بیوی کے حقوق کے متعلق قرآن پاک کا ارشاد: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے، اس طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔

بیوی کی خدمت: شوہر کو چاہئے کہ بیوی کو فقط اپنی خدمت کے فضائل ہی نہ سناتا رہے بلکہ جہاں تک ممکن ہو خود بھی بیوی کی خدمت کرے کہ اس میں شوہر کے لیے اجر و ثواب ہےچنانچہ حضرت سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہوئے سنا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اس کا اجر دیا جاتا ہے۔ (تجمع کتاب الزکاۃ، 250/30، حدیث: 40559)

بیوی کو نہ مارے: عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ عورت کو بلا کسی قصور کے بھی ہر گز ہر گز نہ مارے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص عورت کو اس طرح نہ مارے جس طرح اپنے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے صحبت بھی کرے ۔(مشکوۃ، جلد 2، ص 280)

بیوی کا نان و نفقہ: شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے کھانے، پینے، رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے۔ شوہر کو چاہئے کہ اہل خانہ پر تنگی کرنے کے بجائے رضائے الہی کے دل کھول کر خرچ کرے ۔(بہار شریعت جلد ہفتم ،5/2)

نیکی کا حکم دینا : شوہر کو چاہئے کہ اپنے منصب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے دور رکھے۔ فرائض منصبی کو بخوبی انجام دے، خود بھی برائیوں سے بچے اور حتی المقدور اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے بچائے۔(مسند امام احمد،351/2، حدیث 5372)

بیوی کے ساتھ حسن سلوک: شوہر کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے ساتھ محبت پیار والا برتاؤ کرے، اس کی غلطیوں کو معاف کرے یہ جان لو کہ تم عورتوں کے حاکم ہو تو اللہ تعالیٰ تمہارا حاکم، تم پر قابو رکھنے والا ہے۔ جب وہ تمہاری خطائیں بخشتا ہے تو تم بھی اپنی ماتحت (بیوی) کی خطاؤں کو معاف کرو۔(تفسیر نعیمی، 59/1،ملتقطا)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے بیوی کا تعلق ہے حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدن کی بنیاد ہے اس رشتہ کی اہمیت کے پیش نظر قرآن وحدیث میں شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کئی حقوق بیان فرمائے گئے ہیں جن کو پورا کرنا میاں بیوی میں سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری ہے ۔ بیوی کے شوہر پر احادیث کے روشنی درج ذیل چند حقوق ہیں۔

(1) حق مہر: نکاح کے فوراً بعد شوہر پر بیوی کا پہلا حق مہر ادا کرنا ہے۔

حق مہر کی تعریف : نکاح کی وجہ سے جو مال یا منفعت عورت کو دیا جاتا ہے۔ ا سے مہر کہتے ہیں ۔ اسلام نے مرد کے اوپر مہر کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے۔ جو لوگ حق مہر کھا جاتے ہیں ان کے لیے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخت وعید ہے آپ صلی اللہ نے فرمایا۔ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی عورت سے شادی کرے اور اپنی ضرورت پوری کر لینے کے بعد اسے طلاق دیدے اور اس کا مہر کھا جائے۔(مستدرک حاکم، ج 2، ص (182)

(2) نان و نفقہ : نان ونفقہ کا اطلاق 3 چیزوں پر ہوتا ہے۔ بیوی کا کھانا اور بیوی کا لباس اور بیوی کی رہائش یہ تینوں چیزیں شوہر پر پوری کرنا واجب ہے معاویہ بن حیدہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پو جھا ہمارے اوپر بیوی کا کیا حق ہے ؟ تو آپ نے نے فرمایا جب تو کھانا کھائے تو اسے کھلا جب تو کپڑا پہنے تو اسکو بھی پہنا اسکے چہرے پر مت مار اور برا مت کہہ سوا ئے گھر کے اسکو الگ مت کر یعنی اگر تنبیہ کیلئے بستر الگ کرنا ہو تو ایسا صرف گھر میں ہی کرنا۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر:2142)

(3)عزت و ناموس کی حفاظت: بیوی مرد کا قیمتی خزانہ ہے اسکی عزت و ناموس کی حفاظت اسکا اہم فریضہ ہے مرد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے نہایت غیرت مند ہو اسے لوگوں کی نگاہوں اور زبانوں سے محفوظ رکھے۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کچھ غیرت ایسی ہوتی ہے جسے اللہ عزوجل نا پسند فرماتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آدمی کسی شک و شبہ کی بات کے بغیر اپنی بیوی پر غیرت کرے۔(مسند احمد،5/445)

(4) حسن معاشرت:اس کو آسان لفظوں میں بھلے انداز میں زندگی بسر کرنے سے تعبیر کیا جا سکتا ہے مثلاً شوہر اپنی بیوی کا مہر اور نان و نفقہ پوری طرح ادا کرے اسکے لیے پر سکون رہائش مہیا کرے بلا سبب اسکے سامنے منہ نہ بگاڑے ترش رویہ نہ اختیار کرے کسی دوسری عورت کی طرف اپنا میلان و چاہت ظاہر نہ کرے میٹھی باتیں کرے چاہت نہ بھی ہو تب بھی چاہت محبت اور پیار کا اظہار کرے ۔

ام کلثوم فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بات چیت میں جھوٹ کی اجازت نہیں سنی مگر تین موقعوں پر: 1۔جنگ کے وقت 2۔لوگوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے، 3۔اور میاں بیوی کے آپس میں بات چیت کرنے کے وقت۔ (مسلم)

(5)تعلیم و تربیت:یہ بات کسی صاحب عقل سے مخفی نہیں ہے کہ جہنم کی آگ سے بچنے کے لیے اصول دین کی تعلیم ضروری ہے۔ اللہ کی توحید، ارکان اسلام ایمان، حلال و حرام عبادات و معاملات اور مکارم اخلاق سکھا کر اہل و عیال کی تربیت کریں۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب رات کو وتر پڑھتے تو کہتے کہ عائشہ اٹھو اور وتر پڑھو لو۔( صحیح مسلم/744)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام ایسا پیارا دین ہے جس نے زمانہ جاہلیت میں ذلت و رسوائی کی چکی میں پسی ہوئی عورتوں کو عزت اور حیا کی چادر عطا فرمائی اور ان کے حقوق کو تفصیلی طور پر بیان فرمایا شوہر کو چاہیے کہ اپنے زوجہ کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگزر کرے۔ اس کی برائیوں کو چھوڑ کر اس کی اچھائیوں پر نظر کرے اور اس کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے اور اس بات کا خیال کرے کہ یہ میری عزت کی محافظ ہے، میرے گھر کو سنبھالتی ہے، اس کے سبب میں حرام اور غیر عورتوں سے بچتا ہوں، میرے بچوں کی پرورش کرتی ہے، میرے مال و دولت کی حفاظت کرتی ہے۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی ازواج کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آئیے ہم بھی بیوی کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں۔

1۔ بیوی پر خرچ کرنے کی فضیلت: حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین رَحْمَۃ لِلْعَلَمِين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال (بیوی بچو)پر خرچ کرتے ہو۔( مسلم، كتاب الزكاة، باب فضل النفقۃ على العيال الخ، ص 494، حدیث: 995)

2۔بیوی کی عزت کرنا: خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِاهلي تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں ۔)ابن ماجہ،ابواب النکاح،باب حسن معاشرۃالنساء، 2/478،الحدیث 1977(

3۔بیوی کو نیکی کا حکم دینا: شوہر کو چاہیے کہ وہ خودبھی نماز روزے کی پابندی کرے اور دیگر نیک کام کرے۔ اور اپنی بیوی کو بھی نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے سنتوں پر عمل کرنے کی اور دیگر عبادات کی ترغیب دیتا رہے اور مسائل سیکھانے میں اس کی مدد کرے۔ (اسلامی شادی، صفحہ نمبر115)

4۔بیوی کو اچھا کھلانا پہنانا: حضرت حکیم بن معاویہ قشیری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یعنی ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جیسا تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ اور جیسا تم پہنو اسے بھی پہناؤ۔(مراۃ المناجیح جلد نمبر،5 باب عشرۃ النساء۔ و مالکل واحد من الحقوق۔الحدیث 3119)

5۔نظافت کا اہتمام کرنا: جس طرح شوہر یہ چاہتا ہےکہ اس کی بیوی اس کیلئے بن سنور کر رہے اسی طرح اسے بھی بیوی کی چاہت اور فطرت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی کیلئے لباس وغیرہ کی صفائی اور ستھرائی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔خواہ وہ زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کرے۔( شوہر کو کیسا ہونا چاہئے صفحہ نمبر 5)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بیویوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضور کی سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔