پیارے اسلامی بھائیو! اللہ پاک نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بے راہ روی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے نیز نسل انسانی کی بقاءبڑھوتری اور قلبی سکون کی فراہمی کے لیے ا نہیں جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پر ویا ہے وہ رشتہ ازدواج کہلاتا ہے یہ رشتہ جتنا اہم ہے اُتنا ہی ناز ک بھی ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے کی خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنے درگزر سے کام نہ لینے اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو انظر انداز کرکے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر کھول دیتی ہے جس کے نتیجے میں گھر جنگ کا میدان بن جاتا ہے اس وجہ سے شوہر کو چاہئے کہ وہ درگز اور برد باری، تحمل مزاجی اور وسیع ظرفی جیسی خوبیوں کا پیکر ہونا چاہیے ۔

اگر شوہر اپنی بیوی کی اچھائیوں اور اس کے احسانات ہی نظر رکھے اور معمولی غلطیوں میں اس سے درگزر کرے۔ گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیوی کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟ اللہ پاک نے بیویوں کے حقوق سے متعلق قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر بیویوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ امام ابو عبد الله بن محمد بن احمد بن ابو بکر قرطبی علیہ رحمۃ اللہ القوی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہے۔ شوہر پر بیوی کے حقوق ملاحظہ فرمایئے:

1۔ حسن اخلاق سے پیش آئے: فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: خیر کم لاھلہ واناخیر کم لاھلی ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔

2۔ بیوی پر جتنا خرج اتنا ہی بڑا اجر:حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سےمروی ہے کہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو اس کا بھی اجر ملے گا۔

3۔ نیک کاموں کا حکم دینا: جب نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان عرض گزار ہوئے۔ یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے کسی طرح بچا سکتے ہیں ؟ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا، تم اپنے اہل و عیال کو ان کاموں کا حکم دو جو اللہ کو پسند ہیں اور ان کاموں سے روکو جو رب تعالیٰ کونا پسند ہے (در منثور پ 28 اتحریم، تحت الآیہ 225/86۔) ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔

بادشاہ نگران ہے اس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے اس سے اس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے اس سے ان کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

4۔ پردے کا حکم دینا۔

فرمان مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ہیں جن پر اللہ عزوجل نے جنت حرام فرمادی ہے ایک تو وہ شخص جو شراب کا عادی ہو، دوسرا وہ شخص جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے اور تیسراوہ دیوث (یعنی بے حیاہو) کہ جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی کے کاموں کو برقرار رکھے۔(مسند امام احمد 35/1/2 حدیث 5372)

5۔ ایذا نہ دینا: رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے آخر میں اس سے محبت کرے گا یا صحبت کرے گا۔

6۔ گھر میں بچے کی طرح اور قوم میں مرد بن کر رہو: خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت سیدنا عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ے سخت مزاج ہونے کے باوجود فرما یا: آدمی کو اپنے گھر میں بچےکی طرح رہنا چاہئے اور جب اس سے دینی امور میں سے کوئی چیز طلب کی جائے جو اس کے پاس ہو تو اسے مرد پایا جائے حضرت سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عقل مند کو چاہئے کہ گھر میں بچے کی طرح اور لوگوں میں مردوں کی طرح رہے۔

مذکورہ بالا روایات کی روشنی میں اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا۔ جاسکتا ہے کہ شریعت نے مرد کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سنگ دلی اور بے حسی والا رویہ اپنانے سے منع کیا ہے مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لیے ایسا درخت ثابت ہو جس کے سائے میں اسے ہر طرح کا سکون میسر آئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ بیوی کے شرعی حقوق احسن طریقے سے ادا کر ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔