قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 ) رسول کریم حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان مبارک ہے: میں تمہیں تمہاری عورتوں کے بارے میں تاکید کرتا ہوں۔ اپنی عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو ۔

یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ شریعت میں ہر شخص کو اس بات پر متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرے حقوق کے مطالبے پر زور نہیں دیا گیا ہے۔ آج کی دنیا حقوق کے مطالبے کی دنیا ہے ہر شخص اپنا حق مانگ رہا ہے اور اپنے حق کا مطالبہ کر رہا ہے ہڑتال کر رہا ہے، تحریکیں چلا رہا ہے، مظاہرے کر رہا ہے گویا کہ اپنا حق مانگنے اور اپنے حق کا مطالبہ کرنے کے لیے دنیا بھر کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن آج ادائیگی فرض کے لیے کوئی انجمن موجود نہیں ہے کسی بھی شخص کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ جو فرائض میرے ذمہ عائد ہیں وہ ادا کر رہا ہوں یا نہیں ۔ لیکن اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ کرے اگر ہر شخص اپنے فرائض ادا کرنے لگے تو سب کے حقوق ادا ہو جائیں گے شوہر اگر اپنے فرائض ادا کرے تو بیوی کے حقوق ادا ہوگئے بیوی اپنے فرائض ادا کرے تو شوہر کا حق ادا ہوگیا۔ شریعت کا اصل مطالبہ یہی ہے کہ تم اپنے فرائض ادا کرنے کی فکر کرو بہر حال اسلام نے ہر شخص کے حقوق کی مقدار رکھی ہے ۔

اسلام میں بیوی کے حقوق کے درمیان بخل، کینہ، غیر اخلاقی برتاؤ، تنازع زوجین، ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ اگر اسلام عورت کے ساتھ شادی کرنے کا حکم دیتا ہے تو ساتھ ہی عورت کے حقوق کو مد نظر رکھتے ہوئے شادی کا حکم دیتا ہے۔

معاشرے میں عورت کا کردار اور حقوق عورت کو ایک بلند مرتبہ انسان کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ اس کے حقوق کیا ہیں؟ اور اسلام کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے عورت کی آزادی کیا ہے؟عورت کو اس حیثیت کے طور پر دیکھا جائے جو بلند اور کامیاب، ذی شعور انسانوں کی پرورش کر کے معاشرے کی فلاح و بہبود اور سعادت و کامرانی کی راہ ہموار کر سکتی ہے، تب اندازہ ہوگا کہ عورت کے حقوق کیا ہیں؟؟ اور اس کی آزادی کیسی ہونی چاہئے۔

عورت کو خاندان اور کنبے کے بنیادی عنصر وجودی کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہئے، ویسے کنبہ،خاندان مرد اور عورت سے تشکیل پاتا ہے اور دونو ں ہی اس کے معرض وجود میں آنے اور بقاء میں بنیادی کردار کے حامل ہیں، لیکن گھر کی فضا کی تکمیل، اور طمانیت، اور آشیانے کا چین و سکون، عورت اور اس کے زنانہ مزاج پر موقوف ہے۔ مذکورہ چیزوں کو مدنظر رکھ کہ عورت کو دیکھا جائے تو تب معلوم ہوگا کہ وہ کس طرح کمال، صبر، بہادری کی منزلیں طے کرتی ہے اور اس کے حقوق کیا ہیں؟

یوں تو اگر بیان کرنے لگ جائیں تو شاید کئی دن اور راتیں گزر جائیں جیسے :

بیوی کے حقوق:

اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے ۔

حق عربی زبان کا لفظ ہے اس کا معنی جماعت کا واجب حصہ ہونااس کی جمع حقوق ہے۔ عورت چار بنیادی حیثیتوں میں ہماری سامنے آتی ہے،ماں،بہن،بیوی،اور بیٹی۔ اسلام نے عورت کو ہر روپ میں عزت و احترام کے قابل ٹھرایا۔

اسلام نے ہر انسان پر دوسرے انسان کے جو حقوق متعین فرمائے ہیں ا نہیں چار قسموں میں بیان کیا جاسکتا ہے ذاتی، معاشرتی، معاشی،اور قلبی حقوق۔

شوہر پر بیوی کے لئے اسلام مندرجہ ذیل چیزیں لازم فرماتا ہے :

مالی حقوق:مہر۔رہائش۔نفقہ۔

مہر:ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے کہ ایسے مرد و عورت قیامت کے روز زانی و زانیہ اُٹھیں گے۔ یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔ اگر مہر کی مقدار کو نکاح کے عقد میں متعین نہیں کی گیا تو بھی مہر مثل یعنی عورت کی خاندانی مہر واجب ہوگی۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا(4) ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا (خوش گوار اور مزےسے)۔ (پ4، النسآء:4)

نفقہ: یعنی بیوی کے اخراجات: جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(7)

ترجَمۂ کنزُالایمان:مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے قریب ہے کہ اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔(پ28، الطلاق:7)

علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے، حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں ا گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔

رہائش:یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6)

اسی سلسلے میں ارشاد نبوی ہے: انْ تُطْعِمَہَا اذَا طَعِمْتَ، وَتَکْسُوَہَا اذَا اِکتَسَیْتَ، وَلاَ تَضْرِبِ الْوَجْہَ، وَلاَ تُقْبِّحَ، وَلَا تَہْجُرْ إلَّا فِي الْبَیْتِ ترجمہ: تم پر بیوی کا حق یہ ہے کہ جب کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ، جب پہنو تو اسے بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے بد دعا نہ دو، ناراض ہوکر گھر سے باہر نہ نکالو۔

غیر مالی حقوق : عدل و انصاف۔ حسن سلوک۔ایذا رسانی سے بچنا۔

عدل و انصاف: جیسے اللہ تعالیٰ کا ہر چیز میں عدل و انصاف کا حکم ہے فرمان باری تعالیٰ ہے: قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ ترجمہ کنزالایمان:تم فرماؤمیرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔(پ8، الاعراف:29)

شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔

حسن سلوک:بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا، شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نساء میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایت کا بیان ہے۔

اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ وہ تمھارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمھیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایذا رسانی سے بچنا:یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔ جیسے تفسیر صراط الجنان میں ہے:

شوہر پر بیوی کے چند حقوق یہ ہیں: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں، حیاء اور پردے کی تعلیم دیتے رہنا، (5) ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ عورت کا حق نہیں ۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔