میاں بیوی کا باہمی تعلق دنیا میں ایک لائق مثال تعلق ہے۔کیونکہ نکاح ہوتے ہی نام و جان سے ناآشنا دو انسانوں کے درمیان انسیت و محبت کے ساتھ ساتھ ایک گہرا تعلق بھی قائم ہوجاتا ہے۔

تو اس صورتحال میں زوجین کے درمیان اس تعلق کا برقرار رہنا اللہ پاک کی ایک بہت بڑی نعمت ہے چنانچہ اس تعلق کے قیام اور اپنے گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے۔ کہ اپنے گھر بار بہن بھائیوں، اور ماں باپ کو خیر آباد کہہ کر آنے والی اس خدا کی بندی کا اگر وہ خیال نہیں رکھے گا اور اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور اس کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے حقوق کے متعلق اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )

اسی طرح ایک اور مقام میں فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کو ادا کرنا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔(خزائن العرفان، پ2، البقرہ، تحت الآیۃ: 228)

امام ابو عبد الله محمد من احمد بن ابو بکر قرطبی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہیں اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بلاشبہ میں اپنی بیوی کے لئے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں وہ تمام حقوق اچھی طرح حاصل کروں جو میرے اُس پر ہیں اور وہ بھی اپنے حقوق حاصل کرے جو اس کے مجھ پر ہیں۔ کیونکہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ علیہنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ (اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق)

اور آپ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی کہ بیویوں کے ساتھ اچھی صحبت اور بہترین سلوک خاوندوں پر اسی طرح لازم ہے جس طرح ہے بیویوں پر ہر اُس (جائز) کام میں خاوندوں کی اطاعت واجب ہے جس کا وہ ا نہیں حکم دیں۔(تفسیر قرطبی، پ2، البقرہ، تحت الآیۃ:228)

احادیث میں بھی بیویوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں جن میں سے چند احادیث ملاحظہ ہوں:۔

یاد مدینہ کے آٹھ حروف کی نسبت سے بیوی کے حقوق کے متعلق آٹھ فرامین مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1) لا يفرك مؤمنٌ مؤينةً ان کرہ منها خِلُقا رضی منها آخر یعنی کوئی مسلمان مرد (شوہر) کسی مسلمان عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے اگر اس کی ایک عادت نا پسند ہے تو دوسری پسند ہو گی۔(مسلم، کتاب الرضاع، باب الوصیة بالنساء،ص،775، حدیث: 1469)

(2) خَيْرُ كُمْ خيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُ کم لاھلی ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔(ابن ماجہ ابواب النکاح، باب حسن معاشرة النساء، الحديث478/2 حدیث:1977)

(3)سب سے بدترین انسان وہ ہے جو اپنے گھر والوں پر تنگی کرے۔عرض کی گئی: وہ کیسے تنگی کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا: جب وہ گھر میں داخل ہوتا ہے تو بیوی ڈر جاتی ہے، بچے بھاگ جاتے اور غلام سہم جاتے ہیں اور جب وہ گھر سے نکل جائے تو بیوی ہنسنے لگے اوردیگر گھر والے سُکھ کا سانس لیں۔(معجم اوسط،ج6،ص287،حدیث:7898)

(4)عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیرھی اوپر والی پسلی ہے اگر تم اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دو گے اور اگر اسے چھوڑ دو تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ (بخاری،کتاب النکاح، باب الوصاة النساء، 457/3،حدیث 5186)

(5)جس نے اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کیا تو اللہ پاک اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے مصیبت پر صبر کرنے کی مثل اجر عطا فرمائے گا اور اگر عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرے تو اللہ پاک اسے فرعون کی بیوی آسیہ کے ثواب کی مثل اجر عطا فرمائے گا۔ (کتاب الکبائر، الکبیرة السابعہ والاربعون، ص:602)

(6)ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہو ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار دو ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔ ان میں سب سے زیاد اجرہ اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔(مسلم، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة علی العیال ۔۔ ۔۔ الخ، ص،499 حدیث: 995)

(7)حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے جو چیز انسان کے ترازوئے اعمال میں رکھی جائے گی وہ انسان کا وہ خرچ ہو گا جو اس نے اپنے گھر والوں پر کیا ہو گا۔(معجم الاوسط، 328/4،حدیث: 6135)

(8)جب تم خود کھاؤ تو بیوی کو بھی کھلاؤ اورجب خود پہنو تو اسے بھی پہنا ؤ اور چہرے پر مت مارو اور اسے بُرے الفاظ نہ کہو اور اس سے (وقتی)قطع تعلق کرنا ہو تو گھر میں کرو۔(ابو داؤد،ج2،ص356، حدیث:2142)

اللہ عَزَّ وَجَلَّ مسلمانوں کے تمام گھروں کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے اور ہمیں باکردار مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔