اسلام سے پہلے بیوی کی عزت و ناموس کی ایسی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں گویا اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے بیوی کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا، اس کی ناموس کی حفاظت فرمائی، اسلام نے بیویوں کے ایسے احکام بیان فرمائے ہیں کہ جس سے ایک بیوی بھی معاشرے میں باوقار و باعزت زندگی گزار سکتی ہے۔ نیز قرآن و حدیث میں شوہروں کو سختی کے ساتھ اس بات کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اُس کے ساتھ نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

(1) عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو:الله عز و جل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )علامہ علاء الدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اچھا برتاؤ یہ ہے کہ کھلانے پہنانے، حق زوجیت ادا کرنے اور بات چیت کرنے میں ان سے خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اچھا برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے جو اپنے لئے پسند کرو ان کے لئے بھی وہی پسند کرو۔(تفسیر خازن، پ4، النسآء، تحت الآیۃ:19)

(2)زوجین کے حقوق:

حضرت سید نا عمرو بن احوص جُشمِی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے حجۃ الوداع کے موقع پر سنا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ عزوجل کی حمد وثناء کے بعد وعظ و نصیحت کی پھر ارشاد فرمایا: سنو! عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، بیشک وہ تمہارے پاس قیدی ہیں، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں سوائے جماع کے مگر یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کریں، اگر وہ ایسا کریں تو اُن کے بستر الگ کر دو اور ہلکی مار مارو، اگر تمہاری بات مان جائیں تو اُن کے خلاف راستہ تلاش نہ کرو۔ سنو! بیشک تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں، اور ان کے تم پر کچھ حقوق ہیں، اُن پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے ناپسندیدہ لوگوں کے لیے تمہارے بستر نہ بچھائیں اور انہیں تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں۔ اور سنو! تمہارے ذمہ ان کا حق یہ ہے کہ تم اُن کے لئے اچھا لباس اور اچھا کھانا مہیا کرو۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی الحق المرءۃ علی زوجھا، 2/387، حدیث:1166)

(3)عورتوں کو نہ مارو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورتوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی زوجہ کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو مارا جاتا ہے، شاید پھر اُس دن اُس سے جماع بھی کرتا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب سورۃالشمس وضحاھا)

بیوی کو مارنے کا حکم:شوہر اس بات کو مد نظر رکھے کہ اگر بیوی نافرمانی کرتی ہے تو فوراً اُسے مارنے یا طلاق کا پروانہ دے کر رخصت کرنے کے بجائے وہ اس معاملے کو اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق حل کرے۔ سب سے پہلے اُسے اچھے طریقے سے سمجھائے، اگر نہ سمجھے تو بستر الگ کر کے ناراضی کا اظہار کرے۔

(4) بیوی سے بغض نہ رکھے:حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی ایک بات ناپسند ہو تو دوسری پسند ہو گی۔ یا یہ فرمایا: کوئی بات نا پسند ہو تو اس کے علاوہ کوئی بات پسند بھی ہو گی۔ (مسلم، کتاب الرضا، باب الوصیۃ بالنساء، ص 775،حدیث: 1469)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: سُبْحَانَ اللہ کیسی نفیس تعلیم ہے، مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا نا ممکن ہے، لہٰذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دنیامیں اکیلا ہی رہ جائے گا، ہم خود ہزارہا برائیوں کا سرچشمہ ہیں، ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو، اچھائیوں پر نظر رکھو، ہاں اصلاح کی کوشش کرو، بے عیب تو رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔(مراۃالمناجیح، 5/87)

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام نے عورت کو چادر اور چار دیواری کے اندر ایک خاص مقام عطا کیا ہے اور ہر لحاظ سے اس کے حقوق مقرر کیے ہیں تا کہ اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہ ہو۔ عورت چونکہ پیدائشی لحاظ سے صنف نازک ہے اس لئے اس کی دلجوئی، حقوق کی ادائیگی اور عمدہ اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )

اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے کیونکہ میاں بیوی کی خانگی زندگی میں جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہیں گے تو دونوں کو راحت مسرت اور سکون حاصل ہو گا۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: (انہیں) بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی (اچھے سلوک)کے ساتھ چھوڑ دو اور انہیں ضرر دینے کے لیے روکنا نہ ہو کہ حد سے بڑھو اور جو ایسا کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔(پ2، البقرۃ:231)

مردوں کو چاہیے کہ اپنی عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ عمدہ سلوک کیا بلکہ آپ کا حسن خلق تو بے مثل ہے اور امت کے لیے مشعل راہ ہے۔ عموماً بیوی کی صلاحیت کسی نہ کسی لحاظ سے مرد سے کمزور ہوتی ہے اس کے باعث بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کا بھی خیال کیا جائے اور ان کی جائز باتوں کو حسب معمول پورا کیا جائے ان کے ساتھ پیار محبت سےرہیں۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، اگر ہم صبح سے شام تک اللہ پاک کی نعمتوں کو شمار کریں تو نہیں کر سکیں گے۔ ماں باپ، بہن بھائی، نیک دوست اور نیک بیوی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے اور رب العزت نے ہم پر ان کے حقوق مقرر فرمائے۔ جس طرح ماں باپ کے حقوق، بہن بھائیوں کے حقوق، پڑوسیوں اور دوستوں کے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی حقوق ہیں جو شوہر پر لازم ہیں۔ ان میں سے بیوی کے چند حقوق درج ذیل ہیں:

(1)حق مہر:یہ خاص بیوی کا حق ہوتا ہے جو اللہ پاک نے شوہر پر مقرر کیا ہے جو کم از کم دس درھم ہے اور اس کی زیادتی کی کوئی حد نہیں ہے لیکن مہر میں مبالغہ کرنا ناپسند فعل ہے۔ ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بابرکت نکاح وہ ہے جو مشقت کے اعتبار سے سب سے زیادہ آسان ہو۔(مسند امام احمد)

(2)خرچہ و رہائش دینا:اس میں شوہر پر بیوی کو کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے، اس کی رہائش کے انتظامات کرنا لازم ہیں۔

(3)حسن سلوک:خاوند پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، اس کی عزت کرے، اس کے ساتھ محبت سے پیش آئے۔ مسلمان شخص کے کمال اخلاق کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ مہربان ہو کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا بہترین اخلاق والا سب سے کامل مومن ہے اور تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں بہتر ہو۔

(4)جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا:کھانا اچھا بنا ہو یا مناسب ہو تو اس کی تعریف کرنا دلجوئی کے طور پر اور ویسے بھی دلجوئی کا حکم رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے اور دلجوئی سنت بھی ہے۔ اسی طرح بیوی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگرچہ یہ اس کا حق نہیں ہے۔

بیوی کے حقوق کے متعلق مزید 3احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

(1)تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو اور میں تم سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔(ترمذی،5/475، حدیث: 3921) اس حدیث پاک سے ہمیں ایک مدنی پھول یہ بھی ملتا ہے کہ اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خود میرے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت مبارکہ ہے۔

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:بے شک آدمی جب اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اجر دیا جاتا ہے۔(معجم کبیر، 18/258، حدیث: 646) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ فقط بیوی کا اپنے شوہر کی خدمت کرنا ثواب کا باعث نہیں بلکہ مرد بھی اپنی بیوی کو پانی پلا کر اس سے محبت کر کے ثواب حاصل کر سکتا ہے۔

(3)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا یہاں تک کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔(بخاری، 1/438، حدیث: 1295)

پیارے اسلامی بھائیو! بیان کی گئیں احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق ادا کرنا اور اس کے ساتھ پیار محبت سے زندگی گزارنا ثواب کا باعث ہے۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہماری زندگی میں بہت سی آزمائشیں اور مصیبتیں آ جائیں گی اور آخرت میں بھی ہم جواب دہ ہوں گے۔ اللہ پاک ہمیں دین اسلام پر صحیح معنوں میں عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔


خوشگوار ازدواجی زندگی گزارنے کے لئے میاں بیوی میں سے ہر ایک کو دوسرے کے حقوق کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے رفیق حیات کے حقوق کا خیال رکھ کر ایک پُرسکون زندگی گزار سکیں۔ عموماً ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کرنے اور ایک دوسرے کو اہمیت نہ دینے کی وجہ سے میاں بیوی میں باہم ناچاقیاں پید ا ہو جاتی ہیں جو میاں بیوی میں فاصلوں اور دوریوں کو بڑھانے کا سبب بنتی ہیں۔ دین اسلام میں میاں بیوی کے حقوق کو بہت اہمیت حاصل ہے، کثیر احادیث میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

جس طرح بیوی پر شوہر کے حقوق پورے کرنا لازم ہے اسی طرح شوہر پر بھی لازم ہے کہ بیوی کو اہمیت دے اور اُس کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ ترجمہ کنز العرفان:اور عورتوں کیلئے بھی مر دوں پر شریعت کے مطابق ایسے ہی حق ہے جیسا (ان کا) عورتوں پر ہے۔ (ب2٫ البقرة:228)

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ الله علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ لہٰذا شوہر کو چاہئے کہ وہ ہر گز ہر گز بیوی کے حقوق کو ہلکانہ جانے، اسے کمزور سمجھ کر اس کے ساتھ نا انصافی نہ کرے، اس پر ظلم و ستم نہ کرے اور ہر وقت اس بات کو پیش نظر رکھے کہ جس رب العالمین نے اسے بیوی پر حاکم بنایا ہے وہ احْكُمُ الْحَاكِمِين جل جلالہ سب حاکموں کا حاکم ہے وہ نا انصافی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔

آئیے ! اللہ تعالیٰ کے رسول، رسولِ مقبول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورت کے حقوق کی جو اہمیت بیان فرمائی ہے اُس کے بارے میں چند فرامین مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں:

(1) بھلائی سے پیش آنا: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خبر دار! بیویوں کا تم پر حق ہے کہ اوڑھنے، پہننے اور کھانے پینے کے معاملات میں اُن کے ساتھ بھلائی سے پیش آؤ۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، 2/ 387، حدیث: 1166)

(2)اچھے اخلاق والے:نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کامل ایمان والے مومنین وہ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہوں اور تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لئے اخلاقی طور پر اچھے ہوں۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ماجاء في حق المرأة على زوجها، 2/387، حدیث: 165)

(3)بہتر کون:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل و عیال کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔(ابن ماجه، كتاب النكاح، باب حسن معاشرة النساء، 2/487، حدیث: 1977)

(4) اللہ سے ڈرو: نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:عورتوں (یعنی بیویوں) کے معاملے میں اللہ عزوجل سے ڈرو کہ وہ تمہارے زیر دست ہیں۔(مسند احمد)

فتاوی رضویہ کی جلد 24 میں شوہر پر بیوی کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں تفسیر صراط الجنان میں اُن کا خلاصہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ خرچہ دینا، رہائش مہیا کرنا، اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، نیک باتوں، حیاء اور پر دے کی تعلیم دیتے رہنا، ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، جب تک شریعت منع نہ کرے ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا، اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں۔(تفسیر صراط الجنان، پ2، البقرة، تحت الآیۃ: 228، 1/348)

پیارے اسلامی بھائیو! یاد رکھئے! بیان کئے گئے شرعی حقوق کے علاوہ میاں بیوی پر ایک دوسرے کے بہت سے اخلاقی حقوق بھی لاگو ہوتے ہیں جن کا خیال نہ رکھنے کی صورت میں اگرچہ شرعی گرفت نہ ہو مگر گھر کا ماحول ضرور ناخوشگوار ہوتا ہے۔ میاں بیوی کو چاہئے کہ ایک دوسرے کی عزت کریں، عزت نفس کا خیال رکھیں خاص طور پر ایک دوسرے کے عزیز و اقارب کے سامنے اپنے رفیق حیات اور اس کے گھر والوں کی عزت کی حفاظت کریں۔ اس معاملے میں کوتاہی کی معمولی سی چنگاری بھی بسا اوقات بہت بڑے الاؤ کا سبب بنتی ہے اس لئے اس میں کو تاہی نہ کریں، اگر کوئی شرعی اور معاشی رُکاوٹ نہ ہو تو ایک دوسرے کی خوشیوں اور خواہشوں کا بھی خیال رکھیں خاص طور پر شوہر کو چاہئے کہ بیوی بچوں پر بلاوجہ تنگی نہ کرے کہ مالِ حلال کما کر بال بچوں پر خرچ کرنا باعث اجر عظیم ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اسلام نے عورت کو چادر اور چار دیواری کے اندر احترام کا خاص مقام عطا کیا ہے اور ہر لحاظ سے اس کے حقوق مقرر کیے ہیں تا کہ اس کی کسی قسم کی حق تلفی نہ ہو۔ عورت چونکہ پیدائشی لحاظ سے صنف نازک ہے اس لئے اس کی دلجوئی، حقوق کی ادائیگی اور عمدہ اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ-فَاِنْ كَرِهْتُمُوْهُنَّ فَعَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ یَجْعَلَ اللّٰهُ فِیْهِ خَیْرًا كَثِیْرًا(19)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو پھر اگر وہ تمہیں پسند نہ آئیں تو قریب ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناپسند ہو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھے۔(پ4، النسآء: 19 )

اس سے ہمیں معلوم ہوا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے کیونکہ میاں بیوی کی خانگی زندگی میں جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اچھے طریقے سے رہیں گے تو دونوں کو راحت مسرت اور سکون حاصل ہو گا۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(21)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )

اللہ پاک کے اس فرمان سے ہمیں یہی بات معلوم ہوئی کہ میاں بیوی آپس میں صلح، امن، دلجوئی، دلی محبت اور یک جہتی کے ساتھ رہیں اور آپس کے تعلقات میں ایک دوسرے کے لیے میانہ رویہ اختیار رکھیں۔

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: (انہیں) بھلائی کے ساتھ روک لو یا نکوئی (اچھے سلوک)کے ساتھ چھوڑ دو اور انہیں ضرر دینے کے لیے روکنا نہ ہو کہ حد سے بڑھو اور جو ایسا کرے وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔(پ2، البقرۃ:231)

مردوں کو چاہیے کہ اپنی عورتوں سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہل خانہ کے ساتھ ہمیشہ عمدہ سلوک کیا بلکہ آپ کا حسن خلق تو بے مثل ہے اور امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ عموماً بیوی کی صلاحیت کسی نہ کسی لحاظ سے مرد سے کمزور ہوتی ہے، اس کے باعث بیوی سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مردوں کو چاہیے کہ اپنی بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ان کے حقوق کا خیال رکھیں، ان کی جائز باتوں کو حسب معمول پورا کریں اور ان کے ساتھ پیار محبت سے رہیں۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطافرمائے، آمین۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

اللہ پاک فرماتاہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪ ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پرعورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔(صراط الجنان) چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں اچھے ہیں۔(مشکاةالمصابیح)لہٰذا شوہرپربھی عورت کے حقوق ادا کرنا لازم ہے۔

(1)مہر ادا کرنا: مہر عورت کے اولین حقوق میں سے ہے،اللہ پاک کا فرمان ہے، ترجمہ کنز الایمان:اورعورتوں کو ان کے مہر خوش سے دو۔(پ4، النسآء:4) مفتی قاسم عطاری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے فرمایا:مہر کی مستحق عورتیں ہیں،مہر بوجھ سمجھ کر نہیں دینا چاہیے بلکہ عورت کا شرعی حق سمجھ کر اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے خوشی خوشی دینا چاہیے۔ (صراط الجنان، 2/146)

(2)اچھاکھانااورلباس مہیاکرنا:رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حجت الوداع کے موقع پر فرمایا: سنو!تمہارے ذمے عورتوں کا حق یہ ہے کہ تم ان کے لیے اچھا لباس اور اچھا کھانا مہیا کرو۔(فیضان ریاض الصالحین) مراٰةالمناجیح میں ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی حیثیت کے مطابق کھلاؤ پہناؤ ۔ نیزپہناؤں میں لباس جوتا وغیرہ سب داخل ہیں۔(مراٰۃ المناجیح)

(3)برا نہ کہنا: ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیوی حقوق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ (بیوی کو) برا نہ کہو۔ (مشکاة المصابیح) حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ بیوی کو نہ کوئی عیب والی بات کہو اور نہ ہی گالی دو۔(مرقاۃالمفاتیح،5/2126)

(4)حسن سلوک کرنا : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:مسلمان مرد مومنہ عورت کو مبغوض(ناپسند)نہ رکھے،اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند ہوگی۔(مسلم) یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جبکہ اچھی بری ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔(بہار شریعت، 2/103) تاکہ زندگی کا یہ ساتھ قائم رہے اور کسی رنجش و ناگوار چیز کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اللہ پاک شوہر کو بیوی کے اور بیوی کو شوہر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔

 بیوی کے حقوق کی اہمیت:

شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور شوہر کو اُن کا خیال رکھنا چاہئے علاوہ ازیں بیوی کے جائز مطالبات کو پورا کرنے اور جائز خواہشات پر پورا اترنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔ جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اُس کی بیوی اُس کے لئے بن سنور کر رہے اِسی طرح اسے بھی بیوی کی فطری چاہت کو مد نظر رکھتے ہوئے اُس کی دلجوئی کے لئے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے۔

بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارے میں تین فرامین مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

(1)خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِاَهْلِهِ وَاَنَا خَيْرُ كُمْ لِاَهْلِي یعنی تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔

(2)لَا يَفْرَكُ مُؤْمِنٌ مُؤْمِنَةٌ اِنْ كَرِدَ مِنْهَا خَلْقًا رَضِيَ مِنْهَا اَخرَ یعنی کوئی مُسلمان مرد (شوہر) کسی مسلمان عورت (بیوی) سے نفرت نہ کرے اگر اُس کی ایک عادت نا پسند ہے تو دوسری پسند ہوگی۔

(3)تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کےآخر میں اس سے صحبت کرے گا۔

جتنا خرچ اتنا ہی اجر:حضرت سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہیں ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی رضا کے لئےتم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو (اس کا بھی اجر ملے گا)۔(بخاری، کتاب الجنائز، باب رثاء النبي ۔۔۔ الخ، 1/438، حدیث: 1395)

سب سے زیادہ اجر والا دینار:حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک دینار وہ ہے جسے تم اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم غلام پر خرچ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم مسکین پر صدقہ کرتے ہو، ایک دینار وہ ہے جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اجر اس دینار پر ملے گا جسے تم اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتے ہو۔(مسلم، کتاب الزكاة، باب فضل النفقة على العيال ۔۔۔ الخ، ص499، حدیث:995)

میزان میں رکھی جانے والی پہلی چیز:حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سب سے پہلے جو چیز انسان کے تر ازوئے اعمال میں رکھی جائے گی وہ انسان کا وہ خرچ ہو گا جو اس نے اپنے گھروالوں پر کیا ہو گا۔(معجم اوسط، 2/328، حدیث:6135)

اہل و عیال کے بارے میں سوال:نبی اکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم سب نگران ہو اور تم میں سے ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ بادشاہ نگران ہے، اُس سے اُس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہل و عیال کا نگران ہے، اُس سے اُس کے اہل و عیال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ عورت اپنے خاوند کے گھر اور اولاد کی نگران ہے، اُس سے اُن کے بارے میں پوچھا جائے گا۔(بخاری، کتاب العتق، باب كراهة التطاول ۔۔۔ الخ، 2/159، حدیث:2554)

شیخِ طریقت، امیر اہل سنت حضرت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ اپنے رسالے ”باحیا نوجوان“ کے صفحہ نمبر 21 پر تحریر فرماتے ہیں: جو لوگ باوجود قدرت اپنی عورتوں اور محارم کو بے پردگی سے منع نہ کریں وہ دیوث ہیں، رحمت عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: تین شخص ہیں جن پر اللہ عزوجل نے جنت حرام فرمادی ہے، ایک تو وہ شخص جو شراب کا عادی ہو، دو سر اوہ شخص جو اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرے اور تیسر ا دیوث (یعنی بے حیا) کہ جو اپنے گھر والوں میں بے غیرتی کے کاموں کو بر قرار رکھے۔(مسند امام احمد، 2/351، حدیث: 5372)

لہذا شوہر کو چاہئے کہ اپنے منصب کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام تر فرائض منصبی کو بخوبی انجام دے، خود بھی برائیوں سے بچے اور حتی المقدور اپنے بیوی بچوں کو بھی گناہوں کی آلودگی سے دور رکھے ، آج کل بے پردگی و بے حیائی کا جو سیلاب اُمنڈ آیا ہے اُس سے اپنے گھر والوں کو بچائے ورنہ دنیا و آخرت میں ذلت ورسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔