اسلام سے پہلے بیوی کی عزت و ناموس کی ایسی دھجیاں اڑائی جاتی تھیں گویا اسے پاؤں کی جوتی سمجھا جاتا تھا لیکن اسلام نے بیوی کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا، اس کی ناموس کی حفاظت فرمائی، اسلام نے بیویوں کے ایسے احکام بیان فرمائے ہیں کہ جس سے ایک بیوی بھی معاشرے میں باوقار و باعزت زندگی گزار سکتی ہے۔ نیز قرآن و حدیث میں شوہروں کو سختی کے ساتھ اس بات کی تاکید فرمائی گئی ہے کہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اُس کے ساتھ نرمی و خوش اخلاقی سے پیش آؤ۔

(1) عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو:الله عز و جل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )علامہ علاء الدین علی بن محمد خازن رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اچھا برتاؤ یہ ہے کہ کھلانے پہنانے، حق زوجیت ادا کرنے اور بات چیت کرنے میں ان سے خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ اچھا برتاؤ کی ایک وضاحت یہ بھی کی گئی ہے جو اپنے لئے پسند کرو ان کے لئے بھی وہی پسند کرو۔(تفسیر خازن، پ4، النسآء، تحت الآیۃ:19)

(2)زوجین کے حقوق:

حضرت سید نا عمرو بن احوص جُشمِی رضی اللہ عنہ نے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے حجۃ الوداع کے موقع پر سنا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ عزوجل کی حمد وثناء کے بعد وعظ و نصیحت کی پھر ارشاد فرمایا: سنو! عورتوں کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آؤ، بیشک وہ تمہارے پاس قیدی ہیں، تم ان کی کسی چیز کے مالک نہیں سوائے جماع کے مگر یہ کہ وہ کھلی بے حیائی کریں، اگر وہ ایسا کریں تو اُن کے بستر الگ کر دو اور ہلکی مار مارو، اگر تمہاری بات مان جائیں تو اُن کے خلاف راستہ تلاش نہ کرو۔ سنو! بیشک تمہاری عورتوں پر تمہارے کچھ حقوق ہیں، اور ان کے تم پر کچھ حقوق ہیں، اُن پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے ناپسندیدہ لوگوں کے لیے تمہارے بستر نہ بچھائیں اور انہیں تمہارے گھروں میں آنے کی اجازت نہ دیں۔ اور سنو! تمہارے ذمہ ان کا حق یہ ہے کہ تم اُن کے لئے اچھا لباس اور اچھا کھانا مہیا کرو۔(ترمذی، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی الحق المرءۃ علی زوجھا، 2/387، حدیث:1166)

(3)عورتوں کو نہ مارو:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے عورتوں کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی اپنی زوجہ کو اس طرح مارتا ہے جس طرح غلام کو مارا جاتا ہے، شاید پھر اُس دن اُس سے جماع بھی کرتا ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر، باب سورۃالشمس وضحاھا)

بیوی کو مارنے کا حکم:شوہر اس بات کو مد نظر رکھے کہ اگر بیوی نافرمانی کرتی ہے تو فوراً اُسے مارنے یا طلاق کا پروانہ دے کر رخصت کرنے کے بجائے وہ اس معاملے کو اللہ عزوجل کے حکم کے مطابق حل کرے۔ سب سے پہلے اُسے اچھے طریقے سے سمجھائے، اگر نہ سمجھے تو بستر الگ کر کے ناراضی کا اظہار کرے۔

(4) بیوی سے بغض نہ رکھے:حضور نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ سے بغض نہ رکھے، اگر اسے اس کی کوئی ایک بات ناپسند ہو تو دوسری پسند ہو گی۔ یا یہ فرمایا: کوئی بات نا پسند ہو تو اس کے علاوہ کوئی بات پسند بھی ہو گی۔ (مسلم، کتاب الرضا، باب الوصیۃ بالنساء، ص 775،حدیث: 1469)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: سُبْحَانَ اللہ کیسی نفیس تعلیم ہے، مقصد یہ ہے کہ بے عیب بیوی ملنا نا ممکن ہے، لہٰذا اگر بیوی میں دو ایک برائیاں بھی ہوں تو اسے برداشت کرو کہ کچھ خوبیاں بھی پاؤ گے۔ یہاں مرقات نے فرمایا کہ جو شخص بے عیب ساتھی کی تلاش میں رہے گا وہ دنیامیں اکیلا ہی رہ جائے گا، ہم خود ہزارہا برائیوں کا سرچشمہ ہیں، ہر دوست عزیز کی برائیوں سے درگزر کرو، اچھائیوں پر نظر رکھو، ہاں اصلاح کی کوشش کرو، بے عیب تو رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔(مراۃالمناجیح، 5/87)

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔