اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہےاور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے، ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان،ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔

حق عربی زبان کا مفرد لفظ ہے، اس کے معنی فرد یا جماعت کا واجب حصہ ہوتا ہے، اس کی جمع حقوق آتی ہے۔

حقوق: ازدواجی زندگی ایک اہم زندگی ہوتی ہے، اس میں زوجین خاندان، گھر اور سماج کے تئیں بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان تعلقات خوشگوار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے، ان کی علیحدگی سے بے شمار مسائل میدا ہوتے ہیں، خصوصا اولاد پر برا اثر پڑتا ہے۔ پیغمبر اسلام محمد حضرت محمد عربی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم اس پر بہت توجہ دیتے تھے۔ شوہر کے بیوی پرحقوق درج ذیل ہیں:

مالی حقوق: مہر۔ نفقہ۔ رہائش۔

مہر:ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے ۔یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔

نفقہ: بیوی، نکاح یعنی بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کے عقد کے ذریعے شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے حتی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔

بیوی اگر شوہر کی اجازت سے کچھ کماتی ہے تو بیوی پر لازم نہیں ہوگا کہ وہ گھر کے اخراجات میں خرچ کرے، البتہ وہ اپنی جانب سے تبرعاً کر سکتی ہے۔

رہائش:یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے۔

غیر مالی حقوق:

عدل وانصاف۔ حسن سلوک۔ ایذا رسانی سے بچنا۔

عدل وانصاف:شوہر پر اپنی بیویوں کے درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔

حسن سلوک:بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نسا میں تفصیل سے حسن اور رعایات کا بیان ہے۔

اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے روایت ہے کہ حجۃالوداع کے موقع پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حمد وثنا کے بعد وعظ فرمایا: اس میں فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو کیونکہ وہ تمہارے مقابلہ میں کمزور ہیں تمھیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر دو اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمھاری فرمانبرداری کرتی ہیں تو تمھیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایذا رسانی سے بچنا:یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ بن فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔