اسلام، اعتدال کا دین ہے، عدل و انصاف اور حقوق کی مساوانہ تقسیم اس کا خاص وصف ہے۔ زوجین کے حقوق میں بھی اس دین متین نے اعتدال کی راہ کو اختیار کیا ہے اور اس خاص وصف کے سبب یہ دین دنیا کے تمام تر دیگر ادیان سے ممتاز ہے۔میاں بیوی کے حقوق سے مرادوہ ذمہ داریاں ہیں، جومرد و زن پر ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد شرعی و اخلاقی طور پر عائد ہوتی ہیں۔ جس طرح اسلام نے مرد کے حقوق بیان کیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے حقوق کا تعین بھی فرمایا ہے۔ جن میں سے کچھ تومالی حقوق ہیں جن میں مہر،نان و نفقہ، اوررہائش شامل ہے۔اورکچھ غیر مالی حقوق ہیں جن میں بیویوں کے درمیان عدل انصاف کرنا، اچھے اوراحسن انداز میں بود باش اورمعاشرت کرنا، بیوی کوتکلیف نہ دینا شامل ہیں۔ان کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:

مالی حقوق:

1۔مہر: مہر وہ مال ہے جو بیوی کااپنے خاوند پر حق ہے، اوریہ بیوی کا خاوند پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے واجب کردہ حق ہے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4) ایک اور مقام پر فرمایا: ترجمۂ کنز الایمان: تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر ا نہیں دو اور قرار داد (طے شدہ)کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تو اُس میں گناہ نہیں ۔(پ5، النسآء:24)

اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی مہر کے متعلق بیان ہوا:

حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی سے فرمایا: اس کو کوئی چیز دو ۔ تو انہوں نے عرض کیا:میرے پاس کچھ نہیں ہے،تب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ تمہاری حطمی زرہ کہاں ہے؟ (سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:2125)

2۔ نان ونفقہ: نفقہ کے لغوی معنی خرچ کے ہیں۔ اِس سے مراد وہ شے ہے جو انسان اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہے یعنی اخراجاتِ اولاد یا بیوی کا خرچ وغیرہ۔ اِصطلاحاً نفقہ سے مراد عورت کے روزمرہ کے اخراجات ہیں جن میں خوراک، لباس اور سکونت شامل ہیں جو مرد کی استطاعت کے مطابق اس کے ذمہ ہوتے ہیں۔ علما کا اس پر اجماع ہے کہ بیویوں کا خاوند پر نان ونفقہ واجب ہے۔

نان ونفقہ کا مقصد: بیوی کی ضروریات پوری کرنا مثلا کھانا، پینا، رہائش وغیرہ یہ سب کچھ خاوند کے ذمہ ہے اگرچہ بیوی کے پاس اپنا مال ہو اوروہ غنی بھی ہوتوپھر بھی خاوند کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہے۔اس لیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ترجمۂ کنز الایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)

اورایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے کچھ اس طرح فرمایا:ترجمۂ کنز الایمان: مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا۔(پ28، الطلاق:7) اسی طرح حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا:

جناب حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: ہم پر بیوی کے کیا حقوق ہیں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب تُو کھائے تو اسے کھلائے، جب تُو پہنے تو اسے پہنائے، یا یوں فرمایا جب کما کر لائے (تو اسے پہنائے)اورچہرے پر نہ مار، اسے برا نہ بول اور اس سے جدا نہ ہو مگر گھر میں

3۔سکنٰی یعنی رہائش: یہ بھی بیوی کے حقوق میں سے ہے کہ خاوند اس کے لیے اپنی وسعت اورطاقت کے مطابق رہائش تیار کرے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا فرمان ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔(پ28، الطلاق:6) شوہر کے لیے لازم ہے کہ وہ بیوی کی رہائش کے لیے کم از کم ایسا انتظام ضرور کرے جہاں اس کی بیوی بے خوف ہو کر رہ سکے اور اگراُس کی بیوی علیحدہ رہائش کا مطالبہ کرے اور شوہر اس کی طاقت رکھتا ہو تو اُسے علیحدہ رہائش کا انتظام کرنا چاہیے۔

غیرمالی حقوق:

1:بیویوں کے درمیان عدل وانصاف: بیوی کا اپنے خاوند پر حق ہے کہ اگر اس کی اور بھی بیویاں ہوں تووہ ان کے درمیان رات گزارنے، نان ونفقہ اورسکنیٰ وغیرہ اور دیگر تمام معاملات میں عدل و انصاف کرے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو 2دو 2 اور تین3 تین3 اور چار 4چار4 پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی کرو۔(پ4، النسآء:3)

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اگرچہ مرد کو ایک سے زائد بیویاں رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ وہ ان کے درمیان عدل و انصاف کرے، اگر وہ ایسا کرنے سے قاصر ہے تو پھر اس کو ایک ہی بیوی رکھنی چاہیے جو کہ آج کل ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ ایک سے زائد بیویاں تو رکھ لیتے ہیں لیکن وہ ان کے درمیان انصاف نہیں کر پاتے۔

2:حسن معاشرت: حُسنِ معاشرت سے مراد یہ ہے کہ انسان جس سے ملے اور جس سے میل جول رکھے ان سے اچھے اخلاق سے پیش آئے،خاوند پر واجب ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھے اخلاق اورنرمی کا برتاؤ کرے، اوراپنی وسعت کے مطابق اسے وہ اشیاء پیش کرے جواس کےلیے محبت والفت کا با‏عث ہوں۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمايا: ترجمۂ کنز الایمان:اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔(پ2، البقرۃ:228)حدیث مبارکہ میں ارشاد ہوا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے جب (اپنی بیوی میں) کوئی (پسند نہ آنے والا) معاملہ دیکھے تو اچھی طرح سے بات کہے یا خاموش رہے۔ اور عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر والے حصے میں ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1468)

اب ہم چندایک نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اپنی بیویوں کےساتھ حسن معاشرت کے نمونے پیش کرتے ہیں:

عروہ بن زبیر سے روایت کیا، انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے حجرے کے دروازے پر کھڑے ہیں اور حبشی اپنے چھوٹے نیزوں کے ساتھ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مسجد میں کھیل (مشقیں کر) رہے ہیں۔ اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے اپنی چادر سے چھپائے ہوئے ہیں تاکہ میں ان کے کرتب دیکھ سکوں، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میری خاطر کھڑے رہے حتیٰ کہ میں ہی ہوں جو واپس پلٹی۔(صحیح مسلم،حدیث نمبر: 892)

ہمیں بھی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سیرت طیبہ پر عمل کرتے ہوئے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور جو حقوق ان کے ہمارے ذمہ ہیں ا نہیں اچھی طرح سے ادا کرنا چاہیے،اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ کریم ہمیں دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔