ضمیر احمد رضا عطاری (درجۂ سادسہ مرکزی جامعۃ المدینہ
فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
کہا جاتا ہے کہ میاں اور بیوی
زندگی کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں اگر گاڑی کا ایک پہیہ بھی صحیح طرح کام نہ کرے
تو گاڑی نہیں چلتی یوں ہی ازدواجی زندگی میں خوشحالی فقط اسی صورت میں ممکن ہے جب
میاں اور بیوی دونوں ہی اپنی اپنی ذمہ داریوں کو بطریق احسن سر انجام دیں وگرنہ
زندگی کی گاڑی کا چلنا مشکل ہی نہیں بلکہ بسا اوقات ناممکن ہو جاتا ہے۔
اسلام چونکہ فقط ایک مذہب ہی نہیں
بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات بھی ہے۔ اس لیے اسلام میں جہاں ایک بچے کی پیدائش سے لے
کر موت تک زندگی گزارنے کے تمام اصول و ضوابط بالتفصیل بیان کر دیے گئے وہیں
ازدواجی زندگی کو خوبصورتی کے ساتھ گزارنے کے لئے میاں بیوی کے حقوق و فرائض بھی
بیان کیے گئے تاکہ یہ مقدس رشتہ خوبصورتی کے ساتھ نبھایا جا سکے ۔ اسلام میں خاوند
پر بیوی کے درج ذیل حقوق کو بیان کیا گیا ہے:
حق مہر: بیوی کے حقوق میں سب سے پہلا حق
مہر ہے۔ یعنی جیسے ہی ایک عورت رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتی ہے اسے مہر کا حق حاصل
ہو جاتا ہے۔اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اٰتُوا النِّسَآءَ
صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ-فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا
فَكُلُوْهُ هَنِیْٓــٴًـا مَّرِیْٓــٴًـا(4) ترجمۂ کنز
الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر
میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ رچتا پچتا (خوش گوار اور مزےسے)۔ (پ4،
النسآء:4)
اس آیت کریمہ میں شوہروں کو حکم
دیا گیا کہ وہ بیویوں کو ان کا مہر خوشی سے دیں۔ البتہ بعد ادائیگی اگر بیوی اپنی
خوشی سے بطور تحفہ شوہر کو مہر کا کچھ حصہ یا مکمل مہر دے دیتی ہے تو اسے لینے میں
کوئی حرج نہیں لیکن اسے مہر معاف کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ یاد رہے کہ مہر بیوی
کا حق ہے لہذا اگر اس کے والد یا ولی نے بوقت نکاح مہر لے لیا ہو وہ تو بیوی کے
حوالے کر دیا جائے۔
نان و نفقہ: دوسرا حق نان و نفقہ ہے،شوہر پر
لازم ہے کہ وہ بیوی کی تمام ضروریات زندگی کو پورا کرے۔ اس کے لیے کھانے پینے لباس
اور دیگر تمام اخراجات کا بندوبست کرے۔ خطبہ حجۃ الوداع جو کہ انسانی حقوق کا
عالمی منشور ہے اس میں نبی کریم رؤف الرحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
بیویوں کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:سنو! اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم
ان کے لباس اور طعام میں اچھا سلوک کرو ۔(ترمذی حدیث 1163)
حتی کہ طلاق کے بعد بھی ایامِ عدت
میں نفقہ خاوند ہی کے ذمے ہے اللہ کریم نے قرآن عظیم میں ارشاد فرمایا: وَ
لِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِؕ-حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِیْنَ(241) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور طلاق والیوں کے لیے بھی مناسب طور
پر نان و نفقہ ہے یہ واجب ہے پرہیزگاروں۔(پ2،
البقرۃ:241)
سکنی:بیوی کا تیسرا حق سکنی یعنی رہائش ہے۔ شوہر پر واجب
ہے کہ وہ اپنی استطاعت اور قدرت کے مطابق بیوی کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست کرے۔
نفقہ کی طرح سکنی بھی ایسا حق ہے جو دورانِ عدت بھی شوہر کے ذمے ہے ، فرمان باری
تعالیٰ ہے اَسْكِنُوْهُنَّ
مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو
وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر۔ (پ28، الطلاق:6)
عدل و انصاف: شوہر پر لازم ہے کہ وہ لباس،
رہائش اور نفقہ وغیرہ میں عدل و انصاف سے کام لے اور اگر ایک سے زائد بیویاں ہوں
تو ان تمام چیزوں میں مساوات کا دامن تھامے رکھے۔ بیویوں کے ساتھ عدل و انصاف کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ کریم نے ایک سے زائد
شادیوں کی اجازت کو اس بات پر موقوف رکھا کہ ان کے ما بین عدل و انصاف کیا
جائے۔چنانچہ ارشاد فرمایا:
فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً اَوْ مَا
مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-ذٰلِكَ اَدْنٰۤى اَلَّا تَعُوْلُوْاؕ(3) ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر اگر ڈرو کہ دوبیبیوں کوبرابر نہ رکھ سکو گے تو ایک ہی
کرو یا کنیزیں جن کے تم مالک ہو یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو۔ (پ4، النسآء:
3)
اس آیت کریمہ کے تحت تفسیر صراط
الجنان میں لکھا ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا فرض ہے، اس میں نئی، پرانی،
کنواری یا دوسرے کی مُطَلَّقہ، بیوہ سب برابر ہیں۔ یہ عدل لباس میں، کھانے پینے میں،
رہنے کی جگہ میں اوررات کوساتھ رہنے میں لازم ہے۔ ان امور میں سب کے ساتھ یکساں
سلوک ہو۔
حسن سلوک: شوہر پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ
بیوی سے حسن سلوک سے پیش آئے۔ اس کی جائز خواہشات کو حتی الامکان پورا کرنے کی
کوشش کرے اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کو جا بجا بیان فرمایاہے چنانچہ قرآن
مجید میں ارشاد ہوتا ہے : وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سے
اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )
قرآنِ مجید کے علاوہ کئی احادیث
کریمہ بھی عورتوں سے حسن سلوک پر دلالت کرتی ہیں چنانچہ اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک
کی تلقین کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:تم
میں بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے بہترین ہو اور میں اپنے گھروالوں کے
لئے تم سب سے اچھا ہوں۔(ترمذی،کتاب المناقب،باب فضل ازواج النبی،5/475حدیث:3921)
ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ تم سب
میں بہترین وہ ہے جو اپنی عورتوں اور بچیوں کے ساتھ اچھا ہو۔(شعب الایمان،باب فی
حقوق الاولاد والاہلین،6/415، حدیث:8720) ان روایات سے یہ بات روز روشن کی
طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ حسن سلوک کی کتنی تلقین کی ہے۔
ایذا رسانی سے بچنا: اسلام میں ایذا رسانی منع ہے،کسی
بھی مسلمان کو بلا وجہ تکلیف پہنچانے کی شدید مذمت کی گئی ہےچنانچہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ
الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ ترجمہ: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے
مسلمان محفوظ رہیں۔ (صحیح بخاری جلد اول: كتاب الإيمان: حدیث 10)
یعنی حقیقی معنوں میں مسلمان
کہلانے کے لائق وہی شخص ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ وہ
نہ تو زبان سے غیبت، چغلی، گالی گلوچ اور طعن و تشنیع کے ذریعے کسی مسلمان کو
تکلیف پہنچائے اور نہ ہی ہاتھ کے ذریعے کسی کو ایذا دے۔
اس روایت میں ایک عام مسلمان کو
ایذا دینے سے بھی کتنی سختی سے منع کیا گیا ہے تو زوجہ جو کہ دوسروں کی بنسبت حسن
سلوک کی زیادہ حقدار ہوتی ہے۔ اسے کیونکر تکلیف دی جا سکتی ہے۔ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : الا
واستوصوا بالنساء خيرا، فإنما هن عوان عندكم ترجمہ: سنو! عورتوں کے ساتھ خیر
خواہی کرو ۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔(ترمذی، حدیث 1163)
الغرض اسلام نے بیوی کے حقوق
تفصیل کے ساتھ بیان کیے ہیں اور زمانہ جاہلیت میں عورت سے کی جانے والی بد سلوکی
کی تمام رسومات کو دفن کر دیا ہے اور عورت کو معاشرے میں ایک بلند مقام عطا کیا
ہے۔ اگر شوہر اور بیوی دونوں ہی فقط اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کی بجائے ایک دوسرے
کے حقوق ادا کرنے والے بن جائیں تو واقعی گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ اللہ پاک
ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ امین