اللہ پاک نے میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت بھرا بڑا پیارا ر شتہ پیدا فرمایا ہے اللہ پاک نے نسل انسانی کی بقا اور بڑھوتری کے لئے مر دوعورت کو جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتہ جس قدر اہم ہے اسی قدر نازک بھی ہے۔ باہمی تعاون، خلوص، چاہت اور در گزر ازدواجی زندگی میں خوشیوں کے رنگ بکھیر دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس عدم برداشت اور در گزر نہ کرنے اور ہمیشہ ایک دوسرے کی برائیوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیوی کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟

اللہ رب العالمین جل جلالہ نے بیویوں کے حقوق سے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ امام ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابو بکر قرطبى رحمۃ الله علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہیں۔

حضرت معاویہ بن حيدة فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: يارسول الله ﷺ! بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟‘ ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ پہنو تو انہیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے برا نہ کہو اور اسے گھر سے باہر مت چھوڑو۔(ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں جب یہ سوال ہوا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو ارشاد فرمایا: نفقہ سکنی (یعنی کھانا، لباس و مکان)، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء و حجاب کی تعلیم و تاکید اور اس کے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی (عورت کے حقوق میں سے ہے) اور مردان خدا کی سنت پہ عمل کی تو فیق ہو تو ماورائے مناہی شرعیہ میں اس کی ایذا کا تحمل کمال خیر ہے اگر چہ یہ حق زن نہیں (یعنی جن باتوں کو شریعت نے منع کیا ہے ان میں کوئی رعایت نہ دے، ان کے علاوہ جو معاملات ہیں ان میں اگر بیوی کی طرف سے کسی خلاف مزاج بات کے سبب تکلیف پہنچے تو صبر کرنا بہت بڑی بھلائی ہے۔ البتہ یہ عورت کے حقوق میں سے نہیں ہے)۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 472 صفحات پر مشتمل کتاب بیانات عطاریہ حصہ دوم کے صفحہ 164 پر ہے: ایک آدمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا۔ اسے غصہ تو بہت آیا مگر یہ سوچتے ہوئے وہ غصے کو پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رہتا ہوں اگر آج میں نے بیوی کی خطا پر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسانہ ہو کہ کل بروز قیامت اللہ بھی میری خطاؤں پر گرفت فرمالے۔ چنانچہ اس نے دل ہی دل میں اپنی زوجہ کی خطا معاف کر دی۔ انتقال کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ اس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والا تھا کہ الله نے فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اس کی خطا معاف کر دی تھی، جاؤ میں بھی اس کے صلے میں تم کو آج معاف کرتا ہوں۔

سبحن اللہ! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک کی رحمت کس قدر وسیع ہے کہ ایک ایسا شخص جو کثرت عصیاں کے سبب گر فتار عذاب ہونے ہی والا تھا اس کے تمام قصور صرف اس لئے معاف کر دیئے گئے کہ اس نے اپنی زوجہ کا ایک چھوٹا سا قصور معاف کر دیا تھا اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی زوجہ کی غلطیوں اور بد اخلاقیوں پر صبر کرنے لگے تو نہ صرف گھر میں چاہت و امن اور باہمی اتفاق کی فضا قائم ہو جائے ساتھ ہی ساتھ اعمال نامے میں نیکیوں کا انبار بھی لگ جائے۔

مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لئے ایسا درخت ثابت ہو جس کے سائے میں اسے ہر طرح کا سکون میسر آئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ بیوی کے شرعی حقوقی احسن طریقے سے ادا کرے۔

شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی زوجہ کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو کماحقہ ادا کرے، حقوق العباد کی تلفی ناجائز و حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

اگر بالفرض بیوی شوہر کے حقوق ادانہ بھی کرے تو شوہر کو اس پر صبر سے کام لینا افضل ہے۔

اللہ پاک تمام کو رشتہ ازدواج کے خوبصورت رشتے کے حقوق و فرائض نبھاتے ہوئے خوشحال و پر سکون زندگی گزارنا نصیب فرمائے۔ آمین

جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔

شوہر پر بیوی کے چند حقوق: (1) خرچہ دینا، (2) رہائش مہیا کرنا، (3) اچھے طریقے سے گزارہ کرنا، (4) نیک باتوں حیا پردے کی تعلیم دیتے رہنا(5)ان کی خلاف ورزی کرنے پر سختی سے منع کرنا، (6) جب تک شریعت منع نہ کرے پر جائز بات میں اس کی دلجوئی کرنا۔ (7) اس کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف پر صبر کرنا اگر چہ یہ عورت کا حق نہیں (8) اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا (9) اسکی خطا معاف کرنا وغیرہ وغیر۔

الله رب العالمین نے بیویوں کے حقوق سے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا کرنا واجب ہے اسی طرح شوہروں اور پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ بہر حال شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور شوہر کو ان کا خیال رکھنا چاہئے علاوہ ازیں بیوی کے جائز مطالبات کو پورا کرنے اور جائز خواہشات پر پورا اترنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہئے۔ جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے بن سنور کر رہے اسی طرح ایسے بھی بیوی کی فطرت چاہت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی کے لیے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص توجہ دینی چاہئے خواہ وہ زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کرے۔ اس ضمن میں ایک حدیث مبارک پیش خدمت ہے: سرکار مدینہ، سرور قلب وسینہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ تم اپنے کپڑوں کو دھوئے اور بالوں کی اصلاح کرو اور مسواک کر کے زینت اور پاکی حاصل کرو کیونکہ بنی اسرائیل ان چیزوں کا اہتمام نہیں کرتے تھے اسی لئے ان کی ان عورتوں نے بدکاری کی۔

بیوی سے حسن سلوک کرنا: فرمان مصطفی ﷺ : تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔(ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

بیوی کو خرچہ دینا: شوہر کو چاہیے کہ اہل خانہ پر تنگی کرنے کے بجائے رضائے الہی کے لیے اپنے اہل خانہ کے لیے دل کھول کر خرچ کرے آئیے ترغیب کے لیے اہل خانہ پر خرچ سے متعلق احادیث مبارکہ میں بیان کئے گئے فضائل ملاحظہ کیجئے: چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: الله کی رضا کے لئے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو (اس کا بھی اجر ملے گا)۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے تمام حقوق جیسے انہیں ادا کرنے کا حق ہے انہیں اسی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فر مائے نیز قرآن و سنت کی پابندی اور اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا

فرمائے۔ آمین بجاه النبی الامین

شادی شدہ زندگی کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہیں جس میں میاں اور بیوی دونوں شامل ہوتے ہیں شادی شدہ زندگی بسر کرنے کیلئے مرد اور عورت دونوں کو چاہیے کہ شادی یعنی نکاح جیسے پیارے رشتے میں بندھنے سےپہلے ایک دوسرے کے حقوق کے بارے میں جان لےایک عورت نکاح کےبعد بہن بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر یعنی جس کے وہ نکاح میں اس کی زوجہ مطہرہ یعنی بیوی بھی بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے جان سے پیارے والدین اور اپنے گھر یعنی جس گھر میں اس نے اپنی زندگی کے کثیر سال گزارے ہوتے ہیں صرف اپنے شوہر کیلئے ان سب سے دور ہو کر اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوتی ہیں۔ بیوی پہ یہ حق ہے کہ وہ اپنے شوہر کے تمام حقوق ادا کرے جس کا آغاز وہ اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوتے ہی کر دیتی ہیں اور ہر قدم پر اپنے شوہر کا ساتھ دیتی ہیں ٹھیک اسی طرح شوہر پر بھی حق ہے کی وہ اپنی بیوی کے تمام حق ادا کرے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

ایک شادی شدہ زندگی بسر کرنے کے لیے میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہوتے کبھی کبھی گھر کی خوشحالی کیلئے بیوی اپنے تمام ارمانوں کو مار دیتی ہیں تو کبھی کبھی شوہر اپنے گھر کو چلانے کیلئے دن رات محنت کرتا ہےاور اپنی بیوی بچوں کیلئے ان کی خوشی کیلئے اپنی ساری خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں اور میاں بیوی کی ایسی یکتائی کی وجہ سے گھر میں خوشحالی کا ماحول بن جاتا ہے۔

اکثر اسلامی بہنیں کہتی ہیں کہ جگہ جگہ صرف شوہر کے حقوق کئے جارہے ہوتے ہیں کیا بیوی کے کوئی حقوق نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارے پیارے دین اسلام میں ہر شخصيت کے حق کو بیان کیا گیا ہے۔ جب شوہر کے حقوق بیان ہوئے ہیں تو بیوی کے بھی قرآن و حدیث میں حقوق بیان ہوئے ہیں جن میں سے پانچ حقوق ملاحظہ فرمائیں:

1۔ عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہیں کہ شوہر عورت کے بستر کی رازداری باتوں کو دوسروں کے سامنے نہ بیان کرے بلکہ اس کو راز بنا کر اپنے دل ہی میں رکھے۔ اسی حق کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ کے نزدیک قیامت کے روز مرتبے کے لحاظ سے وہ آدمی بہت برا ہے جو اپنی بیوی کے پاس آئے پھر اسے فاش کردے۔ (3)

2۔ مہر ادا کرنا۔ ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔ بیوی کا مہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اور شوہر پر واجب ہے۔(4)

3۔ برائی سے منع کرنا۔ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانو اوراپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ (5) یہ آیت مبارکہ برائی سے ممانعت کے لیے ہے۔ شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اسے برائی سے منع کرتا رہے۔

4۔ بیوی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ اس حق کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملا حظہ فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران اور محافظ ہے اور اس معاملہ میں عورت سے قیامت میں اللہ پاک پوچھ گچھ فرمائے گا۔ (7)

شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی پر اعتماد اور بھروسہ کرے اور گھریلو معاملات اس کے سپرد کرے تاکہ بیوی اپنی حیثیت کو پہچانے اور اس کا وقار اس میں خود اعتمادی پیدا کرے اور وہ نہایت ہی دلچسپی اور کوشش کے ساتھ گھریلومعاملات کو سنبھالے۔

5۔ بیوی کی عادات پر صبر وضبط کرنا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن کسی ایماندار عورت سے بغض نہ رکھے اگر اسے اس کی کوئی بات ناپسند ہو تو کوئی دوسری بات پسندہوگی۔(8)

حوالہ نمبر 1۔ صراط الجنان، 1/348

حوالہ نمبر 2۔ میاں بیوی کے حقوق، ص 98

حوالہ نمبر 3۔ میاں بیوی کے حقوق، ص 99

حوالہ نمبر 4۔ پ 28، الطلاق:6

حوالہ نمبر 5۔ پ 4، النساء: 4

حوالہ نمبر 6۔ پ 28، التحریم: 6

حوالہ نمبر 7۔ میاں بیوی کے حقوق، ص96

حوالہ نمبر 8۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

شادی شدہ زندگی کے بعد ایک نئی زندگی کا آغاز ہوتا ہیں جس میں میاں اور بیوی دونوں شامل ہوتے ہیں شادی شدہ زندگی بسر کرنے کیلئے مرد اور عورت دونوں کو چاہیے کہ شادی یعنی نکاح جیسے پیارے رشتے میں بندھنے سےپہلے ایک دوسرے کے حقوق کے بارے میں جان لےایک عورت نکاح کےبعد بہن بیٹی کے ساتھ ساتھ اپنے شوہر یعنی جس کے وہ نکاح میں اس کی زوجہ مطہرہ یعنی بیوی بھی بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے جان سے پیارے والدین اور اپنے گھر یعنی جس گھر میں اس نے اپنی زندگی کے کثیر سال گزارے ہوتے ہیں صرف اپنے شوہر کیلئے ان سب سے دور ہو کر اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوتی ہیں۔ بیوی پہ یہ حق ہے کہ وہ اپنے شوہر کے تمام حقوق ادا کرے جس کا آغاز وہ اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوتے ہی کر دیتی ہیں اور ہر قدم پر اپنے شوہر کا ساتھ دیتی ہیں ٹھیک اسی طرح شوہر پر بھی حق ہے کی وہ اپنی بیوی کے تمام حق ادا کرے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

ایک شادی شدہ زندگی بسر کرنے کے لیے میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے ہوتے کبھی کبھی گھر کی خوشحالی کیلئے بیوی اپنے تمام ارمانوں کو مار دیتی ہیں تو کبھی کبھی شوہر اپنے گھر کو چلانے کیلئے دن رات محنت کرتا ہےاور اپنی بیوی بچوں کیلئے ان کی خوشی کیلئے اپنی ساری خواہشات کو قربان کر دیتے ہیں اور میاں بیوی کی ایسی یکتائی کی وجہ سے گھر میں خوشحالی کا ماحول بن جاتا ہے۔

اکثر اسلامی بہنیں کہتی ہیں کہ جگہ جگہ صرف شوہر کے حقوق کئے جارہے ہوتے ہیں کیا بیوی کے کوئی حقوق نہیں۔ تو ایسا نہیں ہے بلکہ ہمارے پیارے دین اسلام میں ہر شخصيت کے حق کو بیان کیا گیا ہے۔ جب شوہر کے حقوق بیان ہوئے ہیں تو بیوی کے بھی قرآن و حدیث میں حقوق بیان ہوئے ہیں جن میں سے پانچ حقوق ملاحظہ فرمائیں:

1۔ عورت کا اس کے شوہر پر ایک حق یہ بھی ہیں کہ شوہر عورت کے بستر کی رازداری باتوں کو دوسروں کے سامنے نہ بیان کرے بلکہ اس کو راز بنا کر اپنے دل ہی میں رکھے۔ اسی حق کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں: چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ کے نزدیک قیامت کے روز مرتبے کے لحاظ سے وہ آدمی بہت برا ہے جو اپنی بیوی کے پاس آئے پھر اسے فاش کردے۔ (3)

2۔ مہر ادا کرنا۔ ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔ بیوی کا مہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اور شوہر پر واجب ہے۔(4)

3۔ برائی سے منع کرنا۔ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانو اوراپنے گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ (5) یہ آیت مبارکہ برائی سے ممانعت کے لیے ہے۔ شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اسے برائی سے منع کرتا رہے۔

4۔ بیوی پر اعتماد اور بھروسہ کرنا۔ اس حق کے متعلق ایک حدیث مبارکہ ملا حظہ فرمائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران اور محافظ ہے اور اس معاملہ میں عورت سے قیامت میں اللہ پاک پوچھ گچھ فرمائے گا۔ (7)

شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی پر اعتماد اور بھروسہ کرے اور گھریلو معاملات اس کے سپرد کرے تاکہ بیوی اپنی حیثیت کو پہچانے اور اس کا وقار اس میں خود اعتمادی پیدا کرے اور وہ نہایت ہی دلچسپی اور کوشش کے ساتھ گھریلومعاملات کو سنبھالے۔

5۔ بیوی کی عادات پر صبر وضبط کرنا۔ چنانچہ حدیث پاک میں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے فرمایا: کوئی مومن کسی ایماندار عورت سے بغض نہ رکھے اگر اسے اس کی کوئی بات ناپسند ہو تو کوئی دوسری بات پسندہوگی۔(8)

حوالہ نمبر 1۔ صراط الجنان، 1/348

حوالہ نمبر 2۔ میاں بیوی کے حقوق، ص 98

حوالہ نمبر 3۔ میاں بیوی کے حقوق، ص 99

حوالہ نمبر 4۔ پ 28، الطلاق:6

حوالہ نمبر 5۔ پ 4، النساء: 4

حوالہ نمبر 6۔ پ 28، التحریم: 6

حوالہ نمبر 7۔ میاں بیوی کے حقوق، ص96

حوالہ نمبر 8۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے شوہر اور بیوی کا تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدن کی بنیاد ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رشتہ کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔ اس رشتے کی اہمیت کے پیش نظر قرآن و حدیث میں شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کئی حقوق بیان فرمائے گئے ہیں، جن کو پورا کرنا میاں بیوی میں سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری بنتی ہے۔ بیوی کے شوہر پر درج ذیل حقوق بیان کیے:

1۔ نان و نفقہ: بیوی کے کھانے پینے وغیرہ ضروریات زندگی کا انتظام کرنا شوہر پر واجب ہے۔

2۔ سکنیٰ: بیوی کی رہائش کے لیے مکان کا انتظام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے اور ذہن میں رکھیں کہ یہاں مکان سے مراد علیحدہ گھر دينا نہیں، بلکہ ایسا کمرہ جس میں عورت خود مختار ہو کر زندگی گزار سکے، کسی کی مداخلت نہ ہو، ایسا کمرہ مہیا کرنے سے بھی یہ واجب ادا ہو جائے گا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- (پ 28،الطلاق:6) ترجمہ کنز الایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور انہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

3۔ مہر ادا کرنا: بیوی کامہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اورشوہر پر واجب ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (پ 4، النساء: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔

5۔ نیکی کی تلقین اور برائی سے ممانعت: شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ سے ا نیکی کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے منع کرے۔

6۔ حسن معاشرت: ہر معاملے میں بیوی سے اچھا سلوک رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس سے محبت میں اضافہ ہو گا۔ چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: (پ 4، النساء: 19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان (بیویوں) سے اچھا برتاؤ کرو۔

امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: مرد پر عورت کا حق نان ونفقہ دینا، رہنے کو مکان دینا مہر وقت پر ادا كرنا،اس کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ رکھنا، اسے خلاف شرع باتوں سے بچانا۔ (فتاوی رضویہ، 24/379، 380) البتہ عورت پر بھی ضروری ہے کہ شوہر کے حقوق ادا کرے اور اللہ و رسول کے حقوق کے بعد بیوی پر سب سے بڑھ کرحتی کہ اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شوہر کا حق ہے۔

اللہ کریم نے مردوں اور عورتوں کو جنسی بے راہروی اور وسوسہ شیطانی سے بچانے نیز نسل انسانی کی بقا و بڑھوتری اور قلبی سکون حاصل کرنے کیلئے انہیں ایک خوبصورت رشتے میں پرویا ہے جسے رشتہ ازدواج کہتے ہیں یہ رشتہ جتنا اہم ہوتا ہے اتنا ہی نازک بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک دوسرے کی خلاف مزاج باتیں برداشت نہ کرنا، درگزر سے کام نا لینا،اور ایک دوسرے کی اچھائیوں کو نظر انداز کرکے صرف کمزوریوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے جس کے نتیجے میں گھر امن کا گہوارا تو درکنار جنگ کا میدان بن جاتا ہے۔

گھر کو امن اور خوشیوں کا گہوارا بنانے میں شوہر کا کردار بہت اہم ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیویوں کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟

اللہ رب العالمین بیویوں کے حقوق کے متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

امام ابو عبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں سے عورتوں کے حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہے اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: بلا شبہ میں اپنی بیوی کیلئے زینت اختیار کرتا ہوں جس طرح وہ میرے لئے بناؤ سنگھار کرتی ہے اور مجھے یہ بات پسند ہے کہ میں وہ تمام حقوق اچھی طرح سے حاصل کروں جو میرے اس پر ہیں اور وہ بھی اپنے حقوق حاصل کرے جو اسکے مجھ پر ہیں۔

بہر حال شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور شوہروں کو ان کا خیال رکھنا چاہیے ان کے لیے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے۔

سرکار مدینہ ﷺ کا ارشاد ہے: تم اپنے کپڑوں کو دھوؤ اور اپنے بالوں کی اصلاح کرو اور مسواک کرکے زینت اور پاکی حاصل کرو کیونکہ بنی اسرائیل ان چیزوں کا اہتمام نہیں کیا کرتے تھے اس لئے انکی عورتوں نے بدکاری کی۔ (جامع صغیر، ص 87، حدیث: 218)

طہارت و پاکیزگی کے حوالے سے خود سرکار ﷺ کی ذات مبارکہ بے مثال اور قابل تقلید ہے آپ ﷺ ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن اپنے بالوں کو تیل لگانا پسند فرماتے اور مسواک شریف کا استعمال فرماتے۔ معلوم ہوا کہ شوہر کو بھی طہارت و پاکیزگی اور صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا چاہیے اور حتی الامکان اپنی بیوی کے توقعات پر پورا اترنا چاہیے تاکہ زندگی کی یہ گاڑی شاہراہ حیات پر کامیابی کے ساتھ گامزن ہوسکے آئیے بیویوں کے حق میں شوہروں کی نصیحت کے لئے 5 فرامین مصطفیٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیں:

1۔ تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنی بیوی کے حق میں تم سب سے بہتر ہوں۔ (ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)

2۔ کوئی مسلمان شوہر اپنی مسلمان بیوی سے نفرت نہ کرے اگر اسکی ایک عادت نا پسند ہے تو دوسری پسند ہوگی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

3۔ تم میں سے کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دن کے آخر میں اس سے صحبت کرے گا۔ (بخاری،3/465، حدیث: 5204)

4۔ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ تمہارے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تم اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو اسکے ٹیڑھے پن کے باوجود اس سے فائدہ اٹھا لو اور اگر سیدھا کرنا چاہوگے تو اسے توڑ دو گے اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

5۔ عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی پسلی اگر تم اسے سیدھا کرنے چلےتو توڑ دوگے اور اگر چھوڑو تو ٹیڑھی ہی رہے گی پس تم عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو۔ (بخاری، 3 /457، حدیث: 5185)

صبر ایوب کی مثل ثواب: فرمان مصطفیٰ ﷺ: جس نے اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ اسے حضرت ایوب علیہ السلام کی مصیبت پر صبر کرنے کی مثل اجر عطا فرمائے گا۔اور اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے برے اخلاق پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اسے فرعون کی بیوی آسیہ کی مثل ثواب عطا فرمائے گا۔ (احیاء العلوم، 2/24)

خوش طبعی کرنا: محترم قارئین بیویوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ انکے ساتھ حسن سلوک اور خوش طبعی والا برتاؤ کیا جائے جیسا کہ پیارے آقا ﷺ بھی اپنی ازواج کی ساتھ خوش طبعی فرماتے روایتوں میں ہے کہ آپ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ کسی سفر میں اپنے سرتاج صاحب معراج ﷺ کے ساتھ تھی فرماتی ہیں کہ میں نے آپ ﷺ کے ساتھ دوڑ لگائی میں دوڑنے میں آگے نکل گئی پھر (کچھ عرصہ بعد)جب میں ذرا بھاری ہوگئی تو آپ نے دوڑ لگائی تو آپ مجھ سے آگے بڑھ گئے پھر فرمایا یہ اس جیت کا بدلہ ہے۔ معلوم ہوا کہ اپنی ازواج کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آنا اور نکی عادت کے مطابق مزاح کرنا سنت رسول ﷺ ہے۔

گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانا: اپنی بیویوں کی گھریلو کام کاج میں بھی ہاتھ بٹایا جائے روز مرہ کی زندگی میں ہم اپنے معمول کے چھوٹے بڑے کام خود ہی کرے عموماً گھروں میں مردوں کا مزاج حکم چلانے والا ہوتا ہے حالانکہ یہ سنت نہیں سنت تو یہ ہے کہ اپنے کام خود اپنے ہاتھ سے کیے جائے جیسے پیارے آقا ﷺ بھی اپنے روز مرہ کے کام خود ہی سر انجام دیتے تھے، حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے شہنشاہ مدینہ قرار قلب و سینہ ﷺ کو فرماتے سنا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسکا اجر دیا جاتا ہےراوی کہتے ہیں کہ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور اور اسے پانی پلایا پھر اسے بھی وہ حدیث پاک سنائی جو میں نے سنی تھی۔ (معجم کبیر، 18/258، حدیث: 646)

گھر میں بچوں کی طرح اور قوم میں مرد بن کر رہو: خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروق اعظم نے سخت مزاج ہونے کے باوجود فرمایا: آدمی کو اپنے گھر میں بچے کی طرح رہنا چاہیے اور جب اس سے دینی امور میں سے کوئی چیز طلب کی جائےجو اس کے پاس ہو تو اسے مرد پایا جائے حضرت لقمان نے فرمایا: عقل مند کو چاہیے کے گھر میں بچے کی طرح اور لوگوں میں مردوں کی طرح رہے۔ (احیاء العلوم، 6/57)

مذکورہ بالا روایات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شریعت نے مرد کو اپنے اہل خانہ کے ساتھ سنگ دلی اور بے حسی والا رویہ اپنانے سے منع کیا ہے مرد کو چاہیے کہ ایسا سایہ دار درخت بنے کہ جسکے سایہ میں اسکی بیوی اور دیگر اہل خانہ سکون حاصل کر سکیں۔

آئیے اب بیویوں کے شرعی حقوق بھی ملاحظہ کیجئے:

میرے آقا اعلی حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کی بارگاہ میں سوال کیا گیاشوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں ارشاد فرمایا: نفقہ سکنی(یعنی کھانا لباس و مکان وغیرہ)مہر حسن معاشرت، نیک باتوں اورحیاء و حجاب کی تعلیم و تاکید اور اسکے خلاف منع و تہدید، ہر جائز بات پر اسکی دلجوئ(عورت کے حقوق میں سےہے) اور مردان خدا کی سنت پر عمل کی توفیق ہو تو ماورائے مناہی شرعیہ اسکی ایذا کا تحمل کمال خیر ہے اگر چہ یہ حق زن نہیں (یعنی جن باتوں کا شریعت نے منع کیا ان میں کوئی رعایت نا دے،اسکے علاوہ جو معاملات ہیں ان میں سے اگر بیوی کی طرف سے کسی خلاف مزاج بات کے سبب تکلیف پہنچی تو صبر کرنا بہت بڑی بھلائی ہے البتہ یہ عورت کے حقوق میں سے نہیں)۔ (فتاویٰ رضویہ، 6/ 371)

اللہ کریم ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کی بھی پاسداری کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے پیاروں کا صدقہ عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین

نکاح کا لفظ سنتے ہی دل میں ایک بہت اچھا اور پاکیزہ رشتہ ذہن میں آتا ہے اور نکاح کے بعد گھر کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے بیوی اور شوہر کو اپنے اپنے حقوق سے آگاہی حاصل کرنا ضروری ہے جس طرح شوہروں کے بہت سے حقوق ہیں اسی طرح بیوی کے بھی بہت سے حقوق ہیں اور مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرے۔ اللہ پاک قران پاک میں فرماتا ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔

شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ (1)

اور ایک جگہ فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہتا ہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو اسے توڑ دے گا اور توڑنا طلاق ہے۔(2)

شوہر کو چاہیے کہ اپنی بیوی سے حسن سلوک سے پیش آئے اور اس سے نفرت ہرگز نہ کرے اگر ایک عادت اس کی بری لگے تو وہ اس کی خوبیوں میں غور و فکر کرے اور بیوی سے بدظن نہ ہو۔ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ بی بی کے حقوق شوہر پر کیا ہیں ؟فرمایا: نفقہ سکنی (کھانا لباس اور مکان) مہر حسن معاشرت نیک باتوں اور حیا اور حجاب کی تعلیم و تاکید اور اس کے خلاف سے منع اور تحدید ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی اور مردان خدا کی سنت پر عمل کی توفیق ہو تو ماورائے مناہئی شرعیہ میں اس کی ایذا کا تحمل کمال خیر ہے اگرچہ یہ حق زن نہیں (یعنی جن باتوں کو شریعت نے منع کیا ہے ان میں کوئی رعایت نہ دے ان کے علاوہ جو معاملات ہیں ان میں اگر بیوی کی طرف سے کسی خلاف مزاج بات کے سبب تکلیف پہنچے تو صبر کرنا بہت بڑی بھلائی البتہ یہ عورت کے حقوق میں سے نہیں ہے)۔ (3)

آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی بیوی کے برے اخلاق پر صبر کیا تو اللہ اسے حضرت ایوب علیہ السلام کے مصیبت پر صبر کرنے کی مثل اجر عطا فرمائے گا۔ (4)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ سے سوال ہوا کہ نبی ﷺ گھر میں کام کرتے تھے؟ فرمایا: ہاں آپ ﷺ اپنے نعلین مبارک خود گانٹھتے اور کپڑوں میں پیوند لگاتے اور وہ سارے کام کیا کرتے تھے جو مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ (5)

رسول ﷺ نے فرمایا جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اس کا اجر دیا جاتا ہے۔ (6)

بے شک مرد عورتوں پر حاکم ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی بیویوں پر ظلم کریں بلکہ انہیں مندرجہ بالا حقوق کا خیال رکھنا چاہیے مرد کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے لیے عفو و درگزر، بردباری، تحمل مزاجی اور وسیع ظرفی جیسی خوبیوں کا پیکر ہونا چاہیے۔

واقعی اگر شوہر اپنی بیوی کی اچھائیوں اور اس کے احسانات پر نظر رکھے اور معمولی غلطیوں پر اس سے درگزر کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس کا گھر خوشیوں کا گہوارہ نہ بنے بیوی کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ بہت واضح ہے کہ جو قربت اسے حاصل ہے وہ کسی اور کو حاصل نہیں اللہ پاک تمام لوگوں کو اپنے فرائض کو پورا کرنے نیز شوہروں کو بیوی کے حقوق ادا کرنے اور ان سے حسن سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حوالہ جات:

(1)(پردے کے بارے میں سوال جواب، ص119) ابن ماجہ، 2/478

(2) (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

(3) فتاوی رضویہ، 24/371

(4) (احیاء العلوم، 2/24)

(5) مسند امام احمد، 9/ 519، حدیث: 25396

(6)مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659

عورت بازار میں سجانے کی چیز نہیں ہے بلکہ عورت اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جو اگر بیٹی کی صورت میں ہو تو رحمت، ماں کی صورت میں ہو تو جنت، بہن کی صورت میں ہو تو محبت، اور اگر عورت بیوی کی صورت میں ہو تو عزت ہوتی ہے یہ نقطۂ نظر ہے اسلام کا کہ بیوی خاوند کی عزت ہوتی ہے۔

جس طرح شریعت مطہرہ نے بیوی پر مرد کے حقوق لازم کیے ہیں اسی طرح مرد (شوہر مرد) پر بھی بیوی کے حقوق لاگو فرمائے ہیں عورت کے حقوق مرد کے فرائض ہوتے ہیں۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عورت کے مرد پر چند حقوق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نفقہ سکنی، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء حجاب کی تعلیم و تاکید اور اسکے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات پر اس کی دلجوئی اور مردان خدا کی سنت پر عمل کی توفیق ہو تو ماورائے مناہئ شرعیہ میں اسکی ایذاء کا تحمل کمال خیر ہے اگرچہ یہ حق زن نہیں عورت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ مرد اپنی عورت (بیوی) کو محض لونڈی بنا کر نہ رکھےکیونکہ جسطرح اللہ پاک نے مردوں کو حاکمیت دی ہے اسی طرح قرآن پاک کی جب سورت النساء نازل ہوئی تو اس کی آیت نمبر 19 کے ایک حصے میں اللہ پاک نے مردوں کو خطاب فرماتے ہوئے فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔بخاری و مسلم شریف کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔

عورتوں سے اچھا سلوک کیا جائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے: اعلىٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مردوں کو چاہیے کہ عورتوں سے ضرور اچھا سلوک کریں پوچھا گیا: حضور کیوں؟ فرمایا کہ عورتوں کا سفارشی خود ہمارا رب العالمین ہے وہ فرماتا ہے کہ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھائی والا برتاؤ کرو۔ ان سے بد سلوکی نہ کرو۔ ترجمہ کنز العرفان: اگر تمہیں وہ نا پسند ہوں اور فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز نا پسند ہو اور پھر اسی آیت کے آخری حصے میں فرمایا: ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی۔

قرآن پاک یہ کہہ دیتا کہ (فيہ خيرًا) ہو سکتا ہے کہ وہ بیوی جو تہیں نا پسند ہو اس میں تمہارے لیے خیر رکھی ہو یہ تو قرآن کے الفاظ ہیں نا قرآن پاک صرف لفظ خیرًا بھی کہہ سکتا تھا خیرا بھی کافی تھا لیکن رب کریم نے فرمایا: (فيه خیرًا کثیرًا) ہو سکتا ہے کہ تم کہو کہ ٹھیک نہیں ہے، پیاری نہیں ہے،خوبصورت نہیں ہے، میرے جوڑ کی نہیں ہے، میرے مزاج کی نہیں ہے ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن فرمایا صبر کر! عورت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس سے حسن معاشرت فرمائے اور اگر کبھی کوئی بات کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے کہ جو خلاف عادت خلاف مزاج ہو تو درگزر سے کام لے حتی الامکان جہاں تک ہو سکے درگزر کرے اسکی پکڑ نہ کرے کہ اسطرح ضد پیدا ہو جاتی ہے اور سلجھی ہوئی بات الجھ جاتی ہے۔

بخاری و مسلم شریف کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت ٹیڑھی پسلی سے نکلی ہے یہ ٹیڑھی ہے تم اگر اسےسیدھا کرنے کی کوشش کرو گے ٹوٹ جائے گی مگر سیدھی نہیں ہو گی۔(مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

کنز العمال میں حدیث کے ایک اضافی الفاظ موجود ہیں نبی پاک ﷺ نے فرمایا: عورت بڑی بھی پڑھی لکھی ہو اس میں کچھ فطری جہالت پائی جاتی ہے جبھی نبی پاک ﷺ نے فرمایا: عورت جب جہالت دکھائے تو مرد کو چاہیے کہ وہ خاموش ہو جائے۔

حدیث کا ایک پہلو یہ ہے کہ عورت ٹیڑھی ہے سیدھا کرنے کی تم نے کوشش کی، کرو ضرور کرو سمجھانے کی، بہلانے کی، پھسلانے کی لیکن یہ توقع نہ کرو کہ یہ بالکل سیدھی ہو جائے گی، کیونکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ عورت فطرتاً ہی ایسی ہے یعنی کہ فطرةً ہی وہ ٹیڑھی ہے

دوسرا پہلو یہ ہے کہ تیری بیوی وہ بےعورت ہے جو اپنے ماں باپ کا گھر، اپنے بہن بھائی، اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر آئی تیری خاطر جہاں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، پڑھتی تھی، رہتی تھی، جہاں جوان ہوئی تھی، جہاں اس نے ناز دیکھے تھے، محبت دیکھی تھی، خلوص دیکھا تھا اپنے وہ سارے چھوڑ آئی ہے اب وہ تیرے گھر میں آئی ہے تیرے علاوہ سارے اس کے لیے غیر ہیں، یعنی ایک بات یہ بالکل بجا ہے کہ وہ ٹیڑھی ہے مگر دوسرا یہ بھی ہے کہ وہ ترے لیے بہت کچھ قربان کر کے آئی ہے تیرے لئے اس نے بہت کچھ چھوڑا ہے تو اس چکر میں نہ رہ کہ وہ ٹیڑھی ہے ہاں وہ تھی تو ٹیڑھی ہی لیکن وہ ٹیڑھی تیرے لئے اپنا سارا کچھ ہی چھوڑ آئی ہے قربان کر آئی ہے۔

تم اپنی بیویوں کیساتھ اس لیے اچھا سلوک کیا کرو کہ تمہاری بہنوں کیساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا کیونکہ اگر تیری بیوی ٹیڑھی ہے تو تیری بہن بھی ٹیڑھی ہی ہے کیونکہ وہ بھی ایک عورت ہی ہے نا اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری بہن کیساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو یہی معاملہ کہ جو تم اپنی بہن کیلئے خواہش رکھتے ہو اپنی بیوی کیساتھ بھی اپناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ احسان کا بدلہ احسان ہی سے عطا فرماتا ہے۔ عورت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس سے بغض نہ رکھا جائے کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان مرد اپنی عورت مؤمنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اسکی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند بھی ہو گی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

لہذا اس کی اچھائیوں پر نظر رکھے اور خامیوں کی مناسب طریقے سے اصلاح کی کوشش جاری رکھے۔

یاد رکھو! جس طرح قیامت کے دن بیوی سے پوچھا جائے گا کہ خاوند کے حقوق ادا کیوں نہیں کیے اور خاوند سے پوچھا جائے گا کہ بیوی کے حقوق ادا کیوں نہیں کیے اسی طرح خاوند سے پوچھا جائے گا کہ تیری بیوی نماز کیوں نہیں پڑھتی تھی تو تو اس پر حاکم تھا، نگہبان تھا، امیر تھا قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔

اچھا اب نماز عورت نہیں پڑھتی، پردہ نہیں کرتی، حیاء نہیں کرتی تو اس کے متعلق عورت سے تو سوال ہوگا ہی ہو گا ساتھ ہی مرد سے پوچھا جائے گا کہ تیری بیوی نمازی کیوں نہیں تھی، پردہ کیوں نہیں کیا کرتی تھی، با حیاء کیوں نہ تھی کیوں نماز بیوی نہیں پڑھتی، پردہ بیوی نہیں کرتی، باحیاء بیوی نہیں مگر سوال مرد سے شوہر سے کیوں، کس لیے، کیونکہ فرمایا گیا کہ مرد اپنی عورتوں پر حاکم مقرر کیے گئے ہیں۔

بیویاں نافرمان اس لیے ہوتی ہیں کہ ہم انہیں اپنا فرمانبردار بنانا چاہتے ہیں صرف اپنے سامنے جھکانے کے چکر میں ہیں اگر ہم اپنا یہ ذہن بنالیں کہ اسے اللہ و رسول کے سامنے جھکائیں گے تو اللہ پاک اسے تیرے سامنے جھکا دے گا، تیرا فرمانبردار بنا دے گا۔

اسلام امن و سلامتی اور باہمی تعاون خیر خواہی کا دین ہے اس کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ کمزور کے کھانے پینے پہننے اوڑنے رہنے سہنے کی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہوتی ہے جو اس کی اہلیت رکھتے ہوں جیسے بچوں ذمہ داری والدین پر اسی طرح عورت کی کفالت کی ذمہ داری اس کی عمر کے مختلف ادوار میں مختلف مردوں پر لازم قرار دی گئی ہے السلام نے عورت کے صنف نازک ہونے کا یوں خیال فرمایا کہ اس پر اولاد کو پالنے پوچھنے اور اچھی تربیت کی ذمہ داری تو عائد کی مگر اس کے ناتواں کندھوں پر کمانے کا بوجھ نہیں ڈالا بلکہ فکر معاش کی جان گھلانے والی پابندی اور کفالت کی باری ذمہ داری مردوں پر ہی عائد کی ہے۔

عورت بیٹی ہے تو والدین اس کی پرورش کریں بیوی ہے تو اس کی کفالت کا اس کے شوہر پر ہے نکاح کے ذریعے قائم ہونے والا رشتے پر غور کیجئے تو درحقیقت شوہر اپنی بیوی کے کھانے پینے رہن سہن وغیرہ کے اخراجات پورے کرنے اور اولاد کی کفالت کی ذمہ داریاں قبول کرتا ہے اسلام نے شوہر کو اس کی ذمہ داری کے پورے کرنے پر اجر و ثواب کی بشارت عطا فرمائی تاکہ شوہر خوش دلی کے ساتھ اپنی آخرت کا بھلا چاہتے ہوئے اپنی بیوی بچوں کی کفالت کرے اس خرچ کردہ رقم کو افضل قرار دیا چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایک وہ دینار جو تو نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا ایک وہ جسے غلام کی آزادی پر خرچ کیا ایک وہ جسے تو نے مسکین پر صدقہ کیا اور ایک دینار وہ جسے تو نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا ان میں سب سے زیادہ اجر و ثواب والا وہ ہے تو نے اپنی بیوی بچے پر خرچ کیا۔

اور عورت طلاق کی صورت میں جدائی کی بنا پر عدت کے دوران نان ونفقہ کی حقدار قرار پاتی ہے جبکہ شریعت کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے عدت شوہر کے گھر ہی گزارے جیسا کہ تفسیر صراط الجنان میں ہے: طلاق دی ہوئی عورت کو عدت پوری ہونے تک رہنے کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق مکان دینا شوہر پر واجب اور عدت کے زمانے میں نفقہ یعنی اخراجات دینا بھی واجب ہے۔

اسلام نے محروم شوہر کی وراثت سے بیوی کا حق مقرر کیا ہے کہ اولاد کی موجودگی میں وراثت سے آٹھویں ہی سے اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھے ہی سے کیا حقدار ہوگی اگر عورت ماں ہو تو اولاد اس کے لیے راحت و سکون کا سامان کرے گی اور اگر بہن ہو تو بھائی اس کی نگہداشت کریں گے یوں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عورت عمر کے کسی بھی معاشی پریشانی کا شکار نہیں ہوتی۔

اسلام کے اس نظام کفالت نے عورت کی عفت وعصمت پاک دامنی کی حفاظت کر کے اس کی عزت شرافت کو چار چاند لگا دئیے اس لیے عورت کو اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کا شکر گزار ہو کر قران و سنت کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں خواتین کے ساتھ حسن سلو ک حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔آپ ﷺ کے فرامین مبارک اور سیرت طیبہ سے خواتین کی قدر و منزلت اجاگر ہوتی ہے نبی کریم ﷺ نے خواتین کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ تاکید فرمائی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے ہیں اور میں تم میں سے اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کرنے والا ہوں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص583)

نبی کریم ﷺ نے جنت ماں کے قدموں میں قرار دی ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں کی خدمت کو لازم پکڑو کیونکہ جنت اس کے قدموں میں ہے۔


الله نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط عطا فرمائے ہیں اور معاشرے کی بنیاد میاں بیوی ہیں۔ اگر ان دونوں کے تعلقات درست ہوں گے، دونوں نبی کریم ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق زندگی گزارتے گے تو ایک اچھا معاشرہ وجود میں آئے گا۔ اسلام شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور میاں بیوی کے حقوق متعیّن کرتا ہے، ازواجی زندگی میں اصل پیار اور محبت ہیں جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہے۔

اب بیوی کے حقوق پر آپ کی خدمت میں 5 فرامین مصطفیٰ ﷺ پیش کئے جاتے ہیں۔

1۔ حق مہر کی ادائیگی: جس شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور اس کے لئے تھوڑا یا زیادہ مہر مقرر کیا۔لیکن اس کے جی میں اس کا حق ادا کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ تو قیامت کے دن وہ الله سے اس حال میں ملاقات کرےگا کہ وہ زانی ہوگا۔ (معجم کبیر، 8/35، حدیث: 7302)

2۔ بیوی پر اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرنا: عورتوں کے بارے میں بھلائی کی وصیت قبول کرو بےشک وہ تمہارے پاس قیدیوں کی طرح ہیں۔ (ترمذی، 2 / 387، حدیث: 1166)

3۔ عورت کے برے اخلاق کو برداشت کرنا: کوئی مومن مرد اپنی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگروہ اس کی کسی عادت کو ناپسند کرتا ہے تو کسی دوسری عادت کو پسند بھی تو کرتا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

4۔ بیوی کے ساتھ اچھا اخلاق: اور تم میں سے بہتر وہ ہیں جو اپنی بیوی کے حق میں اخلاق کے معاملے میں بہتر ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

5۔ بیوی کے ساتھ حسن سلوک: اور جو تمہاری ملکیت میں ہیں بیویاں ان کے بارے میں الله کا تقویٰ اختیار کرو۔ (مکاشفۃ القلوب، ص580)

ماں باپ کے بعد بیوی ہی وہ ہستی ہے جو مرد کا ہر حال میں ساتھ نبھاتی ہے اور اس کی محبت اور رضامندی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتی، چنانچہ سکون تب ہی ہو گا جب نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب زندگی کو اپنائیں گے۔ لہذا مرد پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے جو شریعت نے بحیثیت شوہر اس پر عائد کئے ہیں۔

الله پاک میاں بیوی کے خوبصورت رشتے کو سلامت رکھے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

اسلام، شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے، ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت اور ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔

بیوی کے حقوق:

(1) مہر: ایک اسلامی اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہے کہ ایسے مرد و عورت قیامت کے روز زانی و زانیہ اٹھیں گے۔ یہ عورت کو بطور اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔ اگر مہر کی مقدار کو نکاح کے عقد میں متعین نہیں کی گیا تو بھی مہر مثل یعنی عورت کی خاندانی مہر واجب ہوگی۔

(2) نفقہ: یعنی بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے، حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔

(3) رہائش: یہ بھی بہت اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا واجب ہے۔

(4) حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا، شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔ سورہ نسا میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایات کا بیان ہے۔

(5) ایذا رسانی سے بچنا: یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔

اللہ زوجین کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

انسان کے قریبی ترین تعلقات میں سے میاں بیوی کا تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدّن کی بنیاد ہےاور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس رشتہ کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ(۲۱) (پ 21، الروم: 21) ترجمہ کنز الایمان:اور اس کی نشانیوں سےہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی۔ بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔

بیوی کے حقوق:

(1) نان ونفقہ: بیوی کے کھانے، پینےوغیرہ ضروریات زندگی کاانتظام کرنا شوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِؕ-(پ 2، البقرۃ:233)ترجمہ کنز الایمان:اور جس کا بچہ ہے،اس پر عورتوں کا کھانا اور پہننا (لباس)ہے حسب دستور۔

(2) سکنیٰ: بیوی کی رہائش کےلیےمکان کا انتظام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے اور ذہن میں رکھیں کہ یہاں مکان سے مرادعلیٰحدہ گھر دینا نہیں،بلکہ ایسا کمرہ،جس میں عورت خود مختار ہو کر زندگی گزار سکے،کسی کی مداخلت نہ ہو،ایسا کمرہ مہیّا کرنے سے بھی یہ واجب ادا ہو جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- (پ 28،الطلاق:6) ترجمہ کنز الایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور انہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔

(3) مہر ادا کرنا: بیوی کامہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اورشوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- (پ4،نساء:4) ترجمہ کنز الایمان: اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو۔

(4) نیکی کی تلقین اور برائی سے ممانعت: شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اسے نیکی کی تلقین کرتا رہے اور برائی سے منع کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم ارشاد فرمایا ہے کہ خود اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا (پ28، التحریم:6) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ۔

(5) حسن معاشرت: ہر معاملے میں بیوی سےاچھا سلوک رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس سے محبت میں اضافہ ہو گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

اللہ پاک میاں بیوی دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق احسن طریقے سے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اللہ ہمیں اپنے گھریلو معاملات بھی شریعت کے مطابق چلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین