بیوی کے پانچ حقوق از بنت طفیل الرحمن ہاشمی، جامعۃ
المدینہ فیض مدینہ نارتھ کراچی
اللہ پاک نے میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت بھرا
بڑا پیارا ر شتہ پیدا فرمایا ہے اللہ پاک نے نسل انسانی کی بقا اور بڑھوتری کے لئے
مر دوعورت کو جس خوبصورت رشتے کی لڑی میں پرویا ہے وہ رشتہ جس قدر اہم ہے اسی قدر
نازک بھی ہے۔ باہمی تعاون، خلوص، چاہت اور در گزر ازدواجی زندگی میں خوشیوں کے رنگ
بکھیر دیتے ہیں لیکن اس کے برعکس عدم برداشت اور در گزر نہ کرنے اور ہمیشہ ایک
دوسرے کی برائیوں پر نظر رکھنے کی عادت زندگی میں زہر گھول دیتی ہے گھر کو امن اور
خوشیوں کا گہوارہ بنانے میں شوہر کا کردار بہت ہی اہم ہے اگر وہ اپنی ذمہ داریاں
اچھے طریقے سے نہیں نبھائے گا اور بیوی کے حقوق پورے نہیں کرے گا تو اس کے گھر میں
خوشیوں کے پھول کیسے کھلیں گے؟
اللہ رب العالمین جل جلالہ نے بیویوں کے حقوق سے
متعلق قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: وَ
لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔
یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب
ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔ امام ابو عبد الله محمد بن
احمد بن ابو بکر قرطبى رحمۃ الله علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: حقوق زوجیت میں
حقوق مردوں پر اسی طرح واجب ہیں جس طرح مردوں کے حقوق عورتوں پر واجب ہیں۔
حضرت معاویہ بن حيدة فرماتے ہیں کہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:
يارسول الله ﷺ! بیوی کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟‘ ارشاد فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں
بھی کھلاؤ پہنو تو انہیں بھی پہناؤ، چہرے پر نہ مارو، اسے برا نہ کہو اور اسے گھر
سے باہر مت چھوڑو۔(ابو داود، 2/356،حدیث: 2142)
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ
میں جب یہ سوال ہوا کہ شوہر پر بیوی کے کیا حقوق ہیں تو ارشاد فرمایا: نفقہ سکنی
(یعنی کھانا، لباس و مکان)، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء و حجاب کی تعلیم
و تاکید اور اس کے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی (عورت کے
حقوق میں سے ہے) اور مردان خدا کی سنت پہ عمل کی تو فیق ہو تو ماورائے مناہی شرعیہ
میں اس کی ایذا کا تحمل کمال خیر ہے اگر چہ یہ حق زن نہیں (یعنی جن باتوں کو شریعت
نے منع کیا ہے ان میں کوئی رعایت نہ دے، ان کے علاوہ جو معاملات ہیں ان میں اگر
بیوی کی طرف سے کسی خلاف مزاج بات کے سبب تکلیف پہنچے تو صبر کرنا بہت بڑی بھلائی
ہے۔ البتہ یہ عورت کے حقوق میں سے نہیں ہے)۔
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی
مطبوعہ 472 صفحات پر مشتمل کتاب بیانات عطاریہ حصہ دوم کے صفحہ 164 پر ہے: ایک
آدمی کی بیوی نے کھانے میں نمک زیادہ ڈال دیا۔ اسے غصہ تو بہت آیا مگر یہ سوچتے
ہوئے وہ غصے کو پی گیا کہ میں بھی تو خطائیں کرتا رہتا ہوں اگر آج میں نے بیوی کی
خطا پر سختی سے گرفت کی تو کہیں ایسانہ ہو کہ کل بروز قیامت اللہ بھی میری خطاؤں
پر گرفت فرمالے۔ چنانچہ اس نے دل ہی دل میں اپنی زوجہ کی خطا معاف کر دی۔ انتقال
کے بعد اس کو کسی نے خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟
اس نے جواب دیا کہ گناہوں کی کثرت کے سبب عذاب ہونے ہی والا تھا کہ الله نے
فرمایا: میری بندی نے سالن میں نمک زیادہ ڈال دیا تھا اور تم نے اس کی خطا معاف کر
دی تھی، جاؤ میں بھی اس کے صلے میں تم کو آج معاف کرتا ہوں۔
سبحن اللہ! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک کی رحمت کس قدر
وسیع ہے کہ ایک ایسا شخص جو کثرت عصیاں کے سبب گر فتار عذاب ہونے ہی والا تھا اس
کے تمام قصور صرف اس لئے معاف کر دیئے گئے کہ اس نے اپنی زوجہ کا ایک چھوٹا سا
قصور معاف کر دیا تھا اگر ہم میں سے ہر شخص اپنی زوجہ کی غلطیوں اور بد اخلاقیوں
پر صبر کرنے لگے تو نہ صرف گھر میں چاہت و امن اور باہمی اتفاق کی فضا قائم ہو
جائے ساتھ ہی ساتھ اعمال نامے میں نیکیوں کا انبار بھی لگ جائے۔
مرد کو چاہئے کہ اپنی بیوی کے لئے ایسا درخت ثابت
ہو جس کے سائے میں اسے ہر طرح کا سکون میسر آئے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ
بیوی کے شرعی حقوقی احسن طریقے سے ادا کرے۔
شوہر کو چاہیے کہ وہ اپنی زوجہ کے حقوق کو اچھی طرح
ادا کرے اور بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق کو کماحقہ ادا کرے، حقوق
العباد کی تلفی ناجائز و حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔
اگر بالفرض بیوی شوہر کے حقوق ادانہ بھی کرے تو
شوہر کو اس پر صبر سے کام لینا افضل ہے۔