عورت بازار میں سجانے کی چیز نہیں ہے بلکہ عورت اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جو اگر بیٹی کی صورت میں ہو تو رحمت، ماں کی صورت میں ہو تو جنت، بہن کی صورت میں ہو تو محبت، اور اگر عورت بیوی کی صورت میں ہو تو عزت ہوتی ہے یہ نقطۂ نظر ہے اسلام کا کہ بیوی خاوند کی عزت ہوتی ہے۔

جس طرح شریعت مطہرہ نے بیوی پر مرد کے حقوق لازم کیے ہیں اسی طرح مرد (شوہر مرد) پر بھی بیوی کے حقوق لاگو فرمائے ہیں عورت کے حقوق مرد کے فرائض ہوتے ہیں۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عورت کے مرد پر چند حقوق کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں: نفقہ سکنی، مہر، حسن معاشرت، نیک باتوں اور حیاء حجاب کی تعلیم و تاکید اور اسکے خلاف سے منع و تہدید، ہر جائز بات پر اس کی دلجوئی اور مردان خدا کی سنت پر عمل کی توفیق ہو تو ماورائے مناہئ شرعیہ میں اسکی ایذاء کا تحمل کمال خیر ہے اگرچہ یہ حق زن نہیں عورت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ مرد اپنی عورت (بیوی) کو محض لونڈی بنا کر نہ رکھےکیونکہ جسطرح اللہ پاک نے مردوں کو حاکمیت دی ہے اسی طرح قرآن پاک کی جب سورت النساء نازل ہوئی تو اس کی آیت نمبر 19 کے ایک حصے میں اللہ پاک نے مردوں کو خطاب فرماتے ہوئے فرمایا: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔بخاری و مسلم شریف کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔

عورتوں سے اچھا سلوک کیا جائے اس کی وضاحت کرتے ہوئے: اعلىٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مردوں کو چاہیے کہ عورتوں سے ضرور اچھا سلوک کریں پوچھا گیا: حضور کیوں؟ فرمایا کہ عورتوں کا سفارشی خود ہمارا رب العالمین ہے وہ فرماتا ہے کہ اپنی عورتوں کے ساتھ اچھائی والا برتاؤ کرو۔ ان سے بد سلوکی نہ کرو۔ ترجمہ کنز العرفان: اگر تمہیں وہ نا پسند ہوں اور فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تمہیں کوئی چیز نا پسند ہو اور پھر اسی آیت کے آخری حصے میں فرمایا: ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی۔

قرآن پاک یہ کہہ دیتا کہ (فيہ خيرًا) ہو سکتا ہے کہ وہ بیوی جو تہیں نا پسند ہو اس میں تمہارے لیے خیر رکھی ہو یہ تو قرآن کے الفاظ ہیں نا قرآن پاک صرف لفظ خیرًا بھی کہہ سکتا تھا خیرا بھی کافی تھا لیکن رب کریم نے فرمایا: (فيه خیرًا کثیرًا) ہو سکتا ہے کہ تم کہو کہ ٹھیک نہیں ہے، پیاری نہیں ہے،خوبصورت نہیں ہے، میرے جوڑ کی نہیں ہے، میرے مزاج کی نہیں ہے ساری باتیں ٹھیک ہیں لیکن فرمایا صبر کر! عورت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس سے حسن معاشرت فرمائے اور اگر کبھی کوئی بات کوئی ایسی بات ہو جاتی ہے کہ جو خلاف عادت خلاف مزاج ہو تو درگزر سے کام لے حتی الامکان جہاں تک ہو سکے درگزر کرے اسکی پکڑ نہ کرے کہ اسطرح ضد پیدا ہو جاتی ہے اور سلجھی ہوئی بات الجھ جاتی ہے۔

بخاری و مسلم شریف کی حدیث کے یہ الفاظ ہیں جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت ٹیڑھی پسلی سے نکلی ہے یہ ٹیڑھی ہے تم اگر اسےسیدھا کرنے کی کوشش کرو گے ٹوٹ جائے گی مگر سیدھی نہیں ہو گی۔(مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

کنز العمال میں حدیث کے ایک اضافی الفاظ موجود ہیں نبی پاک ﷺ نے فرمایا: عورت بڑی بھی پڑھی لکھی ہو اس میں کچھ فطری جہالت پائی جاتی ہے جبھی نبی پاک ﷺ نے فرمایا: عورت جب جہالت دکھائے تو مرد کو چاہیے کہ وہ خاموش ہو جائے۔

حدیث کا ایک پہلو یہ ہے کہ عورت ٹیڑھی ہے سیدھا کرنے کی تم نے کوشش کی، کرو ضرور کرو سمجھانے کی، بہلانے کی، پھسلانے کی لیکن یہ توقع نہ کرو کہ یہ بالکل سیدھی ہو جائے گی، کیونکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا کہ عورت فطرتاً ہی ایسی ہے یعنی کہ فطرةً ہی وہ ٹیڑھی ہے

دوسرا پہلو یہ ہے کہ تیری بیوی وہ بےعورت ہے جو اپنے ماں باپ کا گھر، اپنے بہن بھائی، اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر آئی تیری خاطر جہاں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، پڑھتی تھی، رہتی تھی، جہاں جوان ہوئی تھی، جہاں اس نے ناز دیکھے تھے، محبت دیکھی تھی، خلوص دیکھا تھا اپنے وہ سارے چھوڑ آئی ہے اب وہ تیرے گھر میں آئی ہے تیرے علاوہ سارے اس کے لیے غیر ہیں، یعنی ایک بات یہ بالکل بجا ہے کہ وہ ٹیڑھی ہے مگر دوسرا یہ بھی ہے کہ وہ ترے لیے بہت کچھ قربان کر کے آئی ہے تیرے لئے اس نے بہت کچھ چھوڑا ہے تو اس چکر میں نہ رہ کہ وہ ٹیڑھی ہے ہاں وہ تھی تو ٹیڑھی ہی لیکن وہ ٹیڑھی تیرے لئے اپنا سارا کچھ ہی چھوڑ آئی ہے قربان کر آئی ہے۔

تم اپنی بیویوں کیساتھ اس لیے اچھا سلوک کیا کرو کہ تمہاری بہنوں کیساتھ بھی اچھا سلوک کیا جائے گا کیونکہ اگر تیری بیوی ٹیڑھی ہے تو تیری بہن بھی ٹیڑھی ہی ہے کیونکہ وہ بھی ایک عورت ہی ہے نا اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری بہن کیساتھ اچھا سلوک کیا جائے تو یہی معاملہ کہ جو تم اپنی بہن کیلئے خواہش رکھتے ہو اپنی بیوی کیساتھ بھی اپناؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللہ احسان کا بدلہ احسان ہی سے عطا فرماتا ہے۔ عورت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس سے بغض نہ رکھا جائے کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ پیارے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان مرد اپنی عورت مؤمنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اسکی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند بھی ہو گی۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1469)

لہذا اس کی اچھائیوں پر نظر رکھے اور خامیوں کی مناسب طریقے سے اصلاح کی کوشش جاری رکھے۔

یاد رکھو! جس طرح قیامت کے دن بیوی سے پوچھا جائے گا کہ خاوند کے حقوق ادا کیوں نہیں کیے اور خاوند سے پوچھا جائے گا کہ بیوی کے حقوق ادا کیوں نہیں کیے اسی طرح خاوند سے پوچھا جائے گا کہ تیری بیوی نماز کیوں نہیں پڑھتی تھی تو تو اس پر حاکم تھا، نگہبان تھا، امیر تھا قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔

اچھا اب نماز عورت نہیں پڑھتی، پردہ نہیں کرتی، حیاء نہیں کرتی تو اس کے متعلق عورت سے تو سوال ہوگا ہی ہو گا ساتھ ہی مرد سے پوچھا جائے گا کہ تیری بیوی نمازی کیوں نہیں تھی، پردہ کیوں نہیں کیا کرتی تھی، با حیاء کیوں نہ تھی کیوں نماز بیوی نہیں پڑھتی، پردہ بیوی نہیں کرتی، باحیاء بیوی نہیں مگر سوال مرد سے شوہر سے کیوں، کس لیے، کیونکہ فرمایا گیا کہ مرد اپنی عورتوں پر حاکم مقرر کیے گئے ہیں۔

بیویاں نافرمان اس لیے ہوتی ہیں کہ ہم انہیں اپنا فرمانبردار بنانا چاہتے ہیں صرف اپنے سامنے جھکانے کے چکر میں ہیں اگر ہم اپنا یہ ذہن بنالیں کہ اسے اللہ و رسول کے سامنے جھکائیں گے تو اللہ پاک اسے تیرے سامنے جھکا دے گا، تیرا فرمانبردار بنا دے گا۔