اسلام، شادی شدہ زندگی چاہتا ہے اور اس میں بیوی
اور شوہر کے حقوق متعین کرتا ہے۔ ازدواجی تعلق خدائی منصوبہ اور فطری عمل ہے،
ازدواجی تعلقات میں اصل پیار اور محبت ہے جو میاں بیوی کے مابین خوشگوار ذہنی حالت
اور کیفیت کا باعث ہوتا ہے۔ لیکن اگر میاں بیوی کے درمیان ناچاقی، نفرت اور
ناخوشگوار کیفیت ہو جائے تو اس کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 4، النساء:34) ترجمہ: مرد افسر ہیں عورتوں پر۔
بیوی کے حقوق:
(1) مہر: ایک اسلامی
اصطلاح ہے جو شادی کے وقت مرد کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کی جاتی ہے۔ مہر شادی
کا ایک لازمی جزو ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت
وعید ہے کہ ایسے مرد و عورت قیامت کے روز زانی و زانیہ اٹھیں گے۔ یہ عورت کو بطور
اکرام اور واجب حق کے دی جاتی ہے۔ اگر مہر کی مقدار کو نکاح کے عقد میں متعین نہیں
کی گیا تو بھی مہر مثل یعنی عورت کی خاندانی مہر واجب ہوگی۔
(2) نفقہ: یعنی بیوی کے
اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر واجب ہیں
جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، اگر بیوی شوہر سے جدا ہو جائے تو شوہر پر نفقہ
ضروری نہیں ہوگا۔ نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد کے ذریعہ شوہر کی ملکیت
اور اختیار میں ہو جاتی ہے، حتی کہ بیوی کا کمانے کی غرض سے شوہر کی اجازت کے بغیر
باہر نکلنا بھی درست نہیں ہے۔ لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے مطابق بیوی کے
اخراجات واجب ہیں گرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔
(3) رہائش: یہ بھی بہت
اہم حق ہے۔ یعنی شوہر پر اپنی استطاعت اور قدرت کے اعتبار سے رہائش کا انتظام کرنا
واجب ہے۔
(4) حسن سلوک: بیوی کے ساتھ
حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا،
شوہر پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی
ہے۔ سورہ نسا میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایات کا بیان ہے۔
(5) ایذا رسانی سے بچنا: یہ
تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو
بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ عبادہ بن صامت نے فرمایا کہ رسول اللہ نے
فیصلہ فرمایا کہ نقصان اٹھانا اور پہنچانا دونوں منع ہے۔