اللہ پاک کے اخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: النکاح من سنتی نکاح میری سنت ہے! نکاح اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ(بیویاں)تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔(پ2، البقرۃ:187)

اس سے نکاح کے رشتے کی اہمیت کا اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ یہ مقدس رشتہ دو انسانوں کے درمیان قائم ہوتا ہے، اسی لیے دینِ اسلام نے اس رشتے کی حفاظت کے پیشِ نظر بیوی پر شوہر کے اور شوہر پر بیوی کے حقوق کو لازم کیا،ہمارا مقصد یہاں شوہر پر جو بیوی کے حقوق ہیں ان کو بیان کرنا ہے۔

یاد رہے! بیوی کے حقوق کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق العباد کی شریعت مطہرہ میں جو اہمیت ہے وہ محتاج بیان نہیں ۔بیوی کے اپنے خاوند پر کچھ تو مالی حقوق ہیں اور کچھ معاشرتی، جیسے مہر، نفقہ، رہائش دینا، اچھے انداز کے ساتھ رہنا، بیوی کو تکلیف نہ دینا وغیرہ، ہم دونوں کو اختصار سے بیان کرتے ہیں۔

بیوی کا مہر شوہر پر ضروری ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- ترجمۂ کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔(پ4، النسآء:4)

معلوم ہوا شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو اس کا مہر دے، بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ لاکھ دو لاکھ مہر فقط لکھوا لیتے ہیں اور دیتے نہیں بلکہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ بیوی معاف کر دے! یہ گناہ کا کام ہے، مرد مہر اتنا لکھوائے جتنا دے سکتا ہو، اور لڑکی والوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ اتنا ہی مہر رکھوائیں کہ شوہر بیچارا ادا کر سکے، شریعت نے اس شادی کو پسند فرمایا جو آسان ہو۔ اللہ پاک ہمیں حقوق کی ادائیگی اور ایک دوسرے کے لیے آسانی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

مرد پر نان و نفقہ واجب ہے: مرد حضرات پر مہر کے علاوہ نفقہ بھی واجب ہے، صاحب بہار شریعت، صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ القوی بہار شریعت کی جلد 2، حصہ الف، صفحہ نمبر 260 پر فرماتے ہیں: نفقہ سے مراد کھانا، کپڑا، رہنے کا مکان ہے اور نفقہ واجب ہونے کے تین سبب ہیں زوجیت، نسب، ملک۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖؕ-وَ مَنْ قُدِرَ عَلَیْهِ رِزْقُهٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّاۤ اٰتٰىهُ اللّٰهُؕ-لَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَاۤ اٰتٰىهَاؕ-سَیَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا۠(7) ترجمۂ کنز الایمان: مقدور والا اپنے مقدور کے قابل نفقہ دے اور جس پر اس کا رزق تنگ کیا گیا وہ اس میں سے نفقہ دے جو اسے اللہ نے دیا اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتا مگر اسی قابل جتنا اسے دیا ہے قریب ہے کہ اللہ دشواری کے بعد آسانی فرمادے گا۔(پ28، الطلاق:7)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرد اپنی طاقت کے مطابق خوش دلی اور خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی زوجہ کو خرچہ وغیرہ دے اور تنگی کا خوف نہ کرے اگر کوئی پریشانی ہے بھی تو یہ وقتی ہے کیونکہ ہر دشواری کے بعد اللہ آسانی فرمائے گا۔

بیوی کی رہائش کا ذمہ شوہر پر ہے: اسی طرح بیوی کو رہائش دینا بھی شوہر پر لازم ہے اوربیوی کے حقوق میں شامل ہے چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور ا نہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی کرو۔ (پ28، الطلاق:6)

لہذا پتہ چلا کہ مہر نفقہ رہائش یہ وہ عورت کے حقوق ہیں جو شوہر پر لازم ہے لہذا شوہر ان کو صدقِ دل سے اللہ کی رضا کے لیے ادا کرے اور اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا یہ فرمان بھی یاد رکھیں: مسلمان جو کچھ اپنے اہل پر خرچ کرے اور نیت ثواب کی ہو تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔ (صحیح بخاری،باب النفقات،باب فضل النفقہ علی الاھل ۔۔ ۔الخ،حدیث: 5351)

یہ کچھ عورت کے وہ حقوق تھے جن کا تعلق مال سے تھا اب آئیے اختصار کے ساتھ غیر مالی حقوق کا بھی تذکرہ کرتے ہیں:

عورت کی غلطیوں کے ساتھ اسے قبول کرو: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، ہر گز تمہارے لیے سیدھی نہیں ہوگی، اگر تم اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو! تو اسی حالت میں فائدہ حاصل کرو، اگر سیدھا کرنے جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے، اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔(مشکاۃ،حدیث3239)

اس سے معلوم ہوا کہ عورت کا ٹیڑھا ہونا اس کی فطرت سے ہے، وہ مکمل سیدھی ہوجائے ایسا نہیں ہو سکتا، اس لیے مرد حضرات کو تحمل و بردباری کے ساتھ درگزر سے کام لیتے ہوئے عورت کی غلطیوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہے۔

شوہر کے لیے نفیس تعلیم: رسول کریم روؤف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کوئی مؤمن کسی مؤمنہ بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا۔(مشکاۃ،حدیث،3240)

سبحان اللہ! کتنی پیاری اور نفیس تعلیم ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ مرد کو بے عیب بیوی ملنا ناممکن ہے، اسے چاہیے کہ اس کی برائیاں نظر انداز کرے اور اچھائیوں پر نظر رکھے اور اپنی بیوی سے محبت کرے اسے دشمن ہر گز نا جانے۔ اللہ پاک ہمیں اپنی رضا کے لیے ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔