بہر حال شرعی اور اخلاقی ہر لحاظ سے بیویوں کے حقوق بھی بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اور شوہر کو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ علاوہ ازیں بیوی کے جائز مطالبات کو پورا کرنے اور جائز خواہشات پر پورا اُترنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے جس طرح شوہر یہ چاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے بن سنور کر رہے اسی طرح اسے بھی بیوی کی فطری چاہت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی دلجوئی کے لیے لباس وغیرہ کی صفائی ستھرائی کی طرف خاص۔ توجہ دینی چاہیے۔ خواہ وہ زبان سے اس بات کا اظہار کرے یا نہ کر یا کرے۔ شوہر پر بیوی کے چند حقوق ملا حظہ کیجئے:

حسن اخلاق سے پیش آنا: شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے۔ کہ وہ اپنی بیوی سے حسن اخلاق سے پیش آئے۔ اس سے نرمی سے بات کرے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں اچھے وہ لوگ ہیں جو عورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں۔ ( سنن ابن ماجہ ، أبواب النکاح، باب حسن معاشرة النساء،الحدیث: 1978، ج 2، ص 488)

ایذا نہ دینا: شوہر پر ایک حق یہ بھی ہےکہ بیوی کو کبھی تکلیف نہ دے اسےکوئی ایذ نہ پہنچائے۔ اس پر سختی نہ کرے چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی شخص اپنی عورت کو نہ مارے جیسے غلام کو مارتا ہے پھر دوسرے وقت اس سے مجامعت کرے گا ۔ (صحیح البخاری ، کتاب النکاح باب ما يكره من ضرب النساء، الحدیث: 5204 ج 3ص 465)

غلطی پر در گزر کرنا: شوہر پر حق یہ بھی ہے کےبیوی سے کوئی ایسا فعل ہو جائے تو اسے معاف کردے۔ اس کی غلطیوں پر درگزر کرے۔ چنانچہ حضور اکرم نے ارشاد فرمایا: مسلمان مرد عورت مومنہ کو مبغوض نہ رکھے اگر اس کی ایک عادت بری معلوم ہوتی ہے۔ دوسری پسند ہوگی۔ یعنی تمام عادتیں خراب نہیں ہوں گی جب کہ اچھی بری ہر قسم کی باتیں ہوں گی تو مرد کو یہ نہ چاہیے کہ خراب ہی عادت کو دیکھتا رہے بلکہ بری عادت سے چشم پوشی کرے اور اچھی عادت کی طرف نظر کرے۔ (المرجع السابق۔الحدیث:63۔(1469) ص775)

اچھی عادات تلاش کرنا:شوہر پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اچھا گمان رکھے۔ بیوی کی اچھی عادات تلاش کرے جس سے بیوی کو کوئی عذرنہ ہو۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں میں زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی ر ہے گی۔ ( صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب الوصاة بالنساء، الحديث: 5186، ج 3، ص457)

شوہر کا گھریلو کام کرنا سنت ہے: شوہر پر حق یہ بھی ہے کہ عموماً گھر میں شوہر کا مزاج اپنی بیوی پر حکم چلانے کا ہوتا ہے۔ معمولی کام کے لیے بھی اسے تنگ کیا جاتا ہے جہاں تک ممکن ہو خود بھی بیوی کی خدمت کرے کہ اس میں شوہر کے لیے اجرو ثواب ہے۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اسے اس کا اجر دیا جاتا ہے۔(مجمع الزوائد، كتاب الزكاة، باب فى نفقة الرجل۔ الخ 300/3حدیث: 4659)

بیوی پر خرچ کرنے کا اجر:شوہر پر حق یہ بھی ہے کہ وہ بیوی کے کھانے، پہننے، رہنے اور دوسری ضروریات زندگی کا اپنی حیثیت کے مطابق انتظام کرے۔ اپنی بیوی پر تنگی کرنے کے بجائے رضائے الٰہی کے لئے دل کھول کر خرچ کریں۔ چنانچہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی رضا کے لیے تم جتنا بھی خرچ کرتے ہو اس کا اجر دیا جائے گا۔ حتی کہ جو لقمہ تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔ (بخاری کتاب الجنائز، باب رثاء النبي ۔۔۔۔ الخ، 1/438، حدیث1295)

یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔