عبدالحکیم عطاری رضوی (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضان
غوث اعظم حیدرآباد سندھ، پاکستان)
الحمدللہ دین اسلام میں ہر کسی کے حقوق ہیں اور ان کے حقوق
کو پورے کرنے پر تاکید کی گئی ہیں۔ میاں وبیوی کے حقوق کے تو اللہ تبارک وتعالیٰ
نے قرآن مجید میں اس رشتے کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار کیا ہے تو ان کے آپس
میں ایک دوسرے پر حقوق ہیں۔ہر مسلمان مرد کو چاہیئے کہ اپنی زوجہ کے حقوق کا خاص
خیال رکھے۔ ہر بات پر ٹوکنا یا تھوڑی تھوڑی بات پر اسے لعن وطعن کرنا یہ گھر کے
اجڑنے کا سبب ہے اس لیے ہر ممکن مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ حل کریں۔ اور ان کے حقوق
کے بارے میں احادیث کریمہ میں بھی خوب وضاحت فرمائی گئی ہے۔
انسان کے قریبی
ترین تعلقات میں سے میاں بیوی کا تعلق ہے، حتی کہ ازدواجی تعلق انسانی تمدّن کی
بنیاد ہےاور اللہ تبارک و تعالیٰ نے اِس رشتہ کو اپنی قدرت کی نشانیوں میں شمار
فرمایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ
خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ
بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةًؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ
یَّتَفَكَّرُوْنَ(21) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے
لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ اُن سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبّت اور
رحمت رکھی بےشک اس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔(پ21، الروم: 21 )
اِس رشتے کی اہمیت
کے پیشِ نظرقرآن و حدیث میں شوہر کے بیوی پر اور بیوی کے شوہر پر کئی حقوق بیان
فرمائے گئے ہیں،جن کو پورا کرنا میاں بیوی میں سے ہر ایک کی شرعی ذمہ داری بنتی
ہے۔بیوی کے شوہر پر درج ذیل حقوق بیان کیے گئے ہیں:
(1)نان
ونفقہ:بیوی
کے کھانے، پینےوغیرہ ضروریاتِ زندگی کاانتظام کرنا شوہر پر واجب ہے۔چنانچہ اللہ
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ عَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَ كِسْوَتُهُنَّ
بِالْمَعْرُوْفِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جس کا بچہ ہے اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے
حسب دستور۔(پ2، البقرۃ:233)
(2)سُکنیٰ:بیوی کی رہائش کےلیےمکان
کا انتظام کرنا بھی شوہر پر واجب ہے اور ذہن میں رکھیں کہ یہاں مکان سے
مرادعلیٰحدہ گھر دینا نہیں ،بلکہ ایسا کمرہ،جس میں عورت خود مختار ہو کر زندگی
گزار سکے،کسی کی مداخلت نہ ہو،ایسا کمرہ مہیّا کرنے سے بھی یہ واجب ادا ہو جائے
گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ
وَ لَا تُضَآرُّوْهُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْهِنَّؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: عورتوں
کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو اپنی طاقت بھر اور ا نہیں ضرر نہ دو کہ ان پر تنگی
کرو۔ (پ28، الطلاق:6)
(3)مہر ادا کرنا:بیوی کامہر ادا کرنا بھی بیوی کا حق اورشوہر پر واجب
ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةًؕ- ترجمۂ
کنز الایمان: اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو۔ (پ4، النسآء:4)
(4)نیکی
کی تلقین اور برائی سے ممانعت:شوہر پر بیوی کا یہ بھی حق ہے کہ اُسے نیکی کی تلقین کرتا
رہے اور برائی سے منع کرے،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو حکم ارشاد فرمایا ہے کہ
خود اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچائیں۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ ترجَمۂ
کنزالایمان:اے ایمان والو اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن
آدمی اور پتھر ہیں۔ (پ28، التحریم:6)
(5)حسنِ
معاشرت:ہر
معاملے میں بیوی سےاچھا سُلوک رکھنا بھی ضروری ہے کہ اِس سے محبت میں اضافہ ہو
گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔(پ4، النسآء: 19 )
امام اہلسنت الشاہ
امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر پر بیوی کے حقوق بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے
ہیں:’’مرد پر عورت کا حق نان ونفقہ دینا،رہنے کو مکان دینا،مہر وقت پر ادا
کرنا،اُس کے ساتھ بھلائی کا برتاؤ رکھنا،اُسے خلافِ شرع باتوں سے بچانا۔‘‘(فتاوی
رضویہ،ج24،ص 379، 380،رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
البتہ عورت پر بھی
ضروری ہے کہ شوہر کے حقوق ادا کرے اوراللہ و رسول عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے حقوق کےبعد بیوی پر سب سے بڑھ کرحتی کہ اپنے ماں باپ سے بھی بڑھ کر شوہر
کا حق ہے۔
حضرت سیّدتناعائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کی:’’ای الناس
اعظم حقا علی المرأۃ؟ ترجمہ: عورت پرجن لوگوں کے حقوق ہیں،اُن میں سب سے زیادہ حق کس کاہے؟تو
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’زوجھا‘‘ترجمہ:اُس کے شوہر
کا۔(المستدرک علی الصحیحین،ج4،ص167،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)
امام اہلسنت الشاہ
امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ شوہر کے حقوق کے بارے میں فرماتے ہیں:’’اور عورت پر
مرد کا حق خاص امورِ متعلقہ زوجیت (ازدواجی زندگی سے متعلق،جو بھی حقوق
ہیں،اُن)میں اللہ و رسول(عزوجل وصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے بعد تمام حقوق
حتی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے۔اِن امور میں اُس کے احکام کی اطاعت اور اُس کے
ناموس کی نگہداشت عورت پر فرض اہم ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،ج24،ص380،رضا
فاؤنڈیشن،لاھور)(الحاصل و الترغیب)
اسلامی تعلیمات اور قرآن پاک واحادیث کریمہ کے پیش نظر یہ
بات عیاں ہے کہ دین اسلام میں بندے کو زندگی گزارنے کے تمدن واسلوب دیے گئے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بندے کو معاشرے میں رہنے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک
کرنے کیلئے۔ ہر ایک پر باہم حقوق رکھے ہیں۔ تاکہ بندہ ان حقوق کو ادا کرکے احسن
طریقے سے حسن سلوک کرے۔ ان میں سے بیوی کے شوہر پر حقوق رکھے ہیں۔ چونکہ یہ ایک
بہت اہم ونازک رشتہ ہے۔ جس کو قائم رکھنے کیلئے باہم جو حقوق ہیں۔ ان کو ادا کرتے
ہوئے اس رشتے کو برقرار رکھنے کے ساتھ ہی بندہ اللہ پاک کے احکام کو بجا لائے اور
حضور علیہ الصلوة والسلام کے اسوہِٕ حسنہ پر عمل کرکے اللہ ورسولہ عزوجل وصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرے اور اپنی دنیا وآخرت بھی سنوارے کیونکہ اللہ
پاک کے احکام بجالانے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہی
کامیابی ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ دین اسلام کے دیے گئے تمدن وطریقوں کے مطابق زندگی
گزارکر اپنے رب عزوجل ومصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کریں۔ نیز
اپنے رشتہ داروں و تمام کے حقوق کی پاسداری ودیانتداری کریں۔
اللہ پاک ہم سب کو حقوق اللہ و حقوق العباد پورے کرنے کی
توفیق عطا کرے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔