چونکہ عورتوں کے حقوق کا بیان چل رہا ہے۔ لہٰذا یہاں
ان کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ اگر تمہارا ارادہ بیوی کو
چھوڑنے کا ہو تو مہر کی صورت میں جومال تم اسے دے چکے ہو تواس میں سے کچھ واپس نہ
لو۔ ا ہل عرب میں یہ بھی طریقہ تھا کہ اپنی بیوی کے علاوہ کوئی دوسری عورت انہیں
پسند آجاتی تو ا پنی بیوی پر جھوٹی تہمت لگاتے تاکہ وہ اس سے پریشان ہو کر جو کچھ
لے چکی ہے واپس کردے اور طلاق حاصل کر لے۔ (تفسیر بیضاوی، 2 / 163)
عورت اور مرد دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے
حقوق کا لحاظ رکھیں، اس سلسلے میں 5 احادیث درج ذیل ہیں:
(1) حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں تمہیں عورتوں
کے حق میں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں، وہ تمہارے پاس مقیدہیں، تم ان کی کسی چیز کے
مالک نہیں ہو البتہ یہ کہ وہ کھلم کھلا بے حیائی کی مرتکب ہوں، اگر وہ ایسا کریں
تو انہیں بستروں میں علیحدہ چھوڑ دو، (اگر نہ مانیں تو) ہلکی مار مارو، پس اگر وہ
تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔ تمہارے عورتوں پر اور
عورتوں کے تمہارے ذمہ کچھ حقوق ہیں۔ تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں کو
تمہارے نا پسندیدہ لوگوں سے پامال نہ کرائیں اور ایسے لوگوں کو تمہارے گھروں میں
نہ آنے دیں جنہیں تم ناپسند کرتے ہو۔ تمہارے ذمے ان کا حق یہ ہے کہ ان سے بھلائی
کرو، عمدہ لباس اور اچھی غذا دو۔ (ترمذی، 2 / 387،
حدیث: 1166)
(2) سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عورت اپنے
شوہر کو دنیا میں ایذا دیتی ہے تو حورعین کہتی ہیں: خدا تجھے قتل کرے، اسے ایذا نہ
دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آجائے گا۔ (ترمذی،
2 / 392، حدیث: 1177)
(3) سرکار عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اس
حال میں مری کہ اس کا شوہر اس پر راضی تھا وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی، 2 / 386، حدیث: 1164)
(4) میں تمہیں عورتوں کے بارے میں بھلائی کرنے کی
وصیت کرتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو۔ وہ پسلی سے پیدا کی گئیں اور پسلیوں
میں سے زیادہ ٹیڑھی اوپر والی ہے۔ اگر تو اسے سیدھا کرنے چلے تو توڑ دے گا اور اگر
ویسی ہی رہنے دے تو ٹیڑھی باقی رہے گی۔ (بخاری، 3 /457،
حدیث: 5185)
(5) نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت پسلی سے پیدا
کی گئی وہ تیرے لئے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت
میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم،
ص 775، حدیث: 1468)