بیوی کے پانچ حقوق از بنت محبوب عالم، فیضان خدیجۃ
الکبریٰ وادی سون اوچھالی خوشاب
قرآن نے گھریلو زندگی اور معاشرتی برائیوں کی اصلاح
پر بہت زور دیا ہے اسی لئے جو گناہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتے ہیں اور جو چیزیں
خاندانی نظام میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور خرابیوں کو جنم دیتی ہیں ان کی قرآن
میں بار بار اصلاح فرمائی گئی ہے اسلام ہی کا کارنامہ ہے جس نے دنیا میں سب
سے پہلے عورت کو حقوق عطا فرمائے اور اسے عزت و وقار سے نوازا۔
قران مجید میں رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ
2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے
موافق۔یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادائیگی واجب ہے اسی طرح شوہروں پر
عورتوں کے حقوق پورے کرنا لازم ہے۔ شوہروں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیےکہ
عورتوں کے مالک نہیں ان کی بیویاں ان کی کنیزیں نہیں۔ بلحاظ حقوق دونوں ایک سطح پر
ہیں ہاں جسمانی ساخت اور دماغی قوت کے باعث مرد کو ایک طرح کی فضیلت حاصل ہے۔
1۔ مہر کی ادائیگی: ایک اسلامی اصطلاح ہے ایک مال جو شادی کے وقت مرد
کی طرف سے عورت کے لیے مخصوص کیا جاتا ہے۔ مہر شادی کا ایک لازمی جزو ہے
اور عورت کی بینادی حقوق میں سے ایک حق ہے۔ حق مہر ادا نہ کرنے کی نیت
سے نکاح کرنے پر حدیث میں سخت وعید ہےکہ حضور ﷺ نے
فرمایا: جو شخص نکاح کرے اور نیت یہ ہو کہ عورت کو مہر میں سے کچھ نہ دے گا، توجس
روز مرے گا زانی مرے گا اور جو کسی سے کوئی شے خریدے اور یہ نیت ہو کہ قیمت میں سے
اسے کچھ نہ دے گا تو جس دن مرے گا، خائن مرے گا اور خائن نار میں ہے۔ (معجم کبیر، 8/35، حدیث: 7302)
2۔ نان ونفقہ کا حق: یعنی
بیوی کے اخراجات۔ علمائے اسلام کا اتفاق ہے کہ بیویوں کے اخراجات ان کے شوہروں پر
واجب ہیں جب تک بیویاں ان کے حق میں ہیں، نفقہ کی حکمت یہ ہے کہ بیوی، نکاح کے عقد
کے ذریعہ شوہر کی ملکیت اور اختیار میں ہو جاتی ہے،لہذا شوہر پر اس کی استطاعت کے
مطابق بیوی کے اخراجات واجب ہیں اگرچہ بیوی بذات خود دولت مند ہو۔ فرمان مصطفی ﷺ
ہے: خبردار بیویوں کا تم پر حق ہے کہ اوڑھنے پہننے اور کھانے پینے کے معاملات ان
کے ساتھ بھلائی
سے پیش آؤ۔ (ترمذی،
2/386، حدیث: 1166)
3۔ عدل وانصاف: شوہر
پر اپنی ایک سے زائد بیویوں کے
درمیان نفقہ، رہائش اور لباس وغیرہ میں انصاف کرنا ضروری ہے۔کسی ایک کی طرف زیادہ
مائل
ہونے سے گریز کرے۔ رسول کریم رؤف رحیم ﷺ نے
فرمایا: جس کی دو بیویاں ہوں اور ان میں سے کسی ایک کی طرف اس کا میلان زیادہ ہو
تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا
ایک پہلو مفلوج ہوگا۔ (ترمذی،2/375، حدیث:1144) خود ہمارے نبی اکرم ﷺ تعلیم امت کے
لیے اپنی ازواج مطہرات میں عدل و انصاف فرماتے تھے۔
4۔ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ
حسن سلوک کرنا، اس کے حقوق کو ادا کرنا اور اس کی جائز خواہشات کی رعایت کرنا شوہر
پر ضروری ہے۔ اسلام نے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی جابجا تعلیم اور تاکید کی ہے۔
سورۂ نساء میں تفصیل سے حسن سلوک اور رعایات کا بیان ہے۔
اسی طرح صحابی عمرو بن اخوص سے
روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ نے حمد وثنا کے بعد وعظ
فرمایا، اس میں فرمایا: عورتوں کے ساتھ ضرور حسن سلوک کا معاملہ کیا کرو، کیونکہ
وہ تمہارے مقابلہ میں کمزور ہیں، تمہیں کوئی حق نہیں کہ ان کے ساتھ سختی کرو سوائے
اس کے کہ وہ کھل کر فحش کام کریں، اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو ان کے بستر کو الگ کر
دو، اور ان پر ظلم نہ کرتے ہوئے کچھ مارو۔ اور اگر وہ تمہاری فرمانبرداری کرتی ہیں
تو تمہیں ان پر سختی کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ (ترمذی،2/387، حدیث:1166)
5۔ ایذا رسانی سے بچنا: یہ
تو اسلام کی بنیادی تعلیم ہے، اسلام نے دوسروں کو ایذا رسانی سے منع کیا ہے، تو
بیوی پر ایذا رسانی بدرجہ اولی حرام ہے۔ صحیحین میں عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی شخص اپنی
عورت کو نہ مارے جیسے غلام مارتا ہے پھر دوسرے وقت مجامعت کرے گا۔ (بخاری،3/465،
حدیث: 5204)