جس طرح اللّہ نے مردوں میں میں خاوند کو ایک مقام
عطا فرمایا ہے اسی طرح عورتوں میں بیوی کو بھی مقام عطا فرمایا ہے جس طرح خاوند کے
کچھ حقوق ہیں جو عورت پر لازم ہوے ہیں اسی طرح بیوی کے بھی کچھ حقوق کے جو شوہر پر
لازم ہوتے ہیں خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ خوش اخلاقی،نرمی اور محبت
کے ساتھ زندگی بسر کرے، چنانچہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو خاوند اپنی بیوی
کی بدخلقی پر صبر کرے اس کو اللہ ایسا ثواب عطا کرے گا جیسے کہ حضرت ابوب علیہ
السلام کو ان کی آزمائش پر صبر کرنے سے عطا ہوا اور جو بیوی اپنے خاوند کی بد
اخلاقی پر صبر کرے اس کو اللہ ایسا ثواب عطا کرے گا جیسے فرعون کی ایماندار بیوی آسیہ
رضی اللہ عنہا کو عطا ہوا۔ (احیاء العلوم، 2/24)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایسا خاوند حضرت ایوب علیہ
السلام کے درجے کو پہنچ جائے گا۔ نہیں کیونکہ غیر نبی کسی نبی کے درجے کو نہیں
پہنچ سکتا اور یہ مثال صرف ترغیب کے لئے ہے۔مزید حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں: جان لینا چاہیے کہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک یہی نہیں کہ اسکو تکلیف نہ
دی جائے بلکہ حسن سلوک یہ ہے کہ بیوی طیش اور غصہ میں آئے تو اسکے غصے کو برداشت
کیا جائے اور حتی الامکان حضور سید دوعالم ﷺ کی پیروی کرے۔
حضرت عرباض رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر خاوند اپنی بیوی کو پانی پلائے تو اس پر بھی اس خاوند کو
اجروثواب عطا ہوگا۔ (مجمع الزوائد، 3/300، حدیث: 4659)اس حدیث مبارکہ سے ہمارے وہ اسلامی
بھائی عبرت حاصل کریں جو گھر میں ساری ذمہ داریاں بیوی پر ہی ڈال دیتے ہیں حتیٰ کہ
پانی پینا ہو تو خود نہیں بلکہ بیوی ہی پلائے گی اور اس کے علاوہ گھر سے باہر کسی
دکان وغیرہ پر سبزی دودھ یا دوسرے کام جو کہ شوہر ہی کرے تو بہتر رہتے ہیں، وہ بھی
بیوی سے کرواتے ہیں وہ حضور اکرام ﷺ کے اس عمل مبارک سے نصیحت حاصل کریں۔ چنانچہ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ گھر کا کام خود کرتے
اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔
غور تو کیجیے کہ آپ ﷺ اتنے اعلیٰ سے اعلیٰ رتبے
والے ہو نے کے باوجود بھی گھر کے کاموں میں ازواج مطہرات کی مدد فرمایا کرتے تھے
اور ہم لوگ کس پانی میں ہیں۔